کتاب الاجارہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کتاب الاجارہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 6 ستمبر، 2022

امامت اور تعلیم قرآن کا پیسہ لینا

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1791🖋️

(كتاب الإجارة باب الإجارة على الطاعات)

امامت اور تعلیم قرآن کا پیسہ لینا

سوال: بچوں کو فیس لیکر پڑھانا اور امام صاحب کا تنخواہ لینا کیسا ہے ؟ کچھ تبلیغی  لوگ اعتراض کرتے ہیں یہ کیسی دین کی خدمت ہے کہ نماز پڑھاتے ہیں اور تنخواہ لیتے ہیں 5بچوں کو قرآن و حدیث پڑھاتے ہیں فیس لیتے ہیں؟ (اسامہ ندوی، گجرات) 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

یہ بات درست ہے کہ امامت کرنا اور قرآن و حدیث پڑھانا عبادت ہے اور عبادت کی اجرت لینا درست نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور صحابہ کرام کے زمانے اور بعد میں جب تک خلافت اسلامیہ قائم رہی اور علماء و قراء کو بیت المال سے وظائف ملتے رہے امامت اور قرآن و حدیث پڑھانے کی اجرت لینے کا نا رواج تھا اور نا ہی اجرت لینا درست تھا، یہی وجہ ہے کہ متقدمین فقہاء کرام نے ان چیزوں پر اجرت لینے کو ناجائز قرار دیا ہے۔

لیکن بعد کے زمانے میں جسے متاخرین کا زمانہ کہا جاتا ہے جب حالات بدل گئے اور خلافتیں ختم ہوگئیں یا انہوں نے علماء و ائمہ کے تئیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا بند کردیا اور علماء کرام دینی خدمات اور طلب معیشت پر دو طرفہ مجبور ہوگیے تو اس دور کے فقہاء کرام نے فتویٰ دیا کہ چونکہ دونوں کام یک ساتھ ہونا عموما مشکل ہے اور آدمی ان دینی خدمات کے علاوہ معیشت کی سرگرمی بھی رکھے تو اس سے حرج شدید لاحق ہوتا تھا مثلاً امام کہیں بھی ہو تو نماز کے لیے وہ مسجد ضرور حاضر ہوتا ہے؛ جبکہ اگر وہ امام نہ ہو تو حسب سہولت کسی بھی مسجد میں نماز ادا کرکے اپنے کام انجام دے سکتا ہے، آجکل ہم لوگ خود مشاہدہ کرتے ہیں کہ جو لوگ دونوں چیزیں لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں عموما وہ اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کے شکار ہوتے ہیں؛ اس لیے علماء کی تنخواہیں مقرر کرنا اور ائمہ کو تنخواہیں دینا جائز قرار دیا گیا، اور اکابر اہل علم نے اس سلسلے میں فتویٰ ہے۔ اس لیے یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے، بلکہ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ عوام یا تو ائمہ و مدرسین کو اپنے ہدیہ تحائف سے اتنا مالا مال کردیں کہ انہیں تنخواہ کی ضرورت نہ رہے یا انہیں کوئی بہترین بزنس کرادیں جن سے ان کی ضرورت کی تکمیل ہو اور وہ فارغ البال ہوکر خدمت دین میں لگے رہیں، بصورت دیگر صرف زبانی جمع خرچ ہوگا اور زمانے سے ناواقفیت اور بے جا اعتراض کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب


📚والدليل على ما قلنا 📚

(١) قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شِبْلٍ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " اقْرَءُوا الْقُرْآنَ، وَلَا تَغْلُوا فِيهِ، وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ، وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ، وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِهِ ". (مسند أحمد رقم الحديث 15529 مُسْنَدُ الْمَكِّيِّينَ.  | زِيَادَةٌ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ)

نعم قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللہ تعالی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والإشتغال بہ یقل اکتسا بہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ فیأخذ الأجرة لئلا یمنعہ الاکتباس عن إقامة ہذہ الوظیفیة الشریعة ولولا ذالک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور، بل یکون جمع بین عبادتین: وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات․ (رد المحتار علی الدر المختار: ۲/۶۰ باب الأذان)

(قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم  إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.

(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار" ابن عابدين (رد المحتار 6/ 55 )

قال - رحمه الله -: "(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوابالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان" (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 8/ 22)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 20/7/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

اتوار، 4 ستمبر، 2022

رقم لے کر فری میں کرایہ پر مکان دینے کا حکم

 ⚖سوال و جواب⚖

🏢مسئلہ نمبر 980🏢

(کتاب الاجارۃ)

 رقم لے کر فری میں کرایہ پر مکان دینے کا حکم 

 سوال: کرناٹک میں عمومی طور پر لوگ اپنے گھر کو (لیج) ایک متعینہ رقم طے کر کے دیتے ہیں۔ مثلا ایک لاکھ روپے دے دیں اسکے بدلے ایک سال تک میرے گھر کو استعمال کریں جب سال پورا ہوجائے تو آپ کا پیسہ واپس کردیاجاۓ گا۔ پیسے واپس بھی کردیۓ جاتے ہیں۔ اب اس صورت میں اس گھر کا استعمال بغیر کرایہ کے ہوگیا۔‌ کیا یہ شریعت میں جائز؟ (محمد امیر سبحانی قاسمی بنگلور کرناٹک)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

آپ نے جو صورت سوالنامہ میں لکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دی جانے رقم بطورِ قرض دی جاتی ہے اور اس کے بدلے مکان میں بنا کرایہ کے سکونت کا موقع ملتا ہے یا شکل تو ڈپازٹ کی ہوتی ہے مگر ہوتی قرض ہی ہے، ظاہر ہے کہ یہ قرض سے استفادہ کی صورت ہے جو کہ سود ہے اور سود لینا دینا جائز نہیں ہے؛ اس لئے مذکورہ بالا صورت درست نہیں ہے، آپ حضرات کو اس سلسلے میں سخت احتیاط برتنی چاہیے۔

اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ یا تو پورا کرایہ دیا جائے یا کم از کم اتنا کرایہ ضرور دیا جائے جو اس کا کم سے کم کرایہ اس علاقے میں ہوسکتا ہو(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ )

البقرة (278)

كل قرض جر نفعا فهو ربا. (شرح معاني الآثار رقم الحديث ٥٨٨٣)

قالوا يجب أجر المثل على المقرض لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا. (رد المحتار ٨٧/٩ باب ضمان الأجير)

وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین:أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شےئا بأرخص مما یباع أو یوٴجرہ أو یھبہ ……،ولو لم یکن سبب ذلک (ھذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 16/3/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ہفتہ، 3 ستمبر، 2022

ہیوی ڈپازٹ پر کرایہ داری کا حکم

⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1644🖋️

(کتاب الاجارۃ جدید مسائل)

ہیوی ڈپازٹ پر کرایہ داری کا حکم

سوال: ہیوی ڈپوزٹ پر دکان یا مکان لینا کیسا ہے؟ اس کی ایک شکل تو یہ ہے کہ ہیوی ڈیپوزٹ پر دکان یا مکان لے لیا اور مہینے کے بعد کرایہ بھی نہیں اور ایک شکل یہ ہے کہ ہیوی ڈیپوزٹ پر دکان یا مکان لیا اور مہینے کے بعد کرایہ بھی دینا ہے تو کیا یہ دونوں شکل ناجائز ہے؟ اور ہیوی ڈیپوزٹ لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہے؟ (نعمان احمد خان، مہاراشٹر)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ہیوی ڈپازٹ کے ذریعے جو مکانات یا دوکانیں کرایہ پر لی جاتی ہیں وہ عموما یا تو بالکل فری ہوتی ہیں یا نہایت معمولی کرایہ پر ہوتی ہیں؛ جس کی وجہ سے قرض پر نفع لینے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جو جائز نہیں ہے، البتہ اگر مناسب کرایہ لگایا جائے یعنی اتنا کرایہ جو اس علاقے میں کم سے کم ہوسکتا ہو تو یہ جائز ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) أنواع الربا،وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین:أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شےئا بأرخص مما یباع أو یوٴجرہ أو یھبہ ……،ولو لم یکن سبب ذلک (ھذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 19/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

ڈپازٹ کی بنیاد پر کرایہ معاف کردینا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1471🖋️

(کتاب الاجارہ، جدید مسائل)

ڈپازٹ کی بنیاد پر کرایہ معاف کردینا

سوال: ہاسپٹلس میں میڈیکل کی ایک شکل یہ بھی رایٔج ہے کہ میڈیکل والا ڈاکٹر کو پانچ سال کے معاہدہ پر پچاس لاکھ روپیہ بطور ڈپوزٹ کے دے گا اور پانچ سال تک اس ہاسپٹل میں میڈیکل چلائے، گا میڈیکل والا ہاسپٹل والے کو کرایہ اور منافع وغیرہ کچھ بھی نہیں دے گا؛ البتہ ہاسپٹل والا ڈپوزٹ کی رقم پانچ سال تک استعمال کرے گا۔ آپ سے پوچھنا ہے کہ درج بالا صورت جائز ہے یا نہیں؟ (انصار اللہ، کریم نگر، تلنگانہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا صورت ہیوی ڈپازٹ کی ہے، یہ صورت ناجائز ہے، اس لیے کہ ایک تو اس میں کرایہ کی تعیین نہیں ہے، دوسرے ڈپازٹ کے طور پر رکھی گئی رقم سے استفادہ ہے جو کہ شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ ڈپازٹ کی حیثیت ودیعت کی ہے، اور ودیعت پر رکھی چیز سے استفادہ درست نہیں ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


والدليل على ما قلنا

(١) ومنها أن تكون الأجرة معلومة. (الفتاوى الهندية 411/4 كتاب الإجارة، بيروت)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 25/8/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate