ہفتہ، 3 ستمبر، 2022

ہیوی ڈپازٹ پر کرایہ داری کا حکم

⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1644🖋️

(کتاب الاجارۃ جدید مسائل)

ہیوی ڈپازٹ پر کرایہ داری کا حکم

سوال: ہیوی ڈپوزٹ پر دکان یا مکان لینا کیسا ہے؟ اس کی ایک شکل تو یہ ہے کہ ہیوی ڈیپوزٹ پر دکان یا مکان لے لیا اور مہینے کے بعد کرایہ بھی نہیں اور ایک شکل یہ ہے کہ ہیوی ڈیپوزٹ پر دکان یا مکان لیا اور مہینے کے بعد کرایہ بھی دینا ہے تو کیا یہ دونوں شکل ناجائز ہے؟ اور ہیوی ڈیپوزٹ لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہے؟ (نعمان احمد خان، مہاراشٹر)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ہیوی ڈپازٹ کے ذریعے جو مکانات یا دوکانیں کرایہ پر لی جاتی ہیں وہ عموما یا تو بالکل فری ہوتی ہیں یا نہایت معمولی کرایہ پر ہوتی ہیں؛ جس کی وجہ سے قرض پر نفع لینے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جو جائز نہیں ہے، البتہ اگر مناسب کرایہ لگایا جائے یعنی اتنا کرایہ جو اس علاقے میں کم سے کم ہوسکتا ہو تو یہ جائز ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) أنواع الربا،وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین:أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شےئا بأرخص مما یباع أو یوٴجرہ أو یھبہ ……،ولو لم یکن سبب ذلک (ھذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 19/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

ڈپازٹ کی بنیاد پر کرایہ معاف کردینا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1471🖋️

(کتاب الاجارہ، جدید مسائل)

ڈپازٹ کی بنیاد پر کرایہ معاف کردینا

سوال: ہاسپٹلس میں میڈیکل کی ایک شکل یہ بھی رایٔج ہے کہ میڈیکل والا ڈاکٹر کو پانچ سال کے معاہدہ پر پچاس لاکھ روپیہ بطور ڈپوزٹ کے دے گا اور پانچ سال تک اس ہاسپٹل میں میڈیکل چلائے، گا میڈیکل والا ہاسپٹل والے کو کرایہ اور منافع وغیرہ کچھ بھی نہیں دے گا؛ البتہ ہاسپٹل والا ڈپوزٹ کی رقم پانچ سال تک استعمال کرے گا۔ آپ سے پوچھنا ہے کہ درج بالا صورت جائز ہے یا نہیں؟ (انصار اللہ، کریم نگر، تلنگانہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا صورت ہیوی ڈپازٹ کی ہے، یہ صورت ناجائز ہے، اس لیے کہ ایک تو اس میں کرایہ کی تعیین نہیں ہے، دوسرے ڈپازٹ کے طور پر رکھی گئی رقم سے استفادہ ہے جو کہ شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ ڈپازٹ کی حیثیت ودیعت کی ہے، اور ودیعت پر رکھی چیز سے استفادہ درست نہیں ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


والدليل على ما قلنا

(١) ومنها أن تكون الأجرة معلومة. (الفتاوى الهندية 411/4 كتاب الإجارة، بيروت)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 25/8/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ڈپازٹ کی رقم اور ہیوی ڈپازٹ کی چند صورتوں کا حکم (Heavy deposit)

 👁‍🗨سوال و جواب👁‍🗨

(مسئلہ نمبر 406)

ڈپازٹ کی رقم اور ہیوی ڈپازٹ کی چند صورتوں کا حکم

سوال کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آج کل بڑے شہروں میں مکانات کی کرایہ داری میں بھاری مقدار میں پیشگی رقم ڈپازٹ کے عنوان سے لینے کا معمول بن چکا ہے، اب اس میں کئی شکلیں ہوتی ہیں:

الف:- اگر ڈپازٹ کی رقم معمولی ہوتی ہے تو ماہانہ کرایہ کی رقم زیادہ ہوتی ہے ، اور جب کرایہ دار جائیداد خالی کرتا ہے تو مالک اسے ڈپازٹ کی رقم لوٹا دیتا ہے۔

ب:- اگر ڈپازٹ کی رقم بھاری مقدار میں ہو تو ماہانہ کرایہ کی رقم بہت معمولی ہوتی ہے، اور بہر صورت جب بھی جائیداد خالی ہوتی ہے تو مالک ڈپازٹ کی پوری رقم واپس کرنے کا ضامن ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ:

(۱) اس طرح کا عقد شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

(۲) ڈپازٹ کی رقم کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ قیمت ہے یا رہن ہے یا امانت ہے؟

(۳) اس ڈپازٹ کی رقم کو مالک جائیداد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

(۴) اگر یہ معاملہ جائز نہ ہو تو کیا اس کو شرعی جواز کے دائرہ میں لانے کی کوئی اور شکل ہے؟

(۵) اس ڈپازٹ کی رقم کی زکوٰۃ کس پر واجب ہے، کرایہ دار پر یا مالک پر؟ یا کسی پر واجب نہیں؟                                   (المستفتی عبدالستار قاسمی، امام جامع مسجد، اونتکا روہینی، دہلی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

الجواب بسم ملہم الصواب

آپ نے جو سوالنامہ مجھے بھیجا ہے بعینہ یہی سوالات انہیں الفاظ میں ہندوستان کے مشہور عالم دین اور صاحب نظر مفتی حضرت مولانا سلمان منصورپوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے فتاویٰ "کتاب النوازل" کی جلد نمبر ١٢ صفحہ نمبر ٣٠٠ پر موجود ہیں اور مفتی صاحب نے تفصیل کے ساتھ معتبر دلائل کی روشنی میں ان سوالات کے تحقیقی جوابات درج فرمائے ہیں؛ اس لئے اگر آپ چاہیں تو ان تمام سوالات کے تفصیلی اور مدلل جوابات وہاں ملاحظہ فرمالیں۔

البت آپ کے اور دیگر قارئین کے افادے کی غرض سے مختلف کتب فقہ و فتاویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں مختصراً ان سوالات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں:

(١) جب ڈپازٹ کی رقم کم ہو اور کرایہ زیادہ ہو اور کرایہ داری کا معاملہ ختم ہونے پر وہ رقم واپس کردی جائے تو اس معاملے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، یہ بلاشبہ جائز ہے۔

جب کرایہ کم ہو اور ڈپازٹ کی رقم زیادہ ہو تو اس کی مندرجہ ذیل چند صورتیں ہوسکتی ہیں:

اگر ڈپازٹ کی رقم کو بنیاد بنا کر کرایہ میں کمی کی جاتی ہے تو اس میں سود کا شبہ پایا جاتا ہے اس لئے یہ صورت جائز نہیں ہے۔

اگر کرایہ پہلے طے ہوچکا ہے اور ڈپازٹ کی رقم بھی طے ہوچکی تھی اور پھر کہا گیا کہ اگر اتنی ڈپازٹ بڑھا دی جائے تو اتنا کرایہ کم کر دیا جائے گا تو یہ صورت بھی سود میں شامل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

اگر شروع ہی میں ڈپازٹ کی رقم کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب کرایہ طے کر لیا جائے اور بعد میں ڈپازٹ کا مطالبہ کیا جائے تو یہ صورت درست ہوگی، البتہ اس طرح جو رقم ڈپازٹ کے طور پر لی جائے پہلے اسے محفوظ طور پر رکھ لیا جائے اور پھر کچھ دنوں بعد اس کے استعمال کی اجازت لے لی جائے۔ اور اس طرح یہ امانت سے نکل کر قرض بن جائے گی۔

(٢) ڈپازٹ کی رقم تو اصلا امانت ہے اس لئے مالک مکان کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں ہے؛ مگر موجودہ زمانہ میں اس کے استعمال کا عرف عام ہے اور صراحتاً یا دلالتہ اس کی اجازت بھی ہوتی ہے اس لئے اب اس کی حیثیت قرض کی ہے۔

(٣) چونکہ اب عرفا یا دلالتہ اس کا استعمال عام ہے اس لئے ڈپازٹ کی حیثیت اب قرض کی ہو گئی ہے اور اس پر قرض ہی کے احکام نافذ ہوتے ہیں؛ اس لیے مالک دوکان و مکان کے لئے اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں ہے۔

(٤) اس کے جواب کے لیے ایک نمبر پر غور فرمالیں۔

(٥) ڈپازٹ کی وہ رقم جس کی مدت متعین ہے فقہی نقطۂ نظر سے یہ دین قوی کے درجے میں ہے، اس لئے اس کی زکوۃ کرایہ دار پر واجب ہوگی اور رقم وصول ہونے کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، واضح رہے کہ عام طور سے کرایہ داری کا وقت متعین ہی ہوتا ہے اس لئے کرایہ دار کو گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اور اگر وقت متعین نہ ہو تو یہ دین وسط یا دین ضعیف کے درجے میں ہوگا اور وصول ہونے کے بعد سابقہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚مصادر ومراجع📚📚 

(١) کتاب النوازل ٣٠٠/١٢ نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلے ص ٢٢١ کتاب الفتاوی ٦٤/١٠ جدید فقہی مسائل ٢١٨/١ فتاویٰ دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ ١٣٦/٣۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 1/8/1439

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعہ، 2 ستمبر، 2022

کرپٹو کرنسی (crypto currency)، تعارف اور حقیقت قسط سوم

 از قلم: محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء ممبئی انڈیا

رابطہ 9029189288


تیسرا نقصان یہ ہے کہ وہ ممالک جنہوں نے اسے لیگل نہیں کیا ہے وہاں کا باشندہ اگر اسے لیتا ہے اور کوئی بات پیش آجاتی ہے تو وہ اپنے ملک میں استغاثہ نہیں کر سکتا ہے ہاں دوسرے ملک سے چانس پھر بھی رہتا ہے۔ 
چوتھا یہ کہ جس طرح اس کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اندیشہ ہے کہ کبھی بہت کم یا بالکل کم ہوجائے اور آپ کو نقصان ہوجائے۔
کرپٹو کرنسی کے بارے میں مذکورہ بالا چار نقصانات متوقع اور ممکن ہیں؛ گرچہ ابھی تک ایسا کچھ ہوا نہیں ہے اور قرائن و آثار سے بھی اس کی مضبوطی اور استحکام ہی معلوم ہوتی ہے؛ مگر اندیشوں سے باخبر کرنا اور باخبر رہنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ دانشمندی کی علامت ہے بقول شاعر مشرق: 
امروز کی شورش میں اندیشہ فردا دے
اس کرنسی کی خریداری یا شراکت کے بارے میں قارئین کو  یہ بتا دینا ضروری ہے کہ چونکہ یہ ایک نہایت مہنگی کرنسی  ہے؛  اس لئے اگر کوئی شخص مکمل ایک بٹ نہ خرید سکے تو اس کا کچھ حصہ بھی خرید سکتا ہے، اس میں شرکت کے لئے لوگوں کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف پیکیج بنائے گئے ہیں اور ہر پیکیج پر ملنے والا نفع بھی الگ الگ ہے، مثلا بٹ کوائن کا سب سے چھوٹا پیکیج گیارہ ہزار کا ہے، اس پر ملنے والی رقم ہر ماہ 500 سے 1000 تک متوقع ہے، دوسرا پیکیج 41000 روپئے کا ہے اس پر ملنے والا نفع ہر 21 دن میں 3000 سے 4000 تک ہے، تیسرا پیکیج 78000 روپئے کا ہے اس پر ملنے والا نفع ہر 19 دن میں 6000 سے 8000 تک ہے۔ لیکن واضح رہے کہ اگر کوائن کی قیمت کم ہوگئی تو آپ کو اس سے بھی کم نفع مل سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ بھی نہ ملے، اس لئے نفع و نقصان دونوں پہلو اس میں موجود ہیں۔ اس وقت کرپٹو کرنسی کی جو عام نوعیت ہے وہ یہی ہے جو اس پوری تحریر میں بیان ہوئی، ابھی اس سلسلے میں کوئی متعین شرعی نقطہ نظر قائم نہیں کیا گیا ہے، لیکن جلد ہی قارئین کو حکم شرعی سے مطلع کیا جائے گا ۔
نوٹ: اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ اس تحریر کی روشنی میں شرعی نقطہ نظر تک پہونچنے کی کوشش کریں اور ممکن ہو تو مزید اس موضوع پر تحقیق کریں اور مسلمانوں کو صحیح شرعی نقطہ نظر سے آگاہ کریں کیونکہ یہ وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔ فجزاکم اللہ خیر الجزاء۔
Share

کرپٹو کرنسی (crypto currency)، تعارف اور حقیقت قسط دوم

از قلم: محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء ممبئی انڈیا

رابطہ 9029189288

 اس کرنسی کی متعدد قسمیں اور اکائیاں آن لائن مارکیٹ میں آچکی ہیں، مگر اس کی سب سے قیمتی اور مشہور ترین کرنسی بٹ کوائن (Bit Coin) اور ون کوائن (Onecoin)  ہیں، ان کی قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ دنیا کی موجودہ کوئی کرنسی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، آپ کو شاید حیرت ہو کہ ایک بٹ کوائن کی قیمت آٹھ لاکھ روپئے سے متجاوز جبکہ ایک ون کوائن کی قیمت تیرہ سو روپے زائد ہے۔

مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کرنسی پر کسی ایک شخص یا ملک یا بینک کا قبضہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایک شخص یا بینک یا کمپنی اس کو کنٹرول کرتی ہے، بلکہ یہ لوگوں کے تعامل سے جاری اور قائم ہے، اسے کوئی بھی شخص یا ادارہ بنا سکتا ہے، کرپٹو کرنسی کی اصطلاح میں اس کے بنانے کو مائننگ (Mining) کہا جاتا ہے، جس کا لفظی ترجمہ ہے "کان کھودنا" یعنی جس طرح زمین سے کانیں کھود کر اس کی تہ سے بیش قیمت چیزیں نکالی جاتی ہیں اسی طرح نہایت طاقتور اور خاص قسم کے پروگرامنگ والے کمپیوٹر اور مسلسل بجلی کے ذریعے مخصوص الفاظ اور نمبرات سے اس کی بناوٹ عمل میں آتی ہے، شروع شروع میں اس کی مائننگ بہت آسان تھی، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا اور قیمت بڑھتی جاتی ہے اس کی مائننگ مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسی ایک محدود تعداد  (دو کروڑ دس لاکھ) ہی بنائے جا سکتے ہیں اور اتنے کوائن بنانے کے لئے 2150 ء تک کا وقت لگے گا، اس سے پہلے یہ سکے مکمل نہیں کئے جاسکتے، اس کی مائننگ کرنے والوں کو بطور انعام بٹس ہی دیئے جاتے ہیں جسے وہ گاہکوں سے بیچ کر نفع کماتے اور سسٹم کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ 

اس سلسلے میں ایک نہایت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کرنسی کی جتنی خرید و فروخت ہوتی ہے یا جو بھی معاملات اور ٹرانزکشن ہوتے ہیں وہ ہر دس منٹ میں ایک مخصوص جگہ محفوظ ہوجاتے ہیں اس پورے ٹرانزکشن کے مجموعے کو بلاکس  (Blocks) کہا جاتا ہے، اس کرنسی کو گرچہ ابھی عام قبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے تاہم متعدد ملکوں نے اپنے باشندوں کے لئے اسے لیگل قرار دے دیا ہے اور وہاں کے لوگ اس سے اپنے کام انجام دے رہے ہیں جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں اس کے اے ٹی ایم ATM بھی لگائے جاچکے ہیں بلکہ راقم الحروف کی دانست میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کے یہاں اسے ابھی قبول نہیں کیا گیا ہے مگر وہ اسے خریدنے کی وجہ سے بہت سے کام اسی سے کر رہے ہیں۔ اس کرنسی کے متعدد فائدے بتائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہی اس کی مہنگائی کے اسباب ہیں، یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق چند دہائیوں میں یہی کرنسی عالمی کرنسی ہوگی۔ اس کے فوائد مندرجہ ذیل ہیں:

 1 اس کرنسی کے ذریعے آدمی ان بڑی بڑی کمپنیوں سے سامان خرید سکتا ہے جو بٹ کوائن یا ون کوائن میں حصہ دار ہیں۔

2 اس کرنسی کے ذریعے پوری دنیا میں کسی بھی شخص کو اپنے اکاؤنٹ سے بغیر کسی کمپنی یا بینک کو واسطہ بنائے رقم منتقل کی جا سکتی ہے۔ 

3 رسد کی کمی اور طلب کی زیادتی یعنی کوائن کی کمی اور خریداروں کی کثرت کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھتی رہتی ہے اور اس طرح آپ کی کرنسی مہنگی ہوتی جاتی ہے۔

4 اگر آپ خود بٹ کوائن یا ون کوائن سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ہیں تو بڑھی ہوئی رقم کے مطابق بیچ سکتے ہیں اور اس طرح آپ کو فائدہ بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ 

5 آپ جب چاہیں اپنی کرنسی کو ملکی کرنسی میں تبدیل کرا سکتے ہیں۔

6 اس کرنسی کو نہ کوئی چرا سکتا ہے نہ ہی غائب کر سکتا ہے، نیز اس سے ٹرانزکشن اس قدر آسان ہے کہ گھر بیٹھے انٹر نیٹ سے ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔

7 چونکہ اس کا تعلق کسی بینک یا ادارہ سے نہیں ہے اس لئے دوسرے کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنے کے لئے بہت ہی کم رقم لگتی ہے۔ 

8 چونکہ یہ کرنسی decentralised ہے اس لئے اس کرنسی کو کوئی ملک نہ بند کر سکتا ہے اور نہ ہی ہائک کر سکتا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنے ملک میں جاری نہ کرے جیسا کہ ہندوستان وغیرہ میں ہے۔

اس موقع پر یہ واضح کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کہ جہاں کرپٹو کرنسی کے اس قدر فائدے ہیں وہیں کچھ نقصانات بھی ہیں اور پھر دنیا کی کونسی ایسی چیز ہے جس کے دونوں پہلو نہ ہوں؟ چنانچہ اس کرنسی لینے کا ایک نقصان یہ ہےکہ چونکہ اسے اپنے ہاتھ یا جیب میں رکھا نہیں جاسکتا ہے اور صرف انٹرنیٹ ہی کی ذریعے اس کا استعمال ممکن ہے؛ اس لئے آپ عام لوگوں سے کوئی خرید و فروخت کا معاملہ نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی بوقت ضرورت ہر کس و ناکس سے لین دین کا معاملہ کر سکتے ہیں۔

دوسرا نقصان یہ ہے کہ چونکہ یہ ڈیجیٹل چیز ہے اگر بالاتفاق بیک وقت تمام ڈیجیٹل سسٹم فیل ہو جائے یا کسی ظالم طاقتور کا غاصبانہ قبضہ ہو جائے تو آپ کی لگائی رقم بالکل ختم ہو سکتی ہے

جاری

Share

کرپٹو کرنسی (crypto currency)، تعارف اور حقیقت قسط اول

 👁کرپٹو کرنسی، تعارف اور حقیقت👁 

(بٹ کوائن (Bit Coin) اور ون کوائن (Onecoin) پر ایک نظر)

از قلم: محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء ممبئی انڈیا

رابطہ 9029189288

جس طرح انسانی زندگی میں مختلف تبدیلیاں اور نیرنگیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں؛ اسی طرح کائنات کا نظام اور چیزیں بھی ان تبدیلیوں سے دو چار اور متاثر ہوتی رہتی ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دنیا کی کسی شی کو دوام نہیں، مثل مشہور ہے "ہر کمالے را زوالے" ہر کمال کو زوال سے ضرور دوچار ہونا پڑتا ہے۔

آجکل ہمارے ہاتھوں میں جو کرنسی کی شکل میں پیسے یا روپئے موجود ہیں؛ ان کی کہانی بھی بڑی عجیب اور ان پر آنے والی تبدیلیاں بڑی حیرت انگیز ہیں، نوع انسانی کے ابتدائی دور اور بعد کے ادوار میں ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جب سونا چاندی اور روپئے پیسے کا بطور تبادلہ کوئی خیال تک نہ تھا، اس دور میں اشیاء کا تبادلہ اشیاء سے ہوتا تھا، چاول دیکر گیہوں لے لینا اور آٹا دے کر دودھ لے لینا ہی چیزوں کی خرید و فروخت کی مانی جانی شکل تھی، پھر ایک دور آیا کہ یہی تبادلہ سونے چاندی جیسی بیش قیمت دھاتوں سے ہونے لگا، انہیں کے ذریعے چیزیں خریدی اور فروخت کی جانے لگیں؛ لیکن بہت مدت نہیں گزری کہ خرید و فروخت کی دراز دستی نے سونے چاندی کے خول سے نکل کر ان سے بنے سکوں اور مختلف دھاتوں سے بنے پیسوں کی شکل اختیار کر لی۔

پھر ان کے بعد ایک ایسا بھی دور آیا جب لوگ سونے چاندی اور ان کے سکوں کو صرافوں کے پاس رکھ دیتے اور ان سے اس کی رسیدیں حاصل کرلیتے اور بوقت ضرورت رسید دکھا کر وہ سکے واپس لے لئے جاتے اور اگر کسی کو دینے کی ضرورت پیش آتی تو بعض فرزانے ایسا بھی کرتے کہ وہی رسید کسی اور کو دے دیتے اور وہ رسید دکھا کر صراف سے سونا لے لیتا، اور کبھی کبھی انہیں رسیدوں سے لوگ اشیاء کی خرید و فروخت کا معاملہ بھی کر لیتے، آہستہ آہستہ یہ سلسلہ عام اور دراز سے دراز تر ہوتا گیا، یہی وہ دور ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ نوٹوں کے آغاز کا ابتدائی زمانہ تھا اور جس کی اعلی ترین شکل اب ہمارے زمانے میں اس قدر عام ہے کہ اس کے خلاف سوچنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔

 کرنسی نوٹ کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں اس میں ترقی ہوتی گئی یہ اپنی اصلیت یعنی "ثمن حقیقی" سے دور سے دور تر ہوتی چلی گئی، کسی زمانے میں ان کرنسیوں کے پیچھے سو فیصد سونا ہوا کرتا تھا، پھر ایک زمانہ آیا کہ انہیں ڈالر سے جوڑ دیا گیا اور ڈالر کے پیچھے سونا تسلیم کر لیا گیا تھا، گویا بالواسطہ ان کے پیچھے سونا موجود تھا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کرنسیوں نے ڈالر سے بھی اپنا دامن چھڑا لیا اور اب ہم جس کرنسی کے دیوانے ہیں اور جس کی دستیابی کے لئے مر مٹ رہے ہیں اس کا سونے چاندی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور سوائے اس کی کہ اسے قانونی طور پر خرید و فروخت کا ایک ذریعہ تسلیم کر لیا گیا ہے اس کی حیثیت ایک کاغذ سے زیادہ نہیں۔

مگر جیسا کہ اوپر ذکر ہوا "ہر کمالے را زوالے" کچھ انسانوں کو شاید یہ سکے اور کاغذی نوٹ بھی بوجھ معلوم ہو رہے تھے یا یوں کہہ لیجیے کہ کرنسی نے ایک نئی انقلابی کروٹ لی اور اب ایک ایسی کرنسی وجود میں آچکی ہے؛ جسے جیب میں رکھنے اور چور اچکوں سے محفوظ رکھنے کی فکر دامن گیر نہ ہو گی، اس کرنسی سے انسان اپنی تمام تر ضروریات کی تکمیل بھی کر سکے گا اور پیسوں، سکوں کے بوجھت سے  بھی آزاد ہوگا، ذیل میں اسی کرنسی سے متعلق چند اہم معلومات فراہم کی جاتی ہیں امید کہ اس تحریر سے اس نومولود کرنسی کو سمجھنا آسان ہوگا۔

اس وقت تمام دنیا میں آن لائن کارو بار کا جو طوفان برپا ہوا ہے اور معیشت و تجارت میں جو زبردست ہلچل اور گہما گہمی پیدا ہوئی ہے  شاید ماضی کے کسی زمانے میں پیدا نہیں ہوئی ہوگی، اسی ہلچل و طوفان نے ایک نئی کرنسی "کرپٹو کرنسی" (Crypto Currency) کے نام سے دنیا میں چند سال قبل متعارف کرایا ہے، اس کرنسی کا تصور پیش کرنے والے یا موجد کا نام "ستوشی ناکا موتو" (Satoshinakamoto)  بتایا جاتاہے، یہ کوئی شخص ہے یا ادارہ اس کی تفصیل کسی کو معلوم نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ کرۂ ارض پر کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جو ستوشی ہونے کی دعویدار ہیں، بہر کیف دعوی کرنے والے ہوں یا کوئی بھی شخص جو بھی ہو اس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ عصر حاضر کا ذہین ترین انسان ہے۔

کرپٹو کرنسی کی حقیقت بس یہ ہے کہ یہ ایک ڈیجیٹل اور نظر نہ آنے والی ایسی کرنسی ہے جسے نہ ہاتھوں میں لیا جاسکتا ہے نہ جیب میں رکھا جا سکتا ہے، گویا باہری دنیا میں اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے، کمپیوٹر کی دنیا تک ہی یہ کرنسی محدود ہے، جو اکاؤنٹ ہولڈر کے اکاؤنٹ میں عددوں اور الفاظ کی شکل میں موجود رہتی ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انسان اس سے اپنے وہ تمام کام پورے کر سکتا ہے جو ہاتھوں میں پکڑے جانے والی اور جیبوں میں رکھی جانے والی کرنسی سے کرنا ممکن ہے، بآسانی بس یوں سمجھئے کہ جیسے ڈیبٹ کارڈ میں حقیقتا کچھ ہوتا نہیں ہے مگر اس کے ذریعے کارڈ ہولڈر اپنی ضروریات خرید کر اکاؤنٹ میں موجود بیلنس یا بینک سے ادھار لے کر قیمت ادا کر سکتا ہے ایسے ہی اس کرنسی سے بھی سارے معاملات اخاونٹ اور خارڈ سے انجام دییے جاسکتے ہیں۔

جاری

Share

کرپٹو کرنسی (Crypto currency) کی خریداری کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1310🖋️

(کتاب البیوع جدید مسائل)

 کرپٹو کرنسی (Crypto currency) 
کی خریداری کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ذیل کے مسئلے کے متعلق کپ کرپٹو کرنسی جیسے بٹکوائن اور دوسرے کرنسی جو آنلائن ہے ان پر ٹریڈینگ کی جا سکتی ہے یا نہیں؟؟

یہ آن لائن کرنسی ہوتی ہے جسیے ہر ملک کی کرنسی ہوتی ہے ویسے ہی کرپٹو بھی کوئی لے سکتا ہے، اسکو بینک میں حقیقی پیسوں میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس سے عموما کوئی بھی چیز آنلائن خریدی جا سکتی ہے

اسکی ٹریڈینگ سٹاک ٹریڈینگ جیسی ہوتی ہے جہاں پر ایک حصہ کرپٹو کا خردیا جا سکتا ہے، جب اس کرنسی کا ویلوو بڑھ جائے تو اسکو بیچ بھی سکتے ہیں اور اپنے پاس بھی رکھ سکتے ہیں، جس طرح سونے کی یا ڈالر پاؤنڈ کہ ٹریڈینگ ہوتی ہے ویسے ہی آن لائن میں کرپٹو کرنسی ہوتی ہے، حکومت بھی اسکی تائد کرتی ہے....

اسکے متعلق تفصیل مطلوب ہے آیا یہ جائز ہے یا نا جائز.....

جواب مرحمت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں...

فقط والسلام

(محمد توصیف حیدرآباد)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

کرپٹو کرنسی، بٹ کوائن اور ون کوائن کی حقیقت، ان کی صورت گری اور نفع ونقصان کے موضوع پر احقر راقم الحروف نے آج سے تقریبا تین سال قبل ایک تحریر تفصیلی انداز میں لکھی تھی، جو بہت مفید اور اس کی حقیقت و تعارف کے لئے قابل مطالعہ ہے، احقر نے ذاتی طور پر اس کی حقیقت کو خوب سمجھنے اور قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ اپنی تحقیق اور سوال بالا کے پس منظر میں اس کرنسی کا حکم یہ ہوگا کہ جن ممالک نے اس کرنسی کو قبول کرلیا ہے اور اپنے باشندگان کو اس کے لین دین کی اجازت دے دی ہے، ان کے لیے یہ ثمن عرفی یا ثمن اعتباری کے درجے میں ہوگا، اور اس کی خریداری اور لین دین سب درست ہوگا، البتہ وہ ممالک جنہوں نے اس کو بطور کرنسی قبول نہیں کیا ہے اور خواہ اپنے باشندگان کو صراحتاً اس کی خریداری سے منع کردیا ہے یا منع نہ کیا ہے ان کے لئے یہ ثمن عرفی یا ثمن اعتباری نہیں ہوگا، اور ان کے لئے اس کی خریداری درست نہیں ہوگی انڈیا نے چونکہ اس کو کرنسی نہیں مانا ہے اور اپنے ملک کے لئے قبول نہیں کیا ہے اس لیے اس کی خریداری درست نہیں ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا 📚

(١) فالشرط الأول في الثمن أن يكون مالا متقوما شرعا، و كل ما ذكرنا في مالية المبيع و تقومه يجري في مالية الثمن أيضا. (فقه البيوع ٤٢٣/١ الباب الثاني في أحكام الثمن)

المراد بالمال ما يميل إليه الطبع و يمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم والتقوم يثبت بها و بإباحة الانتفاع به شرعا. (رد المحتار على الدر المختار ١٠/٧ كتاب البيوع مطلب في تعريف المال)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 11/3/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعرات، 1 ستمبر، 2022

مکالمے میں ہندو پنڈتوں کی مشابہت اختیار کرنے کا حکم

🌴سوال و جواب🌴

(مسئلہ نمبر 395)

 مکالمے میں ہندو پنڈتوں کی مشابہت اختیار کرنے کا حکم 

سوال: ہمارے مدرسے میں چند دن پہلے اختتامی پروگرام  میں  (مباحثہ) ہوا,جو  ہندو ازم اور اسلام کے درمیان تھا.

ہندو ازم کے ترجمان نے جوکہ ہمارا ہی ساتھی تھا اس نے پنڈت والی شکل و صورت بنا لی تھی (دھوتی , گلے میں مالا(ہار) ,اور ہاتھ میں لال دھاگا وغیرہ کا استعمال کیا تھا)

تو کیا ایسے کسی پروگرام کیلئے ایسی شکل و صورت بنانا جایز ہے؟

برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں 

المستفتی .احقر محمد یاسر  ممبئی


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ الوہاب 

شریعت اسلامی میں غیر مسلموں اور فاسق و فاجر لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والوں کو انہیں میں سے شمار کیا گیا ہے، اس لئے ایسی تمام چیزوں سے بچنا واجب و ضروری ہے جو کسی خاص قوم کا شعار ہو،(١) 

لیکن مشابہت کے کئی درجے ہیں جن کا شریعت میں الگ الگ حکم ہے، چنانچہ علماء لکھتے ہیں:

"تشبہ بالکفار اعتقادات و عبادات میں کفر ہے اور مذہبی رسومات میں حرام ہے۔

 معاشرت اور عبادات اور قومی شعار میں تشبہ مکروہ تحریمی ہے"(٢)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ:

"من تشبه بقوم فهو منهم سے مراد یہ ہے کہ کسی قوم کی ایسی چیز میں مشابہت اختیار کی جائے جو اس قوم کے ساتھ مخصوص ہو یا اس کا خاص شعار ہو تو ایسی مشابہت ناجائز ہے"(٣)

اسی طرح مفتی محمود صاحب فتاویٰ محمودیہ میں لکھتے ہیں:

"بلا ضرورت شدیدہ کفار کا مخصوص لباس استعمال کرنا ممنوع اور ناجائز ہے"(٤)

اس تفصیل کی روشنی میں دیکھا جائے تو آپ نے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے اگر صرف یہی چیزیں تھیں تو چونکہ یہ چیزیں پنڈتوں اور کفار کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ دیگر لوگ بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے اس میں گنجائش ہے، لیکن علماء و طلباء کے لئے اس قسم کی باتیں زیب نہیں دیتی ہیں اس لیے آئندہ سے احتیاط کی جائے۔

البتہ اگر اس سے بڑھ کر قشقہ وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے یا ایسی چیزیں استعمال کی گئی ہیں جو ہندو پنڈتوں کی خصوصیات ہیں اور انہیں دیکھ کر کوئی مسلم تصور نہ کرے تو یقیناً ناجائز ہوگا اور توبہ و استغفار لازم ہوگا۔

واضح رہے کہ مکالمہ کا مقصد لوگوں کے سامنے صحیح اور غلط باتوں میں فرق ظاہر کرنا ہوتا ہے اور اس کے لئے اس قسم کے تکلفات کی قطعاً ضرورت نہیں، خاص کر اگر وہ حرام اور ناجائز کے دائرے میں آرہی ہوں، اس لئے اس قسم کی باتوں کو چھوڑنا ضروری ہے اور ان سے سے بچنا واجب ھے۔ کیوں عام اور سادے لباس سے بھی یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚والدليل على ما قلنا📚📚 

(١) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ، وَلَا بِالنَّصَارَى ؛ فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَهُودِ الْإِشَارَةُ بِالْأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الْإِشَارَةُ بِالْأَكُفِّ. (سنن الترمذي حديث نمبر ٢٦٩٥)

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ". (سنن ابي داود حديث نمبر ٤٠٣١)

 من تشبه بقوم أي تزيا في ظاهره بزيهم و في تعرفه بفعلهم..... و هديهم في ملبسهم و بعض أفعالهم. (فيض القدير ١٠٤/٦)

يكره بوضع قلنسوة المجوس على رأسه على الصحيح إلا لضرورة دفع الحر و البرد (الفتاوى الهنديه ٢٨٧/٢ الباب التاسع فصل في احكام المرتدين زكريا جديد)

من تشبه بقوم أي تزيا في ظاهره بزيهم و في تعرفه بفعلهم..... و هديهم في ملبسهم و بعض أفعالهم. (فيض القدير ١٠٤/٦)

(٢) فقہ حنفی کے اصول و ضوابط ص ١٥١، فتاویٰ دار العلوم زکریا ١٢٢/٧

(٣) کفایت المفتی ١٦٩/٩ دار الاشاعت، فتاویٰ دار العلوم زکریا ١٢٢/٧ کتاب الحظر و الاباحہ

(٤) فتاویٰ محمودیہ ٥٥٩/١٩ باب الموالات مع الکفار

🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 19/7/1439

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

نیا سال منانے اور اس کی مبارکباد دینے کا شرعی حکم

🎍سوال و جواب🎍

(مسئلہ نمبر 295)

 نیا سال منانے اور اس کی مبارکباد دینے کا شرعی حکم 

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و علمائے  عظام درج ذیل مسئلہ میں؛ بحوالہ جواب مرحمت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں :

کہ نیا سال منانے اور اس کی مبارکباد دینا کیسا ہے؟ (انظر حسین کرہی بستی یوپی)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

الجواب و باللہ الصواب 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی نہایت سادہ اور رسم و رواج سے بالکلیہ دور تھی، اس قسم کے بے سود، لایعنی اور خرافاتی طور طریقے نبوی معاشرے میں ہرگز جگہ نہیں پا سکتے تھے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اسلام کے پھیلاؤ میں ہجرت نبوی کو کس قدر اہمیت حاصل ہے بلکہ اس کی اہمیت کے پیش اسلامی کیلینڈر کی بنیاد سال بنایا گیا؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور صحابہ کرام کے دور اور بعد کے ادوار میں ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ جس میں نئے سال کا جشن منایا گیا ہو یا اس کی مبارکبادی دی گئی ہو؛ بلکہ اس جانب کسی صحابی یا محدث و فقیہ کا شاید ذہن تک نہیں گیا چنانچہ سلف صالحین کی کتب میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا؛ اس لئے یہ بات تو یقینی ہے کہ نئے سال کا جشن منانا؛ اس کی مبارکبادی دینا شرعاً کوئی دینی عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت سے اس کا کوئی تعلق ہے؛ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اسلام دشمن اور اسلامی تہذیب و معاشرت سے بیزار لوگوں کا بنایا اور دیا ہوا طریقہ ہے جس کا سوائے بے شمار دینی و دنیوی نقصان اور مختلف گھناؤنی حرکات کے کچھ حاصل نہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ لایعنی کاموں کو چھوڑ دے اور دیکھا جائے تو یہ ناکہ صرف لایعنی ہے بلکہ بیشمار گناہوں کا باعث بھی ہے خاص طور پر انگریزی تاریخ کا نیا سال منانے کی شروعات اور طریقہ تو سراسر غیر اسلامی تہذیب و تمدن کا حصہ ہے اس لئے اس کے خلاف دین ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہے۔

اور تاریخی مشاہدہ ہے کہ اس قسم کی رسمیں آہستہ آہستہ ایک اہم مقام اور بدعت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، اس لئے نیا سال منانے، (خواہ ہجری سال ہو یا عیسوی) اس کی مبارکبادی دینے، اور happy New year وغیرہ کہنے سے اجتناب لازم و ضروری ہے، چونکہ قرآن مجید کا حکم ہے کہ اچھے اور نیک کام میں ایک دوسرے کی مدد کروں اور برائی و ظلم کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کرو اس لئے اس کام سے خود رکنا اور اپنے دوست احباب اور اہل و عیال کو روکنا ضروری ہے، بصورت دیگر گناہ کبیرہ میں گرفتار ہونے کا اندیشہ ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب


 📚📚والدليل على ما قلنا📚📚 

(١) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ)). (سنن أبي داود حديث نمبر 4033)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ)). (سنن الترمذي حديث نمبر ٢٤٨٨)

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة 2)

تفصیل کے لئے دیکھئے: کتاب الفتاوی 481/1 مجلہ شاہراہِ علم0ص 313 ربیع الثانی 1429، اشاعت العلوم اکل کنواں۔ نیا سال مغرب اور اسلام کا نقطہ نظر ص 26.

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 9/4/1439

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ - دو متضاد راستے

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ - دو متضاد راستے

تحریر : محمد زبیر ندوی 

   پوری دنیا میں بسنے والے تمام مسلمان جس مذہب کو مانتے ہیں وہ مذہب اسلام ہے، موجودہ دنیا میں یہ واحد مذہب ہے جو خدا کا عطا کردہ اور اپنی اصلی شکل و صورت میں باقی ہے، دیگر مذاہب یاتو انسانی ذہن و دماغ کی کرشمہ سازیاں ہیں یا محرف اور مفقود الحقیقت ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمان جس قدر اپنے دین کا سچا پرستار اور قدردان ہے دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس کے پیروکار اس قدر اس کے وفادار اور قدردان ہوں،  اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک ہر صاحب علم اور ذی شعور کو بالیقین حاصل ہے ۔

ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام اپنی مکمل اور کامل صورت میں موجود ہے اور قیامت تک کے لیے یہی دین راہنما اور کشتیء حیات کا کھیون ہار ہے۔ اس کی شریعت و قانون پر عملدرآمد ہی زندگی کا مقصود ہے اسلام نے جو احکام اپنے ماننے والوں کو دیئے ہیں اس پورے مجموعے کا نام شریعت ہے اور شریعت کا ایک اہم جزء معاشرت اور عائلی زندگی ہے ۔ 

یہ نظام معاشرت اور عائلی زندگی اسلام کا وہ عطیہ اور خدا کا وہ منصفانہ نظام ہے جو قرآن و حدیث کی نصوص اور اجماع و مجتہدین کی علمی کاوشوں کا کشید اور ماحصل ہے یہ عائلی سسٹم ہر انسان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے جسے صحیح تعبیر میں اسلامک لاء اور خدائی قانون کہا جاسکتا ہے اور جو اسلامی شریعت کا نہایت اہم اور وسیع باب تھا جسے برٹش گورنمنٹ نے صرف وراثت، نکاح ، خلع ، طلاق، ایلاء، ظہار، نفقہ، مہر، حضانت اور اوقاف تک محدود کر کے سنہ 1937 میں "مسلم پرسنل لاء " سے تعبیر کیا ۔ 

قرآن و حدیث کی نصوص میں صاف صاف انسانوں سے اسی قانون خداوندی پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے اور وہ تمام قوانین جسے انسانی نابالغ اور غیر پختہ ذہن نے وضع کئے ہیں انہیں ہوا پرستی، ظلم و گمراہی اور خدا بیزاری سے تعبیر کیا گیا ہے، قرآن کریم نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے : " ثم جعلناك على شريعة من الأمر فاتبعها ولا تتبع أهواء الذين لا يعلمون" ( الجاثية 18 )  ترجمہ :  پھر ہم نے آپ کو دین کے ایک صاف راستے پر رکھا ہے بس آپ اسی پر چلئے اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے مت ہو جائیے جو جانتے نہیں ۔ دوسرے مقام پر فرمایا گیا : " اتبعوا ما أنزل الیکم من ربكم و لا تتبعوا من دونه اولیاء "( الأعراف 3 ) ترجمہ : تمہارے رب کی طرف سے جو اترا ہے اسی پر چلو اور اس کے علاوہ اور دوستوں کی بات مت مانو ۔ 

حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعا لما جئت به ترجمہ : تم میں سے کوئی بھی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات( پوری زندگی ) میرے لائے ہوئے دین کے مطابق نہ ہو جائے۔ 

اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ بھی ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ تاریخ کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ حق کا سامنا ہمیشہ باطل سے ہوا ہے خیر کی روشنی گل کر نے کے لئے شر کی آندھیاں وقتا فوقتا چلتی رہی ہیں، حق و صداقت کے سیل رواں کو روکنے کے لیے ظلم و ستم کے پہاڑ ہمیشہ سد راہ بنتے رہے ہیں اقبال کی زبان میں یوں کہنا چاہیے : 

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز 

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی 

لیکن وہ شمع کیونکر بجھ سکتی ہے جسے خود خدا نے روشن کی ہو، آندھیاں چلتی رہیں گی اور اسکی روشنی بڑھتی اور پھیلتی رہے گی خمار بارہ بنکوی نے کیا خوب کہا ہے :

نہ ہارا ہے عشق، نہ دنیا تھکی ہے 

دیا جل رہا ہے ، ہوا چل رہی ہے 

قارئین سے پوشیدہ نہیں کہ ہمارے ملک ہندوستان کی حکومت اور لاء کمیشن اسی خدائی نظام اور شرعی قانون کو ہٹا کر ایک نیا خود ساختہ ملحدانہ قانون تھوپنے کی ناپاک جسارت میں مبتلا ہے اور جسے وہ نہایت خوشنما لفظ uniform civil code  یعنی یکساں شہری قانون سے تعبیر کرتی ہے، یہ قانون اپنی افادیت اور نفاذ سے قطع نظر ہندی گنگا جمنی تہذیب میں اس کو زیر بحث لاکر نفاذ کی کوشش کرنا اور ایک بڑی کمیونٹی کو اپنی مخالفت پر آمادہ ہو نے کا موقع دینا کس قدر مضحکہ خیز اور خلاف عقل و دانش ہے اہل نظر سے پوشیدہ نہیں، ہمارا ملک کثرت میں وحدت کا ایک شاہکار ہے،  مختلف مذاہب و ادیان اس کی طاقت اور گلہائے رنگا رنگ ہی سے اس کی زینت ہے، گویا بقول ذوق :

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن 

اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف میں

   اس یکساں سول کوڈ کی بیج اگرچہ اسی    وقت ڈال دی گئی تھی جب قانون سازوں نے دفعہ 44 مرتب کرتے ہوئے یہ الفاظ تحریرکئے تھے 

The state shall endeavour to secure for citizens an uniform civil code throughout the territory of India 

"یعنی حکومت کوشش کر ے گی کہ پورے ملک میں شہریوں کے لیے یکساں شہری قانون ہو "

لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کے نفاذ کی کوششیں تیز ہوتی گئیں، اور مختلف مواقع اور تقریبات پر اسے عمل میں لانے کے ارادوں کا اظہار کیا جاتا رہا؛ چنانچہ سنہ 1972 میں مرکزی وزیر قانون مسٹر گوکھلے نے متبنی بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا :

"یہ مسودہ قانون "یونیفارم سول کوڈ " کی طرف ایک مضبوط قدم ہے " (یکساں سول کوڈ ص 12 از منت اللہ رحمانی  )

سنہ 1973 ء میں چیرمین آف لاء کمیشن مسٹر گجندر گڈکر نے یہی بات بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا :

"مسلمانوں کو یونیفارم سول کوڈ کو قبول کر لینے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر لینا چاہیے، اگر انہوں نے خوش دلی کے ساتھ یہ تجویز منظور نہیں کی تو قوت کے ذریعہ یہ قانون نافذ کیا جائے گا " ( بحوالہ : مارچ 1973 میں بنگلور میں یونیفارم سول کوڈ کے موضوع پر تقریر )

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حکومت جس یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ آخر ہے کیا؟  اور وہ قانون کہاں سے آئے گا؟  کہا جاتا ہے کہ گھر کا آدمی گھر کی بات زیادہ بہتر جانتا ہے؛ اورچور کی داڑھی میں تنکا،اس حقیقت کو بھی مسٹر پاٹسکر نے بے نقاب کر دیا ہے، انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ : 

"ہندو قوانین میں جو اصلاحات کی جارہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام آبادی پر نافذ کی جائیں گی؛  اگر ہم ایسا قانون بنانے میں کامیاب ہو گئے جو ہماری پچاسی فیصد آبادی کے لیے کافی ہو تو باقی آبادی پر نافذ کر نا مشکل نہ ہو گا،  اس قانون سے پورے ملک میں یکسانیت پیدا ہو گی" ( بحوالہ : یکساں سول کوڈ ص 11 از منت اللہ رحمانی )

مذکورہ بیانات اور اس وقت  کے حالات مسلمانوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ حکومت اور لاء کمیشن دونوں مسلم پرسنل لا کو ختم کر کے ایک ایسا نظام زندگی نافذ کر نے کے تگ و دو میں ہیں جو سرا سر ناانصافی اور فرقہ پرستی پر مبنی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ایسا قانون ہے جو شریعت محمدی سے متصادم اور مسلم پرسنل لاء سے یکسر مغایر و متضاد ہے؛  کیونکہ شریعت محمدی خدائی وفطری قانون پر مبنی ہے اور جس کی بنیاد وحی الہی اور رسالت محمدی ہے جبکہ یکساں سول کوڈ کی اساس عقل و خرد ہے یا زیادہ سے زیادہ کسی رشی منی کے ذہن میں آئے ہوئے خیالات ہیں۔

اور یہ بات بھی عالم آشکارا ہے کہ عقل انسانی کتنے ہی ترقیاتی منازل طے کر لے اپنے خالق سے آگے نہیں جاسکتی،  انسانی ذہن و دماغ کے بنائے ہوئے قوانین گرچہ ظاہرا مبنی بر مساوات ہوں لیکن باطنا وہ خبث و خود غرضی سے خالی نہیں ہوسکتے یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان سو فیصد تمام انسانی مزاج و مذاق کو اپنے قانون پر متحد اور قائم کردے، ایک عظیم اسلامی اسکالر و فلسفی ابن قيم کا بیان اس سلسلے میں کس قدر بامعنی اور درست ہے، علامہ ابن قیم لکھتےہیں :

"وكل من له مسكة عقل يعلم ان فساد العالم وخرابه إنما نشأ من تقديم الرأي على الوحي و الهوى علی العقل"( إعلام الموقعين 1/68 ) ترجمہ : "اور جسے  بھی کچھ عقل و فہم ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی بربادی اور اس کا بگاڑ رائے کو وحی پر اور خواہشات کو عقل پر مقدم کرنے اور ترجیح دینے کے سبب پیدا ہوا "

مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ کے اس پس منظر میں مسلمان کسی بھی طرح دین اور اسلامی تعلیمات سے دستبردار نہیں ہو سکتے؛  بلکہ یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرنا اور اس کے لئے جد و جہد ہمارا دینی فریضہ اور ایمانی تقاضہ ہے؛کیونکہ یہ قانون الحاد و بے دینی کا دروازہ اور مسلمانوں کے تشخص کو پائمال کرنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جو کسی بھی طرح ہمیں گوارا نہیں نہ طوعا نہ کرھا ،  اس موقع پر بطور اختتامیہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا ایک جامع و موثر اقتباس نذر قارئین کرنا چاہتا ہوں امید کہ چشم دل وا ہو اور فکر و نظر کو مہمیز لگے،  مفکر اسلام تحریر فرماتے ہیں :

" میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمان اگر مسلم پرسنل لا( شرعی عائلی قانون )  میں تبدیلی قبول کرلیں گے تو آدھے مسلمان رہ جائیں گے اور اس کے بعد خطرہ ہے کہ آدھے مسلمان بھی نہ رہیں، فلسفہ اخلاق، فلسفہ نفسیات اور فلسفہ مذاہب کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ مذہب کو اپنے مخصوص نظام معاشرت و تہذیب سے الگ نہیں کیا جاسکتا، دونوں کا ایسا فطری تعلق اور رابطہ ہے کہ معاشرت مذہب کے بغیر صحیح نہیں رہ سکتی، اور مذہب معاشرت کے بغیر مؤثر اور محفوظ نہیں رہ سکتا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسجد میں آپ مسلمان ہیں( اور مسجد میں کتنی دیر مسلمان رہتا ہے اپنے سارے شوق عبادت کے باوجود؟) اور گھر میں مسلمان نہیں ، اپنے معاملات میں مسلمان نہیں؛ اس لئے ہم اس کی بالکل اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے اوپر کوئی دوسرا نظام معاشرت نظام تمدن اور عائلی قانون مسلط کیا جائے، ہم اس کو دعوت ارتداد سمجھتے ہیں اور ہم اس کا اس طرح مقابلہ کریں گے جیسے دعوت ارتداد کا مقابلہ کیا جانا چاہیے، اور یہ ہمارا شہری، جمہوری اور آئینی حق ہے، اور ہندوستان کا دستور اور جمہوری ملک کا آئین اور مفاد نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ ہمت افزائی کرتا ہے کہ جمہوریت کی بقا اپنے حقوق اور اظہار خیال کی آزادی اور ہر فرقہ اور اقلیت کے سکون و اطمینان میں مضمر ہے ۔ ( مسلم پرسنل لاء)

Share

بدھ، 31 اگست، 2022

شادی کارڈ میں گنیش جی کے متعلق بعض باتیں لکھنے والے مسلمان اور اس کی دعوت قبول کرنے کا حکم

🍸سوال و جواب🍸 

   (مسئلہ نمبر 270)

شادی کارڈ میں گنیش جی کے متعلق بعض باتیں لکھنے والے مسلمان اور اس کی دعوت قبول کرنے کا حکم

سوال: کیا حکم ہے اس شخص کا جس نے اپنی شادی کا دعوت نامہ اس طرح تیار کیا ہے ۔

"بھگوان گنیش کی جئے ہو۔گنیش کے نام سے تمام کام پورے ہوتے ہیں، اس لئے محبت کے ساتھ ہم دعوت بھیج رہے ہیں ۔آپ قبول فرمائیں" "گنیش کے نام سے شروع، ایشور کی عظیم مہربانی سے اور بزرگوں کی دعاؤں سے خاندان میں یہ خاص موقع آیا ہے" ۔

اس کے بعد دعوت کی تفصیل ہے ۔

کیا ایسے شخص کی دعوت میں شرکت جائز ہے اور کیا خود داعی دائرہ اسلام میں باقی رہے گا یا اسے از سر نو کلمہ پڑھنا ہو گا؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ۔ (عامر جاوید فلاحی، کلکتہ)


--------------------------------------------------


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب و باللہ الصواب 

سوالنامہ میں جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ہندوانہ عقیدے اور رسم و رواج سے تعلق رکھتی ہیں؛ ان باتوں کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ مثلا گنیش کی جئے پکارنا اور گنیش کی فتح مندی کا خواہاں ہونا اور گنیش کے نام سے تمام کاموں کا پورا ہونا اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف باتیں ہیں؛ اسی طرح اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر کام خدا کے نام سے شروع کیا جائے اور سوال میں منقول بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام گنیش کے نام سے شروع کیا جارہا ہے؛ جو کہ قرآن و حدیث کی تعلیم کے خلاف ہے اور ہندوانہ طور طریقے پر دلالت کرتا ہے؛ اس لئے اگر کارڈ دینے والا شخص کوئی مناسب تاویل مثلا یہ کہ کارڈ اس کے غیر مسلم دوست نے چھپایا ہے یا یہ کہ اس کی چھپائی میں وہ شریک نہیں ہے بلکہ کسی اور کی یہ حرکت ہے، نہیں کرتا ہے تو وہ شخص دائرہ اسلام سے باہر ہے اور اس پر توبہ و استغفار اور تجدید نکاح ضروری ہے، ایسے شخص کی دعوت اس وقت تک قبول نہ کی جائے جب تک کہ وہ اپنی برائت کا اعلان نہ کردے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚📚والدلیل علی ما قلنا📚📚

(1) إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ (النمل 30)

》عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال :كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه ببسم الله الرحمن الرحيم أقطع (السنن الأربعة)

》اذا أنكر الرجل آية من القرآن أو تسخر بآية من القرآن و في "الخزانة" أو عاب كفر كذا في التاتارخانية (الفتاوى الهندية 279/2 كتاب السير موجبات الكفر زكريا جديد)

》الهازل أو المستهزي إذا تكلم بكفر استخفافا و استهزاء و مزاحا يكون كفرا عند الكل و إن كان اعتقاده خلاف ذلك (الفتاوى الهندية 287/2 كتاب السير الباب التاسع)

》إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر ووجه واحد يمنع فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر فلا ينفعه التأويل كذا في البحر الرائق (الفتاوى الهندية 293/2 كتاب السير قبيل الباب العاشر الباب التاسع زكريا جديد)

💐💐💐💐💐💐💐💐💐


كتبه العبد محمد زبیر الندوي 

مركز البحث والإفتاء الجامعة الإسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا 

مؤرخہ 13/3/1439

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

شادی کی سالگرہ منانے کا حکم شرعی

 ⚖سوال و جواب⚖ 

 ❤مسئلہ نمبر 977❤ 

(کتاب النکاح، باب المعاشرت)


 شادی کی سالگرہ منانے کا حکم شرعی 

 سوال: اگر کوئی شخص اپنی شادی کی سالگرہ کے موقعہ پر بغیر ضروری سمجھے ہوئے اور بغیر دین سمجھے ہوئے محض زوجین کے درمیان محبت میں اضافہ کی خاطر (جو کہ شریعت کی نگاہ میں مطلوب اور محمود ہے) اس دن بغیر کسی (صریح) غیر شرعی کام کے ارتکاب کے کچھ خوشی کا اظہار کرے، تبادلۂ تحائف کرے اور آئندہ سالوں میں اس کے اہتمام و التزام کا بھی کوئی ارادہ نہ ہو تو کیا یہ عمل مباح ہوگا یا نہیں؟ 

اور اگر بالفرض مباح نہ ہوا تو کیا اُس پر "من تشبہ بقوم فھو منھم" کی وعید کا انطباق درست ہوگا؟ جب کہ اس امر کا اغیار کے دین و عقیدے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

 سردست "احتیاط" کے پہلو کے ساتھ "جائز" اور "ناجائز" پر واضح مدلل موقف پیش فرمائیں۔ (سید احمد انیس ندوی، فیروز آباد)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

شادی کی سالگرہ منانے کے سلسلے میں آپ نے  جن شرائط اور بنیادی ضروری رعایتوں کا ذکر کیا ہے وہ اگر پائی جائیں تو شادی کی سالگرہ منانا شرعاً مباح ہوگا، اور اس میں کچھ حرج نہیں ہوگا؛ بلکہ زوجین میں محبت و الفت اور ایک دوسرے پر اعتماد کی بحالی کی نیت ہو تو یہ ایک مستحسن اور قابلِ ستائش عمل بھی ہوسکتا ہے، لیکن علماء کرام اور مفتیانِ عظام اس قسم کے مباحات سے چار وجوہات کی بناء پر منع کرتے ہیں اول یہ کہ عموماً ان چیزوں کی رعایت عوام نہیں کرپاتی اور افراط و تفریط کا شکار ہوجاتی ہے، علماء چونکہ ان باریکیوں کو سمجھتے ہیں اور ان سے ان کی رعایت کی امید بھی ہوتی ہے؛ اس لیے ان میں اور عوام میں فرق ہوجاتا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور تابعین عظام کی روشن زندگیوں اور تابندہ سیرتوں میں شادی کی سالگرہ پر اہتمام اور خاص طور پر اظہار مسرت کی کی کوئی واضح دلیل نہیں ملتی؛ حالانکہ یہ حضرات اپنی بیویوں سے محبت و الفت میں کسی سے کم نہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ازواج کو اپنی مرغوبات میں ذکر فرمایا ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے بے انتہا الفت و محبت فرماتے تھے لیکن اس کے باوجود کبھی سالگرہ پر خوشی کی کوئی روایت نظر سے نہیں گزری۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ اس بات کا زیادہ تر محرک غیروں کا عمل اور ان کی دیکھا دیکھی ہوتی ہے، جو کہ تشبہ کی ایک قسم ہے، تشبہ کا تعلق صرف عقائد سے نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات شعائر اور عام طریقۂ زندگی سے بھی ہوتا ہے؛ چنانچہ اس کی کئی مثالیں حدیث و سیرت میں مل سکتی ہیں، مثلاً داڑھی بڑھانے اور مونچھوں کو کتروانے میں مجوسیوں کے مخالفت، سر پر ٹوپی کے ساتھ عمامہ باندھنے میں مشرکین کی مخالفت وغیرہ احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں، غور کیجیےُ تو معلوم ہوگا کہ ان باتوں کا تعلق عقائد سے نہیں ہے؛ بلکہ اعمال سے ہے، لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعمال میں ان کی مشابہت سے منع فرمایا ہے، اس سلسلے میں من تشبہ بقوم کی جو تشریح ملا علی قاری نے کی اور علامہ ابنِ کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر سورۃ توبہ آیت نمبر ٢٩ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کا جو خط نقل فرمایا ہے وہ نہایت چشم کشا اور قابلِ مطالعہ ہے، دلائل کے ذیل میں ان کی تحریریں ملاحظہ فرمائیں۔

چوتھی وجہ یہ ہے اسلام نے بدعات اور محدثات کو بڑی سخت نظر سے دیکھا ہے، بدعات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شروع تو اچھی نیت سے ہوتی ہیں مگر آہستہ آہستہ ان میں اس قدر لزوم ہوجاتا ہے اور کچھ نسلوں کے بعد وہ چیزیں اس قدر واجب و ضروری اور لوگوں کی نظر میں مستحسن ھوجاتی ھیں کہ بدعت کی شکل اختیار لیتی ہیں، ہندوستان میں طبقہ بریلویت میں شائع بدعات پر اگر گہری نظر ڈالیں اور تاریخی مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ اعمال اصلا کسی دوسری نیت اور عمدہ طریقے پر شروع کیے گیے تھے؛ لیکن کشاں کشاں یہی مباحات بدعات میں تبدیل ہوگیے۔ اس لیے آپ کے ذکر کردہ مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ انفرادی طور پر خوشی منانے میں حرج نہیں؛ لیکن اس کی دعوت دینا اور دوسروں کو ترغیب دینا درست نہیں ہوگا جس کی وجوہات اوپر ذکر کردی گئی ہیں (١) فقط والسلام۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) الأصل في الأشياء الاباحة (قواعد الفقه ص 59)

الأمور بمقاصدها (الاشباه والنظائر لابن نجيم المصري)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى، خَالِفُوا الْمَجُوسَ ". (صحيح مسلم رقم الحديث ٢٦٠ كِتَابٌ : الطَّهَارَةُ  | بَابٌ : خِصَالُ الْفِطْرَةِ )

قَالَ رُكَانَةُ : وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " فَرْقُ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ الْعَمَائِمُ عَلَى الْقَلَانِسِ ". 

(كِتَابٌ : اللِّبَاسُ  رقم الحديث ٣٠٧٨ بَابٌ : فِي الْعَمَائِمِ)

”وعنہ (أي: عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ“ أي: مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، مثلاً: فِي اللِّبَاسِ وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِ․ ”فَہُو مِنْہُمْ“، أي: في الاثْمِ وَالْخَیْرِ“․ (مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۱۵۵، رشیدیة)

وَلَا نَتَشَبَّهَ بِهِمْ فِي شَيْءٍ مِنْ مَلَابِسِهِمْ، فِي قَلَنْسُوَةٍ، وَلَا عِمَامَةٍ، وَلَا نَعْلَيْنِ، وَلَا فَرْقِ شَعْرٍ، وَلَا نَتَكَلَّمَ بِكَلَامِهِمْ، وَلَا نَكْتَنِيَ بكُنَاهم، وَلَا نَرْكَبَ السُّرُوجَ، وَلَا نَتَقَلَّدَ السُّيُوفَ، وَلَا نَتَّخِذَ شَيْئًا مِنَ السِّلَاحِ، وَلَا نَحْمِلَهُ مَعَنَا، وَلَا نَنْقُشَ خَوَاتِيمَنَا بِالْعَرَبِيَّةِ، وَلَا نَبِيعَ الْخُمُورَ، وَأَنْ نَجُزَّ مَقَادِيمَ رُءُوسِنَا، وَأَنْ نَلْزَمَ زِينا حَيْثُمَا كُنَّا، وَأَنْ نَشُدَّ الزَّنَانِيرَ عَلَى أَوْسَاطِنَا، وَأَلَّا نُظْهِرَ الصَّلِيبَ عَلَى كَنَائِسِنَا، وَأَلَّا نُظْهِرَ صُلُبَنَا وَلَا كُتُبَنَا(٢٦) فِي شَيْءٍ مِنْ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ، وَلَا نَضْرِبَ نَوَاقِيسَنَا فِي كَنَائِسِنَا إِلَّا ضَرْبًا خَفِيًّا، وَأَلَّا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا بِالْقِرَاءَةِ فِي كَنَائِسِنَا فِي شَيْءٍ مِنْ حَضْرَةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا نُخْرِجَ شَعَانِينَ وَلَا بَاعُوثًا، وَلَا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا مَعَ مَوْتَانَا، وَلَا نُظْهِرَ النِّيرَانَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ مِنْ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ، وَلَا نُجَاوِرَهُمْ بِمَوْتَانَا، وَلَا نَتَّخِذَ مِنَ الرَّقِيقِ مَا جَرَى عَلَيْهِ سِهَامُ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنْ نُرْشِدَ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا نَطَّلِعَ عَلَيْهِمْ فِي منازلهم. (تفسير ابن كثير سورة التوبة ٢٩)

وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ".

حكم الحديث: صحيح. (سنن أبي داود رقم الحديث 4607 أَوْلُ كِتَابِ السُّنَّةِ  | بَابٌ : فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 13/3/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

دماغی دورہ کی وجہ سے طلاق دینا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1445🖋️

(کتاب الطلاق، اسباب طلاق)

دماغی دورہ کی وجہ سے طلاق دینا

سوال: نکاح کے بعد لڑکی کے دماغی مرض (مرگی اور دماغی دورہ وغیرہ) میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا جس میں بے ہوشی وغیرہ طاری ہو جاتی ہے اور ممکن ہے کہ کسی بھی وقت کوئی حادثہ درپیش ہوجائے جس میں جان کا بھی خطرہ ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح کے کئی سال پہلے سے لڑکی کا ماہر نفسیات کا بھی علاج شروع ہے حتی کہ اسے پاگل خانے میں بھی بھرتی کیا گیا تھا لہٰذا لڑکی کی سرپرست (والدہ) سے رابطہ کیا گیا کہ نکاح کے پہلے آپ نے اس مرض کے متعلق آگاہ کیوں نہیں کیا تو وہ فرمانے لگی کہ "میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں مگر میں مجبور تھی کہ کہیں رشتہ نہ ٹوٹ جائے" 

مختصراً یہ کہ صورت مسئولہ میں لڑکے کے لئے (طلاق یا علیٰحدگی وغیرہ کے متعلق) کیا رہنمائی ہے مرحمت فرمائیں عنایت ہوگی. (سائل: میر نوید علی جلگاؤں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

طلاق اسلامی شریعت میں بہت مکروہ چیز سمجھی گئ ہے، حدیث مبارکہ میں اسے ابغض الحلال بتایا گیا ہے؛ اس لیے حتیٰ الامکان طلاق سے بچنا چاہیے، تاہم بسااوقات طلاق ایک ضرورت بن جاتی ہے اس لیے اس کی اجازت بھی دی گئی ہے، طلاق کے سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ طلاق اس وقت دینی چاہیے جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو یعنی زوجین میں نبھاؤ کی صورت بالکل نہ بن پارہی ہو۔

فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ طلاق اس وقت دینی چاہیے جب بیوی کی بدسلوکی سے آدمی پریشان ہوجائے یا وہ اس کی ایذا سے تنگ آجائے، صورت مسئولہ میں اگر دماغی حالت ایسی ہو کہ آدمی اپنی بیوی سے جنسی تعلقات قائم نہ کرپاتا ہو یا اس کے دماغی توازن میں کمی کی وجہ سے جان مال کا شدید خطرہ ہو تو طلاق دے سکتا ہے، اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ طلاق نہ دی جائے؛ بلکہ ضرورت محسوس ہو اور وسعت ہو تو دوسری شادی کرلی جائے اور دونوں بیویوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کا برتاؤ رکھا جائے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ ". (سنن أبي داود رقم الحديث ٢١٧٨ كِتَابٌ : الطَّلَاقُ  | بَابٌ : فِي كَرَاهِيةِ الطَّلَاقِ)

والأولى أن يكون لحاجة كسوء سلوك الزوجة أوإيذائها أحداً، لما فيه من قطع الألفة، وهدم سنة الاجتماع، والتعريض للفساد، ولقوله تعالى: {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلاً} [النساء:٣٤/ ٤] (الفقه الإسلامي و أدلته 2921/9 الأحوال الشخصية)

لأن الطلاق لغير حاجة كفر بنعمة الزواج، وإيذاء محض بالزوجة وأهلها وأولادها. (الفقه الإسلامي و أدلته 2921/9 الأحوال الشخصية)

فَٱنكِحُوا۟ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَاۤءِ مَثۡنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُبَـٰعَۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تَعۡدِلُوا۟ فَوَ ٰ⁠حِدَةً أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَیۡمَـٰنُكُمۡۚ ذَ ٰ⁠لِكَ أَدۡنَىٰۤ أَلَّا تَعُولُوا۟ (النساء 3)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 28/7/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

منگل، 30 اگست، 2022

حج میں دم فوری دینا ہے یا تاخیر بھی درست ہے

 ⚖سوال و جواب⚖

🕋مسئلہ نمبر 898🕋

(کتاب الحج، باب الھدی)


 حج میں دم فوری دینا ہے یا تاخیر بھی درست ہے 

 سوال: اگر حج یا عمرہ میں دم واجب ہوجائے تو دم فوری واجب ہے یا تاخیر کی جاسکتی ہے؟ (مفتی عبد الرحمٰن قاسمی، حیدرآباد)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق


حج میں کسی جنایت کی بنا پر اگر دم واجب ہوجائے تو اس دم کو حدودِ حرم میں دینا واجب ہے؛ حدود حرم سے باہر دم دینے سے واجب ادا نہیں ہوگا، البتہ دم کی ادائیگی کے لئے وقت کی تعیین نہیں ہے، تاخیر سے بھی حسب سہولت جب چاہیں دم دے سکتے ہیں، فقہاء کرام نے واضح طور پر اس مسئلے کو تحریر فرمایا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج 33)

 و يجوز ذبح بقية الهدايا في أي وقت شاء، و لا يجوز ذبح الهدايا إلا في الحرم. (المختصر للقدوري ص ٧٠ كتاب الحج، باب الحج)

فخصه بمكان و لم يخصه بزمان، و لأنه دم كفارة حتى لا يجوز الأكل الأكل منه، فيختص بالمكان دون الزمان كدماء الكفارات. (المعتصر الضروري مع مختصر القدوري ص ٢٤٧ كتاب الحج باب الاحصار)

انوارِ مناسک ٢٢٠ احرام کی پابندیاں اور امور ممنوعہ ط مکتبۂ یوسفیہ دیوبند


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 22/12/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

غائب شخص کی طرف سے رمی کرنے کا حکم

⚖سوال و جواب⚖ 

🕋مسئلہ نمبر 993🕋

(کتاب الحج باب الرمی)

 غائب شخص کی طرف سے رمی کرنے کا حکم 

 سوال: اگر کوئی بوڑھا شخص حج کے ایام میں منی میں غائب ہو جائے تو کیا رمی جمار میں غائب شخص کی طرف سے نیابت درست ہے؟ (محمد ساجد ندوی جالون یو پی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب بعون اللہ الوہاب

رمی جمار میں خود سے رمی کرنا ضروری ہے کسی اور سے رمی کرانا درست نہیں ہے الا یہ کہ ایسی مجبوری یا بیماری ہو کہ خود سے رمی نہ کرسکے، ایسی صورت میں کسی کو نائب بنا کر رمی کرائی جاسکتی ہے، مذکورہ بالا صورت میں وہ شخص بیمار یا معذور نہیں ہے؛ بلکہ غائب ہوگیا ہے اور غائب شخص عموماً لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ  جمرات تک پہنچ جاتا ہے اس لئے وہ خود کر سکتا ہے، چنانچہ غائب شخص کی طرف سے رمی کرنا درست نہیں ہوگا، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ جمرات کو پہنچ کر بذات خود رمی کرلے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) '' السادس: أن یرمي بنفسه، فلا تجوز النیابة فیه عند القدرة. و الرجل و المرأة في الرمي سواء، إلا أن رمیها في اللیل أفضل، فلاتجوز النیابة عن المرأة بغیر عذر. وتجوز عند العذر، فلو رمی عن مریض بأمره أو مغمی علیه و لو بغیر أمره أو صبي أو معتوه أو مجنون جاز. والأولی أن یرمي السبعة أولاً عن نفسه، ثم عن غیره. و لو رمی بحصاتین إحداهما عن نفسه والأخری من غیره جاز، ویکره''. (غنیة الناسك،ص:۲۴۳، فصل في شرائط الرمي)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 29/3/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

اگر کوئی شخص عمرہ کرے اورحلق یا قصر کئے بغیراحرام کھولدے پھراحرام باندھ کر دوسراعمرہ کرے اس میں بھی حلق اورقصر کئے بغیر احرام کھول دے تواس کاکیاحکم ہے

 ⚖سوال و جواب⚖ 

مسئلہ نمبر 1066

(کتاب الحج باب الجنایات)

 سوال: اگر کوئی شخص عمرہ کرے اورحلق یا قصر کئے بغیراحرام کھولدے پھراحرام باندھ کر دوسراعمرہ کرے اس میں بھی حلق اورقصر کئے بغیر احرام کھول دے تواس کاکیاحکم ہے۔ (محمد مجیب ممبئی)


 بسم اللہ الرحمن الرحیم 

 الجواب بعون اللہ الوہاب 

حلق یا قصر عمرہ کے واجبات میں سے ہے، اور واجب کے چھوڑنے سے دم لازم ہوتا ہے چنانچہ صورت مسئولہ میں دو مرتبہ ایسا کرنے سے دم لازم ہوگا جس کو حرم میں دینا ضروری ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) و أما واجباتها فالسعي بين الصفا والمروة، و الحلق أو التقصير (الفتاوى الهندية ٢٦١/١ كتاب الحج باب العمرة)

واعلم أن المحرم إذا نوی رفض الإحرام فجعل یصنع ما یصنعہ الحلال من لبس الثیاب والتطیب والحلق والجماع وقتل الصید فإنہ لا یخرج بذلک من الإحرام، وعلیہ أن یعود کما کان محرما، ویجب دم واحد لجمیع ما ارتکب ولو کل المحظورات إلخ (شامی: ۳/ ۵۸۵، ط: زکریا)

أو عمرة لاختصاص الحلق بالحرم، لا دم في معتمر خرج ثم رجع من حل إلی الحرم ثم قصر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب الجنایات ۳:۵۸۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 13/6/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

پیر، 29 اگست، 2022

سرکاری کوٹے سے جانے والے کا حج بدل کرنا

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1769🖋️

(کتاب الحج، باب الحج عن الغیر)

سرکاری کوٹے سے جانے والے کا حج بدل کرنا

 سوال: اگر کوئی سرکاری ملازم حاجی کی خدمت کے لئے سرکار کے طرف سے جا رہا ہے تو کیا وہ شخص کسی مرحوم کے لیے حج کرسکتا ہے اور یہ بھی بتائیں کہ اگر اس سرکاری ملازم پر حج فرض ہے تو کیا اس سرکاری کوٹے سے اس کا حج ادا ہو جائے گا، حدیث اور قرآن کی روشنی میں دلیل دیں۔ (العارض محمد فیض امام پیر باغ مسجد شکتی نگر لکھنؤ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

کوئی شخص اگر صرف نفلی طور پر حج کرنا چاہتا ہے اور اس کا ثواب کسی مرحوم کو پہنچانا چاہتا ہے تو یہ درست ہے، لیکن اگر کوئی شخص باضابطہ فرض حج کسی کی طرف سے کرنا چاہتا ہے (جسے اصطلاح میں حج بدل کہتے ہیں) تو ضروری ہے کہ جس کی طرف سے حج کرنا چاہتا ہے اس کا پیسہ حج میں لگا ہو، مذکورہ بالا صورت میں چونکہ پیسہ سرکاری لگا ہے اس لیے اس پیسے سے حج بدل نہیں کرسکتا ہے ہاں اگر اس پر خود حج فرض ہو اور سرکاری کوٹے سے کرلے تو اس کا اپنا فرض حج ادا ہوجائے گا (١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة لما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته....وتجري في النوع الثالث عند العجز للمعنى الثاني وهو المشقة بتنقيص المال ولا تجري عند القدرة لعدم إتعاب النفس والشرط العجز الدائم إلى وقت الموت لأن الحج فرض العمر وفي الحج النفل تجوز الإنابة حالة القدرة (الهداية 178/1)

ولجواز النيابة في الحج شرائط. (منها) : أن يكون المحجوج عنه عاجزا عن الأداء بنفسه وله مال، فإن كان قادرا على الأداء بنفسه بأن كان صحيح البدن وله مال أو كان فقيرا صحيح البدن لا يجوز حج غيره عنه. (ومنها) استدامة العجز من وقت الإحجاج إلى وقت الموت هكذا في البدائع..... (ومنها) أن يكون حج المأمور بمال المحجوج عنه فإن تطوع الحاج عنه بمال نفسه لم يجز عنه حتى يحج بماله (الفتاوى الهندية 201/1)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 27/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

حج کرانے کا پیسہ دے اور اخراجات بڑھ جائیں تو کیا کریں

 ⚖سوال و جواب⚖ 

 مسئلہ نمبر 1082 

(کتاب الحج باب الحج عن الغير)

 حج کرانے کا پیسہ دے اور اخراجات بڑھ جائیں تو کیا کریں 

 سوال: ایک صاحب اپنے رشتے دار کو ڈیڑھ لاکھ روپے دیئے تھے حج کرنے کے لئے لیکں اب حج کی لاگت سوا دو لاکھ روپے ہے تو اب وہ کیا کرے، آیا اپنے پاس سے پیسے لگا کر حج کر سکتا ہے؟ (قاری سعود مدرسہ اسلامیہ گلشن نگر جوگیشوری ممبئی)


 بسم اللہ الرحمن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 

 حج کے اخراجات کے لئے اگر رقم کم پڑ گئی ہے تو ظاہر ہے اس میں مزید رقم ملائی جائے گی، اب اگر یہ حج بدل کی رقم تھی تو حج بدل کے لیے ضروری ہوگا کہ اصلی رقم ملائی جانے والی رقم سے زیادہ ہو ورنہ حج بدل نہیں ہوگا اور اگر نفلی حج کی رقم ہو کم زیادہ کی تفصیل نہیں ہے، آدمی کو اختیار ہے جتنی اس کے پاس وسعت ہو  خود اپنی رقم شامل کرلے اور اگر وسعت نہ ہو لیکن کوئی ثواب کی نیت سے روپیے دینے کو تیار ہو تو اس کی رقم شامل کرلی جایے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی اور کو دے دی جائے جو اپنی رقم شامل کرکے حج کرلے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمٍ قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى ظَهْرِ الْبَعِيرِ. قَالَ : " حُجِّي عَنْهُ ". (سنن الترمذي رقم الحديث ٩٢٨ أَبْوَابُ الْحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي الْحَجِّ عَنِ الشَّيْخِ الْكَبِيرِ، وَالْمَيِّتِ)

 وإن لم يكن في مال الميت وفاء بالنفقة فانفق شيئا من ماله ينظر إن كان أكثر النفقة من مال الميت جاز و إلا فلا و هذا استحسان  (الفتاوى الهندية ٢٥٧/٢ كتاب الحج الباب الرابع عشر)

لأن باب النفل أوسع. (الفتاوى الهندية ٢٥٧/٢ كتاب الحج الباب الرابع عشر)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 12/7/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ

Share

طواف کے دوران قرآن پڑھنا

 ⚖️سوال وجواب ⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1773 🖋️

(کتاب الحج باب آداب الطواف)

طواف کے دوران قرآن پڑھنا

سوال: ایک حافظ صاحب ہیں وہ حج کرنے گئے تو طواف کے دوران قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟ (عبد الکریم ممبئ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

دین میں اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے، اپنی من مانی درست نہیں ہے، بطورِ خاص وہ امور جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل موجود ہو وہ بہرحال مقدم ہوگا، طواف کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دعاء کرنے اور اللہ کی جانب متوجہ رہنے کا تھا، اس دوران تلاوت کرنا ثابت نہیں ہے، اس لیے مسنون طریقہ دعاؤں کا اہتمام ہے تلاوت نہیں ہے۔ 

اسی لیے بعض فقہاء نے اس موقع پر تلاوت کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا ترک لازم آتا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا 📚

(١) حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " وُكِلَ بِهِ سَبْعُونَ مَلَكًا، فَمَنْ قَالَ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، { رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ }. قَالُوا : آمِينَ ". فَلَمَّا بَلَغَ الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ : يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، مَا بَلَغَكَ فِي هَذَا الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ ؟ فَقَالَ عَطَاءٌ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنْ فَاوَضَهُ فَإِنَّمَا يُفَاوِضُ يَدَ الرَّحْمَنِ ". قَالَ لَهُ ابْنُ هِشَامٍ : يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، فَالطَّوَافُ. قَالَ عَطَاءٌ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَلَا يَتَكَلَّمُ إِلَّا بِسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، مُحِيَتْ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَكُتِبَتْ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ بِهَا عَشْرَ  دَرَجَاتٍ، وَمَنْ طَافَ فَتَكَلَّمَ وَهُوَ فِي تِلْكَ الْحَالِ خَاضَ فِي الرَّحْمَةِ بِرِجْلَيْهِ، كَخَائِضِ الْمَاءِ بِرِجْلَيْهِ ". (سنن ابن ماجه  كِتَابُ الْمَنَاسِكِ  | بَابٌ : فَضْلِ الطَّوَافِ)

 و تكره قراءة القرآن في طواف. (الفتاوى الهندية ٣١٦/٥)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 2/7/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

اتوار، 28 اگست، 2022

بینکوں اور کمپنیوں کے ریزرو فنڈز Reserve Funds Of Bank And Companies میں زکوٰۃ کا حکم

⚖سوال و جواب⚖

💸مسئلہ نمبر 792💸

(زکوٰۃ کے جدید مسائل)

بینکوں اور کمپنیوں کے ریزرو فنڈز Reserve Funds Of Bank And Companies

 میں زکوٰۃ کا حکم

سوال: اسلامی بینکوں اور دیگر کمپنیوں کے جو ریزرو فنڈز ہوتے ہیں جو وقتی ضروریات پر کام آتے ہیں ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی کہ نہیں؟ دور حاضر کے فقہاء و مفتیان کرام کی اس بارے میں کیا تحقیق ہے؟ (دار الافتاء بہرائچ یوپی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب بعون اللہ الوہاب 

اسلامی بینک یا کمپنیوں میں جو ریزرو فنڈز رکھے جاتے ہیں؛ چونکہ وہ عرفا اور قانوناً بینک اور کمپنی کے اثاثوں کا حصّہ ہوتے ہیں اس لئے ان میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، اور ہر حصے دار کے ذمہ لازم ہوگا کہ وہ اپنے حصے کی زکوۃ نکالے، چنانچہ جن حضرات نے کمپنی میں حصے اس واسطے لیے ہوں کہ وہ اسے فروخت کریں گے تو وہ بازاری قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ نکالیں گے اور جیسا کہ معلوم ہے کہ بازاری قیمت جب متعین کی جاتی ہے تو اس میں ریزرو فنڈز کی رقم کو بھی شامل کرکے اس کی تعیین کی جاتی ہے؛ اس لئے ریزرو فنڈز کی مستقل زکوٰۃ نکالنے کی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ اپنے حصے کی زکوۃ جب بازاری نرخ کے اعتبار سے نکالیں گے تو ریزرو فنڈز کی زکوۃ ایٹومیٹک نکل جائے گی۔

لیکن جن حضرات نے فروختگی کے ارادے سے حصے داری نہیں کیا ہے؛ بلکہ اپنی شرکت کو برقرار رکھنے کے لئے حصہ لیا ہے تو اس صورت میں زکوٰۃ واجب ہوگی اور اس کی زکوۃ مستقل طور پر نکالنی ہوگی البتہ اس صورت میں ناقابلِ زکوٰۃ اثاثوں مثلاً عمارت اور فرنیچر وغیرہ کی رقم کو منہا کرکے زکوٰۃ نکالیں گے اور ان ناقابلِ زکوٰۃ اثاثوں کی تعین اندازے سے کیا جاسکتا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (التوبة 103)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ ". (سنن الترمذی حدیث نمبر 618 أَبْوَابُ الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ إِذَا أَدَّيْتَ الزَّكَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ)

إذا كان له عروض أو خادم للتجارة و حال عليه الحول و هو تبلغ نصابا للدراهم... تجب الزكاة فيهما. (الفتاوى السراجية ص ١٣٧)

و منها كون النصاب ناميا حقيقة بالتوالد و التناسل و التجارة. (الفتاوى الهندية ١٩٢/١ كتاب الزكاة)

يزكي رب المال (المالك) رأس المال و حصته من الربح و يزكي العامل حصته من الربح..... قال أبو حنيفة: و يزكي كل واحد من المالك و العامل بحسب نصيبه و حصته من كل سنة. (الفقه الاسلامي و أدلته ١٨٧٨/٣ كتاب الزكاة، سادسا زكاة شركة المضاربة)

مستفاد: فتاویٰ عثمانی 74/2 کتاب الزکوۃ


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مورخہ 4/9/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

کیا انبیاء پر زکوٰۃ فرض نہیں تھی؟

 ⚖سوال و جواب⚖

💸مسئلہ نمبر 801💸

(کتاب الزکوۃ، باب الوجوب)

 کیا انبیاء پر زکوٰۃ فرض نہیں تھی؟ 

 سوال: انبیاء کرام علیہم السلام پر زکوٰۃ فرض تھی یا نہیں؟ (شکیل احمد، ڈالی گنج لکھنؤ، یوپی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 

زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جو سابقہ اقوام کے ساتھ امت محمدیہ پر بھی فرض کی گئی ہے، قرآن مجید و احادیث مبارکہ کی بعض روایات سے معلوم ھوتا ھے کہ زکوٰۃ کی رقم مال کا میل ہے جو مال کی گندگی کو دور کرتی ہے، ظاہر ہے انبیاء کرام علیہم کی ذات جس طرح پاک ہوتی ہے اسی طرح ان کا مال بھی پاک اور منزہ ہوتا ہے؛ اس لیے اس کی زکوۃ کے ذریعے پاک کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ چنانچہ علامہ شامی اور دیگر فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اس مسئلے پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، نیز انبیاء کرام علیہم السلام اس قدر دریا دل اور سخی ہوتے تھے کہ ان کا ذاتی مال ان کے پاس اس مقدار میں رہتا ہے نہیں تھا کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو، انبیاء کرام علیہم کے پاس اِدھر مال آتا اُدھر امت کے فقراء ومساکین میں تقسیم ہوجاتا، سیرت کی کتابوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا، ظاہر ہے کہ جب بقدر نصاب مال ہی نہیں ہوتا تھا تو زکوٰۃ کا وجوب چہ معنیٰ دارد(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (التوبة 103)

تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها" حَالَيْنِ لِلْمُخَاطَبِ، التَّقْدِيرُ: خُذْهَا مُطَهِّرًا لَهُمْ وَمُزَكِّيًا لَهُمْ بِهَا. وَيَجُوزُ أَنْ يَجْعَلَهُمَا صِفَتَيْنِ لِلصَّدَقَةِ، أَيْ صَدَقَةً مُطَهِّرَةً لَهُمْ مُزَكِّيَةً، (الجامع لأحكام القرآن — القرطبي، سورة التوبة ١٠٣)

و لا تجب على الأنبياء إجماعا. (الدر المختار مع رد المحتار ١٧٠/٣ كتاب الزكاة)

لأن الزكاة طهرة لمن عساه أن يتدنس و الأنبياء مبرءون منه، (رد المحتار على الدر المختار ١٧٠/٣ كتاب الزكاة)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مورخہ 13/9/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

وکیل بالقبض بنانے کی شرط پر زکوٰۃ دینا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1483🖋️

(کتاب الزکاۃ، باب التوکیل)

وکیل بالقبض بنانے کی شرط پر زکوٰۃ دینا


سوال: ایک صاحب بہت زیادہ مقروض ہے، اب زکوٰۃ والے اس کو قرض سے نکالنا چاہتے ہیں، لیکن رقم اس کو نہیں دینا چاہتے ہیں کیونکہ اس کو دینے سے وہ رقم کو ادھر ادھر خرچ کرسکتا ہے، اس لیے اس سے یہ کہا جائے کہ تم وکیل بالقبض بناؤ، جو تمہاری طرف سے زکوٰۃ کی رقم وصول کرے اور قرض ادا کرے تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ (مفتی عاصم، ساؤتھ افریقہ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک ضروری ہے، تملیک مستحق کو دینے سے بھی ہوجائے گی اور مستحق کے وکیل کو دینے سے بھی؛ بشرطیکہ مستحق نے وکیل بنایا ہو اور اس کو خرچ کرنے کی اجازت دے دی ہو۔

چنانچہ مذکورہ بالا صورت میں اگر مقروض کسی کو وکیل بنا دیتا ہے اور مقروض کی اجازت سے وہ قرض خواہوں کو رقم ادا کردیتا ہے تو شرعا یہ درست ہے، فقہاء احناف میں سے ابن نجیم مصری اور ابن عابدین شامی نے صراحتاً یہ مسئلہ لکھا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

 (١) إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة 60)

ويشترط أن يكون الصرف تمليكا لا إباحة. (الدر المختار مع رد المحتار ٢٩١/٣ كتاب الزكاة، باب الصرف، زكريا)

  لو قضى دين الحي  إن قضاه بأمره جاز، ويكون القابض كالوكيل له في قبض الصدقة كذا في غاية البيان وقيده في النهاية بأن يكون المديون فقيرا.  ( البحر الرائق ، کتاب الزکوٰۃ ، باب مصرف الزکوٰۃ ، جلد 2 ، صفحہ 261 ، مطبوعہ بیروت )

(دین الحیی الفقیرفیجوز لو بامرہ) ای یجوز عن الزکاۃ علی انہ تملیک منہ والدائن یقبضہ بحکم النیابۃ عنہ ثم یصیر قابضا لنفسه. (رد المحتار علی الدر المختار 342/3 كتاب الزكاة)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 7/9/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate

بلاگ آرکائیو