اتوار، 4 ستمبر، 2022

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) کرانا کیسا ہے

 📚سوال و جواب📚

  (مسئلہ نمبر 267) 

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) 
کرانا کیسا ہے

سوال:کیا فرماتے ہیں اہل الذکر کہ موجودہ دور میں اگر اک عام تاجر / یا عام انسان حکومت کے لاگو تمام قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے تو بقول ٹیکس آڈیٹرس کے اس کو اپنی کمائی کا نصف فیصد حصہ دینا پڑتا ہے۔ جن اشیاء کو بازار سے خرید کر دکان لاتے ہیں تو بازار سے لیکر اپنی دکان تک جتنے ذرائع سبب بنتے ہیں سب کے اپنے ٹیکس ہوتے ہیں جس کو ادا کرتے کرتے یقینا مایوسی حاصل ہوتی ہے۔ 

دیگر اہل علم کے پرانے فتاوی اس طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ جو سود کی رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتی ہے اس کو اس ٹیکس کی رقم میں استعمال کرلیا جاسکتا ہے اگر واقعی وہ ٹیکس غیرضروری وجبراً لیا جاتا ہو۔ 

تو بندہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جن لوگوں کے اکاؤنٹ ہی نہ ہوں یا جن کے اکاؤنٹ میں کوئی سودی رقم جمع ہی نہ ہوتی ہو کیا وہ مثلاً ایک لاکھ روپئے فکسڈ ڈپازٹ کرکے جو رقم سود کی سالانہ/ماہانہ حاصل ہو اس کو ان غیر ضروری ٹیکس میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟

اگر دس لاکھ روپئے کی کار خریدی جائے تو ایک لاکھ اسی ہزار روپئے صرف ٹیکس دینا پڑتا ہے۔  یعنی ۱۸۰۰۰۰ روپئے آر ٹی أو والے لیتے ہیں اب ایسی ہزاروں چیزیں ہیں جن پر محنت کا ایک بڑا سرمایہ بطور ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ 

کیا اس مجبوری میں فکسڈ ڈپازٹ سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ یا اور کوئی شکل أنحضرت کے یہاں ہو تو براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ (بندہ مدثر أحمد، بنگلور) 

--------------------------------------------------

♤بسم اللہ الرحمن الرحیم♤ 

الجواب بسم ملہم الصواب

فکسڈ ڈپازٹ جس میں ایک مخصوص رقم بینک میں جمع کرادی جاتی ہے اور ماہانہ یا سالانہ اس کا سود ملتا ہے اور مدت پوری ہونے پر پوری رقم بھی مل جاتی ہے؛ یہ صورت سراسر سود ہے اور سود حاصل کرنے ہی کی غرض سے یہ ڈپازٹ کرایا جاتا ہے، رقم کی حفاظت اس کا مقصود نہیں ہوتا؛ اسی لئے سود کی شرح (interest percent) اس میں زیادہ ہوتا ہے اور سیونگ اکاؤنٹ کے مقابلے اس میں زیادہ سود ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ سود لینا اور دینا شریعت اسلامی میں ناجائز و حرام ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں اور لعنتیں آئی ہیں اس لئے فکسڈ ڈپازٹ اس مقصد کے لئے کرانا ناجائز ہے (۱) 

ہاں یہ بات درست ہے؛ کہ فقہائے اسلام نے ناجائز اور جبری ٹیکس میں بینک سے حاصل ہونے والی سودی رقم ادا کرنے کی اجازت دی ہے(۲) مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ سیونگ اکاونٹ میں پیسے کی حفاظت کی غرض سے جمع شدہ رقم پر ملی ہوئی سودی رقم ادا کرنا ہے؛ ناکہ صرف سود ہی کی حصول یابی کے مقصد سے رقم بینک میں جمع کرنا اور اس سے سود حاصل کرنا ہے؛ چنانچہ اس سلسلے میں متعدد کتابیں دیکھنے کے باوجود بھی کہیں یہ نہیں مل سکا کہ ٹیکس ادا کرنے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ کرانا کسی نے جائز قرار دیا ہو؛ بلکہ اس کے برخلاف متعدد اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ صرف ٹیکس ادا کرنے یا سود میں سود کی رقم دینے کے لئے سودی اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے(۳) اسی طرح فقہاء اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جب کسی معاملے میں مصلحت اور مفسدہ دونوں جمع ہوجائیں تو مفسدہ کو دور کیا جائے گا اور مصلحت کا خیال نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ شریعت اسلامی نے مامورات کے مقابلے منہیات میں زیادہ شدت سے کام لیا ہے(۴) چنانچہ اس اصول کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ بجائے ٹیکس کی رقم ادا کرنے کے لئے سودی رقم لینے کا معاملہ ہی نہ کیا جائے۔

اسلئے آپ نے جو بات سوال نامے میں لکھی ہے اس کی وجہ سے بھی فکسڈ ڈپارٹ کرانا اور سود حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا؛ بلکہ سود کے دائرہ میں ہونے کی وجہ سے اس سے اجتناب کرنا اور دور رہنا واجب و ضروری ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔ 


📚📚والدلیل علی ما قلنا📚📚

(۱) وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة 275)

》حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ. (حدیث نمبر 4177)

》كل قرض جر نفعا حرام اي اذا كان مشروطا (رد المحتار على الدر المختار 395/7 كتاب البيوع زكريا)

(۲) الحاصل انه أن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم والا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق بنية صاحبه (رد المحتار على الدر المختار 223/7 كتاب البيوع زكريا)

》و يردونه على اربابه إن عرفوهم والا يتصدقوا به لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد (البحر الرائق شرح كنز الدقائق   201/8 كتاب الكراهية فصل في البيع كوءتة)

》والسبل في المعاصي ردها،  وذلك برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه و بالتصدق إن لم يعرفه ليحصل إليه نفع ماله  (الفتاوى الهندية كتاب الكراهية الباب الخامس عشر 249/5)

》و أما إذا كان عند رجل مال خبيث فإما إن ملكه بعقد فاسد أو حصل له بغير عقد و لا يمكنه أن يرده إلى مالكه و يريد ان يدفع مظلمة عن نفسه فليس له حيلة إلا أن يدفعه إلى الفقراء لكن لا يريد بذلك الأجر والثواب و لكن يريد دفع المعصية عن نفسه (بذل المجهود 37/1 كتاب الطهارة باب فرض لوضوء د)

(۳) کتاب الفتاوی 316/5۔ فتاوی قاسمیہ 741/20

(۴) درء المفاسد أولى من جلب المصالح اي اذا تعارض مفسدة و مصلحة قدم دفع المفسدة لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتناءه بالمامورات (الاشباه والنظائر لابن نجيم المصري ص 264، شرح المجلة 32/1 المادة 30)

✍✍✍✍✍✍✍✍✍

✍ العبد محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء الجامعة الإسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا 

مؤرخہ 10/3/1439 

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share
نام۔ محمد قاسم خان دینی تعلیم: حفظ قرآن ۔ دارالعلوم سلیمانیہ میراروڈ ممبئی۔ عالمیت ابتدائی تعلیم: مدرسہ فلاح المسلمین امین نگر تیندوا راۓ بریلی۔ عالمیت فراغت: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔ افتاء: المعھد العلمی النعمانی بہرائچ اترپردیش۔ ویب سائٹ کا مقصد دینی اور دنیاوی تعلیم سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ اس کار خیر میں آپ ہمارا ساتھ دیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا فی الدنیا والآخرۃ

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thank You So Much

Translate