⚖️سوال وجواب⚖️
🖋️مسئلہ نمبر 1788🖋️
(کتاب الفرائض)
بکے ہوئے پلاٹ میں حصّہ مانگنا
سوال: آج سے بہت پہلے میں کراۓ کے مکان میں اپنی بیوی بچے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔
4 بہنوں کی شادیاں کر دی تھی بھائی کوئی اور تھا نہیں والد او والدہ میرے ساتھ ہی ریتے تھے ۔
اس وقت میں نے ایک فلیٹ خریدنے کا ارادہ کیا اور میں نے کچھ پیسے اکٹھا کیا ایسے میں میرے والد نے اپنا ایک پلاٹ جو انکی ملکیت تھا بیچ کر ایک لاکھ مجھے دے دیا کہ ملا کر گھر خرید لو۔
سو میں نے کچھ جمع پونجی اور کچھ ہاؤس بلڈنگ سے لون لے کر فلیٹ اپنی بیگم یعنی والد صاحب کے بہو کے نام لے لیا۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ والد صاحب نے یہ رقم ادھار یا قرض کے مد میں نہیں دیا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئ شرط رکھی تھی۔
پھر ہم سب یعنی میں بیوی بچے اور والدین اس میں شفٹ یوگۓ۔ جسمیں آج تک رہتے ہیں ۔ کافی عرصے بعد والد صاحب کا انتقال ہوگیا ۔ اور اب والدہ میرے ساتھ ہیں۔
مسئلہ اب یہ ہے کہ میری چھوٹی بہن اس بات کی دعویٰ دار ہے کہ وہ پلاٹ میرے باپ کا تھا ۔ اور میں اسکی وارث ہوں ۔ اسکی جو قیمت آج کی مارکیٹ میں بنتی ہے اس حساب سے انکا حصہ نکالا جاۓ۔
اب یہ ایک مشکل مرحلہ ہے ۔ مہربانی فرماکر رہنمائ فرمائیں ۔
اللہ آپکو جزاۓ خیر دے۔ آمین ۔
درخواست گذار
(ڈاکٹر سعود۔ ہومیو، ممبئی)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و باللہ التوفیق
سوالنامہ میں جو تفصیلات آنجناب نے لکھی ہیں اگر وہ بعینہٖ صحیح اور درست نہیں ہیں تو آپ کے والد نے جو ایک لاکھ روپے دییے تھے وہ بطورِ تعاون تھا جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ انہوں نے تاحیات اس کا مطالبہ آپ سے نہیں کیا، بہن کا یہ دعویٰ درست ہے کہ وہ پلاٹ اس کے باپ کا تھا لیکن جب باپ نے اپنی زندگی میں ہی اسے بیچ دیا اور اپنے ارادہ و اختیار سے جہاں مناسب سمجھا خرچ کردیا یا جس کو دینا تھا دے دیا تو اب وفات کے بعد اس کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ میراث صرف متروکات میں جاری ہوتی ہے۔ چنانچہ اس فلیٹ کے آپ حقدار ہیں اور مدعیہ ناحق ستا رہی ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
📚والدليل على ما قلنا 📚
للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)
لأن التركة في الاصطلاح ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من المال. (رد المحتار على الدر المختار ٤٨٣/١٠ كتاب الفرائض)
إن الأصل الأول فی نظام المیراث الإسلامی: أن جمیع ما ترک المیت من أملاکہ میراث للورثۃ۔ (تکملۃ فتح الملہم اشرفیہ دیوبند ۲/۴)
"التبرع بذل المكلف مالا او منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالباً" (الموسوعة الفقهية ٦٥/١٠ باب التبرع)
"اتفقت الأمة على مشروعية التبرع، و لم ينكر على ذلك أحد" (الموسوعة الفقهية ٦٦/١٠)
كتبه العبد محمد زبير الندوي
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 17/7/1443
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے


