کتاب الفرائض لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کتاب الفرائض لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 6 ستمبر، 2022

بکے ہوئے پلاٹ میں حصّہ مانگنا

⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1788🖋️

(کتاب الفرائض)

بکے ہوئے پلاٹ میں حصّہ مانگنا

سوال: آج سے بہت پہلے میں کراۓ کے مکان میں اپنی بیوی بچے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ 

4 بہنوں کی شادیاں کر دی تھی بھائی کوئی اور تھا نہیں والد او والدہ میرے ساتھ ہی ریتے تھے ۔ 

اس وقت میں نے ایک فلیٹ خریدنے کا ارادہ کیا اور میں نے کچھ پیسے اکٹھا کیا ایسے میں میرے والد نے اپنا ایک پلاٹ جو انکی ملکیت تھا بیچ کر ایک لاکھ مجھے دے دیا کہ ملا کر گھر خرید لو۔

سو میں نے کچھ جمع پونجی اور کچھ ہاؤس بلڈنگ سے لون لے کر فلیٹ اپنی بیگم یعنی والد صاحب کے بہو کے نام لے لیا۔ 

یہ بتانا ضروری ہے کہ والد صاحب نے یہ رقم ادھار یا قرض کے مد میں نہیں دیا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئ شرط رکھی تھی۔ 

پھر ہم سب یعنی میں بیوی بچے اور والدین اس میں شفٹ یوگۓ۔ جسمیں آج تک رہتے ہیں ۔ کافی عرصے بعد والد صاحب کا انتقال ہوگیا ۔ اور اب والدہ میرے ساتھ ہیں۔

مسئلہ اب یہ ہے کہ میری چھوٹی بہن اس بات کی دعویٰ دار ہے کہ وہ پلاٹ میرے باپ کا تھا ۔ اور میں اسکی وارث ہوں ۔ اسکی جو قیمت آج کی مارکیٹ میں بنتی ہے اس حساب سے انکا حصہ نکالا جاۓ۔ 

اب یہ ایک مشکل مرحلہ ہے ۔ مہربانی فرماکر رہنمائ فرمائیں ۔ 

اللہ آپکو جزاۓ خیر دے۔ آمین ۔ 

درخواست گذار 

(ڈاکٹر سعود۔ ہومیو، ممبئی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

سوالنامہ میں جو تفصیلات آنجناب نے لکھی ہیں اگر وہ بعینہٖ صحیح اور درست نہیں ہیں تو آپ کے والد نے جو ایک لاکھ روپے دییے تھے وہ بطورِ تعاون تھا جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ انہوں نے تاحیات اس کا مطالبہ آپ سے نہیں کیا، بہن کا یہ دعویٰ درست ہے کہ وہ پلاٹ اس کے باپ کا تھا لیکن جب باپ نے اپنی زندگی میں ہی اسے بیچ دیا اور اپنے ارادہ و اختیار سے جہاں مناسب سمجھا خرچ کردیا یا جس کو دینا تھا دے دیا تو اب وفات کے بعد اس کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ میراث صرف متروکات میں جاری ہوتی ہے۔ چنانچہ اس فلیٹ کے آپ حقدار ہیں اور مدعیہ ناحق ستا رہی ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا 📚

للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)

لأن التركة في الاصطلاح ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من المال. (رد المحتار على الدر المختار ٤٨٣/١٠ كتاب الفرائض)

إن الأصل الأول فی نظام المیراث الإسلامی: أن جمیع ما ترک المیت من أملاکہ میراث للورثۃ۔ (تکملۃ فتح الملہم اشرفیہ دیوبند ۲/۴)

"التبرع بذل المكلف مالا او منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالباً" (الموسوعة الفقهية ٦٥/١٠ باب التبرع)

"اتفقت الأمة على مشروعية التبرع، و لم ينكر على ذلك أحد" (الموسوعة الفقهية ٦٦/١٠)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 17/7/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

پیر، 15 اگست، 2022

میراث کی تقسیم

کتاب الفرائض



 *سوال وجواب *

مسئلہ نمبر 1778 

(کتاب الفرائض)


سوال: ایک شخص کا انتقال ہوگیا اور اس کی پانچ بیٹی اور ایک بیٹا اور دو بیوی ہیں ایک بیوی کا انتقال میت کی زندگی میں ہوگیا اور انتقال ہونے والی بیوی سے تمام اولاد ہے اور دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے اور دوسری بیوی حیات ہے میراث کی تقسیم کس طرح ہوگی.

برائے کرم جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں. (عبد المتین لکھنؤ یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


مرحوم کے جمیع ترکہ سے ان کی تکفین و تجہیز کے اخراجات نکالنے قرضوں کی ادائیگی کرنے اور وصیت اب پوری کرنے (بشرطیکہ وہ مقروض ہوں یا انہوں نے وصیت کی ہو) کے بعد پوری جائیداد کے آٹھ حصے کردیں ایک حصّہ بیوی کو دے دیں اور باقی سات حصوں میں سے للذکر مثل حظ الانثیین کے اصول کے تحت لڑکے کو دو حصے اور ہر لڑکی کو ایک ایک حصّہ دیں اس طرح ان کی میراث شرعی نقطۂ نظر سے صحیح صحیح تقسیم ہوجائے گی۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


*والدليل على ما قلنا *


( يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء 11)


( وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (النساء 12)


تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة الأول يبدأ بتكفينه و تجهيزه من غير تبذير ز لا تقتير ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ثم تنفذ وصاباه من ثلث ما بقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة. (السراجي في الميراث ص ٣ تا ٥)


*كتبه العبد محمد زبير الندوي*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 7/7/1443

رابطہ 9029189288


*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

Share

Translate