ہفتہ، 20 اگست، 2022

ایک سے زائد مردہ ایک قبر میں دفن کر نا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1700🖋️

(کتاب الصلاۃ، باب الجنائز)

ایک سے زائد مردہ ایک قبر میں دفن کر نا


سوال: کیا عام حالات میں ایک سے زائد افراد کو ایک قبر میں دفن کرسکتے ہیں ؟ اور ہنگامی صورت ہو تو شرعی حکم کیاھے تفصیلی جواب اھل علم حضرات سے مطلوب ہے۔ ( محمد فردوس حلیمی، بھاگلپور بہار)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے یہی طریقہ چلا آرہا ہے کہ ایک قبر میں ایک میت کو دفن کیا جائے، صرف بعض ہنگامی حالت میں ایک قبر میں دو یا دو سے زیادہ لوگوں کو دفنانے کی روایت ملتی ہے، چنانچہ غزوۂ احد کے موقع پر یہی صورتحال تھی اور ایک ایک قبر میں دو دو شہیدوںوں ور تین تین افراد کو دفن کیا گیا، گویا یہ معاملہ تکلیف ما لایطاق میں یسر و سہولت کی غرض سے تھا، اس سے اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ عام حالات میں ایک قبر میں متعدد لوگوں کو دفن کرنا صحیح نہیں ہے، فقہ حنفی کی بعض کتابیں مثلا بدائع الصنائع اور فتاوی ہندیہ وغیرہ میں اس کی صراحت موجود ہے(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : جَاءَتِ الْأَنْصَارُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالُوا : أَصَابَنَا قَرْحٌ وَجَهْدٌ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ : " احْفِرُوا، وَأَوْسِعُوا، وَاجْعَلُوا الرَّجُلَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ فِي الْقَبْرِ ". قِيلَ : فَأَيُّهُمْ يُقَدَّمُ ؟ قَالَ : " أَكْثَرُهُمْ قُرْآنًا ". قَالَ : أُصِيبَ أَبِي يَوْمَئِذٍ عَامِرٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ. أَوْ قَالَ : وَاحِدٌ. حكم الحديث: صحيح. (سنن أبي داود رقم الحديث 3215  كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ  | بَابٌ : فِي تَعْمِيقِ الْقَبْرِ )

فيه جواز الجمع بين جماعة في قبر واحد ولكن إذا دعت إلى ذلك حاجة كما في مثل هذه الواقعة. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث 3215 كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ  | بَابٌ : فِي تَعْمِيقِ الْقَبْرِ)

ولا يدفن الرجلان أو أكثر في قبر واحد هكذا جرت السنة من لدن آدم إلى يومنا هذا، فإن احتاجوا إلى ذلك قدموا أفضلهما وجعلوا بينهما حاجزا من الصعيد لما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - «أنه أمر بدفن قتلى أحد وكان يدفن في القبر رجلان، أو ثلاثة، وقال: قدموا أكثرهم قرآنا» وإن كان رجل وامرأة قدم الرجل مما يلي القبلة، والمرأة خلفه اعتبارا بحال الحياة. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٣١٩/١ كتاب الصلاة باب الجنائز دار الكتب العلميه بيروت)

ولا يدفن اثنان أو ثلاثة في قبر واحد إلا عند الحاجة فيوضع الرجل مما يلي القبلة ثم خلفه الغلام ثم خلفه الخنثى ثم خلفه المرأة ويجعل بين كل ميتين حاجز من التراب، كذا في محيط السرخسي، وإن كانا رجلين يقدم في اللحد أفضلهما، هكذا في المحيط. (الفتاوى الهندية 166/1 كتاب الصلاة باب الجنائز)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 16/4/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share
نام۔ محمد قاسم خان دینی تعلیم: حفظ قرآن ۔ دارالعلوم سلیمانیہ میراروڈ ممبئی۔ عالمیت ابتدائی تعلیم: مدرسہ فلاح المسلمین امین نگر تیندوا راۓ بریلی۔ عالمیت فراغت: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔ افتاء: المعھد العلمی النعمانی بہرائچ اترپردیش۔ ویب سائٹ کا مقصد دینی اور دنیاوی تعلیم سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ اس کار خیر میں آپ ہمارا ساتھ دیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا فی الدنیا والآخرۃ

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thank You So Much

Translate

بلاگ آرکائیو