⚖️سوال وجواب⚖️
🖋️مسئلہ نمبر 1562🖋️
(کتاب الاضحیہ باب الشرکۃ)
کم قیمت میں جانور خرید کر زیادہ رقم میں حصے لگانا اور خود شریک ہونا
سوال: ایک مسئلہ کا حل دریافت کرنا ہے کہ زید نے ایک جانور 30000 روپے کا خریدا اب وہ اسمیں قربانی کے حصے تشکیل دے رہا ہے، اب زید نے اسکی قیمت طے کی 35000 روپے؛ جبکہ زید کا حصہ بھی اسی جانور میں ہے تو کیا زید کے لئے یہ نفع لینا درست ہے برائے مہربانی مدلل جواب تحریر فرمائیں۔ (انوار الحق، بنگال)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و باللہ التوفیق
قربانی کرنے کی مذکورہ بالا صورت کا صریح حکم تلاش بسیار کے باوجود کسی فقہی کتاب میں نہیں مل سکا؛ تاہم اصول کے پیش نظر اس کا حکم یہ معلوم ہوتاہے کہ قربانی کا جانور خریداری کے بعد ایک حد تک قربت کے لیے متعین ہوجاتا ہے؛ اس لیے قیمت خرید سے زیادہ اس کی قیمت لینا قربانی کے جانور سے استفادہ کرنے کے حکم میں ہوگا جو درست نہیں ہے؛ لیکن اگر نادانی میں ایسا کرلیا ہے تو اس کی زائد قیمت کو صدقہ کردے، جہاں تک خود اس کی قربانی کی بات ہے تو اس میں اس شخص کا حصہ اس کی خدمات کے عوض مانا جائے گا؛ کیونکہ اس جانور کو خریدنے، پالنے، دانا پانی کے انتظامات کرنے میں مختلف طرح کے اخراجات آتے ہیں اور خدمات انجام دینے میں بسااوقات مشقت بھی ہوتی ہے؛ اس لیے اسے عوض قرار دینا درست ہے، واضح رہے کہ بعینہ اسی طرح کے سوال کے جواب میں مفتی رضاء الحق صاحب مفتی اعظم جنوبی افریقہ نے لکھا ہے کہ:
"مسئلہ مذکورہ بالا سے متعلق کوئی صریح جزئیہ نظر سے نہیں گزرا تاہم ایک فقہی نظیر سے اس کا حکم مستفاد ہوتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے، اور اگر کسی نے کرلیا تو زائد رقم صدقہ کردے"(١)
مفتی صاحب نے اس میں جو فقہی نظائر پیش کی ہیں وہ وہی ہیں جو خریدے ہوئے جانور کو زیادہ رقم میں بیچنے سے متعلق ہیں، یہی بات حضرت حکیم بن حزام کی روایت سے بھی مستفاد ہوتی ہے کہ جب انہوں نے ایک دینار سے قربانی کی بکری خرید کر دو دینار میں بیچ دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار صدقہ کردیا تھا، نیز اس روایت کی شرح میں صاحب عون المعبود نے علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ چونکہ پہلی بکری جو خریدی تھی وہ قربت کے لیے ہوگیی تھی اس لیے اس کے نفع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا اور صدقہ کردیا، نیز فقہاء کرام نے جن مسائل میں قربانی کے جانور سے انتفاع کو مکروہ قرار دیا وہ جزئیات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب
📚والدلیل علی ما قلنا📚
(١) عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مَعَهُ بِدِينَارٍ يَشْتَرِي لَهُ أُضْحِيَّةً، فَاشْتَرَاهَا بِدِينَارٍ، وَبَاعَهَا بِدِينَارَيْنِ، فَرَجَعَ فَاشْتَرَى لَهُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ، وَجَاءَ بِدِينَارٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَصَدَّقَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَعَا لَهُ أَنْ يُبَارَكَ لَهُ فِي تِجَارَتِهِ.
حكم الحديث: ضعيف. (سنن أبي داود رقم الحديث ٣٣٨٦ كِتَابٌ : الْبُيُوعُ، وِالْإِجَارَاتُ | بَابٌ : فِي الْمُضَارِبِ يُخَالِفُ)
ويحتمل أن يتصدق به لأنه قد خرج عنه للقربة لله تعالى في الأضحية فكره أكل ثمنها. قاله في النيل. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث ٣٣٨٦ سنن أبي داود | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ، وِالْإِجَارَاتُ | بَابٌ : فِي الْمُضَارِبِ يُخَالِفُ)
(وكره) (جز صوفها قبل الذبح) لينتفع به، فإن جزه تصدق به، ولا يركبها ولا يحمل عليها شيئا ولا يؤجرها فإن فعل تصدق بالأجرة حاوي الفتاوى لأنه التزم إقامة القربة بجميع أجزائها (بخلاف ما بعده) لحصول المقصود مجتبى. (الدر المختار مع رد المحتار 329/6 كتاب الأضحية دار الكتب العلميه)
(ولو شرى بدنة للأضحية ثم أشرك فيها ستة جاز استحسانا) وفي القياس لا يجوز وهو قول زفر ورواية عن الإمام لأنه أعدها للقربة فلا يجوز بيعها. (مجمع الانهر 518/2 كتاب الاضحيه دار الكتب العلميه)
كتبه العبد محمد زبير الندوي
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 26/11/1442
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Thank You So Much