متفرقات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
متفرقات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 12 ستمبر، 2022

بسم اللّٰہ کی جگہ 786 لکھنے کا حکم اور اس کا صحیح عدد

 ☪سوال و جواب☪

⬇مسئلہ نمبر 786⬇

(کتاب العلم، متفرقات)

 بسم اللّٰہ کی جگہ 786 لکھنے کا حکم اور اس کا صحیح عدد 

سوال: بعض حضرات بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کی جگہ 786 لکھتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہری کرشنا کا عدد ہے کیا یہ درست ہے؟ شرعی نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے لیے 786 لکھنے کا کیا حکم ہوگا؟ برائے مہربانی مدلل و باحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔ (عبد الحلیم ثاقبی بہرائچی، متعلم شعبہ افتاء جامعہ ہتھوڑا باندہ)

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن مجید کی ایک اہم نہایت بامعنی اور بابرکت آیت ہے، قرآن مجید کی سورہ نمل آیت نمبر ٣٠ میں یہ آیتِ قرآنی آیت کے طور پر موجود ہے۔

کتابت و تحریر کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی نہیں؛ بلکہ اس سے پہلے سے بھی بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز کی بات موجود ہے، اس کی واضح طور پر سب سے پہلی شہادت ہمیں حضرت سلیمان علیہ السلام سے معلوم ہوتی ہے، جب آپ علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو خط لکھا تھا تو بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز فرمایا تھا۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عرب و عجم کو پیغام خداوندی بھیجا تو اپنے خطوط کی ابتدا بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے فرمائی، نیز آپ ﷺ کے بعد سے آج تک کے تمام اصحابِ علم و فن کا معمول اپنی تحریر و تقریر میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز کا رہا ہے؛ اس لیے اصل حکم یہی ہے کہ آدمی جب بھی کوئی اچھا کام کرے یا تحریر و تقریر کی ابتدا کرے تو پورا بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے یا لکھے۔

لیکن بعض مرتبہ سخت اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں آیت مبارکہ کی توہین نہ ہو؛ اس لیے بعض اہل نظر نے بجائے آیت کے اس کا عدد نکالا اور اس کا استعمال شروع کیا، یہ عدد عموما 786 لکھا جاتا ہے؛ لیکن اس کے اعداد 786 اس وقت ہونگے جب حروفِ مکتوبہ کے اعتبار سے نکالا جائے نا کہ حروف ملفوظہ کے اعتبار سے؛ یعنی بولنے میں اللہ اور رحمن میں کھڑا زبر بولا جاتا ہے جب کہ لکھنے میں عموما لکھا نہیں جاتا؛ چنانچہ 786 کا عدد اس وقت نکلے گا جب بغیر کھڑا زبر کے نکالا جائے، ذیل میں حروف اور اعداد کا نقشہ لکھا جاتا ہے تاکہ سمجھنا آسان ہو:

ب 2

س 60

م 40

ا 1

ل 30

ل 30

ھ 5

ا 1

ل 30

ر 200

ح 8

م 40

ن 50

ا 1

ل 30

ر 200

ح 8

ی 10

م 40

کل-----

ہوا 786

اسی طرح 786 کا عدد ہری کرشنا کا بھی نکلتا ہے۔ ذیل میں اس کا نقشہ بھی ملاحظہ ہو:

ھ 5

ر 200

ی 10

ک 20

ر 200

ش 300

ن 50

ا 1

کل-----

ہوا  786

خلاصہ ایں کہ جس طرح ہری کرشنا کا عدد 786 نکلتا ہے؛ اسی طرح بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کا بھی عدد 786 نکلتا ہے، اسی لئے متعدد اہل علم و اصحاب فتاویٰ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بجائے 786 لکھنے کو بہتر قرار نہیں دیا ہے؛ مگر جائز ضرور کہا ہے؛ چنانچہ فتاوی دارالعلوم دیوبند کی صراحت اس بابت بایں الفاظ ہے:

"جو لوگ بسم اللہ کی جگہ اس کا نقش 786 لکھتے ہیں وہ محض قرآنی آیت کو بے ادبی سے بچانے کے لیے لکھتے ہیں ان کا یہ عمل بھی درست ہے" (فتاوی دارالعلوم دیوبند فتوی: 562/ ب= 451/ ب)

اسی طرح مفتی نظام الدین صاحب سابق مفتی دار العلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں:

"اگر کوئی شخص اس آیت کریمہ کو موقع ذلت واہانت میں پڑنے سے بچانے کی نیت سے بجائے آیت کریمہ کے 786 لکھ دے تو 

الأمور بمقاصدھا 

کے مطابق بلاشبہ جائز رہے گا" (نظام الفتاویٰ: ج۱ ص۳۹۵۵)

نیز فتاوی عثمانی میں فقیہ وقت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:

'صرف زبان سے کہنے پر اکتفاء کرے یا ۷۸۶ ایک علامت بسم اللہ ہونیکی حیثیت سے لکھ دے" (فتاوی عثمانی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 144 ,145)

مشہور عالم دین حضرت مولانا یوسف لدھیانوی سے فرماتے ہیں:

  "786 بسم اللہ شریف کے عدد ہے. بزرگوں سے اسکے لکھنے کا معمول چلا آرہاہے، غالبا اسکو رواج اسلئے دیاہوکہ خطوط عام طور پر بھاڑ کر پھینک دئیے جاتے ہیں"۔ (آپکے مسائل اور انکا حل جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 384)

فقیہ زمانہ حضرت مفتی محمود صاحب گنگوھی رقمطراز ہیں:

"بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ثواب   786 لکھنے سے نہیں ملے گا، یہ بسم اللہ کا عدد ہے جن سے اشارہ ہوسکتا ہے (فتاوی محمودیہ

جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 3400 کتاب العلم)

اس لیے اس کا لکھنا جائز ہے، لیکن بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم لکھنے کا جو ثواب اور اس کی جو برکت ہے وہ حاصل نہیں ہوگی۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

دیکھئے: فتاوی دارالعلوم زکریا جنوبی افریقہ ٨٠٩/٧ قاموس الفقہ ٤٦٢/٣ تسمیہ، جواہر الفقہ ١٨٧/٢ احکام و خواص بسم اللہ، احسن الفتاوی ٢٤/٨ علمی مکاتیب ص ٨٩ وغیرہ

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

 مورخہ 29/8/1440

 رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعہ، 9 ستمبر، 2022

ہبہ کیئے گئے مکان کو واپس کرنا

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1324🖋️

(کتاب النکاح، متفرقات)

ہبہ کیئے گئے مکان کو واپس کرنا

سوال :-  میری ایک بہن ہے ۔ جن کے شوہر نے  بہت ۔ بہت پہلے ۔ آج سے تقریبا 15 ۔ 17 سال پہلے  ان کو چھوڑ دیا تھا ۔ طلاق تو نہیں دی ۔ لیکن  ۔ بس ۔ بے یار و مددگار چھوڑدیا تھا ۔ ۔۔۔ ان کے شوہر نہ آتے تھے ۔ اور نہیں  کوئی نان نفقہ ۔خرچہ پانی ۔ دیتے تھے ۔ نہ حال احوال پوچھتے تھے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ 

میری اس بہن کے ۔ 4  بیٹیاں ۔ اور ۔ 1 بیٹا ہے ۔ ۔۔۔ 

میری بہن نے ۔ ۔۔ گھروں میں کام کاز کرکے ۔ اپنی اولاد کی پرورش کی ۔ کرایہ کے گھر پر رہکر گھر کا کرایہ بھی دیا ۔ اور ۔  تین بیٹیوں کی شادی کی ۔ اور  بیٹے کو پڑھایا ۔ حافظ ۔ عالم بنایا ۔ اچھی جگہ کام پر لگایا ۔(امامت اور۔ مکتب ۔ دونو میں ۔ اچھا کماتا ہے) ۔   اور شادی بھی کی ۔۔۔۔ ۔۔ اب ایک بیٹی کی شادی باقی ہے ۔ بس ۔ 

مینے اپنی اس بہن کے لیے  ایک مکمل گھر بناکر دیا ۔ ۔ ۔ انکے حوالے کر دیا ۔۔۔ تاکے وہ سکون سے ایک جگہ رہ سکے ۔ اِدھر اُدھر  دھکے نہ کھائے ۔۔۔۔ 

لیکن جب بیٹے کی شادی کردی تو ۔۔۔ بیٹا اس کی بیوی کی ۔ اور اسکے سسرال کے گھر والوں کی  باتوں ۔ میں  آکر ۔ اس کی ماں کو تکلیف دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ برابھلا کہتا ہے ۔ گھر کا خرچہ بھی مکمل نہیں دے رہا ہے ۔۔۔

 اب اس سلسلے میں کچھ سوالات ہیں ۔ امید ہے کہ مکمل تفصیل سے جواب مرحمت فرمائیں گے ۔ 

1  :- میری بہن اپنے اس بیٹے کو اب الگ رہنے کو کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ تو اس صورت میں  بیٹے کے ذمہ ۔ اس کی ماں ۔ کا ۔اور اس کی  بہن کا خرچہ لازم ہوگا یا نہیں ؟  جو بہن  غیر شادی شدہ ہے ۔۔۔ 

2 :- جو گھر مینے بناکر دیا تھا اپنی اس بہن کو ۔ وہ گھر اب مجھے واپس کرنا چاہتی ہے ۔ تو کیا اسطرح واپس کرنا شرعا صحیح ہے ۔ ۔ ۔ اگر صحیح ہے تو اسکی کیا شکل ہے ؟ مثلا  صرف کہنا صحیح ہوگا  یا  باقاعدہ ملکیت میں لینا ہوگا ۔ اس کے لیے گھر کے دستاویز سے بہن کا نام نکال کر  اپنا نام دستاویز کرنا ہوگا ۔۔۔ یا صرف اس گھر میں جاکر قبضہ کرلینا کافی ہوگا ۔۔ ۔  نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی  ۔۔۔ ؟ 

3 :- میرے بہن کہہ رہی ہے  کے یہ گھر میں اس کو دوں گی جو میری  ۔دوا ۔ علاج ۔ خدمت ۔  کرے ۔۔۔  تو کیا اسطرح کہنا اور کرنا صحیح ہے ۔ اسطرح کسی ایک کو دے سکتے ہے ؟ کوئی گناہ ۔ ناجائز تو نہیں ہے  ۔۔ ؟ (المستفتی  :- عبداللہ ۔۔۔ متحدہ عرب امارات)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا صورت افسوسناک بھی ہے اور تکلیف دہ بھی، اللہ تعالیٰ انسانوں کو سمجھنے اور دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، جو سوالات اوپر کئے گئے ہیں ان کے بالترتیب جوابات یہ ہیں کہ جب عورت کا شوہر یا باپ خرچہ برداشت نہ کرے تو پھر بیٹا اور بھائی کا حق ہوتا ہے کہ وہ ان کے اخراجات کو برداشت کریں؛ اس لیے مذکورہ بالا صورت میں لڑکے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ماں اور بہن کا خرچہ برداشت کرے لیکن معتدل طریقہ یہ ہے کہ وہ بیٹے کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرے۔

اگر بہن اپنی رضامندی سے مصلحتاً مکان واپس کر رہی تو واپس کر سکتی ہے اور اس کو مکمل طور پر قبضہ دے دے اور کاغذات بھی اس کے نام کردے ورنہ بعد میں دقت آئے گی۔

زیادہ خدمت کرنے والے کو بھی دے سکتی بشرطیکہ زندگی میں ہی مالک بنا دے ورنہ مال میراث ہوسکتا ہے اور پھر شرعی طور پر تقسیم کرنا ہوگا۔

فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب

📚والدليل على ما قلنا📚

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية". ( الفتاوى الهندية 4/378 الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)

و في ظاهر الرواية: البنت البالغة و الغلام البالغ الزمن بمنزلة الصغير نفقته على الأب خاصة. (فتاوى قاضي خان ٢٦٧/١  كتاب النكاح فصل في النفقات)

قال: ويجبر الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا. (الفتاوى الهندية ٥٨٦/١ كتاب الطلاق باب النفقات، الفصل الخامس، زكريا جديد)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 25/3/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

پیر، 5 ستمبر، 2022

گوگل ایڈسینس (Google Adsense) اور یوٹیوب (Yuotube) کی کمائی کا تفصیلی حکم قسط اول

 

گوگل ایڈسینس اور یوٹیوب کی کمائی کا تفصیلی حکم

سوال

مفتی صاحب آپ کے دار الافتاء کا گوگل ایڈسینس کے بارے میں فتوی (65530/58)دیکھا جس میں اسے جائز کہا گیا ہے۔ آپ سے گفتگو کے دوران آپ نے بتایا کہ اس سے مراد ایڈسینس کی وہی خاص صورت ہے جس کے بارے میں سوال ہے۔ میری درخواست یہ ہے کہ ایڈ سینس کی تمام صورتوں کے بارے میں وضاحت فرما دیجیے۔

بنیادی طور پر گوگل ایڈسینس ان طریقوں سے کام کرتا ہے:

1.    ویب سائٹ کا مالک گوگل کو جگہ دیتا ہے اور گوگل جتنے لوگ اس ویب سائٹ کو وزٹ کریں ان کی تعداد کے مطابق مالک کو طے شدہ معاوضہ دیتا ہے۔

2.    ویب سائٹ کا مالک گوگل کو جگہ دیتا ہے اور گوگل جتنے لوگ اشتہار کو کلک کریں ان کا معاوضہ مالک کو دیتا ہے لیکن یہ معاوضہ گوگل کی اپنی کمائی کا فیصدی حصہ ہوتا ہے۔

3.    مختلف ویب سائٹس اور یوٹیوب پر ویڈیو اشتہارات کی جگہ دینے پر بھی گوگل مالک کو معاوضہ دیتا ہے۔

صورت حال کچھ یوں ہے کہ اگرچہ گوگل میں ناجائز کیٹگریز کو فلٹر کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود تجربہ یہ ہے کہ گوگل ناجائز اشتہارات چلا ہی دیتا ہے۔ نیز اشتہارات میں تصاویر بھی ہوتی ہیں جنہیں فلٹر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ویڈیو اشتہارات میں نامحرم کی ویڈیوز اور بیک گراؤنڈ میوزک اکثر ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایسے اشتہارات بھی ہوتے ہیں جنہیں دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ البتہ گوگل مہینے کے اختتام پر تمام اشتہارات مالک کو دیکھنے کی سہولت دیتا ہے جس میں مالک کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کون سے اشتہار کو آئندہ چلنے دے اور کون سے اشتہار کو چلانے سے گوگل کو منع کر دے۔

نیز یہ بھی بتائیے گا کہ اگر ان اشتہارات کے لیے جگہ دینا جائز ہے تو بھی اسلامی چینلز پر انہیں لگانا درست ہے یا نہیں کیوں کہ بسا اوقات کافی بیہودہ قسم کے اشتہارات اسلامی چینلز پر نظر آ رہے ہوتے ہیں۔

ایک بات کی مزید وضاحت کر دوں کہ گوگل کے الگورتھم کے مطابق اشتہار میں عموماً دو چیزوں کو دیکھا جاتا ہے:  جس ویب سائٹ پر لگا ہے اس کے موضوع کو اور کافی زیادہ حد تک ویب سائٹ کھولنے والے صارف کی سرچ ہسٹری کو۔ لیکن گوگل اس الگورتھم کا پابند نہیں ہوتا۔

جواب

اولاً بطور تمہید گوگل کے کام کرنے کا طریقہ کار ذکر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد تمام شقوں کا شرعی حکم مذکور ہوگا۔

گوگل ایڈ سینس گوگل کا ایک پراجیکٹ ہےجس میں گوگل مختلف لوگوں کی مختلف چیزوں (مثلاً ویب سائٹ، بلاگ، ایپلیکیشن ، ویڈیو، یوٹیوب چینل وغیرہ) پر ان کی اجازت سے اپنے اشتہار لگاتا ہے۔ اس اشتہار کے بدلے گوگل ویب سائٹ  اور ویڈیو وغیرہ کے مالک کو کچھ رقم ادا کرتا ہے۔ اس کی تفصیلات ذیل میں مذکور ہیں:

گوگل ایڈورڈ:

گوگل جو اشتہارات کسی ویب سائٹ یا ویڈیو پر دکھاتا ہے وہ کسی دوسرے کلائنٹ سے لیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے گوگل کا ایک پروگرام ہے جس کا نام "ایڈ ورڈ" ہے۔ جس کمپنی یا فرد نے اپنا کوئی اشتہار دینا ہوتا ہے وہ ایڈورڈ پر اکاؤنٹ بناتا ہے۔ گوگل اشتہار کی ہر جگہ کی بولی لگاتا ہے ۔ مثلاً ویب سائٹ کی سرخی پر اشتہار لگانے کے لیے اشتہار دینے والوں کے سامنے یہ بات رکھتا ہے کہ اس جگہ کے لیے کون کتنی رقم دے گا۔ جو شخص زیادہ رقم دیتا ہے اس کا اشتہار ایڈسینس کے ذریعے اس جگہ  چلاتا ہے۔ بعض اوقات یہ فیصلہ  رقم کی زیادتی کے علاوہ کسی اور بنیاد پر بھی کرتا ہے۔

گوگل کو اشتہار دینے والا یہ طے کرتا ہے کہ وہ ہر اشتہار کے کلک پر زیادہ سے زیادہ کتنی  رقم دے سکتا ہے۔ اسے Maximum CPC کہا جاتا ہے۔ گوگل بسااوقات مختلف اشیاء کی بنیاد پر اس سے کم رقم لیتا ہے جسے Actual CPC کہتے ہیں۔ البتہ اس سے زیادہ رقم نہیں لیتا۔ بسا اوقات یہ سسٹم روزانہ یا ماہانہ بجٹ کی بنیاد پر بھی رکھا جاتا ہے۔

ایڈورڈ میں گوگل اشتہار کی کیٹگری اور اس پر آنے والے یوزر کے حساب سے رقم مختلف مقرر کرتا ہے۔ مثلاً اگر  اشتہار انشورنس کا ہے تو اس کی اجرت مختلف ہوگی اور اگر مذہبی ہے تو اس کی مختلف ہوگی۔ نیز اگر اشتہار پر آنے والا کلائنٹ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش وغیرہ کے علاقے سے ہے تو اجرت مختلف ہوگی اور اگر امریکا یا کینیڈا سے ہے تو مختلف ہوگی۔

گوگل یہ بھی بتاتا ہے کہ اندازاً ایک اشتہار کو کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنے لوگ دیکھیں گے۔

رقم کی وصولی کی صورتیں:

 اس معاملے میں گوگل  نے مختلف سسٹم تیار کیے ہوئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

ایڈ امپریشنز (Ad Impressions) : اس میں گوگل اشتہار دینے والے سے اشتہار ڈاؤن لوڈ ہونے پر رقم لیتا ہے۔جب کوئی شخص ویب سائٹ کھولتا ہے اور اس کے پاس کسی قسم کا ایڈ بلاکر بھی نہیں ہوتا تو اشتہار خود بخود اس کے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ ہو  جاتا ہے۔ گوگل ان اشتہارات پر اشتہار دینے والے سے رقم وصول کرتا ہے۔

کوسٹ پر انگیجمنٹ (Cost Per Engagement): اس طریقہ کار میں گوگل صرف ان اشتہارات پررقم وصول کرتا ہے جن میں ویب سائٹ کا صارف مصروف ہوا ہو۔ مثلاً اگر اشتہار ایسا ہو جو اپنی جگہ سے بڑھ کر پھیل جاتا ہو تو صارف نے کم از کم دو سیکنڈ تک اس پر کرسر رکھا ہو اور وہ پھیلا ہو۔

کوسٹ پر کلک (Cost Per Click): اس طریقہ کار میں گوگل ان اشتہارات پر رقم وصول کرتا ہے جن پر صارف نے کلک کیا ہو۔

گوگل اور مالک کا معاہدہ:

گوگل ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک سے حاصل شدہ رقم کے متعین فیصد کے مطابق معاہدہ کرتا ہے۔ یہ فیصد مختلف صورتوں میں مختلف ہوتی ہے لیکن اس کی باقاعدہ تعیین ہوتی ہے کہ کون سی صورت میں ایڈ پر ملنے والی رقم کتنے فیصد گوگل کی اور کتنے فیصد مالک کی ہوگی۔

اشتہارات کے انتخاب کا طریقہ کار:

گوگل کسی ویب سائٹ یا ویڈیو پر اشتہار عموماً تین چیزوں کی بنا پر لگاتا ہے:

1.    صارف کی سرچ ہسٹری کے مطابق: گوگل اکثر صارفین کی سرچ ہسٹری محفوظ رکھتا ہے اور اس کے مطابق انہیں ان کی پسند کے اشتہارات دکھاتا ہے۔

2.    موضوع کے مطابق: گوگل ویب سائٹ کے موضوع کے مطابق بھی اشتہارات لگاتا ہے۔

3.    مذکورہ بالا دونوں وجوہات کے علاوہ بھی گوگل مختلف اشتہارات دکھاتا رہتا ہے۔

رقم ادائیگی کی حد:

گوگل رقم اس وقت ادا کرتا ہے جب وہ 100 ڈالر یا اس سے زائد ہو جائے۔ البتہ اگر کوئی ویب سائٹ مالک اپنا اکاؤنٹ بند کرنا چاہے تو اسے 100 ڈالر سے کم ہونے کے باوجود رقم ادا کردی جاتی ہے۔

گوگل  ایڈ بلاک:

گوگل ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے اشتہارات کو ان کی کیٹگری کے حساب سے بلاک کر سکیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ویب سائٹ پر فنانس سے متعلق اشتہارات نہیں چاہتا تو وہ اس کیٹگری کو بلاک کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گوگل یہ آپشن بھی دیتا ہے کہ اشتہار چلنے کے بعد مالک انہیں دیکھ سکے اور ان میں سے اگر کسی اشتہار کو آئندہ کے لیے بلاک کرنا چاہے تو کر سکے۔

البتہ چونکہ یہ خود کار نظام ہے اور گوگل کا سسٹم تمام زبانیں نہیں سمجھ سکتا، نیز بعض اوقات وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ اشتہار دینے والی سائٹ کی کیٹگری کیا ہے یا اشتہار کے اندر کیا مخصوص شے غلط ہے اس لیےبسااوقات بلاک کی گئی کیٹگری کے اشتہارات بھی چل جاتے ہیں۔

اشتہارات کی اقسام:

بنیادی طور پر کسی ویب سائٹ یا کسی ویڈیو پر آنے والے اشتہارات تین قسم کے ہو سکتے ہیں:

1.    تحریری اشتہارات: ایسے اشتہارات جن میں کسی قسم کی تصویر موجود نہ ہو اور صرف تحریر پر ہی مشتمل ہوں۔

2.    تصویری اشتہارات: ایسے اشتہارات جو کسی چیز یا جاندار کی تصویر پر مشتمل ہوں۔ ان میں عموماً تحریر بھی موجود ہوتی ہے۔ بعض اشتہارات فلیش بیسڈ  ہوتے ہیں جو ماؤس کے کرسر کے ساتھ یا کسی اور فعل کے ساتھ حرکت کر سکتے ہیں لیکن  اصلاً وہ تصویری ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض اشتہارات متحرک اینیمیشن کی شکل میں ہوتے ہیں جن میں ایک تصویر بار بار مخصوص حرکت کر رہی ہوتی ہے۔

3.    ویڈیو اشتہارات: ایسے اشتہارات جو ویڈیو کی شکل میں ہوں۔ یہ اشتہارات الگ سے ویب سائٹ پر بھی لگ سکتے ہیں اور کسی ویڈیو میں شامل بھی کیے جا سکتے ہیں۔ یوٹیوب کی ویڈیوز پر موجود اشتہارات بھی اسی قسم میں شامل ہیں۔ ان اشتہارات کے بیک گراؤنڈ پر کوئی ساؤنڈ  عموماً لگایا جاتا ہے جو اکثر اوقات میوزک پر مشتمل ہوتا ہے۔

گوگل ایڈسینس میں بھی اشتہارات کی یہ تین اقسام موجود ہوتی ہیں البتہ بعض چیزوں میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے۔

شرعی حکم:

مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق اشتہار مالکان سے گوگل کے معاملے کی حیثیت شرعاً اجارے کی بنتی ہے جس میں گوگل اشتہار دینے والے کے لیے تو اجیر ہے مگر یہ خود آگے ویب سائٹ کے مالک سے جگہ لیتا ہے تو مستاجر بھی ہے۔ گوگل اور اشتہار دینے والے کے آپس میں معاہدے (ایڈ ورڈ) کی تین اقسام ہیں:

1.    ایڈ امپریشنز: اس میں منفعت لوگوں تک اشتہار کا پہنچانا ہے۔

2.    کوسٹ پر انگیجمنٹ: اس میں بھی منفعت لوگوں تک اشتہار پہنچانا ہے لیکن اس میں معاملہ یقینی منفعت پر ہے۔ یعنی جب کوئی شخص تصویر پر کرسر رکھے گا اور وہ پھیلے گی جس سے وہ اسے دیکھے گا تو گوگل اس کی رقم وصول کرے گا۔ یہاں یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ گوگل نے اس شخص تک اشتہار پہنچا دیا ہے۔ اگر کوئی شخص تصویر نہیں دیکھ پائے گا تو گوگل بھی اس کی اجرت نہیں لے گا۔

3.    کوسٹ پر کلک: اس میں منفعت  لوگوں کو ویب سائٹ پر لانا ہے۔ یہ منفعت مستاجر کو حاصل ہونے پر گوگل اجرت لیتا ہے۔

 اجارے میں منفعت اور اجرت کی ایسی تعیین ضروری ہے کہ جہالت کی وجہ سے اختلاف نہ ہو۔ چونکہ ایڈورڈ میں زیادہ سے زیادہ فی کلک رقم اور بجٹ معلوم ہوتا ہے اور منفعت اجارہ کلک، امپریشن یا انگیجمنٹ کی صورت میں متعین ہوتی ہے، نیز یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کم از کم کتنے کلک   ہوں گے لہذا اس میں مفضی الی النزاع جہالت نہیں ہے اور اس سے آنے والی آمدن شرعاً جائز ہے۔

گوگل اور ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک کے معاہدے (ایڈسینس) کی دو شرعی تکییفات کی جا سکتی ہیں:

اول: شرکت  الصنائع جس میں دونوں فریق اشتہار دینے والے کی مارکیٹنگ کے عمل میں شریک ہوتے ہیں اور اس کی اجرت آپس میں متعین فیصد کے مطابق تقسیم کرتے ہیں۔ اس میں اشکال یہ ہے کہ شرکت الصنائع میں شرعاً یہ لازم ہے کہ کسی ایک فریق کی طرف سے عمل قبول کرنے کی نفی نہ ہو۔ گوگل اور ویب سائٹ مالک کے درمیان اگرچہ صراحتاً ایسی کوئی بات طے نہیں ہوتی کہ ویب سائٹ یا ویڈیو مالک اشتہار قبول نہیں کر سکتا لیکن عملاً یہ بات طے شدہ سمجھی جاتی ہے کہ اگر مالک خود اشتہار لے گا تو گوگل اس پر اسے رقم ادا نہیں کرے گا۔ لہذا یہ تکییف محل نظر ہے۔

دوم: گوگل ویب سائٹ یا ویڈیو مالک سے اس کی ویب سائٹ، چینل یا ویڈیو پر جگہ اجارے پر لیتا ہے اور اس کی اجرت اسے ادا کرتا ہے۔ اس پر اشکال یہ ہے کہ گوگل اشتہار مالکان سے جو رقم لیتا ہے  اس میں سے ویب سائٹ مالکان کو فیصد کے لحاظ سے اجرت دیتا ہے جس کی وجہ سے اجرت میں جہالت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ سلسلہ معروف ہو چکا ہے اور اس جہالت کی وجہ سے آپس میں نزاع نہیں ہوتا لہذا  یہ اجارہ درست ہے۔  ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک کی رقم گوگل کے ذمے دین ہوتی ہے جو وہ 100 ڈالر یا اس سے زائد ہونے پر یکمشت ادا کرتا ہے۔ البتہ اس اجارے سے جو آمدن حاصل ہوتی ہے اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

تحریری و تصویری اشتہارات:

تحریری و تصویری اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدن تین شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1.    جس کاروبار کا اشتہار ہے وہ کاروبار جائز ہو۔ لہذا ان کیٹگریز کو فلٹر کر دیا جائے جو شرعاً جائز نہیں ہیں۔

2.    گوگل ایڈسینس اور ویب سائٹ کے مالک کے درمیان طے شدہ شرائط پر مکمل عمل کیا جائے اور ایسا کوئی فعل نہ کیا جائے جو معاہدے کے خلاف ہو۔

3.    کسی جائز پراڈکٹ کے اشتہار میں اگر گوگل کی طرف سے کوئی ناجائز مواد مثلاً فحش تصویر وغیرہ شامل کر دی جائے اور اس میں ویب سائٹ کے مالک کی اجازت یا رضامندی شامل نہ ہو تو مالک اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہذا اگر کیٹگریز فلٹر کرنے کے باوجود کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو کسی ناجائز کاروبار کی جانب لے جا رہا ہو یا ناجائز مواد (مثلاً نامحرم کی تصاویر) پر مشتمل ہو  تو اس کا گناہ ویب سائٹ مالک کو نہیں ہوگا۔ البتہ ایڈ ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کر دی جائے۔

.........................جاری

Share

گوگل ایڈسینس (Google Adsense) اور یوٹیوب (Yuotube) کی کمائی کا تفصیلی حکم قسط دوم

گوگل ایڈسینس اور یوٹیوب کی کمائی کا تفصیلی حکم


ویڈیو اشتہارات:

جو اشتہارات ویڈیو کی شکل میں ہوں ان کی آمدن مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1.    جس کاروبار کا اشتہار ہے وہ کاروبار جائز ہو۔ لہذا ان کیٹگریز کو فلٹر کر دیا جائے جو شرعاً جائز نہیں ہیں۔

2.    گوگل ایڈسینس اور ویب سائٹ کے مالک کے درمیان طے شدہ شرائط پر مکمل عمل کیا جائے اور ایسا کوئی فعل نہ کیا جائے جو معاہدے کے خلاف ہو۔

3.    کسی جائز پراڈکٹ کے اشتہار میں اگر گوگل کی طرف سے کوئی ناجائز مواد مثلاً فحش تصویر وغیرہ شامل کر دی جائے اور اس میں ویڈیو یا چینل کے مالک کی اجازت یا رضامندی شامل نہ ہو تو مالک اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہذا اگر کیٹگریز فلٹر کرنے کے باوجود کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو کسی ناجائز کاروبار کی جانب لے جا رہا ہو یا ناجائز مواد (مثلاً نامحرم کی تصاویر) پر مشتمل ہو  تو اس کا گناہ ویڈیو مالک کو نہیں ہوگا۔ البتہ ایڈ ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کر دی جائے۔

4.    بیک گراؤنڈ میوزک تکنیکی لحاظ سے ویڈیو سے الگ چیز ہے جسے ویڈیو میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ ویب سائٹ یا ویڈیو کا مالک گوگل ایڈسینس کو ویڈیو لگانے کے لیے اجارے کے طور پر جگہ دیتا ہے ، بیک گراؤنڈ میوزک لگانے کے لیےنہیں دیتا۔ لہذا اگر اشتہار کا مواد اور بنیادی کاروبار جائز ہو لیکن اس کے بیک گراؤنڈ میں میوزک ہو تو مالک پر لازم ہے کہ اولاً بذریعہ ای میل یا کسی اور طریقے سے صراحتاً گوگل کو میوزک  نہ لگانے کا کہے۔ اگر گوگل میوزک نہیں ہٹاتا  تو مالک اپنے چینل یا ویڈیو میں یہ تحریر کر دے کہ اشتہار کے وقت آواز بند کر دی جائے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص آواز بند نہیں کرتا تو اس کا گناہ مالک کو نہیں ہوگا اور اس کی آمدن جائز ہوگی۔

اسلامی چینل پر اشتہارات لگانا:

اگر کوئی شخص کسی اسلامی چینل پر تمام شرائط کا لحاظ کرکے اشتہارات لگاتا ہے تو یہ جائز ہے۔ لیکن چونکہ درمیان میں ایسے اشتہارات آ جاتے ہیں جو نامحرم کی تصاویر اور میوزک وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں اور دینی گفتگو و تقاریر کے درمیان یہ چیزیں شروع  ہو جاتی ہیں اس لیے مناسب ہے کہ ان اشتہارات سے اجتناب کیا جائے جو ویڈیو کے درمیان میں آتے ہیں۔ گوگل مالک کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کس قسم کے اشتہارات اپنے چینل پر چلانا چاہتا ہے۔


حوالہ جات

يشترط في الإجارة أن تكون المنفعة مملوءة بوجه يكون مانعا للمنازعة.أي أنه يشترط في الإجارة أي في صحتها، أولا أن تكون المنفعة معلومة بوجه يكون مانعا للمنازعة.

انظر المادتين (200 و 405) فعليه إذا كانت المنفعة مجهولة بحيث تؤدي إلى المنازعة تكون فاسدة (الهندية) ويختلف العلم بالمنفعة باختلاف أنواع الإجارة۔۔۔.

(درر الحكام، 1/504، ط: دار الجيل)

 

وإن كان في البلد نقود مختلفة فإن كانت في الرواج على السواء ولا فضل للبعض على البعض فالعقد جائز ويعطي المستأجر أي النقود شاء، وإن كانت الأجرة مجهولة؛ لأن هذه الجهالة لا تفضي إلى المنازعة۔۔۔.

(الفتاوى الهندية، 4/412، ط: دار الفكر)

 

يشترط لصحة الإجارة أن تكون المنفعة والأجرة معلومتين علما ينفي الجهالة المفضية للنزاع، وإلا فلا تنعقد الإجارة.

(الموسوعة الفقهية الكويتية، 16/173، ط: دار السلاسل)

 

قال الحصكفيؒ: " (و) إما (تقبل) وتسمى شركة صنائع وأعمال وأبدان (إن اتفق) صانعان (خياطان أو خياط وصباغ) فلا يلزم اتحاد صنعة ومكان (على أن يتقبلا الأعمال) التي يمكن استحقاقها۔۔۔ (ويكون الكسب بينهما) على ما شرطا مطلقا في الأصح لأنه ليس بربح بل بدل عمل فصح تقويمه."

علق عليه ابن عابدين ؒ: " وفي النهر أن المشترك فيه إنما هو العمل، ولذا قالوا: من صور هذه الشركة أن يجلس آخر على دكانه فيطرح عليه العمل بالنصف والقياس أن لا تجوز؛ لأن من أحدهما العمل ومن الآخر الحانوت واستحسن جوازها؛ لأن التقبل من صاحب الحانوت عمل. اهـ."

(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 4/322، ط: دار الفكر)

 

يجوز لكل واحد من الشريكين أن يتقبل محل العمل ويتعهده سواء شرط في عقد الشركة تقبل وتعهد الشريكين أو شرط تقبل وتعهد أحدهما بدون نفي صلاحية الشريك الآخر لأن الشركة تتضمن الوكالة. انظر المادة الآتية. فلذلك إذا تقبل وتعهد أحدهما فيكون تقبله وتعهده وكالة عن شريكه الآخر ويكون الشريك المتقبل قد تقيد أصالة عن نفسه ووكالة عن شريكه، كما أنه يكون الشريك الذي قام بالعمل قد قام به أصالة عن نفسه ووكالة عن شريكه ولكن يجب أن لا تنفى صلاحية الشريك الذي شرط عليه العمل في تقبل العمل لأن عند السكوت صلاحية التقبل ثابتة اقتضاء ولكن لا يمكن إثباتها مع النفي (البحر) وقد بين ذلك في شرح المادة الآنفة، فلذلك للشريك الذي شرط عليه العمل أن يتقبل ويتعهد العمل سواء كان المتقبل أهلا لإيفاء العمل اللازم إيفاؤه كأن يشترك صباغ وخياط فيتعهد الصباغ بصبغ الثياب أو كان غير أهل لإجرائه كتعهد وتقبل الصباغ بخياطة الثياب (البحر) .

ويجوز أيضا للخياطين المشتركين شركة صنائع أن يعقدا الشركة على أن يتقبل أحدهما الأقمشة ويقصها ويفصلها وأن يخيطها الآخر (رد المحتار) أما إذا نص في عقد الشركة على أن يتقبل أحدهما وأن لا يتقبل الآخر بل يعمل فقط فلا تجوز الشركة لأنه في هذا الحال يكون الشريك الذي نفي عنه صلاحية التقبل قد نفيت عنه الوكالة، والحال أن الشركة تتضمن الوكالة كما هو مذكور في المادة الآتية

(درر الحكام في شرح مجلة الاحكام، 3/413، ط: دار الجيل)

 

"وإذا استأجر الذمي من المسلم دارا يسكنها فلا بأس بذلك، وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير ولم يلحق المسلم في ذلك بأس لأن المسلم لا يؤاجرها لذلك إنما آجرها للسكنى. كذا في المحيط."

(الفتاوی الھندیۃ، 4/450، ط: دار الفکر)

 

قال الحصكفيؒ: " (و) جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة زيلعي."

قال ابن عابدين ؒ: " (قوله وجاز إجارة بيت إلخ) هذا عنده أيضا لأن الإجارة على منفعة البيت، ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ولا معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فينقطع نسبيته عنه، فصار كبيع الجارية ممن لا يستبرئها أو يأتيها من دبر وبيع الغلام من لوطي والدليل عليه أنه لو آجره للسكنى جاز وهو لا بد له من عبادته فيه اهـ زيلعي وعيني ومثله في النهاية والكفاية۔۔۔."

(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/392، ط: دار الفكر)

 

    If someone clicks your ad, that click won't cost you more than the maximum cost-per-click bid (or "max. CPC") that you set. For example, if you set a $2 max. CPC bid, you'll never pay more than $2 for each click on your ad. The actual amount that you pay is called the actual CPC and is shown in your account's "Avg. CPC" column.

    A higher bid generally helps your ad show in a higher ad position on the page.

    You'll choose between manual bidding (you choose your bid amounts) and automatic bidding (you set a target average daily budget and the Google Ads system automatically adjusts your max. CPC bids on your behalf, with the goal of getting you the most clicks possible within that budget). With manual bidding, you'll set one maximum CPC bid for an entire ad group, but can also set different bids for individual keywords.

(https://support.google.com/google-ads/answer/6326)

 

 

 

Ad reach is an estimate of the number of people within a location target, based on signed-in users.

You can use the provided reach numbers to get a rough idea of how many people your ads could reach within a geographic area.

This article explains how ad reach is estimated and what happens when your location target can only reach a limited number of people.

(https://support.google.com/google-ads/answer/1722045?hl=en)

 

An impression is counted for each ad request where at least one ad has begun to download to the user’s device. It is the number of ad units (for content ads) or search queries (for search ads) that loaded ads.

(https://support.google.com/adsense/answer/6157410?hl=en)

 

With cost-per-engagement (CPE) bidding, advertisers only pay when users actively engage with ads. For example, advertisers pay for lightbox ads (a type of expandable ad that can expand to a very large size) on a CPE basis, which means that publishers generate earnings from lightbox ads when users choose to engage with the ads, e.g., by hovering over them for two seconds to expand the ads.

(https://support.google.com/adsense/answer/4643299?hl=en&ref_topic=19363)

 

The cost-per-click (CPC) is the amount you earn each time a user clicks on your ad. The CPC for any ad is determined by the advertiser; some advertisers may be willing to pay more per click than others, depending on what they're advertising.

(https://support.google.com/adsense/answer/32725?hl=en)

 

The ad auction is used to select the ads that will appear on your pages and determine how much you’ll earn from those ads. In a traditional auction, interested bidders state the maximum price they're willing to pay to buy a specific item. Similarly, our ad auction allows advertisers to state the price they're willing to pay for clicks on ads or for impressions served on AdSense pages.

(https://support.google.com/adsense/answer/160525)

 

You'll be paid out when your unpaid earnings reach the payment threshold, as long as there are no holds on your account and you're in compliance with our Program policies. For more information about when you'll get paid…If you decide to cancel your AdSense account and your account balance is greater than the cancelation threshold, you'll receive your final payment within approximately 90 days of the end of the month, provided that you've completed the necessary steps to get paid.

(https://support.google.com/adsense/answer/1709871?hl=en)

 

The Ad review center is a feature that gives you more transparency and control over the ads that appear on your site. When you enable the Ad review center, you can review individual ads after they're shown and assess whether you want to continue showing them on your pages.

(https://support.google.com/adsense/answer/2369326)

You can block ads from general categories such as Apparel, Internet, Real Estate, and Vehicles. General category blocking is available for ads in a limited set of languages, regardless of the language of the site.

(https://support.google.com/adsense/answer/180609?hl=en&ref_topic=23390)

 


مجيب
اویس پراچہ
مفتیان
مفتی محمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
سعید احمد حسن صاحب


ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :70225
تاریخ اجراء :2020-10-03
Share

اتوار، 4 ستمبر، 2022

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) کرانا کیسا ہے

 📚سوال و جواب📚

  (مسئلہ نمبر 267) 

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) 
کرانا کیسا ہے

سوال:کیا فرماتے ہیں اہل الذکر کہ موجودہ دور میں اگر اک عام تاجر / یا عام انسان حکومت کے لاگو تمام قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے تو بقول ٹیکس آڈیٹرس کے اس کو اپنی کمائی کا نصف فیصد حصہ دینا پڑتا ہے۔ جن اشیاء کو بازار سے خرید کر دکان لاتے ہیں تو بازار سے لیکر اپنی دکان تک جتنے ذرائع سبب بنتے ہیں سب کے اپنے ٹیکس ہوتے ہیں جس کو ادا کرتے کرتے یقینا مایوسی حاصل ہوتی ہے۔ 

دیگر اہل علم کے پرانے فتاوی اس طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ جو سود کی رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتی ہے اس کو اس ٹیکس کی رقم میں استعمال کرلیا جاسکتا ہے اگر واقعی وہ ٹیکس غیرضروری وجبراً لیا جاتا ہو۔ 

تو بندہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جن لوگوں کے اکاؤنٹ ہی نہ ہوں یا جن کے اکاؤنٹ میں کوئی سودی رقم جمع ہی نہ ہوتی ہو کیا وہ مثلاً ایک لاکھ روپئے فکسڈ ڈپازٹ کرکے جو رقم سود کی سالانہ/ماہانہ حاصل ہو اس کو ان غیر ضروری ٹیکس میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟

اگر دس لاکھ روپئے کی کار خریدی جائے تو ایک لاکھ اسی ہزار روپئے صرف ٹیکس دینا پڑتا ہے۔  یعنی ۱۸۰۰۰۰ روپئے آر ٹی أو والے لیتے ہیں اب ایسی ہزاروں چیزیں ہیں جن پر محنت کا ایک بڑا سرمایہ بطور ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ 

کیا اس مجبوری میں فکسڈ ڈپازٹ سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ یا اور کوئی شکل أنحضرت کے یہاں ہو تو براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ (بندہ مدثر أحمد، بنگلور) 

--------------------------------------------------

♤بسم اللہ الرحمن الرحیم♤ 

الجواب بسم ملہم الصواب

فکسڈ ڈپازٹ جس میں ایک مخصوص رقم بینک میں جمع کرادی جاتی ہے اور ماہانہ یا سالانہ اس کا سود ملتا ہے اور مدت پوری ہونے پر پوری رقم بھی مل جاتی ہے؛ یہ صورت سراسر سود ہے اور سود حاصل کرنے ہی کی غرض سے یہ ڈپازٹ کرایا جاتا ہے، رقم کی حفاظت اس کا مقصود نہیں ہوتا؛ اسی لئے سود کی شرح (interest percent) اس میں زیادہ ہوتا ہے اور سیونگ اکاؤنٹ کے مقابلے اس میں زیادہ سود ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ سود لینا اور دینا شریعت اسلامی میں ناجائز و حرام ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں اور لعنتیں آئی ہیں اس لئے فکسڈ ڈپازٹ اس مقصد کے لئے کرانا ناجائز ہے (۱) 

ہاں یہ بات درست ہے؛ کہ فقہائے اسلام نے ناجائز اور جبری ٹیکس میں بینک سے حاصل ہونے والی سودی رقم ادا کرنے کی اجازت دی ہے(۲) مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ سیونگ اکاونٹ میں پیسے کی حفاظت کی غرض سے جمع شدہ رقم پر ملی ہوئی سودی رقم ادا کرنا ہے؛ ناکہ صرف سود ہی کی حصول یابی کے مقصد سے رقم بینک میں جمع کرنا اور اس سے سود حاصل کرنا ہے؛ چنانچہ اس سلسلے میں متعدد کتابیں دیکھنے کے باوجود بھی کہیں یہ نہیں مل سکا کہ ٹیکس ادا کرنے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ کرانا کسی نے جائز قرار دیا ہو؛ بلکہ اس کے برخلاف متعدد اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ صرف ٹیکس ادا کرنے یا سود میں سود کی رقم دینے کے لئے سودی اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے(۳) اسی طرح فقہاء اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جب کسی معاملے میں مصلحت اور مفسدہ دونوں جمع ہوجائیں تو مفسدہ کو دور کیا جائے گا اور مصلحت کا خیال نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ شریعت اسلامی نے مامورات کے مقابلے منہیات میں زیادہ شدت سے کام لیا ہے(۴) چنانچہ اس اصول کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ بجائے ٹیکس کی رقم ادا کرنے کے لئے سودی رقم لینے کا معاملہ ہی نہ کیا جائے۔

اسلئے آپ نے جو بات سوال نامے میں لکھی ہے اس کی وجہ سے بھی فکسڈ ڈپارٹ کرانا اور سود حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا؛ بلکہ سود کے دائرہ میں ہونے کی وجہ سے اس سے اجتناب کرنا اور دور رہنا واجب و ضروری ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔ 


📚📚والدلیل علی ما قلنا📚📚

(۱) وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة 275)

》حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ. (حدیث نمبر 4177)

》كل قرض جر نفعا حرام اي اذا كان مشروطا (رد المحتار على الدر المختار 395/7 كتاب البيوع زكريا)

(۲) الحاصل انه أن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم والا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق بنية صاحبه (رد المحتار على الدر المختار 223/7 كتاب البيوع زكريا)

》و يردونه على اربابه إن عرفوهم والا يتصدقوا به لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد (البحر الرائق شرح كنز الدقائق   201/8 كتاب الكراهية فصل في البيع كوءتة)

》والسبل في المعاصي ردها،  وذلك برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه و بالتصدق إن لم يعرفه ليحصل إليه نفع ماله  (الفتاوى الهندية كتاب الكراهية الباب الخامس عشر 249/5)

》و أما إذا كان عند رجل مال خبيث فإما إن ملكه بعقد فاسد أو حصل له بغير عقد و لا يمكنه أن يرده إلى مالكه و يريد ان يدفع مظلمة عن نفسه فليس له حيلة إلا أن يدفعه إلى الفقراء لكن لا يريد بذلك الأجر والثواب و لكن يريد دفع المعصية عن نفسه (بذل المجهود 37/1 كتاب الطهارة باب فرض لوضوء د)

(۳) کتاب الفتاوی 316/5۔ فتاوی قاسمیہ 741/20

(۴) درء المفاسد أولى من جلب المصالح اي اذا تعارض مفسدة و مصلحة قدم دفع المفسدة لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتناءه بالمامورات (الاشباه والنظائر لابن نجيم المصري ص 264، شرح المجلة 32/1 المادة 30)

✍✍✍✍✍✍✍✍✍

✍ العبد محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء الجامعة الإسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا 

مؤرخہ 10/3/1439 

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ہفتہ، 3 ستمبر، 2022

ڈپازٹ کی رقم اور ہیوی ڈپازٹ کی چند صورتوں کا حکم (Heavy deposit)

 👁‍🗨سوال و جواب👁‍🗨

(مسئلہ نمبر 406)

ڈپازٹ کی رقم اور ہیوی ڈپازٹ کی چند صورتوں کا حکم

سوال کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آج کل بڑے شہروں میں مکانات کی کرایہ داری میں بھاری مقدار میں پیشگی رقم ڈپازٹ کے عنوان سے لینے کا معمول بن چکا ہے، اب اس میں کئی شکلیں ہوتی ہیں:

الف:- اگر ڈپازٹ کی رقم معمولی ہوتی ہے تو ماہانہ کرایہ کی رقم زیادہ ہوتی ہے ، اور جب کرایہ دار جائیداد خالی کرتا ہے تو مالک اسے ڈپازٹ کی رقم لوٹا دیتا ہے۔

ب:- اگر ڈپازٹ کی رقم بھاری مقدار میں ہو تو ماہانہ کرایہ کی رقم بہت معمولی ہوتی ہے، اور بہر صورت جب بھی جائیداد خالی ہوتی ہے تو مالک ڈپازٹ کی پوری رقم واپس کرنے کا ضامن ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ:

(۱) اس طرح کا عقد شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

(۲) ڈپازٹ کی رقم کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ قیمت ہے یا رہن ہے یا امانت ہے؟

(۳) اس ڈپازٹ کی رقم کو مالک جائیداد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

(۴) اگر یہ معاملہ جائز نہ ہو تو کیا اس کو شرعی جواز کے دائرہ میں لانے کی کوئی اور شکل ہے؟

(۵) اس ڈپازٹ کی رقم کی زکوٰۃ کس پر واجب ہے، کرایہ دار پر یا مالک پر؟ یا کسی پر واجب نہیں؟                                   (المستفتی عبدالستار قاسمی، امام جامع مسجد، اونتکا روہینی، دہلی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

الجواب بسم ملہم الصواب

آپ نے جو سوالنامہ مجھے بھیجا ہے بعینہ یہی سوالات انہیں الفاظ میں ہندوستان کے مشہور عالم دین اور صاحب نظر مفتی حضرت مولانا سلمان منصورپوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے فتاویٰ "کتاب النوازل" کی جلد نمبر ١٢ صفحہ نمبر ٣٠٠ پر موجود ہیں اور مفتی صاحب نے تفصیل کے ساتھ معتبر دلائل کی روشنی میں ان سوالات کے تحقیقی جوابات درج فرمائے ہیں؛ اس لئے اگر آپ چاہیں تو ان تمام سوالات کے تفصیلی اور مدلل جوابات وہاں ملاحظہ فرمالیں۔

البت آپ کے اور دیگر قارئین کے افادے کی غرض سے مختلف کتب فقہ و فتاویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں مختصراً ان سوالات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں:

(١) جب ڈپازٹ کی رقم کم ہو اور کرایہ زیادہ ہو اور کرایہ داری کا معاملہ ختم ہونے پر وہ رقم واپس کردی جائے تو اس معاملے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، یہ بلاشبہ جائز ہے۔

جب کرایہ کم ہو اور ڈپازٹ کی رقم زیادہ ہو تو اس کی مندرجہ ذیل چند صورتیں ہوسکتی ہیں:

اگر ڈپازٹ کی رقم کو بنیاد بنا کر کرایہ میں کمی کی جاتی ہے تو اس میں سود کا شبہ پایا جاتا ہے اس لئے یہ صورت جائز نہیں ہے۔

اگر کرایہ پہلے طے ہوچکا ہے اور ڈپازٹ کی رقم بھی طے ہوچکی تھی اور پھر کہا گیا کہ اگر اتنی ڈپازٹ بڑھا دی جائے تو اتنا کرایہ کم کر دیا جائے گا تو یہ صورت بھی سود میں شامل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

اگر شروع ہی میں ڈپازٹ کی رقم کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب کرایہ طے کر لیا جائے اور بعد میں ڈپازٹ کا مطالبہ کیا جائے تو یہ صورت درست ہوگی، البتہ اس طرح جو رقم ڈپازٹ کے طور پر لی جائے پہلے اسے محفوظ طور پر رکھ لیا جائے اور پھر کچھ دنوں بعد اس کے استعمال کی اجازت لے لی جائے۔ اور اس طرح یہ امانت سے نکل کر قرض بن جائے گی۔

(٢) ڈپازٹ کی رقم تو اصلا امانت ہے اس لئے مالک مکان کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں ہے؛ مگر موجودہ زمانہ میں اس کے استعمال کا عرف عام ہے اور صراحتاً یا دلالتہ اس کی اجازت بھی ہوتی ہے اس لئے اب اس کی حیثیت قرض کی ہے۔

(٣) چونکہ اب عرفا یا دلالتہ اس کا استعمال عام ہے اس لئے ڈپازٹ کی حیثیت اب قرض کی ہو گئی ہے اور اس پر قرض ہی کے احکام نافذ ہوتے ہیں؛ اس لیے مالک دوکان و مکان کے لئے اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں ہے۔

(٤) اس کے جواب کے لیے ایک نمبر پر غور فرمالیں۔

(٥) ڈپازٹ کی وہ رقم جس کی مدت متعین ہے فقہی نقطۂ نظر سے یہ دین قوی کے درجے میں ہے، اس لئے اس کی زکوۃ کرایہ دار پر واجب ہوگی اور رقم وصول ہونے کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، واضح رہے کہ عام طور سے کرایہ داری کا وقت متعین ہی ہوتا ہے اس لئے کرایہ دار کو گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اور اگر وقت متعین نہ ہو تو یہ دین وسط یا دین ضعیف کے درجے میں ہوگا اور وصول ہونے کے بعد سابقہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚مصادر ومراجع📚📚 

(١) کتاب النوازل ٣٠٠/١٢ نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلے ص ٢٢١ کتاب الفتاوی ٦٤/١٠ جدید فقہی مسائل ٢١٨/١ فتاویٰ دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ ١٣٦/٣۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 1/8/1439

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعرات، 1 ستمبر، 2022

مکالمے میں ہندو پنڈتوں کی مشابہت اختیار کرنے کا حکم

🌴سوال و جواب🌴

(مسئلہ نمبر 395)

 مکالمے میں ہندو پنڈتوں کی مشابہت اختیار کرنے کا حکم 

سوال: ہمارے مدرسے میں چند دن پہلے اختتامی پروگرام  میں  (مباحثہ) ہوا,جو  ہندو ازم اور اسلام کے درمیان تھا.

ہندو ازم کے ترجمان نے جوکہ ہمارا ہی ساتھی تھا اس نے پنڈت والی شکل و صورت بنا لی تھی (دھوتی , گلے میں مالا(ہار) ,اور ہاتھ میں لال دھاگا وغیرہ کا استعمال کیا تھا)

تو کیا ایسے کسی پروگرام کیلئے ایسی شکل و صورت بنانا جایز ہے؟

برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں 

المستفتی .احقر محمد یاسر  ممبئی


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ الوہاب 

شریعت اسلامی میں غیر مسلموں اور فاسق و فاجر لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والوں کو انہیں میں سے شمار کیا گیا ہے، اس لئے ایسی تمام چیزوں سے بچنا واجب و ضروری ہے جو کسی خاص قوم کا شعار ہو،(١) 

لیکن مشابہت کے کئی درجے ہیں جن کا شریعت میں الگ الگ حکم ہے، چنانچہ علماء لکھتے ہیں:

"تشبہ بالکفار اعتقادات و عبادات میں کفر ہے اور مذہبی رسومات میں حرام ہے۔

 معاشرت اور عبادات اور قومی شعار میں تشبہ مکروہ تحریمی ہے"(٢)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ:

"من تشبه بقوم فهو منهم سے مراد یہ ہے کہ کسی قوم کی ایسی چیز میں مشابہت اختیار کی جائے جو اس قوم کے ساتھ مخصوص ہو یا اس کا خاص شعار ہو تو ایسی مشابہت ناجائز ہے"(٣)

اسی طرح مفتی محمود صاحب فتاویٰ محمودیہ میں لکھتے ہیں:

"بلا ضرورت شدیدہ کفار کا مخصوص لباس استعمال کرنا ممنوع اور ناجائز ہے"(٤)

اس تفصیل کی روشنی میں دیکھا جائے تو آپ نے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے اگر صرف یہی چیزیں تھیں تو چونکہ یہ چیزیں پنڈتوں اور کفار کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ دیگر لوگ بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے اس میں گنجائش ہے، لیکن علماء و طلباء کے لئے اس قسم کی باتیں زیب نہیں دیتی ہیں اس لیے آئندہ سے احتیاط کی جائے۔

البتہ اگر اس سے بڑھ کر قشقہ وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے یا ایسی چیزیں استعمال کی گئی ہیں جو ہندو پنڈتوں کی خصوصیات ہیں اور انہیں دیکھ کر کوئی مسلم تصور نہ کرے تو یقیناً ناجائز ہوگا اور توبہ و استغفار لازم ہوگا۔

واضح رہے کہ مکالمہ کا مقصد لوگوں کے سامنے صحیح اور غلط باتوں میں فرق ظاہر کرنا ہوتا ہے اور اس کے لئے اس قسم کے تکلفات کی قطعاً ضرورت نہیں، خاص کر اگر وہ حرام اور ناجائز کے دائرے میں آرہی ہوں، اس لئے اس قسم کی باتوں کو چھوڑنا ضروری ہے اور ان سے سے بچنا واجب ھے۔ کیوں عام اور سادے لباس سے بھی یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚والدليل على ما قلنا📚📚 

(١) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ، وَلَا بِالنَّصَارَى ؛ فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَهُودِ الْإِشَارَةُ بِالْأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الْإِشَارَةُ بِالْأَكُفِّ. (سنن الترمذي حديث نمبر ٢٦٩٥)

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ". (سنن ابي داود حديث نمبر ٤٠٣١)

 من تشبه بقوم أي تزيا في ظاهره بزيهم و في تعرفه بفعلهم..... و هديهم في ملبسهم و بعض أفعالهم. (فيض القدير ١٠٤/٦)

يكره بوضع قلنسوة المجوس على رأسه على الصحيح إلا لضرورة دفع الحر و البرد (الفتاوى الهنديه ٢٨٧/٢ الباب التاسع فصل في احكام المرتدين زكريا جديد)

من تشبه بقوم أي تزيا في ظاهره بزيهم و في تعرفه بفعلهم..... و هديهم في ملبسهم و بعض أفعالهم. (فيض القدير ١٠٤/٦)

(٢) فقہ حنفی کے اصول و ضوابط ص ١٥١، فتاویٰ دار العلوم زکریا ١٢٢/٧

(٣) کفایت المفتی ١٦٩/٩ دار الاشاعت، فتاویٰ دار العلوم زکریا ١٢٢/٧ کتاب الحظر و الاباحہ

(٤) فتاویٰ محمودیہ ٥٥٩/١٩ باب الموالات مع الکفار

🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 19/7/1439

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

نیا سال منانے اور اس کی مبارکباد دینے کا شرعی حکم

🎍سوال و جواب🎍

(مسئلہ نمبر 295)

 نیا سال منانے اور اس کی مبارکباد دینے کا شرعی حکم 

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و علمائے  عظام درج ذیل مسئلہ میں؛ بحوالہ جواب مرحمت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں :

کہ نیا سال منانے اور اس کی مبارکباد دینا کیسا ہے؟ (انظر حسین کرہی بستی یوپی)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

الجواب و باللہ الصواب 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی نہایت سادہ اور رسم و رواج سے بالکلیہ دور تھی، اس قسم کے بے سود، لایعنی اور خرافاتی طور طریقے نبوی معاشرے میں ہرگز جگہ نہیں پا سکتے تھے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اسلام کے پھیلاؤ میں ہجرت نبوی کو کس قدر اہمیت حاصل ہے بلکہ اس کی اہمیت کے پیش اسلامی کیلینڈر کی بنیاد سال بنایا گیا؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور صحابہ کرام کے دور اور بعد کے ادوار میں ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ جس میں نئے سال کا جشن منایا گیا ہو یا اس کی مبارکبادی دی گئی ہو؛ بلکہ اس جانب کسی صحابی یا محدث و فقیہ کا شاید ذہن تک نہیں گیا چنانچہ سلف صالحین کی کتب میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا؛ اس لئے یہ بات تو یقینی ہے کہ نئے سال کا جشن منانا؛ اس کی مبارکبادی دینا شرعاً کوئی دینی عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت سے اس کا کوئی تعلق ہے؛ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اسلام دشمن اور اسلامی تہذیب و معاشرت سے بیزار لوگوں کا بنایا اور دیا ہوا طریقہ ہے جس کا سوائے بے شمار دینی و دنیوی نقصان اور مختلف گھناؤنی حرکات کے کچھ حاصل نہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ لایعنی کاموں کو چھوڑ دے اور دیکھا جائے تو یہ ناکہ صرف لایعنی ہے بلکہ بیشمار گناہوں کا باعث بھی ہے خاص طور پر انگریزی تاریخ کا نیا سال منانے کی شروعات اور طریقہ تو سراسر غیر اسلامی تہذیب و تمدن کا حصہ ہے اس لئے اس کے خلاف دین ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہے۔

اور تاریخی مشاہدہ ہے کہ اس قسم کی رسمیں آہستہ آہستہ ایک اہم مقام اور بدعت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، اس لئے نیا سال منانے، (خواہ ہجری سال ہو یا عیسوی) اس کی مبارکبادی دینے، اور happy New year وغیرہ کہنے سے اجتناب لازم و ضروری ہے، چونکہ قرآن مجید کا حکم ہے کہ اچھے اور نیک کام میں ایک دوسرے کی مدد کروں اور برائی و ظلم کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کرو اس لئے اس کام سے خود رکنا اور اپنے دوست احباب اور اہل و عیال کو روکنا ضروری ہے، بصورت دیگر گناہ کبیرہ میں گرفتار ہونے کا اندیشہ ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب


 📚📚والدليل على ما قلنا📚📚 

(١) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ)). (سنن أبي داود حديث نمبر 4033)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ)). (سنن الترمذي حديث نمبر ٢٤٨٨)

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة 2)

تفصیل کے لئے دیکھئے: کتاب الفتاوی 481/1 مجلہ شاہراہِ علم0ص 313 ربیع الثانی 1429، اشاعت العلوم اکل کنواں۔ نیا سال مغرب اور اسلام کا نقطہ نظر ص 26.

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 9/4/1439

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ - دو متضاد راستے

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ - دو متضاد راستے

تحریر : محمد زبیر ندوی 

   پوری دنیا میں بسنے والے تمام مسلمان جس مذہب کو مانتے ہیں وہ مذہب اسلام ہے، موجودہ دنیا میں یہ واحد مذہب ہے جو خدا کا عطا کردہ اور اپنی اصلی شکل و صورت میں باقی ہے، دیگر مذاہب یاتو انسانی ذہن و دماغ کی کرشمہ سازیاں ہیں یا محرف اور مفقود الحقیقت ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمان جس قدر اپنے دین کا سچا پرستار اور قدردان ہے دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس کے پیروکار اس قدر اس کے وفادار اور قدردان ہوں،  اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک ہر صاحب علم اور ذی شعور کو بالیقین حاصل ہے ۔

ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام اپنی مکمل اور کامل صورت میں موجود ہے اور قیامت تک کے لیے یہی دین راہنما اور کشتیء حیات کا کھیون ہار ہے۔ اس کی شریعت و قانون پر عملدرآمد ہی زندگی کا مقصود ہے اسلام نے جو احکام اپنے ماننے والوں کو دیئے ہیں اس پورے مجموعے کا نام شریعت ہے اور شریعت کا ایک اہم جزء معاشرت اور عائلی زندگی ہے ۔ 

یہ نظام معاشرت اور عائلی زندگی اسلام کا وہ عطیہ اور خدا کا وہ منصفانہ نظام ہے جو قرآن و حدیث کی نصوص اور اجماع و مجتہدین کی علمی کاوشوں کا کشید اور ماحصل ہے یہ عائلی سسٹم ہر انسان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے جسے صحیح تعبیر میں اسلامک لاء اور خدائی قانون کہا جاسکتا ہے اور جو اسلامی شریعت کا نہایت اہم اور وسیع باب تھا جسے برٹش گورنمنٹ نے صرف وراثت، نکاح ، خلع ، طلاق، ایلاء، ظہار، نفقہ، مہر، حضانت اور اوقاف تک محدود کر کے سنہ 1937 میں "مسلم پرسنل لاء " سے تعبیر کیا ۔ 

قرآن و حدیث کی نصوص میں صاف صاف انسانوں سے اسی قانون خداوندی پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے اور وہ تمام قوانین جسے انسانی نابالغ اور غیر پختہ ذہن نے وضع کئے ہیں انہیں ہوا پرستی، ظلم و گمراہی اور خدا بیزاری سے تعبیر کیا گیا ہے، قرآن کریم نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے : " ثم جعلناك على شريعة من الأمر فاتبعها ولا تتبع أهواء الذين لا يعلمون" ( الجاثية 18 )  ترجمہ :  پھر ہم نے آپ کو دین کے ایک صاف راستے پر رکھا ہے بس آپ اسی پر چلئے اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے مت ہو جائیے جو جانتے نہیں ۔ دوسرے مقام پر فرمایا گیا : " اتبعوا ما أنزل الیکم من ربكم و لا تتبعوا من دونه اولیاء "( الأعراف 3 ) ترجمہ : تمہارے رب کی طرف سے جو اترا ہے اسی پر چلو اور اس کے علاوہ اور دوستوں کی بات مت مانو ۔ 

حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعا لما جئت به ترجمہ : تم میں سے کوئی بھی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات( پوری زندگی ) میرے لائے ہوئے دین کے مطابق نہ ہو جائے۔ 

اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ بھی ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ تاریخ کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ حق کا سامنا ہمیشہ باطل سے ہوا ہے خیر کی روشنی گل کر نے کے لئے شر کی آندھیاں وقتا فوقتا چلتی رہی ہیں، حق و صداقت کے سیل رواں کو روکنے کے لیے ظلم و ستم کے پہاڑ ہمیشہ سد راہ بنتے رہے ہیں اقبال کی زبان میں یوں کہنا چاہیے : 

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز 

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی 

لیکن وہ شمع کیونکر بجھ سکتی ہے جسے خود خدا نے روشن کی ہو، آندھیاں چلتی رہیں گی اور اسکی روشنی بڑھتی اور پھیلتی رہے گی خمار بارہ بنکوی نے کیا خوب کہا ہے :

نہ ہارا ہے عشق، نہ دنیا تھکی ہے 

دیا جل رہا ہے ، ہوا چل رہی ہے 

قارئین سے پوشیدہ نہیں کہ ہمارے ملک ہندوستان کی حکومت اور لاء کمیشن اسی خدائی نظام اور شرعی قانون کو ہٹا کر ایک نیا خود ساختہ ملحدانہ قانون تھوپنے کی ناپاک جسارت میں مبتلا ہے اور جسے وہ نہایت خوشنما لفظ uniform civil code  یعنی یکساں شہری قانون سے تعبیر کرتی ہے، یہ قانون اپنی افادیت اور نفاذ سے قطع نظر ہندی گنگا جمنی تہذیب میں اس کو زیر بحث لاکر نفاذ کی کوشش کرنا اور ایک بڑی کمیونٹی کو اپنی مخالفت پر آمادہ ہو نے کا موقع دینا کس قدر مضحکہ خیز اور خلاف عقل و دانش ہے اہل نظر سے پوشیدہ نہیں، ہمارا ملک کثرت میں وحدت کا ایک شاہکار ہے،  مختلف مذاہب و ادیان اس کی طاقت اور گلہائے رنگا رنگ ہی سے اس کی زینت ہے، گویا بقول ذوق :

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن 

اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف میں

   اس یکساں سول کوڈ کی بیج اگرچہ اسی    وقت ڈال دی گئی تھی جب قانون سازوں نے دفعہ 44 مرتب کرتے ہوئے یہ الفاظ تحریرکئے تھے 

The state shall endeavour to secure for citizens an uniform civil code throughout the territory of India 

"یعنی حکومت کوشش کر ے گی کہ پورے ملک میں شہریوں کے لیے یکساں شہری قانون ہو "

لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کے نفاذ کی کوششیں تیز ہوتی گئیں، اور مختلف مواقع اور تقریبات پر اسے عمل میں لانے کے ارادوں کا اظہار کیا جاتا رہا؛ چنانچہ سنہ 1972 میں مرکزی وزیر قانون مسٹر گوکھلے نے متبنی بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا :

"یہ مسودہ قانون "یونیفارم سول کوڈ " کی طرف ایک مضبوط قدم ہے " (یکساں سول کوڈ ص 12 از منت اللہ رحمانی  )

سنہ 1973 ء میں چیرمین آف لاء کمیشن مسٹر گجندر گڈکر نے یہی بات بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا :

"مسلمانوں کو یونیفارم سول کوڈ کو قبول کر لینے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر لینا چاہیے، اگر انہوں نے خوش دلی کے ساتھ یہ تجویز منظور نہیں کی تو قوت کے ذریعہ یہ قانون نافذ کیا جائے گا " ( بحوالہ : مارچ 1973 میں بنگلور میں یونیفارم سول کوڈ کے موضوع پر تقریر )

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حکومت جس یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ آخر ہے کیا؟  اور وہ قانون کہاں سے آئے گا؟  کہا جاتا ہے کہ گھر کا آدمی گھر کی بات زیادہ بہتر جانتا ہے؛ اورچور کی داڑھی میں تنکا،اس حقیقت کو بھی مسٹر پاٹسکر نے بے نقاب کر دیا ہے، انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ : 

"ہندو قوانین میں جو اصلاحات کی جارہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام آبادی پر نافذ کی جائیں گی؛  اگر ہم ایسا قانون بنانے میں کامیاب ہو گئے جو ہماری پچاسی فیصد آبادی کے لیے کافی ہو تو باقی آبادی پر نافذ کر نا مشکل نہ ہو گا،  اس قانون سے پورے ملک میں یکسانیت پیدا ہو گی" ( بحوالہ : یکساں سول کوڈ ص 11 از منت اللہ رحمانی )

مذکورہ بیانات اور اس وقت  کے حالات مسلمانوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ حکومت اور لاء کمیشن دونوں مسلم پرسنل لا کو ختم کر کے ایک ایسا نظام زندگی نافذ کر نے کے تگ و دو میں ہیں جو سرا سر ناانصافی اور فرقہ پرستی پر مبنی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ایسا قانون ہے جو شریعت محمدی سے متصادم اور مسلم پرسنل لاء سے یکسر مغایر و متضاد ہے؛  کیونکہ شریعت محمدی خدائی وفطری قانون پر مبنی ہے اور جس کی بنیاد وحی الہی اور رسالت محمدی ہے جبکہ یکساں سول کوڈ کی اساس عقل و خرد ہے یا زیادہ سے زیادہ کسی رشی منی کے ذہن میں آئے ہوئے خیالات ہیں۔

اور یہ بات بھی عالم آشکارا ہے کہ عقل انسانی کتنے ہی ترقیاتی منازل طے کر لے اپنے خالق سے آگے نہیں جاسکتی،  انسانی ذہن و دماغ کے بنائے ہوئے قوانین گرچہ ظاہرا مبنی بر مساوات ہوں لیکن باطنا وہ خبث و خود غرضی سے خالی نہیں ہوسکتے یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان سو فیصد تمام انسانی مزاج و مذاق کو اپنے قانون پر متحد اور قائم کردے، ایک عظیم اسلامی اسکالر و فلسفی ابن قيم کا بیان اس سلسلے میں کس قدر بامعنی اور درست ہے، علامہ ابن قیم لکھتےہیں :

"وكل من له مسكة عقل يعلم ان فساد العالم وخرابه إنما نشأ من تقديم الرأي على الوحي و الهوى علی العقل"( إعلام الموقعين 1/68 ) ترجمہ : "اور جسے  بھی کچھ عقل و فہم ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی بربادی اور اس کا بگاڑ رائے کو وحی پر اور خواہشات کو عقل پر مقدم کرنے اور ترجیح دینے کے سبب پیدا ہوا "

مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ کے اس پس منظر میں مسلمان کسی بھی طرح دین اور اسلامی تعلیمات سے دستبردار نہیں ہو سکتے؛  بلکہ یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرنا اور اس کے لئے جد و جہد ہمارا دینی فریضہ اور ایمانی تقاضہ ہے؛کیونکہ یہ قانون الحاد و بے دینی کا دروازہ اور مسلمانوں کے تشخص کو پائمال کرنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جو کسی بھی طرح ہمیں گوارا نہیں نہ طوعا نہ کرھا ،  اس موقع پر بطور اختتامیہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا ایک جامع و موثر اقتباس نذر قارئین کرنا چاہتا ہوں امید کہ چشم دل وا ہو اور فکر و نظر کو مہمیز لگے،  مفکر اسلام تحریر فرماتے ہیں :

" میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمان اگر مسلم پرسنل لا( شرعی عائلی قانون )  میں تبدیلی قبول کرلیں گے تو آدھے مسلمان رہ جائیں گے اور اس کے بعد خطرہ ہے کہ آدھے مسلمان بھی نہ رہیں، فلسفہ اخلاق، فلسفہ نفسیات اور فلسفہ مذاہب کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ مذہب کو اپنے مخصوص نظام معاشرت و تہذیب سے الگ نہیں کیا جاسکتا، دونوں کا ایسا فطری تعلق اور رابطہ ہے کہ معاشرت مذہب کے بغیر صحیح نہیں رہ سکتی، اور مذہب معاشرت کے بغیر مؤثر اور محفوظ نہیں رہ سکتا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسجد میں آپ مسلمان ہیں( اور مسجد میں کتنی دیر مسلمان رہتا ہے اپنے سارے شوق عبادت کے باوجود؟) اور گھر میں مسلمان نہیں ، اپنے معاملات میں مسلمان نہیں؛ اس لئے ہم اس کی بالکل اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے اوپر کوئی دوسرا نظام معاشرت نظام تمدن اور عائلی قانون مسلط کیا جائے، ہم اس کو دعوت ارتداد سمجھتے ہیں اور ہم اس کا اس طرح مقابلہ کریں گے جیسے دعوت ارتداد کا مقابلہ کیا جانا چاہیے، اور یہ ہمارا شہری، جمہوری اور آئینی حق ہے، اور ہندوستان کا دستور اور جمہوری ملک کا آئین اور مفاد نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ ہمت افزائی کرتا ہے کہ جمہوریت کی بقا اپنے حقوق اور اظہار خیال کی آزادی اور ہر فرقہ اور اقلیت کے سکون و اطمینان میں مضمر ہے ۔ ( مسلم پرسنل لاء)

Share

بدھ، 31 اگست، 2022

شادی کارڈ میں گنیش جی کے متعلق بعض باتیں لکھنے والے مسلمان اور اس کی دعوت قبول کرنے کا حکم

🍸سوال و جواب🍸 

   (مسئلہ نمبر 270)

شادی کارڈ میں گنیش جی کے متعلق بعض باتیں لکھنے والے مسلمان اور اس کی دعوت قبول کرنے کا حکم

سوال: کیا حکم ہے اس شخص کا جس نے اپنی شادی کا دعوت نامہ اس طرح تیار کیا ہے ۔

"بھگوان گنیش کی جئے ہو۔گنیش کے نام سے تمام کام پورے ہوتے ہیں، اس لئے محبت کے ساتھ ہم دعوت بھیج رہے ہیں ۔آپ قبول فرمائیں" "گنیش کے نام سے شروع، ایشور کی عظیم مہربانی سے اور بزرگوں کی دعاؤں سے خاندان میں یہ خاص موقع آیا ہے" ۔

اس کے بعد دعوت کی تفصیل ہے ۔

کیا ایسے شخص کی دعوت میں شرکت جائز ہے اور کیا خود داعی دائرہ اسلام میں باقی رہے گا یا اسے از سر نو کلمہ پڑھنا ہو گا؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ۔ (عامر جاوید فلاحی، کلکتہ)


--------------------------------------------------


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب و باللہ الصواب 

سوالنامہ میں جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ہندوانہ عقیدے اور رسم و رواج سے تعلق رکھتی ہیں؛ ان باتوں کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ مثلا گنیش کی جئے پکارنا اور گنیش کی فتح مندی کا خواہاں ہونا اور گنیش کے نام سے تمام کاموں کا پورا ہونا اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف باتیں ہیں؛ اسی طرح اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر کام خدا کے نام سے شروع کیا جائے اور سوال میں منقول بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام گنیش کے نام سے شروع کیا جارہا ہے؛ جو کہ قرآن و حدیث کی تعلیم کے خلاف ہے اور ہندوانہ طور طریقے پر دلالت کرتا ہے؛ اس لئے اگر کارڈ دینے والا شخص کوئی مناسب تاویل مثلا یہ کہ کارڈ اس کے غیر مسلم دوست نے چھپایا ہے یا یہ کہ اس کی چھپائی میں وہ شریک نہیں ہے بلکہ کسی اور کی یہ حرکت ہے، نہیں کرتا ہے تو وہ شخص دائرہ اسلام سے باہر ہے اور اس پر توبہ و استغفار اور تجدید نکاح ضروری ہے، ایسے شخص کی دعوت اس وقت تک قبول نہ کی جائے جب تک کہ وہ اپنی برائت کا اعلان نہ کردے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚📚والدلیل علی ما قلنا📚📚

(1) إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ (النمل 30)

》عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال :كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه ببسم الله الرحمن الرحيم أقطع (السنن الأربعة)

》اذا أنكر الرجل آية من القرآن أو تسخر بآية من القرآن و في "الخزانة" أو عاب كفر كذا في التاتارخانية (الفتاوى الهندية 279/2 كتاب السير موجبات الكفر زكريا جديد)

》الهازل أو المستهزي إذا تكلم بكفر استخفافا و استهزاء و مزاحا يكون كفرا عند الكل و إن كان اعتقاده خلاف ذلك (الفتاوى الهندية 287/2 كتاب السير الباب التاسع)

》إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر ووجه واحد يمنع فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر فلا ينفعه التأويل كذا في البحر الرائق (الفتاوى الهندية 293/2 كتاب السير قبيل الباب العاشر الباب التاسع زكريا جديد)

💐💐💐💐💐💐💐💐💐


كتبه العبد محمد زبیر الندوي 

مركز البحث والإفتاء الجامعة الإسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا 

مؤرخہ 13/3/1439

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

اتوار، 24 جولائی، 2022

مفتی محمد قاسم ندوی کی رازداری کی پالیسی

Privacy Policy for Mufti Mohammad Qasim Nadwi



At Mufti Mohammad Qasim Nadwi, accessible from https://muftiqasimnadwi.blogspot.com/, one of our main priorities is the privacy of our visitors. This Privacy Policy document contains types of information that is collected and recorded by Mufti Mohammad Qasim Nadwi and how we use it.

If you have additional questions or require more information about our Privacy Policy, do not hesitate to contact us.

This Privacy Policy applies only to our online activities and is valid for visitors to our website with regards to the information that they shared and/or collect in Mufti Mohammad Qasim Nadwi. This policy is not applicable to any information collected offline or via channels other than this website. Our Privacy Policy was created with the help of the Free Privacy Policy Generator.

Consent

By using our website, you hereby consent to our Privacy Policy and agree to its terms.

Information we collect

The personal information that you are asked to provide, and the reasons why you are asked to provide it, will be made clear to you at the point we ask you to provide your personal information.

If you contact us directly, we may receive additional information about you such as your name, email address, phone number, the contents of the message and/or attachments you may send us, and any other information you may choose to provide.

When you register for an Account, we may ask for your contact information, including items such as name, company name, address, email address, and telephone number.

How we use your information

We use the information we collect in various ways, including to:

  • Provide, operate, and maintain our website
  • Improve, personalize, and expand our website
  • Understand and analyze how you use our website
  • Develop new products, services, features, and functionality
  • Communicate with you, either directly or through one of our partners, including for customer service, to provide you with updates and other information relating to the website, and for marketing and promotional purposes
  • Send you emails
  • Find and prevent fraud

Log Files

Mufti Mohammad Qasim Nadwi follows a standard procedure of using log files. These files log visitors when they visit websites. All hosting companies do this and a part of hosting services' analytics. The information collected by log files include internet protocol (IP) addresses, browser type, Internet Service Provider (ISP), date and time stamp, referring/exit pages, and possibly the number of clicks. These are not linked to any information that is personally identifiable. The purpose of the information is for analyzing trends, administering the site, tracking users' movement on the website, and gathering demographic information.

Cookies and Web Beacons

Like any other website, Mufti Mohammad Qasim Nadwi uses 'cookies'. These cookies are used to store information including visitors' preferences, and the pages on the website that the visitor accessed or visited. The information is used to optimize the users' experience by customizing our web page content based on visitors' browser type and/or other information.

Google DoubleClick DART Cookie

Google is one of a third-party vendor on our site. It also uses cookies, known as DART cookies, to serve ads to our site visitors based upon their visit to www.website.com and other sites on the internet. However, visitors may choose to decline the use of DART cookies by visiting the Google ad and content network Privacy Policy at the following URL – https://policies.google.com/technologies/ads

Our Advertising Partners

Some of advertisers on our site may use cookies and web beacons. Our advertising partners are listed below. Each of our advertising partners has their own Privacy Policy for their policies on user data. For easier access, we hyperlinked to their Privacy Policies below.

Advertising Partners Privacy Policies

You may consult this list to find the Privacy Policy for each of the advertising partners of Mufti Mohammad Qasim Nadwi.

Third-party ad servers or ad networks uses technologies like cookies, JavaScript, or Web Beacons that are used in their respective advertisements and links that appear on Mufti Mohammad Qasim Nadwi, which are sent directly to users' browser. They automatically receive your IP address when this occurs. These technologies are used to measure the effectiveness of their advertising campaigns and/or to personalize the advertising content that you see on websites that you visit.

Note that Mufti Mohammad Qasim Nadwi has no access to or control over these cookies that are used by third-party advertisers.

Third Party Privacy Policies

Mufti Mohammad Qasim Nadwi's Privacy Policy does not apply to other advertisers or websites. Thus, we are advising you to consult the respective Privacy Policies of these third-party ad servers for more detailed information. It may include their practices and instructions about how to opt-out of certain options.

You can choose to disable cookies through your individual browser options. To know more detailed information about cookie management with specific web browsers, it can be found at the browsers' respective websites.

CCPA Privacy Rights (Do Not Sell My Personal Information)

Under the CCPA, among other rights, California consumers have the right to:

Request that a business that collects a consumer's personal data disclose the categories and specific pieces of personal data that a business has collected about consumers.

Request that a business delete any personal data about the consumer that a business has collected.

Request that a business that sells a consumer's personal data, not sell the consumer's personal data.

If you make a request, we have one month to respond to you. If you would like to exercise any of these rights, please contact us.

GDPR Data Protection Rights

We would like to make sure you are fully aware of all of your data protection rights. Every user is entitled to the following:

The right to access – You have the right to request copies of your personal data. We may charge you a small fee for this service.

The right to rectification – You have the right to request that we correct any information you believe is inaccurate. You also have the right to request that we complete the information you believe is incomplete.

The right to erasure – You have the right to request that we erase your personal data, under certain conditions.

The right to restrict processing – You have the right to request that we restrict the processing of your personal data, under certain conditions.

The right to object to processing – You have the right to object to our processing of your personal data, under certain conditions.

The right to data portability – You have the right to request that we transfer the data that we have collected to another organization, or directly to you, under certain conditions.

If you make a request, we have one month to respond to you. If you would like to exercise any of these rights, please contact us.

Children's Information

Another part of our priority is adding protection for children while using the internet. We encourage parents and guardians to observe, participate in, and/or monitor and guide their online activity.

Mufti Mohammad Qasim Nadwi does not knowingly collect any Personal Identifiable Information from children under the age of 13. If you think that your child provided this kind of information on our website, we strongly encourage you to contact us immediately and we will do our best efforts to promptly remove such information from our records.

Share

Translate