کتاب الحظر و الاباحہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کتاب الحظر و الاباحہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 10 ستمبر، 2022

ٹول ٹیکس (Toll Tex) لینے دینے کا شرعی حکم

 ⚖سوال و جواب⚖

🛣مسئلہ نمبر 834🛣

(کتاب الحظر و الاباحہ، متفرقات)

 ٹول ٹیکس (Toll Tex) 

لینے دینے کا شرعی حکم 

 سوال: سڑکوں پر ایک نظام ہوتا ہے جہاں ہم اپنی گاڑی گذارنا چاہیں تو کچھ پیسے ڈالنے پڑتے ہیں جیسے واشی میں آپ نے دیکھا ہوگا، یہ نظام تقریبا تمام شہروں میں ہوتا ہے اگر ہم اپنے گاؤں سے پٹنہ جانا چاہیں تو تین جگہ اس طرح ٹیکس بھرنا پڑتا معلوم یہ کرنا ہیکہ یہ ظالمانہ ٹیکس میں شامل ہے یا نہیں؟ (مفتی اجمل صاحب قاسمی، اندھیری ممبئی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء اسلام کے زمانے میں عوامی ضروریات کی تکمیل، غرباء ومساکین کی تمویل، اور سڑک راستے پل وغیرہ کی تعمیر کے لئے بیت المال کا نہایت اہم اور کارآمد شعبہ قائم تھا، جس سے مذکورہ بالا تمام ضروریات کی تکمیل ہوتی رہتی تھی؛ بیت المال میں جو رقوم یا چیزیں آتی تھیں وہ کئی مدات سے آتی تھیں مثلاً خمس غنائم، مال فیئ، خمس معادن و رکاز، خراج و جزیہ اور ضوائع یعنی لاوارث مال اور لاوارث کی میراث وغیرہ سے؛ لیکن اب خلافت یا صحیح اسلامی حکومت کا زمانہ رہا نہیں؛ اس لیے وہ نظام بھی باقی نہیں ہے، اس دور میں مذکورہ بالا ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حکومتوں نے ٹیکس کا نظام قائم کر رکھا ہے اور ٹیکس سے حاصل شدہ رقوم سے یہ ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

اب ظاہر ہے کہ اگر ٹیکس مناسب انداز میں لیا جائے جس سے عوام کو نقصان نہ ہو اور ساری ضروریات کی تکمیل بھی ہوتی رہے تو اس میں حرج نہیں؛ لیکن اگر ٹیکس کے نام پر عوام کو لوٹنے کی کوشش کی جائے اور ٹیکس کی شرح اس قدر زیادہ کردی جائے کہ عوام اسے ظلم تصور کرے اور ظلم سے تعبیر کرے جیسا کہ بہت سے ملکوں میں انکم ٹیکس کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ اسے ظالمانہ ٹیکس کہنے میں یقینا کوئی اشکال نہیں تو ایسے ٹیکس بہرحال غلط ہیں چنانچہ انسان سے جہاں تک ممکن ہو بسہولت ان ٹیکسوں سے اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کرسکتا ہے، اس پر شرعاً کوئی ملامت نہیں ہے۔

جہاں تک تعلق ہے ٹول ٹیکس (Toll Tex) کا تو چونکہ یہ سڑک اور پل وغیرہ کی تعمیر میں آئے ہوئے اخراجات کو نکالنے کے مقصد کے لیے لگایا جاتا ہے، فی نفسہ یہ ٹیکس لگانا اور لینا دینا درست ھے، بطور خاص اس زمانے میں جبکہ ہائیوے اور فور لائن، سِکس لائن روڈ بن رہے ہیں اور بسااوقات بڑے بڑے پل اور برج بنانے پڑتے ہیں ظاہر ہے کہ اس میں بے تحاشا اخراجات آتے ہیں، ان اخراجات کی تکمیل کے لئے اس سے بہتر اور آسان دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا کہ اس راستے پر گزرنے والی گاڑیوں اور موٹر کاروں سے مناسب رقم وصول کی جائے، دوسری بات یہ بھی مد نظر رہے کہ کہ ٹول ٹیکس جب لگایا جاتا ہے تو تمام اخراجات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک متعینہ مدت کے لیے لگایا جاتا ہے اور جیسے ہی وہ رقم وصول ہوجاتی ہے قانونی طور پر اس ٹول کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے؛ حتیٰ کہ اگر ختم نہ کیا جائے تو عوام کو حق حاصل ہوتا ہے کہ احتجاجا اسے ختم کرائیں، احقر راقم الحروف کے علم میں ہے کہ ہمارے شہر کے ایک ٹول کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی کچھ دن قائم رہا تو عوام نے زبردستی اسے ختم کرایا؛ اس لیے حکومت کا اپنے اخراجات کے بقدر مناسب ٹیکس لینے میں حرج نہیں اور عوام کو بھی چاھیے کہ بخوشی وہ ٹیکس ادا کریں، ہاں اگر کہیں ٹیکس کی شرح اس قدر زیادہ ہو کہ عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو تو یقیناً وہ ظلم ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ( الدر المختار مع الشامی ۹/۲۹۱، کتاب الغصب ، مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر)

قال اللہ تعالیٰ : وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ۔ (سورۃ البقرۃ : آیت،۱۹۵)

عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ ﷺ: لیس للمؤمن أن یذل نفسہ، قالوا : یا رسول اللہ! وکیف یذل نفسہ؟ قال: یتعرض من البلاء لما لایطیق۔ (مسند البزار، مکتبہ العلوم والحکم ۷/۲۱۸، رقم: ۲۷۹۰)

ﻭ‍ﻃ‍‍ﺎ‍ﻋ‍‍ﺔ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺈ‍ﻣ‍‍ﺎ‍ﻡ‍ ‍ﻟ‍‍ﺎ‍ﺯ‍ﻣ‍‍ﺔ ‍ﻛ‍‍ﺬ‍ﺍ ‍ﻃ‍‍ﺎ‍ﻋ‍‍ﺘ‍‍ﻪ‍; ‍ﻟ‍‍ﺄ‍ﻧ‍‍ﻬ‍‍ﺎ ‍ﻃ‍‍ﺎ‍ﻋ‍‍ﺔ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺈ‍ﻣ‍‍ﺎ‍ﻡ‍, ‍ﺇ‍ﻟ‍‍ﺎ ‍ﺃ‍ﻥ‍ ‍ﻳ‍‍ﺄ‍ﻣ‍‍ﺮ‍ﻫ‍‍ﻢ‍ بمعصية (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٩٩/٧ دار الكتب العلميه بيروت)

طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجبة (رد المحتار على الدر المختار ٥٣/٣ كتاب الصلاة باب العيدين)

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء والتحقيق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 17/10/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعہ، 9 ستمبر، 2022

کیا جسم اطہر سے متصل زمین عرش و کرسی سے افضل ہے

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1396🖋️

(کتاب الحظر و الاباحہ، متفرقات)

کیا جسم اطہر سے متصل زمین عرش و کرسی سے افضل ہے

سوال: کیا یہ محقق بات ہے کہ مدینہ طیبہ کی وہ زمین جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے متصل ہے وہ ساری کائنات سے افضل ہے حتی (بیت اللہ شریف، آسمان، عرش معلی، کرسی، جنت) سے بھی افضل ہے اور اس کے بعد بیت اللہ شریف کا مقام ہے ؟ (عبید اللہ، بلوچستان)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا سوال کا کوئی واضح جواب قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے کہ عرش و کرسی اور بیت اللہ شریف افضل ہے یا وہ مقام جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں وہ مقام افضل ہے؟ اس تقابل سے متعلق صراحتاً کوئی آیت یا روایت موجود نہیں ہے، نیز اس کا تعلق عقیدہ سے بھی نہیں ہے، بس یہ بات ایک مسئلہ تک محدود ہے، اس وجہ سے علماء کرام کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے، بعض علماء کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے مقام کو دیگر چیزوں کے مقابلے میں افضل نہیں سمجھتے ہیں؛ جبکہ أکثر علماء کرام جن میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مکاتبِ فکر کے صف اول کے علماء شامل ہیں، ان کی تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر جس مٹی سے مس ہے وہ مقام سب سے افضل ہے۔ اس طور پر گویا تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس کی افضلیت پر متفق ہیں، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ پر علماء کا اتفاق ہے، اس سلسلے میں امام مالک، ابن عقیل، ابنِ قیم، علامہ خفاجی، قاضی عیاض مالکی، امام نووی، تاج الدین فاکہی، تاج الدین سبکی، علامہ محمد برنسی، امام سخاوی، جلال الدین سیوطی، علامہ ماوردی، علامہ رملی، علامہ مناوی، علامہ حصکفی، امام شامی سب کی واضح عبارات موجود ہیں دلائل کے ضمن میں سب کی عبارات دیکھی جاسکتی ہیں(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) ’’وَكَانَ مَالِكٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ مَنْ فَضَّلَ الْمَدِينَةَ عَلَى مَكَّةَ إِنِّي لَا أَعْلَمُ بُقْعَةً فِيهَا قَبْرُ نَبِيٍّ مَعْرُوفٍ غَيْرَهَا‘‘ (التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيد: ج۲، ص۲۸۹)

’’قاله ابن عبد البر وغيره، وأفضل بقاعها الكعبة المشرفة ثم بيت خديجة بعد المسجد الحرام، نعم التربة التي ضمت أعضاء سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من جميع ما مر حتى من العرش‘‘ (البجيرمی على الخطيب: ج۱، ص۱۰۱)

’’ الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْ مُجَرَّدِ الْحُجْرَةِ، فَأَمَّا وَالنَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِيهَا؛ فَلَا وَاَللَّهِ وَلَا الْعَرْشُ وَحَمَلَتُهُ وَالْجَنَّةُ، لِأَنَّ بِالْحُجْرَةِ جَسَدًا لَوْ وُزِنَ بِهِ لَرَجَحَ‘‘ (كتاب الفنون لابن عقيل بحوالہ؛ بدائع الفوائدلابن القیم :ج۳، ص۶۵۵؛ الروض المربع شرح زاد المستقنع: ص۲۶۹؛ الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف: ج۳، ص۵۶۲)

’’قال الشيخ الخفَّاجي ينقل عن الإمام السبكي وسلطان العلماء العز ابن عبد السلامويقرهم على قولهم۔ قال القاضي عياض اليحصبي في كتابه الشفا: ولا خلاف أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض۔ فعلَّق عليه الشيخ الخفَّاجي۔ بل أفضل من السموات والعرش والكعبة كما نقله السبكي رحمة الله‘‘ (الشفا بتعريف حقوق المصطفىٰ للقاضی عياض: ج۱، ص۶۸۳؛ نسيم الرياض فی شرح شفاء القاضی عياض: ج۳، ص۵۳۱؛ الضياء الشمسی على الفتح القدسی شرح ورد السحر للبكری: ج۲، ۲۴۱؛ سلسلة المحاضرات العلمية والتربوية: ج۱، ص۸۵)

’’قال القاضي عياض: أجمعوا على أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض، وأن مكة والمدينة أفضل بقاع الأرض. (فتح المنعم شرح صحيح مسلم: ج۵، ص ۴۶۸)

قَالَ النَّوَوِيُّ: الْجُمْهُورُ عَلَى تَفْضِيلِ السَّمَاءِ عَلَى الْأَرْضِ أَيْ مَا عَدَا مَا ضَمَّ الْأَعْضَاءَ الشَّرِيفَةَ. (مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳)

’’وقال التاج الفاكهي: قالوا: لا خلاف أن البقعة التي ضمت الأعضاء الشريفة أفضل بقاع الأرض على الإطلاق حتى موضع الكعبة‘‘۔ (وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۸)

’’أَلَا تَرَى إلَى مَا وَقَعَ مِنْ الْإِجْمَاعِ عَلَى أَنَّ أَفْضَلَ الْبِقَاعِ الْمَوْضِعُ الَّذِي ضَمَّ أَعْضَاءَهُ الْكَرِيمَةِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ، وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَفْضَلُ مِنْ الْكَعْبَةِ وَغَيْرِهَا‘‘۔  (المدخل لابن الحاج: ص۲۵۷)

’’قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟ فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل، وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح‘‘۔ (بدائع الفوائد :ج۱، ص۱۰۶۵)

’’كَمَا حَكَى الْقَاضِي عِيَاضٌ الْإِجْمَاعَ عَلَى ذَلِكَ أَنَّ الْمَوْضِعَ الَّذِي ضَمَّ أَعْضَاءَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا خِلَافَ فِي كَوْنِهِ أَفْضَلَ وَأَنَّهُ مُسْتَثْنًى مِنْ قَوْلِ الشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَفِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ مَكَّةَ أَفْضَلُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَنَظَمَ بَعْضُهُمْ فِي ذَلِكَ: وَرَأَيْت جَمَاعَةً يَسْتَشْكِلُونَ نَقْلَ هَذَا الْإِجْمَاعِ‘‘۔ (فتاوى السبكی: ج۱، ص۲۷۹)

’’واجمعوا علی ان الموضع الذی ضم اعضاء الرسول المصطفیٰﷺ المشرفۃ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ کما قالہ القاضی عیاض وابن عساکر‘‘۔  (تحقيق النصرة بتلخيص معالم دار الهجرة: ص۱۰۴)

’’وقد احتج أبو بكر الأبهري المالكي بأن المدينة أفضل من مكة بأن النبي صلى الله عليه وسلم مخلوق من تربة المدينة وهو أفضل البشر، فكانت تربته أفضل الترب انتهى وكون تربته أفضل الترب لا نزاع فيه‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری: ج۱۳، ص۳۲۰)

’’قال الشيخ مُحَمَّد البرنسي الفاسي الْمَعْرُوف بزرُّوق المالكي في شرح الرسالة: وقال ابن وهب وابن حبيب بالعكس بعد إجماعهم على أن موضع قبره عليه الصلاة والسلام أفضل بقاع الأرض قُلْتُ وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ مَوْضِعُ الْبَيْتِ بَعْدَهُ كَذَلِكَ، وَلَكِنْ لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ لِأَحَدٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ فَانْظُرْهُ‘‘ (شرح زروق على متن الرسالة: ص ۹۹۲)

’’قال الإمام السخاوي في التحفة اللطيفة: مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته صلى الله عليه وسلم، حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة، بل على العرش، فيما صرح به ابن ععقيل من الحنابلة۔ ولا شك أن مواضع الأنبياء وأرواحهم أشرف مما سواها من الأرض والسماء، والقبر الشريف أفضلها، لما تتنزل عليه من الرحمة والرضوان والملائكة، التي لا يعملها إلا مانحها، ولساكنه عند الله من المحبة والاصطفاء ما تقصر العقول عن إدراكه‘‘۔ ( التحفة اللطيفة فی تاريخ المدينة الشريفة السخاوی: ج۱، ص۴۲)

’’قال جلال الدین سیوطی رحمه الله: قَالَ الْعلمَاء مَحل الْخلاف فِي التَّفْضِيل بَين مَكَّة وَالْمَدينَة فِي غير قَبره صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أما هُوَ وَأفضل الْبِقَاع بِالْإِجْمَاع بلة أفضل من الْكَعْبَة بل ذكر ابْن عقيل الْحَنْبَلِيّ أَنه أفضل من الْعَرْش‘ (الخصائص الكبرى للإمام السيوطی: ج۲، ص۳۵۱)

’’قال شمس الدين الشامي الشافعي في سبل الهدى والرشاد: قال القاضي عياض بعد حكاية الخلاف: ولا خلاف أن موضع قبره- صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض انتهى۔ ولا ريب أن نبينا- صلى الله عليه وسلم- أفضل المخلوقات، فليس في المخلوقات على الله تعالى أكرم منه، لا في العالم العلويّ ولا في العالم السفليّ كما تقدم في الباب الأول من الخصائص‘‘۔ (سبل الهدى والرشاد فی سيرة خير العباد: ج۱۲، ۳۵۳)

نَقَلَ عِيَاضٌ وَقَبْلَهُ أَبُو الْوَلِيدِ وَالْبَاجِيُّ وَغَيْرُهُمَا الْإِجْمَاعَ عَلَى تَفْضِيلِ مَا ضَمَّ الْأَعْضَاءَ الشَّرِيفَةَ عَلَى الْكَعْبَةِ بَلْ نَقَلَ التَّاجُ السُّبْكِيُّ عَنْ ابْنِ عَقِيلٍ الْحَنْبَلِيِّ أَنَّهَا أَفْضَلُ مِنْ الْعَرْشِ، وَصَرَّحَ التَّاجُ الْفَاكِهِيُّ بِتَفْضِيلِهَا عَلَى السَّمَوَاتِ، (مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳)

’أن موضع قبره الشريف ﷺ أفضل بقاع الأرض، وهو  أفضل الخلق وأكرمهم على الله تعالى ۔۔۔  فاذا تقرر أنه أفضل المخلوقين وأن تربته أفضل بقاع الأرض. (تاريخ المدينة لقطب الدين النهروانی: ص۱۸۶)

’’وقال الشيخ شمس الدین الرملي المصري الشافعي نقله الشوبري في حاشيته على أسنى المطالب: وَمَحَلُّ التَّفَاضُلِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ مَوْضِعِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا هُوَ فَأَفْضَلُ بِالْإِجْمَاعِ. (أسنى المطالب فی شرح روض الطالب وبهامشه حاشية الرملی تجريد الشوبری: ج۵، ص۴۳۵)

’’قام الاجماع ان ھٰذا الموضع الذی ضم اعضاء الشریفۃﷺ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ الشریفۃ قال بعضھم وافضل من بقاع السمٰوٰت حتی من العرش‘‘۔ (سیرۃ حلبیہ [اردو]: ج ۲ ص ۸۵)

’’وقال زين العابدين الحدادي ثم المناوي القاهري في شرحه المسمَّى فيض القدير: والخلاف فيما عدا الكعبة فهي أفضل من المدينة اتفاقا خلا البقعة التي ضمت أعضاء الرسول صلى الله عليه وسلم فهي أفضل حتى من الكعبة كما حكى عياض الإجماع عليه‘‘۔  (فيض القدير شرح الجامع الصغير: ج ۶ ص ۲۶۴)

ومكة أفضل منها على الراجح إلا ما ضم أعضاءه عليه الصلاة والسلام فإنه أفضل مطلقا حتى من الكعبة والعرش والكرسي. ۔ (مجمع الأنهر فی شرح ملتقى الأبحر: ج۱، ص۳۱۲)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 8/6/1442

رابطہ 9 

Share

جمعرات، 8 ستمبر، 2022

غیر مسلم میت کے سراد کا کھانا کھانا

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1766🖋️

(کتاب الحظر و الاباحہ، باب الاکل)

غیر مسلم میت کے سراد کا کھانا کھانا

 سوال: غیر مسلم میں کسی کا انتقال ہوتا ہے اور انکے گھر والے ( دس یا بارہ) دن کے بعد  دعوت دیکر جو کھانا کھلاتے ہیں کیا یہ کھانا کھانا مسلمانوں کےلئے جائز ہے یا نہیں؟ اس کھانے کو سراد کا کھانا بولتے ہیں۔ (عزیر لکھنؤ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ہندؤں کے یہاں جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کے ایصالِ ثواب کے لئے وہ کچھ لوگوں کو کھانا کھلاتے اور اسے تقسیم کرتے ہیں، نیز پنڈت اس کھانے پر منتر بھی پڑھتے ہیں؛ اس لیے ہندؤں کے یہاں کھانا کھلانے کی یہ صورت ان کا مذہبی عمل ہے اور مذہب کے دائرے میں انجام پاتا ہے؛ چنانچہ اس کھانے میں مسلمانوں کا شریک ہونا شرعاً صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مولانا محمد عبیداللہ سابق اننت رام کی کتاب تحفۃ الہند مفید ترین کتاب ہے(١) اس کتاب میں اس طرح کھانا کھلانے کو ہندوانہ رسم بتایا گیا ہے۔

” ہندوٴوں کے ہاں میت کو کھانے کا ثواب پہنچانے کا نام ’سرادھ‘ ہے اور جب سرادھ کا کھانا تیار ہو جائے تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ ’وید ‘ پڑھواتے ہیں اور مُردوں کے لیے ثواب پہنچانے کے لیے ان کے ہاں خاص دن مقرر ہیں، خصوصاً جس دن (وہ ) فوت ہو ، ہر سال اسی دن ختم دلانا یعنی برسی یا موت کے تیرھویں دن، بعض کے نزدیک پندرھویں دن اور بعض کے نزدیک تیسویں یا اکتیسویں دن، ثواب پہنچانے کے لیے مقرر ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی تیجہ، ساتواں، چالیسواں اور برسی مقرر کر لیے اور کھانا تیار کرواکر اس پر ختم پڑھوانا شروع کر دیا؛ حال آں کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان میں سے کوئی رسم بھی ثابت نہیں“(٢)


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ". (سنن أبي داود رقم الحديث ٤٠٣١ كِتَابٌ : اللِّبَاسُ  | بَابٌ : فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ)

وقال القاري: أي: من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق، أو الفجار، أو بأهل التصوف، والصلحاء الأبرار. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث ٤٠٣١)

(٢) تحفة الهند از عبیداللہ،  مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج : ۲۳ ، دارالاندلس، بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند  ‏، شمارہ 2، جلد: 99 ‏، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 24/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

Translate