باب الشرکۃ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
باب الشرکۃ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 20 اگست، 2022

کم قیمت میں جانور خرید کر زیادہ رقم میں حصے لگانا اور خود شریک ہونا

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1562🖋️


(کتاب الاضحیہ باب الشرکۃ)


کم قیمت میں جانور خرید کر زیادہ رقم میں حصے لگانا اور خود شریک ہونا


سوال: ایک مسئلہ کا حل دریافت کرنا ہے کہ زید نے ایک جانور 30000 روپے کا خریدا اب وہ اسمیں قربانی کے حصے تشکیل دے رہا ہے، اب زید نے اسکی قیمت طے کی 35000 روپے؛ جبکہ زید کا حصہ بھی اسی جانور میں ہے تو کیا زید کے لئے یہ نفع لینا درست ہے برائے مہربانی مدلل جواب تحریر فرمائیں۔ (انوار الحق، بنگال)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


قربانی کرنے کی مذکورہ بالا صورت کا صریح حکم تلاش بسیار کے باوجود کسی فقہی کتاب میں نہیں مل سکا؛ تاہم اصول کے پیش نظر اس کا حکم یہ معلوم ہوتاہے کہ قربانی کا جانور خریداری کے بعد ایک حد تک قربت کے لیے متعین ہوجاتا ہے؛ اس لیے قیمت خرید سے زیادہ اس کی قیمت لینا قربانی کے جانور سے استفادہ کرنے کے حکم میں ہوگا جو درست نہیں ہے؛ لیکن اگر نادانی میں ایسا کرلیا ہے تو اس کی زائد قیمت کو صدقہ کردے، جہاں تک خود اس کی قربانی کی بات ہے تو اس میں اس شخص کا حصہ اس کی خدمات کے عوض مانا جائے گا؛ کیونکہ اس جانور کو خریدنے، پالنے، دانا پانی کے انتظامات کرنے میں مختلف طرح کے اخراجات آتے ہیں اور خدمات انجام دینے میں بسااوقات مشقت بھی ہوتی ہے؛ اس لیے اسے عوض قرار دینا درست ہے، واضح رہے کہ بعینہ اسی طرح کے سوال کے جواب میں مفتی رضاء الحق صاحب مفتی اعظم جنوبی افریقہ نے لکھا ہے کہ:


"مسئلہ مذکورہ بالا سے متعلق کوئی صریح جزئیہ نظر سے نہیں گزرا تاہم ایک فقہی نظیر سے اس کا حکم مستفاد ہوتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے، اور اگر کسی نے کرلیا تو زائد رقم صدقہ کردے"(١)


مفتی صاحب نے اس میں جو فقہی نظائر پیش کی ہیں وہ وہی ہیں جو خریدے ہوئے جانور کو زیادہ رقم میں بیچنے سے متعلق ہیں، یہی بات حضرت حکیم بن حزام کی روایت سے بھی مستفاد ہوتی ہے کہ جب انہوں نے ایک دینار سے قربانی کی بکری خرید کر دو دینار میں بیچ دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار صدقہ کردیا تھا، نیز اس روایت کی شرح میں صاحب عون المعبود نے علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ چونکہ پہلی بکری جو خریدی تھی وہ قربت کے لیے ہوگیی تھی اس لیے اس کے نفع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا اور صدقہ کردیا، نیز فقہاء کرام نے جن مسائل میں قربانی کے جانور سے انتفاع کو مکروہ قرار دیا وہ جزئیات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب


📚والدلیل علی ما قلنا📚


(١) عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مَعَهُ بِدِينَارٍ يَشْتَرِي لَهُ أُضْحِيَّةً، فَاشْتَرَاهَا بِدِينَارٍ، وَبَاعَهَا بِدِينَارَيْنِ، فَرَجَعَ فَاشْتَرَى لَهُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ، وَجَاءَ بِدِينَارٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَصَدَّقَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَعَا لَهُ أَنْ يُبَارَكَ لَهُ فِي تِجَارَتِهِ.

حكم الحديث: ضعيف. (سنن أبي داود رقم الحديث ٣٣٨٦ كِتَابٌ : الْبُيُوعُ، وِالْإِجَارَاتُ  | بَابٌ : فِي الْمُضَارِبِ يُخَالِفُ)


ويحتمل أن يتصدق به لأنه قد خرج عنه للقربة لله تعالى في الأضحية فكره أكل ثمنها. قاله في النيل. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث ٣٣٨٦ سنن أبي داود | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ، وِالْإِجَارَاتُ  | بَابٌ : فِي الْمُضَارِبِ يُخَالِفُ)


(وكره) (جز صوفها قبل الذبح) لينتفع به، فإن جزه تصدق به، ولا يركبها ولا يحمل عليها شيئا ولا يؤجرها فإن فعل تصدق بالأجرة حاوي الفتاوى لأنه التزم إقامة القربة بجميع أجزائها (بخلاف ما بعده) لحصول المقصود مجتبى. (الدر المختار مع رد المحتار 329/6 كتاب الأضحية دار الكتب العلميه)


(ولو شرى بدنة للأضحية ثم أشرك فيها ستة جاز استحسانا) وفي القياس لا يجوز وهو قول زفر ورواية عن الإمام لأنه أعدها للقربة فلا يجوز بيعها. (مجمع الانهر 518/2 كتاب الاضحيه دار الكتب العلميه)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 26/11/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

غلط فہمی میں دو شریک قربانی نہیں کرسکے تو اب کیا کریں

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1578🖋️


(کتاب الاضحیہ باب الشرکۃ)


غلط فہمی میں دو شریک قربانی نہیں کرسکے تو اب کیا کریں


سوال: قربانی کے جانور میں پانچ شرکاء تھے، جانور ایام قربانی میں بیمار ہوگیا، تین شرکاء نے دوسرے جانور میں حصہ لے لیا، جب کہ مابقیہ دو شریک نے کوئی حصہ نہیں لیا، اب جانور ٹھیک ہو چکا ہے، تو اس  جانور کا کیا حکم ہے؟ (وسیم اختر، بہار)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


قربانی کے جانور کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے عیوب سے پاک ہو جو قربانی کے لیے مانع ہیں، چنانچہ وہ جانور اگر ایسی بیماری میں مبتلا ہوا جو مانع قربانی تھی تو اس کی قربانی درست نہیں تھی، بلکہ اس کی جگہ دوسرا جانور قربان کرنا ضروری تھا، وہ جانور بیچ کر دوسرا جانور لے کر قربان کرنا چاھیے تھا، اور اگر ایسی بیماری میں مبتلا نہیں تھا جو مانعِ قربانی ہو بلکہ ہلکا پھلکا بیمار تھا مثلاً بخار وغیرہ تھا تو اس کی قربانی درست تھی، اسے قربان کرنا چاھیے تھا: لیکن اس کے باوجود اگر قربان نہیں کیا اور ایام نحر گزر گئے تو پھر اس زندہ جانور کو صدقہ کرنا ضروری ہوگا، ان بقیہ دو شریکوں کو چاہئے کہ اس کو کسی فقیر و محتاج کو وہ زندہ جانور دے دیں(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


(١) قال: (فإن مضت ولم يذبح، فإن كان فقيرا وقد اشتراها تصدق بها حية) ; لأنها غير واجبة على الفقير، فإذا اشتراها بنية الأضحية تعينت للوجوب، والإراقة إنما عرفت قربة في وقت معلوم وقد فات فيتصدق بعينها.

(وإن كان غنيا تصدق بثمنها اشتراها أو لا) لأنها واجبة عليه، فإذا فات وقت القربة في الأضحية تصدق بالثمن إخراجا له عن العهدة كما قلنا في الجمعة إذا فاتت تقضى الظهر والفدية عند العجز عن الصوم إخراجا له عن العهدة. (الاختيار لتعليل المختار 19/5 كتاب الاضحيه دار الكتب العلميه)


إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها، لأن الواجب عليه الإراقة وإنما ينتقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها، وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها، لأن الإراقة إنما عرفت قربة في زمان مخصوص ولا تجزيه الصدقة الأولى عما يلزمه بعد لأنها قبل سبب الوجوب اهـ (قوله تصدق بها حية) لوقوع اليأس عن التقرب بالإراقة، وإن تصدق بقيمتها أجزأه أيضا لأن الواجب هنا التصدق بعينها وهذا مثله فيما هو المقصود اهـ ذخيرة. (رد المحتار على الدر المختار 320/6 كتاب الأضحية دار الكتب العلميه بيروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 13/12/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate