ہفتہ، 20 اگست، 2022

طلوعِ آفتاب کا مسجد سے اعلان کرنے کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1711🖋️

(کتاب الصلاۃ باب أوقات الصلاۃ)

طلوعِ آفتاب کا مسجد سے اعلان کرنے کا حکم



سوال: ہمارے گاؤں جامع مسجد میں برسوں سے نماز فجر کے بعد جس وقت سورج طلوع ہوجاتاہے تو مسجد کے اوپر کے مائیک سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اب اداء نماز کا وقت نہیں رہا، اب سے بیس منٹ بعد قضا نماز پڑھی جائے، یہ اعلان کرنا کیسا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے دور میں کیا ایسا ہوتا تھا؟ دلیل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ (ذاکر حسین ندوی، سہارنپور یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


نماز کے وقت کے اختتام کا اس طرح اعلان کرنے کے بارے میں کوئی آیت یا حدیث کی روایت اور دور صحابہ و تابعین کی کوئی سنت نہیں ملتی ہے، یہ عمل متوارث اور متواتر عمل کے خلاف ہے اور امت پر کئی اعتبار سے مشقت کا باعث ہے، احادیث مبارکہ میں اس امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے طریقۂ کار پر چلنے کی تاکید کی گئی ہے اور دین میں اپنی طرف سے اضافہ کو بدعت اور ضلالت سے تعبیر کیا گیا ہے(١) یہ طریقہ واجب الترک ہے اس میں کئی مفاسد پائے جاتے ہیں، دار الافتاء دارالعلوم دیوبند نے اپنے ایک فتوے میں بالتفصیل اس کی قباحت اور مفاسد کا ذکر کیا ہے جو بعینہٖ پیش خدمت ہے امید ہے کہ صحیح بات آجانے کے بعد پرانی روش میں تبدیلی آجائے گی:


" یہ اعلان لائق ترک ہے اس میں ایک مفسدہ یہ ہے کہ اس اعلان کو سن کر بعض لوگ نماز سے رک جاتے ہیں اور دوسرے کسی کام میں مشغول ہوکر بالکل ہی نماز کو ترک کردیتے ہیں؛ حالانکہ بالکلیہ ترک سے ایسے لوگوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ طلوع ہوتے ہوئے پڑھ لیتے؛ کیونکہ ہمارے نزدیک اگرچہ نماز نہیں ہوتی مگر ایک قول بعض حضرات کا یہ بھی ہے کہ نماز درست ہوجاتی ہے، پس عوام کو نماز سے نہ روکا جائے، فتاوی شامی اور البحر الرائق وغیرہ سے اسی طرح ثابت ہے، ایک مفسدہ یہ ہے کہ بعض مرتبہ گھڑی گھنٹوں جنتریوں اور نقشوں میں فرق ہوتا ہے اعلان سے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ نماز کا وقت ختم ہوگیا مگر حقیقةً وقتِ ادا باقی ہوتا ہے یعنی اتنا وقت ہوتا ہے کہ جلدی سے فرض پڑھ لیے جاتے تو وہ ادا ہی ہوتے ایسی صورت میں اعلان سن کر جتنے لوگ نماز سے رکیں گے ان کی نمازوں کے قضا ہونے کا سبب یہ اعلان ہوجائے گا اس لیے بھی یہ اعلان قابل ترک ہے، نیز سلف صالحین سے اس کا ثبوت نہیں ملتا حالانکہ جس زمانہ میں گھڑی گھنٹے وغیرہ عام نہ تھے یا بالکل نہ تھے اس وقت تو اِس اعلان کی زیادہ ضرورت تھی مگر پھر بھی اس کو اختیار نہ کیا گیا اور آج تو گھڑی گھنٹوں کی بہتات ہے، پس ہرنمازی کو خود ہی وقت ادا کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ ایک خرابی یہ ہے کہ اعلان سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں فجر کی نماز کے قضا کرنے کی فضا بنتی جارہی ہے الغرض ان جیسی خرابیوں کی وجہ سے ا علان کرنا صحیح نہیں ہے"۔

فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب


📚والدليل على ما📚

(١) فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ". (سنن أبي داود رقم الحديث 4607 أَوْلُ كِتَابِ السُّنَّةِ  | بَابٌ : فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)

{كل بدعة ضلالة} والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه، وأما ما كان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا وإن كان بدعة لغة (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث 4607 أَوْلُ كِتَابِ السُّنَّةِ  | بَابٌ : فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)

(٢) دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: 58841


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 27/4/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share
نام۔ محمد قاسم خان دینی تعلیم: حفظ قرآن ۔ دارالعلوم سلیمانیہ میراروڈ ممبئی۔ عالمیت ابتدائی تعلیم: مدرسہ فلاح المسلمین امین نگر تیندوا راۓ بریلی۔ عالمیت فراغت: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔ افتاء: المعھد العلمی النعمانی بہرائچ اترپردیش۔ ویب سائٹ کا مقصد دینی اور دنیاوی تعلیم سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ اس کار خیر میں آپ ہمارا ساتھ دیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا فی الدنیا والآخرۃ

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thank You So Much

Translate

بلاگ آرکائیو