⚖سوال و جواب⚖
🕋مسئلہ نمبر 993🕋
(کتاب الحج باب الرمی)
غائب شخص کی طرف سے رمی کرنے کا حکم
سوال: اگر کوئی بوڑھا شخص حج کے ایام میں منی میں غائب ہو جائے تو کیا رمی جمار میں غائب شخص کی طرف سے نیابت درست ہے؟ (محمد ساجد ندوی جالون یو پی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون اللہ الوہاب
رمی جمار میں خود سے رمی کرنا ضروری ہے کسی اور سے رمی کرانا درست نہیں ہے الا یہ کہ ایسی مجبوری یا بیماری ہو کہ خود سے رمی نہ کرسکے، ایسی صورت میں کسی کو نائب بنا کر رمی کرائی جاسکتی ہے، مذکورہ بالا صورت میں وہ شخص بیمار یا معذور نہیں ہے؛ بلکہ غائب ہوگیا ہے اور غائب شخص عموماً لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ جمرات تک پہنچ جاتا ہے اس لئے وہ خود کر سکتا ہے، چنانچہ غائب شخص کی طرف سے رمی کرنا درست نہیں ہوگا، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ جمرات کو پہنچ کر بذات خود رمی کرلے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
📚والدليل على ما قلنا📚
(١) '' السادس: أن یرمي بنفسه، فلا تجوز النیابة فیه عند القدرة. و الرجل و المرأة في الرمي سواء، إلا أن رمیها في اللیل أفضل، فلاتجوز النیابة عن المرأة بغیر عذر. وتجوز عند العذر، فلو رمی عن مریض بأمره أو مغمی علیه و لو بغیر أمره أو صبي أو معتوه أو مجنون جاز. والأولی أن یرمي السبعة أولاً عن نفسه، ثم عن غیره. و لو رمی بحصاتین إحداهما عن نفسه والأخری من غیره جاز، ویکره''. (غنیة الناسك،ص:۲۴۳، فصل في شرائط الرمي)
كتبه العبد محمد زبير الندوي
دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 29/3/1441
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

