ہفتہ، 20 اگست، 2022

کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں دوسری قسط

کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں



دوسری قسط  

 سوال: کیا کرامات اولیاء برحق ہیں؟ کرامات اولیاء کو نہ ماننے والے کے ایمان پر کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کرامات اولیاءکو بالکل نہیں مانتے ایسے لوگوں کا ایمان کیسا ہے؟ 

مکل و مدلل جواب عنایت کیجیے. (ابو یحییٰ محمد صغیر، مہاراشٹر)

"اہل سنت والجماعت کے بنیادی اصولوں میں سے اولیاء کرام کی کرامتوں کی تصدیق بھی ہے، اور ان باتوں کی تصدیق جو اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں ظاہر فرماتے ہیں مختلف علوم اور کشف و کرامت کی خارق عادت باتیں وغیرہ۔۔۔۔ اور یہ کرامات اور خارق عادت باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کی امتوں میں بھی ہوئی ہیں، جیسے کہ سورہ کہف وغیرہ میں ہے اور اس امت کے افراد صحابہ کرام و تابعین عظام اور امت مسلمہ کی تمام صدیوں میں ہوئی ہیں اور یہی نہیں بلکہ قیامت تک کرامات اور خارق عادت باتوں کا سلسلہ چلتا رہے گا"(١٢)

علامہ ابن تیمیہ کی وضاحت اور تمام اہل سنت والجماعت کے اتفاق سے معلوم ہوا کہ کرامت خدا کے صالح بندوں سے صادر ہوتی اور سوائے معتزلہ اور بدعت پرست لوگوں کے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا ہے، لیکن واضح رہے کہ کرامت کے صدور میں ولی کے کسی فعل کا عمل دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ خدائی قوت و عمل سے انجام پاتا ہے بندہ صرف اور اس میں ذریعہ ھوتا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ کرامت کے منکر کا کیا حکم ہوگا، تو اگر کوئی شخص سرے سے کرامت کا ہی منکر ہے اور وہ کرامت کو تسلیم ہی نہیں کرتا ہے تو وہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہے اور معتزلہ جیسے گمراہ فرقے کا اس مسئلے میں متبع ہے، لیکن اس پر نہ کفر کا حکم لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے کافر کہا جائے گا۔ اکابر اہل علم کی اس بابت یہی تحقیق ہے (١٣) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 والدليل على ما قلنا 


(١) الكرامة هي ظهور أمر خارق للعادة من قبل شخص غير مقارن لدعوى النبوة فما لا يكون مقرونا بالإيمان و العمل الصالح يكون استدراجا (كتاب التعريفات للجرجاني ١٥٤ باب الكاف دار الفضيله القاهرة)

(٢) وجد عندها رزقا۔۔۔۔۔۔ و استدل الآية على جواز الكرامة للاولياء لأن مريم لا نبوة لها على المشهور. (روح المعاني للآلوسي ٢٢٥/٣ سورة آل عمران آية ٣٧)

(٣) كما استدلوا على وقوعها بقصة أهل الكهف التي وردت في سورة الكهف.... و كذلك بقصة الذي كان عنده علم من الكتاب في زمن سليمان عليه السلام... و كذلك بما وقع للصحابة من كرامات في حياتهم. (الموسوعة الفقهية ٢٢٠/٣٤ الكرامة)

(٤) كاتيان صاحب سليمان عم وهو آصف بن برخيا على الأشهر بعرش بلقيس قبل ارتداد الطرف مع بعد المسافة (شرح العقائد ص ١٠٦)

(٥) عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، وَمَعَهُمَا مِثْلُ الْمِصْبَاحَيْنِ يُضِيئَانِ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا، فَلَمَّا افْتَرَقَا صَارَ مَعَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَاحِدٌ حَتَّى أَتَى أَهْلَهُ. (صحيح البخاري حديث نمبر ٤٦٥)

(٦) أن الرجلين هما عباد ابن بشر و أسيد بن حضير (فتح الباري شرح صحيح البخاري ١٢٥/٧ حديث نمبر ٤٦٥)

(٧) يا أمير المؤمنين هزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي : يا سارية الجبل ثلاثا فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله قال : قيل لعمر : إنك كنت تصيح بذلك و ذلك الجبل الذي كان سارية عنده بنهاوند من أرض العجم قال ابن حجر في الإصابة : إسناده حسن . (تاريخ الخلفاء للسيوطي ١١٣/١ الطبعة الأولى و تاريخ دمشق ج ٤٤)

(٨) ذهب جمهور علماء السنة إلى جواز ظهور أمر خارق للعادة على يد مومن ظاهر الصلاح اكراما من الله له و إلى وقوعها فعلا. (الموسوعة الفقهية ٢٢٨/ ٣٤ الكرامة)

(٩) و كرامات الأولياء حق والولي هو العارف بالله و صفاته حسب ما يمكن المواظب على الطاعات المجتنب عن المعاصي (شرح العقائد للتفتازاني ص ١٠٥ رشيدية دهلي)

(١٠) اعلم أن الكرامات حق كما أن المعجزات حق و كلتاهما من عالم القدرة. (حاشية رمضان آفندي على شرح العقائد. ٢٩١ رحيمية ديوبند)

(١١) حق أي ثابت بالكتاب والسنة و لا عبرة بمخالفة المعتزلة و أهل البدعة في إنكار الكرامة. (الحاشية على شرح العقائد للتفتازاني ص ١٠٥ كتب خانه رشيدية دهلي)

(١٢) و من أصول أهل السنة والجماعة: التصديق بكرامات الاولياء و ما يجري الله على أيديهم من خوارق العادات في انواع العلوم و المكاشفات و انواع القدرة والتأثير كالماثور عن سالف الأمم في سورة الكهف و غيرها و عن صدر هذه الأمة من الصحابة والتابعين و سائر قرون الأمة و هي موجودة فيها إلى يوم القيامة. (مجموع فتاوى شيخ الاسلام ابن تيمية ١٥٦/٣ اعتقاد السلف)

(١٣) اعلم أن الكرامات حق كما أن المعجزات حق و كلتاهما من عالم القدرة. (حاشية رمضان آفندي على شرح العقائد. ٢٩١ رحيمية ديوبند)

و كرامات الأولياء حق و منكرها خارج من أهل السنّة والجماعة. (إمداد الفتاوى ٣٢٧/٦ كتاب العقائد والكلام زکریا)


نیز دیکھئے: کفایت المفتی ١٥٦/١

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء الجامعة الإسلامية دار العلوم مہذب پور سنجر پور اعظم گڑھ یوپی

مورخہ 23/11/1439

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے
Share

جیسے بہت سے انسان آنکھوں سے کنجے ہوتے ہیں ویسے ہی اگر کوئی جانور کنجا ہو تو اس جانور کی قربانی کا کیا حکم ہوگا؟

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1545🖋️


(کتاب الاضحیہ، باب عیوب الحیوان)


کنجے جانور کی قربانی کا حکم


سوال: جیسے بہت سے انسان آنکھوں سے کنجے ہوتے ہیں ویسے ہی اگر کوئی جانور کنجا ہو تو اس جانور کی قربانی کا کیا حکم ہوگا؟ (حکیم مظہر الحق، یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


کنجا ہونا (نیلی آنکھ والا جانور) کوئی ایسا عیب نہیں ہے جس سے جانور میں کوئی کمی پیدا ہوتی ہو، یا اس کے جمال و کمال میں نقص پیدا ہوتا ہے؛ اس لیے اس کی قربانی درست ہے فقہاء کرام نے احول جانور یعنی جس کی آنکھ میں موتیا بند ہو اس کی قربانی کی اجازت دی ہے تو کنجے کی بدرجہ اولی قربانی جائز ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية و ما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع. (الفتاوى الهندية ٢٩٩/٥ كتاب الأضحية)


والحولاء تجزئ وهي التي في عينها حول. (الفتاوى الهندية 298/5 كتاب الاضحيه دار الكتب العلميه بيروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 9/11/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

کوڑھ زدہ جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے؟ شرعی نقطۂ نظر سے وضاحت فرمائیں

⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1552🖋️


(کتاب الاضحیہ باب عیوب الحیوان)


کوڑھ زدہ جانور کی قربانی کا حکم


سوال: کوڑھ زدہ جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے؟ شرعی نقطۂ نظر سے وضاحت فرمائیں۔ (انیس الرحمن، بستی یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


 جذام یا کوڑھ ایسی بیماری ہے جس سے انسان کو سخت نفرت اور کراہت محسوس ہوتی ہے، اگر کسی جانور کو یہ بیماری لگ جائے تو اس کو کوئی گوشت کھانا کجا کوئی اس کو خریدنا گوارا نہیں کرے گا، اس لیے یہ شدید قسم کا عیب ہے، ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے، احادیث مبارکہ اور فقہاء کرام کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور میں گوشت بھی بہت حد تک مطلوب ھوتا ھے اسی لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ مخنث جانور کی قربانی درست نہیں ہے کیوں کہ اس کا گوشت گلتا نہیں ہے، اور ظاہر ہے جب مجذوم جانور کا گوشت ناقابلِ انتفاع ہے تو اس کی قربانی کیوں کر درست ہوسکتی ہے،اسی طرح سنن نسائی وغیرہ کی روایت میں آیا ہے کہ جس جانور کا مرض ظاہر ہو اس کی قربانی درست نہیں ہے اور کوڑھ پن ظاہری بیماری ہے اس لیے اس کی قربانی کی ممانعت ہوگی(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


(١) قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَدِي أَقْصَرُ مِنْ يَدِهِ، فَقَالَ : " أَرْبَعٌ لَا يَجُزْنَ : الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا. (سنن النسائي رقم الحديث 4369 كِتَابُ الضَّحَايَا  | مَا نُهِيَ عَنْهُ مِنَ الْأَضَاحِيِّ الْعَوْرَاءِ)


والمريضة البين مرضها. (بدائع الصنائع 75/5 كتاب الاضحيه دار الكتب العلميه)


ولا بالخنثى لأن لحمها لا ينضج شرح وهبانية. (الدر المختار مع رد المحتار 325/6 كتاب الأضحية دار الكتب العلميه)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 16/11/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

جس جانور کی دم ہو لیکن دم پر بال نہ ہوں خواہ پیدایشی خواہ بعد میں جھڑ گئے ہوں تو اس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟

⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1553🖋️


(کتاب الاضحیہ باب عیوب الحیوان)


جس جانور کی دم پر بال نہ ہو اس کی قربانی


سوال: جس جانور کی دم ہو لیکن دم پر بال نہ ہوں خواہ پیدایشی خواہ بعد میں جھڑ گئے ہوں تو اس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟ (اشرف، بھوپال، مدھیہ پردیش)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


جانور کی دم پر بال نہ ہونا عیب نہیں ہے؛ کیوں کہ اس سے نا اس کی خوبصورتی میں کوئی خاص فرق پڑتا ہے اور نا ہی منفعت میں کمی آتی ہے اس لیے اس کی قربانی کرنا جائز ہے(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


(١) كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية و ما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع. (الفتاوى الهندية ٢٩٩/٥ كتاب الأضحية)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 17/11/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

بچیوں کے لئے بنوائے گئے زیورات کی وجہ سے کیا بچیوں پر قربانی واجب ہوگی

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1554🖋️


(کتاب الاضحیہ باب الوجوب)


بچیوں کے لئے بنوائے گئے زیورات کی وجہ سے کیا بچیوں پر قربانی واجب ہوگی


سوال: ایک لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے اور اسکے والدین نے اس کے لیے سونا خریدا، لیکن ابھی اسے  اس سونے کا مالک نہیں بنایا نکاح کے موقع پر وہ سونا اسے دے دیا جائے گا؟ کیا فی الحال ایسی صورت میں اس لڑکی پر قربانی واجب ہے؟ براۓ مہربانی وضاحت فرما دیجئے‌۔ (عبد التواب، آندھرا پردیش)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


سوال نامہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ والدین نے سونا خرید کر اپنی ملکیت میں باقی رکھا ہے، ابھی لڑکی کو دیا نہیں ہے اور یہی ہمارے یہاں کا عرف بھی ہے کہ شادی سے قبل زیورات بچیوں کے حوالے نہیں کئے جاتے ہیں، اس لیے وہ بچی حقیقتاً اس کی مالک نہیں ہے، والدین ہی اس کے مالک و قابض سمجھے جائیں گے؛ چنانچہ صورت مسئولہ میں اگر اس کے علاوہ اتنی رقم یا زیورات ان کے پاس نہیں ہیں کہ وہ صاحب نصاب ہوں تو ان پر قربانی واجب نہیں ھوگی۔ ہاں والد صاحب پر اور اگر والدہ صاحب نصاب ہوں تو ان پر قربانی واجب ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


(١) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ". حكم الحديث: إسناده ضعيف. (مسند أحمد رقم الحديث ٨٢٧٣ مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)


الأضحية واجبة على كل حر مسلم مقيم موسر في يوم الأضحى (المختصر للقدوري ص ٢٠٨ كتاب الاضحية)


وأما شرائط الوجوب فمنها اليسار وهو اليسار الذي تعلق به وجوب صدقة الفطر دون اليسار الذي تعلق به وجوب الزكاة على ما ذكرنا في كتاب الزكاة. (تحفة الفقهاء جزء ٣ ص ٨٢ كتاب الاضحية)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 18/11/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

قربانی میں ولیمہ کی گوشت کے لئے حصہ لینا شرعا کیسا ہے؟ کیا اس سے سب کی قربانی ہوجائے گی؟

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1555🖋️


(کتاب الاضحیہ باب المتفرقات)


قربانی کے جانور میں ولیمہ کا حصہ لینا


سوال: قربانی میں ولیمہ کی گوشت کے لئے حصہ لینا شرعا کیسا ہے؟ کیا اس سے سب کی قربانی ہوجائے گی؟ (جاوید اختر، کشی نگر یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


قربانی کے جانور میں جمیع مشارکین کا قربت یعنی عبادت کی نیت کرنا ضروری ہے، غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ولیمہ مسنونہ بھی ایک طرح کی قربت ہے ض، حدیث مبارکہ میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے، تاہم متقدمین کے یہاں ولیمے کے سلسلے میں یہ بات نہیں ملتی ہے کہ قربانی میں ولیمہ کا حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟ البتہ متاخرین احناف نے صراحت کی ہے کہ اگر سنت ولیمہ کی ادائیگی کی نیت ہو تو یہ بھی قربت میں شامل ہے اس لیے قربانی میں ولیمہ کی نیت سے بھی حصہ لے سکتے ہیں(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب


📚والدليل على ما قلنا📚


(١) فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَوْلِمْ، وَلَوْ بِشَاةٍ ". (صحيح البخاري رقم الحديث 2048  كِتَابٌ : الْبُيُوعُ.  | بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى : فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ)


ذكره محمد و لم يذكر الوليمة وينبغي أن تجوز لأنها تقام شكرا لله تعالى على نعمة النكاح و وردت بها السنة فإذا قصد بها الشكر أو إقامة السنة فقد أراد القربة. (رد المحتار على الدر المختار 472/9 كتاب الأضحية)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

 دار الافتاء و التحقيق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 19/11/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

اگر جانور کے تھن پیدائشی طور پر پانچ ہوں تو کیا یہ بھی عیب شمار ہوگا

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1559🖋️


(کتاب الاضحیہ، باب عیوب الحیوان)


پانچ تھن والے جانور کی قربانی


سوال: اگر جانور کے تھن پیدائشی طور پر پانچ ہوں تو کیا یہ بھی عیب شمار ہوگا۔ از راہ کرم جواب سے نوازیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔ (محمد فیضان رامپور یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


قربانی کے جانور میں وہ عیوب مانعِ قربانی شمار ہوتے ہیں جو جانور کی خوبصورتی کو یا اس کی منفعت کو بالکلیہ ختم کردیں، ظاہر ہے ایک تھن زائد ہونے سے نا اس کی منفعت میں کمی پیدا ہوگی اور نا ہی خوبصورتی میں؛ اس لیے اس کی قربانی درست ہے(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


(١) كل عيب يزيل المنعفة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع. (الفتاوى الهندية: 5/ 299).


ومن المشايخ من يذكر في هذا الفصل أصلا، ويقول كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع. اهـ ظهيرية. (تبيين الحقائق 6/6 کتاب الاضحیہ).


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 23/11/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

کم قیمت میں جانور خرید کر زیادہ رقم میں حصے لگانا اور خود شریک ہونا

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1562🖋️


(کتاب الاضحیہ باب الشرکۃ)


کم قیمت میں جانور خرید کر زیادہ رقم میں حصے لگانا اور خود شریک ہونا


سوال: ایک مسئلہ کا حل دریافت کرنا ہے کہ زید نے ایک جانور 30000 روپے کا خریدا اب وہ اسمیں قربانی کے حصے تشکیل دے رہا ہے، اب زید نے اسکی قیمت طے کی 35000 روپے؛ جبکہ زید کا حصہ بھی اسی جانور میں ہے تو کیا زید کے لئے یہ نفع لینا درست ہے برائے مہربانی مدلل جواب تحریر فرمائیں۔ (انوار الحق، بنگال)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


قربانی کرنے کی مذکورہ بالا صورت کا صریح حکم تلاش بسیار کے باوجود کسی فقہی کتاب میں نہیں مل سکا؛ تاہم اصول کے پیش نظر اس کا حکم یہ معلوم ہوتاہے کہ قربانی کا جانور خریداری کے بعد ایک حد تک قربت کے لیے متعین ہوجاتا ہے؛ اس لیے قیمت خرید سے زیادہ اس کی قیمت لینا قربانی کے جانور سے استفادہ کرنے کے حکم میں ہوگا جو درست نہیں ہے؛ لیکن اگر نادانی میں ایسا کرلیا ہے تو اس کی زائد قیمت کو صدقہ کردے، جہاں تک خود اس کی قربانی کی بات ہے تو اس میں اس شخص کا حصہ اس کی خدمات کے عوض مانا جائے گا؛ کیونکہ اس جانور کو خریدنے، پالنے، دانا پانی کے انتظامات کرنے میں مختلف طرح کے اخراجات آتے ہیں اور خدمات انجام دینے میں بسااوقات مشقت بھی ہوتی ہے؛ اس لیے اسے عوض قرار دینا درست ہے، واضح رہے کہ بعینہ اسی طرح کے سوال کے جواب میں مفتی رضاء الحق صاحب مفتی اعظم جنوبی افریقہ نے لکھا ہے کہ:


"مسئلہ مذکورہ بالا سے متعلق کوئی صریح جزئیہ نظر سے نہیں گزرا تاہم ایک فقہی نظیر سے اس کا حکم مستفاد ہوتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے، اور اگر کسی نے کرلیا تو زائد رقم صدقہ کردے"(١)


مفتی صاحب نے اس میں جو فقہی نظائر پیش کی ہیں وہ وہی ہیں جو خریدے ہوئے جانور کو زیادہ رقم میں بیچنے سے متعلق ہیں، یہی بات حضرت حکیم بن حزام کی روایت سے بھی مستفاد ہوتی ہے کہ جب انہوں نے ایک دینار سے قربانی کی بکری خرید کر دو دینار میں بیچ دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار صدقہ کردیا تھا، نیز اس روایت کی شرح میں صاحب عون المعبود نے علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ چونکہ پہلی بکری جو خریدی تھی وہ قربت کے لیے ہوگیی تھی اس لیے اس کے نفع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا اور صدقہ کردیا، نیز فقہاء کرام نے جن مسائل میں قربانی کے جانور سے انتفاع کو مکروہ قرار دیا وہ جزئیات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب


📚والدلیل علی ما قلنا📚


(١) عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مَعَهُ بِدِينَارٍ يَشْتَرِي لَهُ أُضْحِيَّةً، فَاشْتَرَاهَا بِدِينَارٍ، وَبَاعَهَا بِدِينَارَيْنِ، فَرَجَعَ فَاشْتَرَى لَهُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ، وَجَاءَ بِدِينَارٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَصَدَّقَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَعَا لَهُ أَنْ يُبَارَكَ لَهُ فِي تِجَارَتِهِ.

حكم الحديث: ضعيف. (سنن أبي داود رقم الحديث ٣٣٨٦ كِتَابٌ : الْبُيُوعُ، وِالْإِجَارَاتُ  | بَابٌ : فِي الْمُضَارِبِ يُخَالِفُ)


ويحتمل أن يتصدق به لأنه قد خرج عنه للقربة لله تعالى في الأضحية فكره أكل ثمنها. قاله في النيل. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث ٣٣٨٦ سنن أبي داود | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ، وِالْإِجَارَاتُ  | بَابٌ : فِي الْمُضَارِبِ يُخَالِفُ)


(وكره) (جز صوفها قبل الذبح) لينتفع به، فإن جزه تصدق به، ولا يركبها ولا يحمل عليها شيئا ولا يؤجرها فإن فعل تصدق بالأجرة حاوي الفتاوى لأنه التزم إقامة القربة بجميع أجزائها (بخلاف ما بعده) لحصول المقصود مجتبى. (الدر المختار مع رد المحتار 329/6 كتاب الأضحية دار الكتب العلميه)


(ولو شرى بدنة للأضحية ثم أشرك فيها ستة جاز استحسانا) وفي القياس لا يجوز وهو قول زفر ورواية عن الإمام لأنه أعدها للقربة فلا يجوز بيعها. (مجمع الانهر 518/2 كتاب الاضحيه دار الكتب العلميه)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 26/11/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

دو جانور قربانی کرنے کی نیت کرنا پھر ایک ہی قربانی کرنا

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1574🖋️


(کتاب الاضحیہ باب الوجوب)


دو جانور قربانی کرنے کی نیت کرنا پھر ایک ہی قربانی کرنا


سوال: ایک شخص نے ایک بکرا قربانی کے لئے پالا اور عیدالاضحی کے موقع پر ایک بکری بھی قربانی کی نیت سے خریدی؛ مگر قربانی سے پہلے اس شخص کے پاس ایک غریب لڑکی کی شادی کا تقاضہ آیا، اس نے بکرے کی تو قربانی کردی؛ مگر بکری اس لڑکی کی شادی میں دینے کے لئے روک لی اس میں شرعی حکم کیا ہے؟ قرآن اور حدیث روشنی میں بتائیں اس مسئلہ میں کچھ لوگوں کا اختلاف ہے؛ لہذا مدلل و مفصل جواب مطلوب ہے۔ (مفتی نسیم قاسمی، بھنگا شراوستی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


یہ مسئلہ اسی انداز میں صراحتاً تو کسی فقہی کتاب میں نہیں ملا ہے؛ تاہم اصول و ضوابط سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر بکرا پالنے والا اور پھر بکری خریدنے والا صاحب نصاب نہیں ہے یعنی شرعی اصطلاح میں وہ فقیر ہے تو پھر اس کے اوپر دونوں جانوروں کی قربانی واجب ہوگی؛ کیونکہ شریعت کی رو سے اس پر قربانی واجب نہیں تھی اس نے خود ایجاب مالا یجب کیا ہے؛ اس لیے دونوں واجب ہوجائیں گی، اور اگر وہ صاحب نصاب ہے؛ یعنی مالدار ہے تو دونوں میں سے کسی کی قربانی کردینا کافی ہے، چاہے پالے ہوئے بکرے کی چاہے خریدی ہوئی بکری کی؛ کیوں کہ اس کے ذمے اصلا اراقۃ دم ہے اور وہ ایک جانور سے ادا ہوجائے گا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


(١) وقال بعضهم: إن وجبت عن يسار فكذا الجواب، وإن عن إعسار ذبحهما ينابيع. (الدر المختار مع رد المحتار 323/6 كتاب الأضحية دار الكتب العلميه بيروت)


ولو ضلت أو سرقت فشرى أخرى فظهرت فعلى الغني إحداهما وعلى الفقير كلاهما شمني. (الدر المختار مع رد المحتار 326/6 كتاب الأضحية دار الكتب العلميه بيروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 9/12/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

غلط فہمی میں دو شریک قربانی نہیں کرسکے تو اب کیا کریں

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1578🖋️


(کتاب الاضحیہ باب الشرکۃ)


غلط فہمی میں دو شریک قربانی نہیں کرسکے تو اب کیا کریں


سوال: قربانی کے جانور میں پانچ شرکاء تھے، جانور ایام قربانی میں بیمار ہوگیا، تین شرکاء نے دوسرے جانور میں حصہ لے لیا، جب کہ مابقیہ دو شریک نے کوئی حصہ نہیں لیا، اب جانور ٹھیک ہو چکا ہے، تو اس  جانور کا کیا حکم ہے؟ (وسیم اختر، بہار)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


قربانی کے جانور کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے عیوب سے پاک ہو جو قربانی کے لیے مانع ہیں، چنانچہ وہ جانور اگر ایسی بیماری میں مبتلا ہوا جو مانع قربانی تھی تو اس کی قربانی درست نہیں تھی، بلکہ اس کی جگہ دوسرا جانور قربان کرنا ضروری تھا، وہ جانور بیچ کر دوسرا جانور لے کر قربان کرنا چاھیے تھا، اور اگر ایسی بیماری میں مبتلا نہیں تھا جو مانعِ قربانی ہو بلکہ ہلکا پھلکا بیمار تھا مثلاً بخار وغیرہ تھا تو اس کی قربانی درست تھی، اسے قربان کرنا چاھیے تھا: لیکن اس کے باوجود اگر قربان نہیں کیا اور ایام نحر گزر گئے تو پھر اس زندہ جانور کو صدقہ کرنا ضروری ہوگا، ان بقیہ دو شریکوں کو چاہئے کہ اس کو کسی فقیر و محتاج کو وہ زندہ جانور دے دیں(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


(١) قال: (فإن مضت ولم يذبح، فإن كان فقيرا وقد اشتراها تصدق بها حية) ; لأنها غير واجبة على الفقير، فإذا اشتراها بنية الأضحية تعينت للوجوب، والإراقة إنما عرفت قربة في وقت معلوم وقد فات فيتصدق بعينها.

(وإن كان غنيا تصدق بثمنها اشتراها أو لا) لأنها واجبة عليه، فإذا فات وقت القربة في الأضحية تصدق بالثمن إخراجا له عن العهدة كما قلنا في الجمعة إذا فاتت تقضى الظهر والفدية عند العجز عن الصوم إخراجا له عن العهدة. (الاختيار لتعليل المختار 19/5 كتاب الاضحيه دار الكتب العلميه)


إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها، لأن الواجب عليه الإراقة وإنما ينتقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها، وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها، لأن الإراقة إنما عرفت قربة في زمان مخصوص ولا تجزيه الصدقة الأولى عما يلزمه بعد لأنها قبل سبب الوجوب اهـ (قوله تصدق بها حية) لوقوع اليأس عن التقرب بالإراقة، وإن تصدق بقيمتها أجزأه أيضا لأن الواجب هنا التصدق بعينها وهذا مثله فيما هو المقصود اهـ ذخيرة. (رد المحتار على الدر المختار 320/6 كتاب الأضحية دار الكتب العلميه بيروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 13/12/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ایک سے زائد مردہ ایک قبر میں دفن کر نا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1700🖋️

(کتاب الصلاۃ، باب الجنائز)

ایک سے زائد مردہ ایک قبر میں دفن کر نا


سوال: کیا عام حالات میں ایک سے زائد افراد کو ایک قبر میں دفن کرسکتے ہیں ؟ اور ہنگامی صورت ہو تو شرعی حکم کیاھے تفصیلی جواب اھل علم حضرات سے مطلوب ہے۔ ( محمد فردوس حلیمی، بھاگلپور بہار)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے یہی طریقہ چلا آرہا ہے کہ ایک قبر میں ایک میت کو دفن کیا جائے، صرف بعض ہنگامی حالت میں ایک قبر میں دو یا دو سے زیادہ لوگوں کو دفنانے کی روایت ملتی ہے، چنانچہ غزوۂ احد کے موقع پر یہی صورتحال تھی اور ایک ایک قبر میں دو دو شہیدوںوں ور تین تین افراد کو دفن کیا گیا، گویا یہ معاملہ تکلیف ما لایطاق میں یسر و سہولت کی غرض سے تھا، اس سے اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ عام حالات میں ایک قبر میں متعدد لوگوں کو دفن کرنا صحیح نہیں ہے، فقہ حنفی کی بعض کتابیں مثلا بدائع الصنائع اور فتاوی ہندیہ وغیرہ میں اس کی صراحت موجود ہے(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : جَاءَتِ الْأَنْصَارُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالُوا : أَصَابَنَا قَرْحٌ وَجَهْدٌ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ : " احْفِرُوا، وَأَوْسِعُوا، وَاجْعَلُوا الرَّجُلَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ فِي الْقَبْرِ ". قِيلَ : فَأَيُّهُمْ يُقَدَّمُ ؟ قَالَ : " أَكْثَرُهُمْ قُرْآنًا ". قَالَ : أُصِيبَ أَبِي يَوْمَئِذٍ عَامِرٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ. أَوْ قَالَ : وَاحِدٌ. حكم الحديث: صحيح. (سنن أبي داود رقم الحديث 3215  كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ  | بَابٌ : فِي تَعْمِيقِ الْقَبْرِ )

فيه جواز الجمع بين جماعة في قبر واحد ولكن إذا دعت إلى ذلك حاجة كما في مثل هذه الواقعة. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث 3215 كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ  | بَابٌ : فِي تَعْمِيقِ الْقَبْرِ)

ولا يدفن الرجلان أو أكثر في قبر واحد هكذا جرت السنة من لدن آدم إلى يومنا هذا، فإن احتاجوا إلى ذلك قدموا أفضلهما وجعلوا بينهما حاجزا من الصعيد لما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - «أنه أمر بدفن قتلى أحد وكان يدفن في القبر رجلان، أو ثلاثة، وقال: قدموا أكثرهم قرآنا» وإن كان رجل وامرأة قدم الرجل مما يلي القبلة، والمرأة خلفه اعتبارا بحال الحياة. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٣١٩/١ كتاب الصلاة باب الجنائز دار الكتب العلميه بيروت)

ولا يدفن اثنان أو ثلاثة في قبر واحد إلا عند الحاجة فيوضع الرجل مما يلي القبلة ثم خلفه الغلام ثم خلفه الخنثى ثم خلفه المرأة ويجعل بين كل ميتين حاجز من التراب، كذا في محيط السرخسي، وإن كانا رجلين يقدم في اللحد أفضلهما، هكذا في المحيط. (الفتاوى الهندية 166/1 كتاب الصلاة باب الجنائز)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 16/4/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

طلوعِ آفتاب کا مسجد سے اعلان کرنے کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1711🖋️

(کتاب الصلاۃ باب أوقات الصلاۃ)

طلوعِ آفتاب کا مسجد سے اعلان کرنے کا حکم



سوال: ہمارے گاؤں جامع مسجد میں برسوں سے نماز فجر کے بعد جس وقت سورج طلوع ہوجاتاہے تو مسجد کے اوپر کے مائیک سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اب اداء نماز کا وقت نہیں رہا، اب سے بیس منٹ بعد قضا نماز پڑھی جائے، یہ اعلان کرنا کیسا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے دور میں کیا ایسا ہوتا تھا؟ دلیل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ (ذاکر حسین ندوی، سہارنپور یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


نماز کے وقت کے اختتام کا اس طرح اعلان کرنے کے بارے میں کوئی آیت یا حدیث کی روایت اور دور صحابہ و تابعین کی کوئی سنت نہیں ملتی ہے، یہ عمل متوارث اور متواتر عمل کے خلاف ہے اور امت پر کئی اعتبار سے مشقت کا باعث ہے، احادیث مبارکہ میں اس امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے طریقۂ کار پر چلنے کی تاکید کی گئی ہے اور دین میں اپنی طرف سے اضافہ کو بدعت اور ضلالت سے تعبیر کیا گیا ہے(١) یہ طریقہ واجب الترک ہے اس میں کئی مفاسد پائے جاتے ہیں، دار الافتاء دارالعلوم دیوبند نے اپنے ایک فتوے میں بالتفصیل اس کی قباحت اور مفاسد کا ذکر کیا ہے جو بعینہٖ پیش خدمت ہے امید ہے کہ صحیح بات آجانے کے بعد پرانی روش میں تبدیلی آجائے گی:


" یہ اعلان لائق ترک ہے اس میں ایک مفسدہ یہ ہے کہ اس اعلان کو سن کر بعض لوگ نماز سے رک جاتے ہیں اور دوسرے کسی کام میں مشغول ہوکر بالکل ہی نماز کو ترک کردیتے ہیں؛ حالانکہ بالکلیہ ترک سے ایسے لوگوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ طلوع ہوتے ہوئے پڑھ لیتے؛ کیونکہ ہمارے نزدیک اگرچہ نماز نہیں ہوتی مگر ایک قول بعض حضرات کا یہ بھی ہے کہ نماز درست ہوجاتی ہے، پس عوام کو نماز سے نہ روکا جائے، فتاوی شامی اور البحر الرائق وغیرہ سے اسی طرح ثابت ہے، ایک مفسدہ یہ ہے کہ بعض مرتبہ گھڑی گھنٹوں جنتریوں اور نقشوں میں فرق ہوتا ہے اعلان سے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ نماز کا وقت ختم ہوگیا مگر حقیقةً وقتِ ادا باقی ہوتا ہے یعنی اتنا وقت ہوتا ہے کہ جلدی سے فرض پڑھ لیے جاتے تو وہ ادا ہی ہوتے ایسی صورت میں اعلان سن کر جتنے لوگ نماز سے رکیں گے ان کی نمازوں کے قضا ہونے کا سبب یہ اعلان ہوجائے گا اس لیے بھی یہ اعلان قابل ترک ہے، نیز سلف صالحین سے اس کا ثبوت نہیں ملتا حالانکہ جس زمانہ میں گھڑی گھنٹے وغیرہ عام نہ تھے یا بالکل نہ تھے اس وقت تو اِس اعلان کی زیادہ ضرورت تھی مگر پھر بھی اس کو اختیار نہ کیا گیا اور آج تو گھڑی گھنٹوں کی بہتات ہے، پس ہرنمازی کو خود ہی وقت ادا کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ ایک خرابی یہ ہے کہ اعلان سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں فجر کی نماز کے قضا کرنے کی فضا بنتی جارہی ہے الغرض ان جیسی خرابیوں کی وجہ سے ا علان کرنا صحیح نہیں ہے"۔

فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب


📚والدليل على ما📚

(١) فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ". (سنن أبي داود رقم الحديث 4607 أَوْلُ كِتَابِ السُّنَّةِ  | بَابٌ : فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)

{كل بدعة ضلالة} والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه، وأما ما كان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا وإن كان بدعة لغة (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث 4607 أَوْلُ كِتَابِ السُّنَّةِ  | بَابٌ : فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)

(٢) دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: 58841


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 27/4/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ناقص الخلقت بچے کی تکفین و تدفین کا حکم

 ⚖️سوال وجواب ⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1772 🖋️

(کتاب الصلاۃ باب الجنائز)

ناقص الخلقت بچے کی تکفین و تدفین کا حکم

سوال: اگر کوئی بچہ مکمل طور پر بن نہیں پایا تھا یعنی ہاتھ پاؤں مکمل طور پر نہیں بنے تھے اور وہ ساقط ہوگیا تو اس کی تکفین و تدفین اور نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ (عزیر، لکھنؤ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


ایسا بچہ جو گوشت کی شکل میں ہو اور اس کی خلقت مکمل نہ ہویی ہو وہ باقاعدہ انسانی وجود کے حکم میں نہیں ہوگا، یعنی اس کی حیثیت مکمل انسان کی نہیں ہوگی بلکہ گوشت کے لوتھڑے کی ہوگی، چنانچہ اس پر کفن دفن اور نماز جنازہ کے وہ احکام نافذ نہیں ہونگے جو ایک مسلمان بچے کے لئے ہوتے ہیں، جزو انسانی ہونے کے ناطے اس کے احترام کا تقاضہ ہے کہ کسی صاف ستھرے کپڑے میں لپیٹ کر کسی جگہ بلا نماز جنازہ دفن کردیا جائے تاکہ وہ ضائع نہ ہو اور جانوروں کی پہنچ سے محفوظ رہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا 📚

السقط الذي لم تتم أعضاؤه لا يصلى عليه باتفاق الروايات والمختار أن يغسل ويدفن ملفوفا في خرقة، كذا في فتاوى قاضي خان. (الفتاوى الهندية 159/1 كتاب الصلاة باب الجنائز)

لو وجد طرف من اطراف إنسان أو نصفه مشقوقا طولا أو عرضا يلف في خرقة (رد المحتار على الدر المختار 99/3 زكريا)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 1/7/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگنے کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1768🖋️

(کتاب الصلاۃ باب الجنائز)

قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگنے کا حکم

سوال: قبرپر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیسا ہے؟

جواب مع الدلیل ارسال کریں، برائے مہربانی، (محمدامداداللہ.نورچک.مدھوبنی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگنے میں مردہ سے یا صاحب قبر سے استعانت کا شبہ پایا جاتا ہے اس لیے اس طرح دعا کرنا بہتر نہیں ہے، اس سے پرہیز ضروری ہے، البتہ اگر کوئی ہاتھ اُٹھانا ہی چاھتا ھے تو اسے چاہیے کہ قبلہ رخ ہوکر دعاء کرے تاکہ وہ شبہ ختم ہوجائے، قبلہ رُخ ہوکر قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے، علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو عوانہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ذی النجادین کی قبر پر قبلہ رخ ہوکر اور ہاتھ اٹھا کر دعاء فرمائی تھی (١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

وفي حديث ابن مسعود " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبر عبد الله ذي النجادين " الحديث وفيه " " فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه " أخرجه أبو عوانة في صحيحه. (فتح الباري بشرح صحيح البخاري رقم الحديث ٦٣٤٣)

"وإذا أراد الدعاء يقوم مستقبل القبلة، كذا في خزانة الفتاوى" (الفتاوى الهندية 5 / 350)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 26/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں پہلی قسط

✍سوال و جواب✍

(مسئلہ نمبر 516)

 کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں 



 سوال: کیا کرامات اولیاء برحق ہیں؟ کرامات اولیاء کو نہ ماننے والے کے ایمان پر کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کرامات اولیاءکو بالکل نہیں مانتے ایسے لوگوں کا ایمان کیسا ہے؟ 

مکل و مدلل جواب عنایت کیجیے. (ابو یحییٰ محمد صغیر، مہاراشٹر)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب بعون اللہ الوہاب

کرامت کہتے ہیں ایسے خلاف عادت و فطرت کام یا واقعے کو جو کسی نیک صالح مومن بندے کے ذریعے ظاہر ہو، اگر وہ شخص نیک اور مومن نہیں ہے تو اسے کرامت نہیں کہا جائے گا بلکہ شعبدہ بازی یا نظر بندی کہا جائے گا، تعریفات کے مشہور مصنف علامہ شریف جرجانی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں کرامت کی یہی تعریف نقل کی ہے(١)

اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندوں سے کرامت کا ظاہر ہونا اور اس کے ذریعے ان کے کاموں میں تایید ہونا ایک مسلم اور قرآن و حدیث اور صحابہ وتابعین کی زندگی سے ثابت امر ہے اور اس کے قرآن و حدیث سے ثابت ہونے اور برحق ہونے پر امت کا اجماع ہے۔

قرآن مجید میں بیان شدہ واقعات اور خدا تعالی کے نیک بندوں کی حکایات سے معلوم ہوتاہے کہ زمانۂ سابق کی نیک شخصیات سے بھی کرامات کا صدور ہوا ہے اور مفسرین نے انہیں آیات کی روشنی میں کرامات کے جائز اور ثابت و برحق ہونے پر استدلال کیا ہے، قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت نمبر ٣٧ میں آیا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس تازہ پھل غیب سے آیا کرتے تھے، حضرت زکریا علیہ السلام نے دیکھا تو تعجب کا اظہار کیا، اس آیت کی تفسیر میں امام التفسیر علامہ آلوسی بغدادی علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے:

 "کہ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ اولیاء کرام کے لئے کرامت درست ہے، اس لیے کہ حضرت مریم مشہور قول کے مطابق نبی نہیں تھیں"(٢)

اسی طرح قرآن مجید میں موجود أصحاب کہف کے واقعے میں ان حضرات کا مدتوں سوتے رہنا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر آصف بن برخیاہ کا تخت بلقیس کو پلک جھپکنے میں حاضر کر دینا ان کی کرامات میں شمار کیا گیا، دور حاضر کی مشہور فقہی انسایکلوپیڈیا "الموسوعہ الفقہیہ" میں بالتصریح یہ بات نقل کی گئی ہے (٣) اسی طرح عقائد کے امام اور عظیم مصنف علامہ تفتازانی نے بھی آصف بن برخیاہ کی تخت کی حاضری کو ان کی کرامات شمار کیا ہے(٤)

قرآن مجید کے ان واقعات کے علاوہ احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ سے بھی کرامات کے صادر اور برحق ہونے کی تائید ہوتی ہے؛ چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ ایک رات دو صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے رخصت ہوئے تو اندھیری رات تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے غیبی طور پر ان کے لیے دو چراغ ان کے درمیان پیدا کر دییے اور جب وہ الگ ہوکر اپنے اپنے راستے میں جانے لگے تو دونوں کے ساتھ ایک ایک چراغ ہوگیا(٥) علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ان دونوں صحابی کا نام عباد بن بشر اور اسید بن حضیر بتایا ہے (٦) 

اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے جسے علامہ جلال الدین سیوطی سمیت متعدد اکابر اہل علم نے معتبر راویوں سے نقل کیا ہے اور خود علامہ ابن حجر عسقلانی جیسے عظیم محدث نے اس کی سند کو "حسن" قرار دیا ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہورہی تھی تو انہوں نے مدینے سے آواز لگائی یا "سارية الجبل" اور صحابہء کرام نے سیکڑوں کلومیٹر دور اس آواز کو سنی اور عمل کیا(٧) 

چنانچہ اسے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں شمار کیا گیا، اسی طرح احقر راقم الحروف کا خیال ہے گرچہ کہیں اس کی صراحت نہیں نظر سے گزری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت سے قبل جو خارق عادت باتیں صادر ہوئیں وہ آپ کی کرامات میں سے تھیں۔

مذکورہ بالا قرآنی آیات میں مذکور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات سے کرامت کا ممکن و صادر ہونا ثابت ہے اسی لیے جمہور اہل علم اور تمام اہل سنت والجماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کرامات اولیاء برحق ہیں(٨)

عقائد کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں مشہور ترین اور متداول کتاب علامہ تفتازانی کی "شرح العقائد" ہے اس میں صاف صاف اس کے ثابت و برحق ہونے کی صراحت موجود ہے (٩) اسی طرح اس کے حاشیے میں علامہ رمضان آفندی نے بھی اس کی تایید کی ہے (١٠) بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ کرامات کا انکار سوائے معتزلہ جیسے گمراہ فرقے اور بدعتیوں کے کسی نے نہیں کیا ہے(١١) 

ہمارے بہت سے اہل حدیث بھائی عموما کرامات کا انکار کرتے ہیں اور اسے بیکار کی باتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سلف صالحین کے مذہب کے خلاف ہے، حالانکہ سلف کے سب سے بڑے وکیل اور اہل حدیث بھائیوں کے علمی و فکری رہنما علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے جو بے غبار اور چشم کشا تحریر اس موضوع پر لکھی ہے وہ لائقِ تحریر بھی ہے اور قابلِ صد تحسین بھی، علامہ ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں رقمطراز ہیں:

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

خوارج اور نواصب کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟

سوال و جواب  

(مسئلہ نمبر 554)

 خوارج اور نواصب کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟ 



 سوال: خوارج اور نواصب سے ایک ھی گروہ مراد ھے یا یہ الگ الگ دو فرقے ہیں ان کے عقائد کیا ہیں؟ (محمد معظم قاسمی مالاڈ ممبئی)


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 


اہل سنت والجماعت کی اصطلاح میں خوارج ان حضرات کو کہا جاتا ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی یا بعد میں ان کے ہم نوا اور ان کے مسلک و مشرب کے حامی ہوگئے، بنیادی طور پر ان کے عقائد یہ ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے حامی تمام صحابہ و تابعین کافر ہیں، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کافر ہیں، اسی طرح صحابہ قطعاً حجت نہیں ہیں، گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے، رؤیت باری تعالی آخرت میں بھی ممکن نہیں ہے وغیرہ وغیرہ(١)

ناصبیہ بھی درحقیقت خوارج ہی کی ایک شاخ ہے؛ لیکن ان کے یہاں صحابہ کی تکفیر اور ان کو گالی دینے میں اتنی وسعت نہیں ہے جتنی عام خوارج کے یہاں ہے، بلکہ یہ لوگ عام صحابہ کرام کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ، ان کے أصحاب و ہمنوا اور بطورِ خاص اہل بیت کو گالی دیتے اور ان کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، نواصب کا اور انکے بنیادی عقائد کا ذکر بہت کم ملتا ہے تاہم جو تحریر کیا گیا ہے اسی سے ان کی پہچان ہے اور اسی قبیح عمل سے دنیا میں بدنام ہیں(٢)،

شرعی نقطۂ نظر سے یہ دونوں فرقے گمراہ اور سخت گنہگار ہیں اور اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں(٣) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚والدليل على ما قلنا📚📚 


(١) كل من خرج على الإمام الحق الذي اتفقت الجماعة عليه يسمى خارجيا سواء كان الخروج في أيام الصحابة على الأئمة الراشدين أو كان بعدهم (الملل و النحل ١١٤/١ الفصل الرابع دار المعرفة بيروت)

و يجمعهم القول بالتبري من عثمان و علي رضي الله عنهما د، و يقدمون ذلك على كل طاعة، و لا يصححون المناكحات إلا على ذلك، و يكفرون أصحاب الكبائر و يرون الخروج على الإمام إذا خالف السنة حقا واجبا (الملل و النحل ١١٥/١ الفصل الرابع)

الخوارج يكفرون أهل القبلة بمعصية و يجوزون الخروج على السلطان الجائر و يلعنون على علي و ينكرون سنة الجماعة ةدو الصلوة (عقيدة الطحاوي ص ١٠ مكتبة دار العلوم ديوبند)

نیز دیکھئے تکمیل الحاجہ شرح اردو ابن ماجہ ٣٦٥/١، ضیاء السنن شرح ابن ماجہ ٤٣٤/١ 

(٢) و النواصب: عموماً تطلق على من يبغض عليا و أصحابه، و يدخل في هذا الاسم الخوارج بفرقهم المختلفة. (الحاشية على الاعتقاد الخالص ص ٣٢٨)

و من طريقة النواصب الذين يؤذون أهل البيت بقول و عمل و يمسكون عما شجر بين الصحابة. (مجموع فتاوى ابن تيميه ١٥٤/٣)

(٣) والفرق الضالة المختلفة في الأصول ستة الروافض، والخوارج، الجبرية..... (عقيدة الطحاوي ص ٩)


🎑🎑🎑🎑🎑🎑🎑🎑🎑


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء الجامعة الإسلامية دار العلوم  مہذب پور سنجر پور اعظم گڑھ یوپی

مورخہ 2/1/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

فتنۂ شکیلیت سے وابستگی اور انکے ساتھ نرمی کا حکم

 ⚖سوال و جواب⚖ 

🗒مسئلہ نمبر 959🗒

(کتاب الایمان باب النبوۃ)

 فتنۂ شکیلیت سے وابستگی اور انکے ساتھ نرمی کا حکم 



 سوال: فتنہ شکیلیت کے تعلق سے کچھ افراد (ان میں پڑھے لکھے اور عالم بھی ہیں) کافی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس فتنہ  کی قباحت بیان کرنے والوں کو شدت سے منع کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شکیل سے متاثر لوگ بھی اللہ اور اللہ کے نبیﷺکو مانتے ہیں اور ہم بھی بس تھوڑا سا فرق ہے؛ لہٰذا ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے اور انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ ایسے حضرات کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ (محمد نوشاد، متعلم دار العلوم مئو یوپی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 


شکیلیت دور حاضر کا نہایت حساس اور اہم فتنہ بن گیا ہے، اس کا بانی شکیل بن حنیف بیک وقت مسیح موعود اور مہدی ہونے کا مدعی ہے؛ حالانکہ مسیح موعود اور مہدی کی ایک بھی خصوصیت اس شخص میں نہیں پائی جاتی ہے، اس کا دعویٰ سراسر جھوٹ اور مکر و دجل پر مبنی ہے، یہ شخص اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا اور مکار انسان ہے، احادیث مبارکہ میں مسیح علیہ السلام اور حضرت مہدی کے متعلق جو باتیں اور خصوصیات و امتیازات بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک بھی خصوصیت اس میں موجود نہیں ہے؛ اس لئے اس شخص کو مسیح اور مہدی ماننا قطعاً حرام ہے، ایسے لوگوں سے رشتہِ ازدواج بنانا شرعاً جائز نہیں ہے، اس فتنے کو ختم کرنے کے لئے جس سے جو ممکن ہو کرنا چاہیے، ان کے تئیں نرمی برتنا یا عام مسلمانوں کے مساوی حقوق ان کے لیے قرار دینا قطعاً غلط ہے، اور دین محمدی کے ساتھ خیانت اور عملاً ان کے عقائد و نظریات اور اعمال سے رضامندی کی علامت ہے؛ اس لئے ان کے تئیں قطعاً کسی قسم کی نرمی نہیں برتنا چاہیے، جو شخص ان کے ساتھ نرمی برتے گا اور عام مسلمانوں کی طرح انہیں مسلمان سمجھے گا اس شخص کا ایمان بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے؛ اس لیے علماء کو خاص طور پر اس جانب توجہ دینا چاہئے اور عوام کو انکی گمراہی سے آگاہ کرنا چاہیے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمَهْدِيُّ مِنِّي، أَجْلَى الْجَبْهَةِ ، أَقْنَى الْأَنْفِ، يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا، يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ ".

حكم الحديث: حسن. (سنن أبي داود رقم الحديث ٤٢٨٥ أَوَّلُ كِتَابِ الْمَهْدِي  | بَابٌ )

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمَهْدِيُّ مِنَّا - أَهْلَ الْبَيْتِ - يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ ".

حكم الحديث: حسن. 

(سنن ابن ماجه رقم الحديث ٤٠٨٥ كِتَابُ الْفِتَنِ  | بابٌ : خُرُوجُ الْمَهْدِيِّ)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي ". سنن الترمذي رقم الحديث ٢٢٣٠ أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي الْمَهْدِيِّ)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ ". 

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

حكم الحديث: صحيح. (سنن الترمذي رقم الحديث ٢٢٣٣ أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 24/2/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

پیر، 15 اگست، 2022

میراث کی تقسیم

کتاب الفرائض



 *سوال وجواب *

مسئلہ نمبر 1778 

(کتاب الفرائض)


سوال: ایک شخص کا انتقال ہوگیا اور اس کی پانچ بیٹی اور ایک بیٹا اور دو بیوی ہیں ایک بیوی کا انتقال میت کی زندگی میں ہوگیا اور انتقال ہونے والی بیوی سے تمام اولاد ہے اور دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے اور دوسری بیوی حیات ہے میراث کی تقسیم کس طرح ہوگی.

برائے کرم جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں. (عبد المتین لکھنؤ یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


مرحوم کے جمیع ترکہ سے ان کی تکفین و تجہیز کے اخراجات نکالنے قرضوں کی ادائیگی کرنے اور وصیت اب پوری کرنے (بشرطیکہ وہ مقروض ہوں یا انہوں نے وصیت کی ہو) کے بعد پوری جائیداد کے آٹھ حصے کردیں ایک حصّہ بیوی کو دے دیں اور باقی سات حصوں میں سے للذکر مثل حظ الانثیین کے اصول کے تحت لڑکے کو دو حصے اور ہر لڑکی کو ایک ایک حصّہ دیں اس طرح ان کی میراث شرعی نقطۂ نظر سے صحیح صحیح تقسیم ہوجائے گی۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


*والدليل على ما قلنا *


( يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء 11)


( وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (النساء 12)


تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة الأول يبدأ بتكفينه و تجهيزه من غير تبذير ز لا تقتير ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ثم تنفذ وصاباه من ثلث ما بقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة. (السراجي في الميراث ص ٣ تا ٥)


*كتبه العبد محمد زبير الندوي*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 7/7/1443

رابطہ 9029189288


*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

Share

ڈیلیوری کے بعد تین ماہ تک خون کا حکم

ڈیلیوری کے بعد تین ماہ تک خون کا حکم


*⚖️سوال وجواب ⚖️*

🖋️مسئلہ نمبر 1779 🖋️

(کتاب الطھارۃ باب الحیض والنفاس)

*ڈیلیوری کے بعد تین ماہ تک خون کا حکم*


سوال: اگر کسی عورت کو ڈیلیوری ہونے کے چالس دن بعد بھی خون آرہا ہو تو کیا مسئلہ ہے اور بچے کی پیدائش آپریشن سے ہوئی ہے اور ڈیلیوری کو  تین مہینہ ہو چکا ہے اور خون اب بھی آرہا ہے اب معلوم یہ کرنا تھا کہ عورت ناپاکی کی حالت میں ہے یا اور کوئی مسئلہ ہو گا؟ (بنت حوا بنگلور)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

بچے کی ولادت کے بعد آنے والے خون کو فقہی اصطلاح میں نفاس کہا جاتا ہے، نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، چالیس دن کے بعد جو خون آئے گا وہ استحاضہ ہوگا، یعنی بیماری کا خون مانا جائے گا، چنانچہ چالیس دن سے زیادہ جو خون آیا ہے وہ بیماری کا خون ہوگا، اس دوران انہیں ہر نماز کے لیے وضو کرکے نماز پڑھنا چاہیے تھا۔ البتہ چالیس دن پورے ہونے کے بعد اگر مستقل خون آرہا ہے تو پندرہ دن کے بعد کا خون حیض کا خون مانا جائے گا، اگر پندرہ دن کے بعد آنے والا خون دس دن کے اندر کچھ دنوں کے لئے بند ہوجایے تو یہ حیض کا ہوگا اور اس سے زیادہ آتا ہے تو دس دن تک کا حیض ہوگا باقی استحاضہ ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*📚والدليل على ما قلنا 📚*

(١) و النفاس هو الدم الخارج عقيب الولادة (المختصر للقدوري ص ٢٠ كتاب الطهارة باب الحيض)

أقل النفاس ما يوجد و لو بساعة و عليه الفتوى وأكثره أربعون يوما عندنا (الفتاوى السراجية ص ٥٢ كتاب الطهارة باب النفاس)

و أقل النفاس لا حد له و أكثره أربعون يوما (المختصر للقدوري ص ٢٠ كتاب الطهارة باب الحيض)

و حكمه كالحيض إلا في سبعة (الدر المختار مع رد المحتار ٤٩٦/١ كتاب الطهارة)

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ أَبِي سَهْلٍ ، عَنْ مُسَّةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : كَانَتِ النُّفَسَاءُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقْعُدُ بَعْدَ نِفَاسِهَا أَرْبَعِينَ يَوْمًا - أَوْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً - وَكُنَّا نَطْلِي عَلَى وُجُوهِنَا الْوَرْسَ. تَعْنِي : مِنَ الْكَلَفِ. (سنن ابي داود حديث نمبر ٣١١)

تخلل الطهر في أربعين يوماً لا يفصل عند أبي حنيفة رحمه الله ويكون كله نفاسا (الفتاوى السراجية ص ٥٢ كتاب الطهارة باب النفاس)

(والزائد) على أكثره (استحاضة) لومبتدأة، أما المعتادة فترد لعاداتها وكذا الحيض،

فإن انقطع على أكثرهما أو قبله فالكل نفاس، وكذا حيض إن وليه طهر تام وإلا فعادتها وهي تثبت وتنتقل بمرة، به يفتى، وتمامه فيما علقناه على الملتقى. (الدر المختار مع رد المحتار ٤٩٨/١ كتاب الطهارة باب الحيض)

و إن انقطع الدم قبل الاربعين و دخل وقت صلاة تنتظر إلى آخر الوقت ثم تغتسل في بقية الوقت و تصلي (الفتاوى التاتارخانية ٥٣٨/١ كتاب الطهارة)


*كتبه العبد محمد زبير الندوي*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 8/7/1443

رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

Share

کتابیں دلوانے پر اجرت لینا جائز ہے

 کتاب البیوع جدید مسائل



*سوال وجواب *

مسئلہ نمبر 1780 

(کتاب البیوع جدید مسائل)

*کتابیں دلوانے پر اجرت لینا*

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید سے حامد کتابیں منگواتا ہے اور زید صرف فون کے ذریعہ سے کتب خانہ سے ہی حامد کے پتے پر کتب ارسال کروادیتا ہے تو کیا اس پر زید کچھ زائد رقم لے سکتا ہے ۔یا پھر یہ ڈاکٹر کے کمیشن کی طرح (جوکہ ایکسرے وغیرہ کے تعلق سے ہوتا ہے) ناجائز ہوگا ۔ (اطہر ندوی کلکتہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


کمیشن کے طور پر اجرت لینے کے لئے محنت اور عمل ضروری ہے، صرف فون کرکے بتا دینا یہ کوئی عمل نہیں ہے، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی راہ گیر کو راستہ بتانے پر اجرت مانگنا، اس لیے مذکورہ بالا صورت میں اجرت یا کمیشن کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ ہاں اس آرڈر پر نفع لینے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پہلے زید وہ کتابیں ادھار خرید لے اور پھر اپنے نفع کے ساتھ اس کو آرڈر پر لگائے؛ لیکن اس صورت میں راستے میں اگر کہیں کتاب کا پارسل غائب ہو جاتا ہے یا کتابوں کو ایسا نقصان ہوجاتاہے جس کی وجہ سے حامد وہ کتابیں نہیں لیتا ہے تو اس کا پورا رسک اور نقصان زید پر ہوگا اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جو نفع حاصل کرے گا نقصان کا رسک بھی اسی کو لینا ہوگا حدیث مبارکہ میں بھی آیا ہے الخراج بالضمان۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*والدليل على ما قلنا *
(١) {قال إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتي هاتين على أن تأجرني ثماني حجج} [القصص: ٢٧] 

أي على أن تكون أجيرا لي أو على أن تجعل عوضي من إنكاحي ابنتي إياك رعي غنمي ثماني حجج. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 173/4 كتاب الاجارة)

الاجیر المشترك لا يستحق الأجرة إلا بالعمل (مجلة الأحكام العدلية مع شرحها 457/1 المادة 424)

عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ. (سنن الترمذي حدیث نمبر 1285 أَبْوابٌ : الْبُيُوعُ)

الغرم بالغنم (قواعد الفقه ص 64)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 9/7/1443
رابطہ9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*
Share

Translate

بلاگ آرکائیو