جمعہ، 2 ستمبر، 2022

کرپٹو کرنسی (Crypto currency) کی خریداری کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1310🖋️

(کتاب البیوع جدید مسائل)

 کرپٹو کرنسی (Crypto currency) 
کی خریداری کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ذیل کے مسئلے کے متعلق کپ کرپٹو کرنسی جیسے بٹکوائن اور دوسرے کرنسی جو آنلائن ہے ان پر ٹریڈینگ کی جا سکتی ہے یا نہیں؟؟

یہ آن لائن کرنسی ہوتی ہے جسیے ہر ملک کی کرنسی ہوتی ہے ویسے ہی کرپٹو بھی کوئی لے سکتا ہے، اسکو بینک میں حقیقی پیسوں میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس سے عموما کوئی بھی چیز آنلائن خریدی جا سکتی ہے

اسکی ٹریڈینگ سٹاک ٹریڈینگ جیسی ہوتی ہے جہاں پر ایک حصہ کرپٹو کا خردیا جا سکتا ہے، جب اس کرنسی کا ویلوو بڑھ جائے تو اسکو بیچ بھی سکتے ہیں اور اپنے پاس بھی رکھ سکتے ہیں، جس طرح سونے کی یا ڈالر پاؤنڈ کہ ٹریڈینگ ہوتی ہے ویسے ہی آن لائن میں کرپٹو کرنسی ہوتی ہے، حکومت بھی اسکی تائد کرتی ہے....

اسکے متعلق تفصیل مطلوب ہے آیا یہ جائز ہے یا نا جائز.....

جواب مرحمت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں...

فقط والسلام

(محمد توصیف حیدرآباد)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

کرپٹو کرنسی، بٹ کوائن اور ون کوائن کی حقیقت، ان کی صورت گری اور نفع ونقصان کے موضوع پر احقر راقم الحروف نے آج سے تقریبا تین سال قبل ایک تحریر تفصیلی انداز میں لکھی تھی، جو بہت مفید اور اس کی حقیقت و تعارف کے لئے قابل مطالعہ ہے، احقر نے ذاتی طور پر اس کی حقیقت کو خوب سمجھنے اور قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ اپنی تحقیق اور سوال بالا کے پس منظر میں اس کرنسی کا حکم یہ ہوگا کہ جن ممالک نے اس کرنسی کو قبول کرلیا ہے اور اپنے باشندگان کو اس کے لین دین کی اجازت دے دی ہے، ان کے لیے یہ ثمن عرفی یا ثمن اعتباری کے درجے میں ہوگا، اور اس کی خریداری اور لین دین سب درست ہوگا، البتہ وہ ممالک جنہوں نے اس کو بطور کرنسی قبول نہیں کیا ہے اور خواہ اپنے باشندگان کو صراحتاً اس کی خریداری سے منع کردیا ہے یا منع نہ کیا ہے ان کے لئے یہ ثمن عرفی یا ثمن اعتباری نہیں ہوگا، اور ان کے لئے اس کی خریداری درست نہیں ہوگی انڈیا نے چونکہ اس کو کرنسی نہیں مانا ہے اور اپنے ملک کے لئے قبول نہیں کیا ہے اس لیے اس کی خریداری درست نہیں ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا 📚

(١) فالشرط الأول في الثمن أن يكون مالا متقوما شرعا، و كل ما ذكرنا في مالية المبيع و تقومه يجري في مالية الثمن أيضا. (فقه البيوع ٤٢٣/١ الباب الثاني في أحكام الثمن)

المراد بالمال ما يميل إليه الطبع و يمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم والتقوم يثبت بها و بإباحة الانتفاع به شرعا. (رد المحتار على الدر المختار ١٠/٧ كتاب البيوع مطلب في تعريف المال)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 11/3/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share
نام۔ محمد قاسم خان دینی تعلیم: حفظ قرآن ۔ دارالعلوم سلیمانیہ میراروڈ ممبئی۔ عالمیت ابتدائی تعلیم: مدرسہ فلاح المسلمین امین نگر تیندوا راۓ بریلی۔ عالمیت فراغت: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔ افتاء: المعھد العلمی النعمانی بہرائچ اترپردیش۔ ویب سائٹ کا مقصد دینی اور دنیاوی تعلیم سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ اس کار خیر میں آپ ہمارا ساتھ دیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا فی الدنیا والآخرۃ

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thank You So Much

Translate

بلاگ آرکائیو