عقائد و ایمانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عقائد و ایمانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 20 اگست، 2022

کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں دوسری قسط

کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں



دوسری قسط  

 سوال: کیا کرامات اولیاء برحق ہیں؟ کرامات اولیاء کو نہ ماننے والے کے ایمان پر کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کرامات اولیاءکو بالکل نہیں مانتے ایسے لوگوں کا ایمان کیسا ہے؟ 

مکل و مدلل جواب عنایت کیجیے. (ابو یحییٰ محمد صغیر، مہاراشٹر)

"اہل سنت والجماعت کے بنیادی اصولوں میں سے اولیاء کرام کی کرامتوں کی تصدیق بھی ہے، اور ان باتوں کی تصدیق جو اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں ظاہر فرماتے ہیں مختلف علوم اور کشف و کرامت کی خارق عادت باتیں وغیرہ۔۔۔۔ اور یہ کرامات اور خارق عادت باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کی امتوں میں بھی ہوئی ہیں، جیسے کہ سورہ کہف وغیرہ میں ہے اور اس امت کے افراد صحابہ کرام و تابعین عظام اور امت مسلمہ کی تمام صدیوں میں ہوئی ہیں اور یہی نہیں بلکہ قیامت تک کرامات اور خارق عادت باتوں کا سلسلہ چلتا رہے گا"(١٢)

علامہ ابن تیمیہ کی وضاحت اور تمام اہل سنت والجماعت کے اتفاق سے معلوم ہوا کہ کرامت خدا کے صالح بندوں سے صادر ہوتی اور سوائے معتزلہ اور بدعت پرست لوگوں کے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا ہے، لیکن واضح رہے کہ کرامت کے صدور میں ولی کے کسی فعل کا عمل دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ خدائی قوت و عمل سے انجام پاتا ہے بندہ صرف اور اس میں ذریعہ ھوتا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ کرامت کے منکر کا کیا حکم ہوگا، تو اگر کوئی شخص سرے سے کرامت کا ہی منکر ہے اور وہ کرامت کو تسلیم ہی نہیں کرتا ہے تو وہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہے اور معتزلہ جیسے گمراہ فرقے کا اس مسئلے میں متبع ہے، لیکن اس پر نہ کفر کا حکم لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے کافر کہا جائے گا۔ اکابر اہل علم کی اس بابت یہی تحقیق ہے (١٣) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 والدليل على ما قلنا 


(١) الكرامة هي ظهور أمر خارق للعادة من قبل شخص غير مقارن لدعوى النبوة فما لا يكون مقرونا بالإيمان و العمل الصالح يكون استدراجا (كتاب التعريفات للجرجاني ١٥٤ باب الكاف دار الفضيله القاهرة)

(٢) وجد عندها رزقا۔۔۔۔۔۔ و استدل الآية على جواز الكرامة للاولياء لأن مريم لا نبوة لها على المشهور. (روح المعاني للآلوسي ٢٢٥/٣ سورة آل عمران آية ٣٧)

(٣) كما استدلوا على وقوعها بقصة أهل الكهف التي وردت في سورة الكهف.... و كذلك بقصة الذي كان عنده علم من الكتاب في زمن سليمان عليه السلام... و كذلك بما وقع للصحابة من كرامات في حياتهم. (الموسوعة الفقهية ٢٢٠/٣٤ الكرامة)

(٤) كاتيان صاحب سليمان عم وهو آصف بن برخيا على الأشهر بعرش بلقيس قبل ارتداد الطرف مع بعد المسافة (شرح العقائد ص ١٠٦)

(٥) عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، وَمَعَهُمَا مِثْلُ الْمِصْبَاحَيْنِ يُضِيئَانِ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا، فَلَمَّا افْتَرَقَا صَارَ مَعَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَاحِدٌ حَتَّى أَتَى أَهْلَهُ. (صحيح البخاري حديث نمبر ٤٦٥)

(٦) أن الرجلين هما عباد ابن بشر و أسيد بن حضير (فتح الباري شرح صحيح البخاري ١٢٥/٧ حديث نمبر ٤٦٥)

(٧) يا أمير المؤمنين هزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي : يا سارية الجبل ثلاثا فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله قال : قيل لعمر : إنك كنت تصيح بذلك و ذلك الجبل الذي كان سارية عنده بنهاوند من أرض العجم قال ابن حجر في الإصابة : إسناده حسن . (تاريخ الخلفاء للسيوطي ١١٣/١ الطبعة الأولى و تاريخ دمشق ج ٤٤)

(٨) ذهب جمهور علماء السنة إلى جواز ظهور أمر خارق للعادة على يد مومن ظاهر الصلاح اكراما من الله له و إلى وقوعها فعلا. (الموسوعة الفقهية ٢٢٨/ ٣٤ الكرامة)

(٩) و كرامات الأولياء حق والولي هو العارف بالله و صفاته حسب ما يمكن المواظب على الطاعات المجتنب عن المعاصي (شرح العقائد للتفتازاني ص ١٠٥ رشيدية دهلي)

(١٠) اعلم أن الكرامات حق كما أن المعجزات حق و كلتاهما من عالم القدرة. (حاشية رمضان آفندي على شرح العقائد. ٢٩١ رحيمية ديوبند)

(١١) حق أي ثابت بالكتاب والسنة و لا عبرة بمخالفة المعتزلة و أهل البدعة في إنكار الكرامة. (الحاشية على شرح العقائد للتفتازاني ص ١٠٥ كتب خانه رشيدية دهلي)

(١٢) و من أصول أهل السنة والجماعة: التصديق بكرامات الاولياء و ما يجري الله على أيديهم من خوارق العادات في انواع العلوم و المكاشفات و انواع القدرة والتأثير كالماثور عن سالف الأمم في سورة الكهف و غيرها و عن صدر هذه الأمة من الصحابة والتابعين و سائر قرون الأمة و هي موجودة فيها إلى يوم القيامة. (مجموع فتاوى شيخ الاسلام ابن تيمية ١٥٦/٣ اعتقاد السلف)

(١٣) اعلم أن الكرامات حق كما أن المعجزات حق و كلتاهما من عالم القدرة. (حاشية رمضان آفندي على شرح العقائد. ٢٩١ رحيمية ديوبند)

و كرامات الأولياء حق و منكرها خارج من أهل السنّة والجماعة. (إمداد الفتاوى ٣٢٧/٦ كتاب العقائد والكلام زکریا)


نیز دیکھئے: کفایت المفتی ١٥٦/١

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء الجامعة الإسلامية دار العلوم مہذب پور سنجر پور اعظم گڑھ یوپی

مورخہ 23/11/1439

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے
Share

کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں پہلی قسط

✍سوال و جواب✍

(مسئلہ نمبر 516)

 کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں 



 سوال: کیا کرامات اولیاء برحق ہیں؟ کرامات اولیاء کو نہ ماننے والے کے ایمان پر کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کرامات اولیاءکو بالکل نہیں مانتے ایسے لوگوں کا ایمان کیسا ہے؟ 

مکل و مدلل جواب عنایت کیجیے. (ابو یحییٰ محمد صغیر، مہاراشٹر)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب بعون اللہ الوہاب

کرامت کہتے ہیں ایسے خلاف عادت و فطرت کام یا واقعے کو جو کسی نیک صالح مومن بندے کے ذریعے ظاہر ہو، اگر وہ شخص نیک اور مومن نہیں ہے تو اسے کرامت نہیں کہا جائے گا بلکہ شعبدہ بازی یا نظر بندی کہا جائے گا، تعریفات کے مشہور مصنف علامہ شریف جرجانی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں کرامت کی یہی تعریف نقل کی ہے(١)

اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندوں سے کرامت کا ظاہر ہونا اور اس کے ذریعے ان کے کاموں میں تایید ہونا ایک مسلم اور قرآن و حدیث اور صحابہ وتابعین کی زندگی سے ثابت امر ہے اور اس کے قرآن و حدیث سے ثابت ہونے اور برحق ہونے پر امت کا اجماع ہے۔

قرآن مجید میں بیان شدہ واقعات اور خدا تعالی کے نیک بندوں کی حکایات سے معلوم ہوتاہے کہ زمانۂ سابق کی نیک شخصیات سے بھی کرامات کا صدور ہوا ہے اور مفسرین نے انہیں آیات کی روشنی میں کرامات کے جائز اور ثابت و برحق ہونے پر استدلال کیا ہے، قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت نمبر ٣٧ میں آیا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس تازہ پھل غیب سے آیا کرتے تھے، حضرت زکریا علیہ السلام نے دیکھا تو تعجب کا اظہار کیا، اس آیت کی تفسیر میں امام التفسیر علامہ آلوسی بغدادی علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے:

 "کہ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ اولیاء کرام کے لئے کرامت درست ہے، اس لیے کہ حضرت مریم مشہور قول کے مطابق نبی نہیں تھیں"(٢)

اسی طرح قرآن مجید میں موجود أصحاب کہف کے واقعے میں ان حضرات کا مدتوں سوتے رہنا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر آصف بن برخیاہ کا تخت بلقیس کو پلک جھپکنے میں حاضر کر دینا ان کی کرامات میں شمار کیا گیا، دور حاضر کی مشہور فقہی انسایکلوپیڈیا "الموسوعہ الفقہیہ" میں بالتصریح یہ بات نقل کی گئی ہے (٣) اسی طرح عقائد کے امام اور عظیم مصنف علامہ تفتازانی نے بھی آصف بن برخیاہ کی تخت کی حاضری کو ان کی کرامات شمار کیا ہے(٤)

قرآن مجید کے ان واقعات کے علاوہ احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ سے بھی کرامات کے صادر اور برحق ہونے کی تائید ہوتی ہے؛ چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ ایک رات دو صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے رخصت ہوئے تو اندھیری رات تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے غیبی طور پر ان کے لیے دو چراغ ان کے درمیان پیدا کر دییے اور جب وہ الگ ہوکر اپنے اپنے راستے میں جانے لگے تو دونوں کے ساتھ ایک ایک چراغ ہوگیا(٥) علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ان دونوں صحابی کا نام عباد بن بشر اور اسید بن حضیر بتایا ہے (٦) 

اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے جسے علامہ جلال الدین سیوطی سمیت متعدد اکابر اہل علم نے معتبر راویوں سے نقل کیا ہے اور خود علامہ ابن حجر عسقلانی جیسے عظیم محدث نے اس کی سند کو "حسن" قرار دیا ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہورہی تھی تو انہوں نے مدینے سے آواز لگائی یا "سارية الجبل" اور صحابہء کرام نے سیکڑوں کلومیٹر دور اس آواز کو سنی اور عمل کیا(٧) 

چنانچہ اسے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں شمار کیا گیا، اسی طرح احقر راقم الحروف کا خیال ہے گرچہ کہیں اس کی صراحت نہیں نظر سے گزری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت سے قبل جو خارق عادت باتیں صادر ہوئیں وہ آپ کی کرامات میں سے تھیں۔

مذکورہ بالا قرآنی آیات میں مذکور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات سے کرامت کا ممکن و صادر ہونا ثابت ہے اسی لیے جمہور اہل علم اور تمام اہل سنت والجماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کرامات اولیاء برحق ہیں(٨)

عقائد کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں مشہور ترین اور متداول کتاب علامہ تفتازانی کی "شرح العقائد" ہے اس میں صاف صاف اس کے ثابت و برحق ہونے کی صراحت موجود ہے (٩) اسی طرح اس کے حاشیے میں علامہ رمضان آفندی نے بھی اس کی تایید کی ہے (١٠) بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ کرامات کا انکار سوائے معتزلہ جیسے گمراہ فرقے اور بدعتیوں کے کسی نے نہیں کیا ہے(١١) 

ہمارے بہت سے اہل حدیث بھائی عموما کرامات کا انکار کرتے ہیں اور اسے بیکار کی باتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سلف صالحین کے مذہب کے خلاف ہے، حالانکہ سلف کے سب سے بڑے وکیل اور اہل حدیث بھائیوں کے علمی و فکری رہنما علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے جو بے غبار اور چشم کشا تحریر اس موضوع پر لکھی ہے وہ لائقِ تحریر بھی ہے اور قابلِ صد تحسین بھی، علامہ ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں رقمطراز ہیں:

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

خوارج اور نواصب کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟

سوال و جواب  

(مسئلہ نمبر 554)

 خوارج اور نواصب کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟ 



 سوال: خوارج اور نواصب سے ایک ھی گروہ مراد ھے یا یہ الگ الگ دو فرقے ہیں ان کے عقائد کیا ہیں؟ (محمد معظم قاسمی مالاڈ ممبئی)


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 


اہل سنت والجماعت کی اصطلاح میں خوارج ان حضرات کو کہا جاتا ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی یا بعد میں ان کے ہم نوا اور ان کے مسلک و مشرب کے حامی ہوگئے، بنیادی طور پر ان کے عقائد یہ ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے حامی تمام صحابہ و تابعین کافر ہیں، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کافر ہیں، اسی طرح صحابہ قطعاً حجت نہیں ہیں، گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے، رؤیت باری تعالی آخرت میں بھی ممکن نہیں ہے وغیرہ وغیرہ(١)

ناصبیہ بھی درحقیقت خوارج ہی کی ایک شاخ ہے؛ لیکن ان کے یہاں صحابہ کی تکفیر اور ان کو گالی دینے میں اتنی وسعت نہیں ہے جتنی عام خوارج کے یہاں ہے، بلکہ یہ لوگ عام صحابہ کرام کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ، ان کے أصحاب و ہمنوا اور بطورِ خاص اہل بیت کو گالی دیتے اور ان کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، نواصب کا اور انکے بنیادی عقائد کا ذکر بہت کم ملتا ہے تاہم جو تحریر کیا گیا ہے اسی سے ان کی پہچان ہے اور اسی قبیح عمل سے دنیا میں بدنام ہیں(٢)،

شرعی نقطۂ نظر سے یہ دونوں فرقے گمراہ اور سخت گنہگار ہیں اور اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں(٣) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚والدليل على ما قلنا📚📚 


(١) كل من خرج على الإمام الحق الذي اتفقت الجماعة عليه يسمى خارجيا سواء كان الخروج في أيام الصحابة على الأئمة الراشدين أو كان بعدهم (الملل و النحل ١١٤/١ الفصل الرابع دار المعرفة بيروت)

و يجمعهم القول بالتبري من عثمان و علي رضي الله عنهما د، و يقدمون ذلك على كل طاعة، و لا يصححون المناكحات إلا على ذلك، و يكفرون أصحاب الكبائر و يرون الخروج على الإمام إذا خالف السنة حقا واجبا (الملل و النحل ١١٥/١ الفصل الرابع)

الخوارج يكفرون أهل القبلة بمعصية و يجوزون الخروج على السلطان الجائر و يلعنون على علي و ينكرون سنة الجماعة ةدو الصلوة (عقيدة الطحاوي ص ١٠ مكتبة دار العلوم ديوبند)

نیز دیکھئے تکمیل الحاجہ شرح اردو ابن ماجہ ٣٦٥/١، ضیاء السنن شرح ابن ماجہ ٤٣٤/١ 

(٢) و النواصب: عموماً تطلق على من يبغض عليا و أصحابه، و يدخل في هذا الاسم الخوارج بفرقهم المختلفة. (الحاشية على الاعتقاد الخالص ص ٣٢٨)

و من طريقة النواصب الذين يؤذون أهل البيت بقول و عمل و يمسكون عما شجر بين الصحابة. (مجموع فتاوى ابن تيميه ١٥٤/٣)

(٣) والفرق الضالة المختلفة في الأصول ستة الروافض، والخوارج، الجبرية..... (عقيدة الطحاوي ص ٩)


🎑🎑🎑🎑🎑🎑🎑🎑🎑


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء الجامعة الإسلامية دار العلوم  مہذب پور سنجر پور اعظم گڑھ یوپی

مورخہ 2/1/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

فتنۂ شکیلیت سے وابستگی اور انکے ساتھ نرمی کا حکم

 ⚖سوال و جواب⚖ 

🗒مسئلہ نمبر 959🗒

(کتاب الایمان باب النبوۃ)

 فتنۂ شکیلیت سے وابستگی اور انکے ساتھ نرمی کا حکم 



 سوال: فتنہ شکیلیت کے تعلق سے کچھ افراد (ان میں پڑھے لکھے اور عالم بھی ہیں) کافی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس فتنہ  کی قباحت بیان کرنے والوں کو شدت سے منع کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شکیل سے متاثر لوگ بھی اللہ اور اللہ کے نبیﷺکو مانتے ہیں اور ہم بھی بس تھوڑا سا فرق ہے؛ لہٰذا ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے اور انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ ایسے حضرات کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ (محمد نوشاد، متعلم دار العلوم مئو یوپی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 


شکیلیت دور حاضر کا نہایت حساس اور اہم فتنہ بن گیا ہے، اس کا بانی شکیل بن حنیف بیک وقت مسیح موعود اور مہدی ہونے کا مدعی ہے؛ حالانکہ مسیح موعود اور مہدی کی ایک بھی خصوصیت اس شخص میں نہیں پائی جاتی ہے، اس کا دعویٰ سراسر جھوٹ اور مکر و دجل پر مبنی ہے، یہ شخص اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا اور مکار انسان ہے، احادیث مبارکہ میں مسیح علیہ السلام اور حضرت مہدی کے متعلق جو باتیں اور خصوصیات و امتیازات بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک بھی خصوصیت اس میں موجود نہیں ہے؛ اس لئے اس شخص کو مسیح اور مہدی ماننا قطعاً حرام ہے، ایسے لوگوں سے رشتہِ ازدواج بنانا شرعاً جائز نہیں ہے، اس فتنے کو ختم کرنے کے لئے جس سے جو ممکن ہو کرنا چاہیے، ان کے تئیں نرمی برتنا یا عام مسلمانوں کے مساوی حقوق ان کے لیے قرار دینا قطعاً غلط ہے، اور دین محمدی کے ساتھ خیانت اور عملاً ان کے عقائد و نظریات اور اعمال سے رضامندی کی علامت ہے؛ اس لئے ان کے تئیں قطعاً کسی قسم کی نرمی نہیں برتنا چاہیے، جو شخص ان کے ساتھ نرمی برتے گا اور عام مسلمانوں کی طرح انہیں مسلمان سمجھے گا اس شخص کا ایمان بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے؛ اس لیے علماء کو خاص طور پر اس جانب توجہ دینا چاہئے اور عوام کو انکی گمراہی سے آگاہ کرنا چاہیے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمَهْدِيُّ مِنِّي، أَجْلَى الْجَبْهَةِ ، أَقْنَى الْأَنْفِ، يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا، يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ ".

حكم الحديث: حسن. (سنن أبي داود رقم الحديث ٤٢٨٥ أَوَّلُ كِتَابِ الْمَهْدِي  | بَابٌ )

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمَهْدِيُّ مِنَّا - أَهْلَ الْبَيْتِ - يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ ".

حكم الحديث: حسن. 

(سنن ابن ماجه رقم الحديث ٤٠٨٥ كِتَابُ الْفِتَنِ  | بابٌ : خُرُوجُ الْمَهْدِيِّ)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي ". سنن الترمذي رقم الحديث ٢٢٣٠ أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي الْمَهْدِيِّ)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ ". 

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

حكم الحديث: صحيح. (سنن الترمذي رقم الحديث ٢٢٣٣ أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 24/2/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate