کتاب النکاح لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کتاب النکاح لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 31 اگست، 2022

شادی کی سالگرہ منانے کا حکم شرعی

 ⚖سوال و جواب⚖ 

 ❤مسئلہ نمبر 977❤ 

(کتاب النکاح، باب المعاشرت)


 شادی کی سالگرہ منانے کا حکم شرعی 

 سوال: اگر کوئی شخص اپنی شادی کی سالگرہ کے موقعہ پر بغیر ضروری سمجھے ہوئے اور بغیر دین سمجھے ہوئے محض زوجین کے درمیان محبت میں اضافہ کی خاطر (جو کہ شریعت کی نگاہ میں مطلوب اور محمود ہے) اس دن بغیر کسی (صریح) غیر شرعی کام کے ارتکاب کے کچھ خوشی کا اظہار کرے، تبادلۂ تحائف کرے اور آئندہ سالوں میں اس کے اہتمام و التزام کا بھی کوئی ارادہ نہ ہو تو کیا یہ عمل مباح ہوگا یا نہیں؟ 

اور اگر بالفرض مباح نہ ہوا تو کیا اُس پر "من تشبہ بقوم فھو منھم" کی وعید کا انطباق درست ہوگا؟ جب کہ اس امر کا اغیار کے دین و عقیدے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

 سردست "احتیاط" کے پہلو کے ساتھ "جائز" اور "ناجائز" پر واضح مدلل موقف پیش فرمائیں۔ (سید احمد انیس ندوی، فیروز آباد)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

شادی کی سالگرہ منانے کے سلسلے میں آپ نے  جن شرائط اور بنیادی ضروری رعایتوں کا ذکر کیا ہے وہ اگر پائی جائیں تو شادی کی سالگرہ منانا شرعاً مباح ہوگا، اور اس میں کچھ حرج نہیں ہوگا؛ بلکہ زوجین میں محبت و الفت اور ایک دوسرے پر اعتماد کی بحالی کی نیت ہو تو یہ ایک مستحسن اور قابلِ ستائش عمل بھی ہوسکتا ہے، لیکن علماء کرام اور مفتیانِ عظام اس قسم کے مباحات سے چار وجوہات کی بناء پر منع کرتے ہیں اول یہ کہ عموماً ان چیزوں کی رعایت عوام نہیں کرپاتی اور افراط و تفریط کا شکار ہوجاتی ہے، علماء چونکہ ان باریکیوں کو سمجھتے ہیں اور ان سے ان کی رعایت کی امید بھی ہوتی ہے؛ اس لیے ان میں اور عوام میں فرق ہوجاتا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور تابعین عظام کی روشن زندگیوں اور تابندہ سیرتوں میں شادی کی سالگرہ پر اہتمام اور خاص طور پر اظہار مسرت کی کی کوئی واضح دلیل نہیں ملتی؛ حالانکہ یہ حضرات اپنی بیویوں سے محبت و الفت میں کسی سے کم نہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ازواج کو اپنی مرغوبات میں ذکر فرمایا ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے بے انتہا الفت و محبت فرماتے تھے لیکن اس کے باوجود کبھی سالگرہ پر خوشی کی کوئی روایت نظر سے نہیں گزری۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ اس بات کا زیادہ تر محرک غیروں کا عمل اور ان کی دیکھا دیکھی ہوتی ہے، جو کہ تشبہ کی ایک قسم ہے، تشبہ کا تعلق صرف عقائد سے نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات شعائر اور عام طریقۂ زندگی سے بھی ہوتا ہے؛ چنانچہ اس کی کئی مثالیں حدیث و سیرت میں مل سکتی ہیں، مثلاً داڑھی بڑھانے اور مونچھوں کو کتروانے میں مجوسیوں کے مخالفت، سر پر ٹوپی کے ساتھ عمامہ باندھنے میں مشرکین کی مخالفت وغیرہ احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں، غور کیجیےُ تو معلوم ہوگا کہ ان باتوں کا تعلق عقائد سے نہیں ہے؛ بلکہ اعمال سے ہے، لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعمال میں ان کی مشابہت سے منع فرمایا ہے، اس سلسلے میں من تشبہ بقوم کی جو تشریح ملا علی قاری نے کی اور علامہ ابنِ کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر سورۃ توبہ آیت نمبر ٢٩ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کا جو خط نقل فرمایا ہے وہ نہایت چشم کشا اور قابلِ مطالعہ ہے، دلائل کے ذیل میں ان کی تحریریں ملاحظہ فرمائیں۔

چوتھی وجہ یہ ہے اسلام نے بدعات اور محدثات کو بڑی سخت نظر سے دیکھا ہے، بدعات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شروع تو اچھی نیت سے ہوتی ہیں مگر آہستہ آہستہ ان میں اس قدر لزوم ہوجاتا ہے اور کچھ نسلوں کے بعد وہ چیزیں اس قدر واجب و ضروری اور لوگوں کی نظر میں مستحسن ھوجاتی ھیں کہ بدعت کی شکل اختیار لیتی ہیں، ہندوستان میں طبقہ بریلویت میں شائع بدعات پر اگر گہری نظر ڈالیں اور تاریخی مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ اعمال اصلا کسی دوسری نیت اور عمدہ طریقے پر شروع کیے گیے تھے؛ لیکن کشاں کشاں یہی مباحات بدعات میں تبدیل ہوگیے۔ اس لیے آپ کے ذکر کردہ مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ انفرادی طور پر خوشی منانے میں حرج نہیں؛ لیکن اس کی دعوت دینا اور دوسروں کو ترغیب دینا درست نہیں ہوگا جس کی وجوہات اوپر ذکر کردی گئی ہیں (١) فقط والسلام۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) الأصل في الأشياء الاباحة (قواعد الفقه ص 59)

الأمور بمقاصدها (الاشباه والنظائر لابن نجيم المصري)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى، خَالِفُوا الْمَجُوسَ ". (صحيح مسلم رقم الحديث ٢٦٠ كِتَابٌ : الطَّهَارَةُ  | بَابٌ : خِصَالُ الْفِطْرَةِ )

قَالَ رُكَانَةُ : وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " فَرْقُ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ الْعَمَائِمُ عَلَى الْقَلَانِسِ ". 

(كِتَابٌ : اللِّبَاسُ  رقم الحديث ٣٠٧٨ بَابٌ : فِي الْعَمَائِمِ)

”وعنہ (أي: عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ“ أي: مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، مثلاً: فِي اللِّبَاسِ وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِ․ ”فَہُو مِنْہُمْ“، أي: في الاثْمِ وَالْخَیْرِ“․ (مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۱۵۵، رشیدیة)

وَلَا نَتَشَبَّهَ بِهِمْ فِي شَيْءٍ مِنْ مَلَابِسِهِمْ، فِي قَلَنْسُوَةٍ، وَلَا عِمَامَةٍ، وَلَا نَعْلَيْنِ، وَلَا فَرْقِ شَعْرٍ، وَلَا نَتَكَلَّمَ بِكَلَامِهِمْ، وَلَا نَكْتَنِيَ بكُنَاهم، وَلَا نَرْكَبَ السُّرُوجَ، وَلَا نَتَقَلَّدَ السُّيُوفَ، وَلَا نَتَّخِذَ شَيْئًا مِنَ السِّلَاحِ، وَلَا نَحْمِلَهُ مَعَنَا، وَلَا نَنْقُشَ خَوَاتِيمَنَا بِالْعَرَبِيَّةِ، وَلَا نَبِيعَ الْخُمُورَ، وَأَنْ نَجُزَّ مَقَادِيمَ رُءُوسِنَا، وَأَنْ نَلْزَمَ زِينا حَيْثُمَا كُنَّا، وَأَنْ نَشُدَّ الزَّنَانِيرَ عَلَى أَوْسَاطِنَا، وَأَلَّا نُظْهِرَ الصَّلِيبَ عَلَى كَنَائِسِنَا، وَأَلَّا نُظْهِرَ صُلُبَنَا وَلَا كُتُبَنَا(٢٦) فِي شَيْءٍ مِنْ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ، وَلَا نَضْرِبَ نَوَاقِيسَنَا فِي كَنَائِسِنَا إِلَّا ضَرْبًا خَفِيًّا، وَأَلَّا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا بِالْقِرَاءَةِ فِي كَنَائِسِنَا فِي شَيْءٍ مِنْ حَضْرَةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا نُخْرِجَ شَعَانِينَ وَلَا بَاعُوثًا، وَلَا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا مَعَ مَوْتَانَا، وَلَا نُظْهِرَ النِّيرَانَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ مِنْ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ، وَلَا نُجَاوِرَهُمْ بِمَوْتَانَا، وَلَا نَتَّخِذَ مِنَ الرَّقِيقِ مَا جَرَى عَلَيْهِ سِهَامُ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنْ نُرْشِدَ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا نَطَّلِعَ عَلَيْهِمْ فِي منازلهم. (تفسير ابن كثير سورة التوبة ٢٩)

وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ".

حكم الحديث: صحيح. (سنن أبي داود رقم الحديث 4607 أَوْلُ كِتَابِ السُّنَّةِ  | بَابٌ : فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 13/3/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate