👁🗨سوال و جواب👁🗨
(مسئلہ نمبر 406)
ڈپازٹ کی رقم اور ہیوی ڈپازٹ کی چند صورتوں کا حکم
سوال کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آج کل بڑے شہروں میں مکانات کی کرایہ داری میں بھاری مقدار میں پیشگی رقم ڈپازٹ کے عنوان سے لینے کا معمول بن چکا ہے، اب اس میں کئی شکلیں ہوتی ہیں:
الف:- اگر ڈپازٹ کی رقم معمولی ہوتی ہے تو ماہانہ کرایہ کی رقم زیادہ ہوتی ہے ، اور جب کرایہ دار جائیداد خالی کرتا ہے تو مالک اسے ڈپازٹ کی رقم لوٹا دیتا ہے۔
ب:- اگر ڈپازٹ کی رقم بھاری مقدار میں ہو تو ماہانہ کرایہ کی رقم بہت معمولی ہوتی ہے، اور بہر صورت جب بھی جائیداد خالی ہوتی ہے تو مالک ڈپازٹ کی پوری رقم واپس کرنے کا ضامن ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ:
(۱) اس طرح کا عقد شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
(۲) ڈپازٹ کی رقم کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ قیمت ہے یا رہن ہے یا امانت ہے؟
(۳) اس ڈپازٹ کی رقم کو مالک جائیداد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
(۴) اگر یہ معاملہ جائز نہ ہو تو کیا اس کو شرعی جواز کے دائرہ میں لانے کی کوئی اور شکل ہے؟
(۵) اس ڈپازٹ کی رقم کی زکوٰۃ کس پر واجب ہے، کرایہ دار پر یا مالک پر؟ یا کسی پر واجب نہیں؟ (المستفتی عبدالستار قاسمی، امام جامع مسجد، اونتکا روہینی، دہلی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بسم ملہم الصواب
آپ نے جو سوالنامہ مجھے بھیجا ہے بعینہ یہی سوالات انہیں الفاظ میں ہندوستان کے مشہور عالم دین اور صاحب نظر مفتی حضرت مولانا سلمان منصورپوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے فتاویٰ "کتاب النوازل" کی جلد نمبر ١٢ صفحہ نمبر ٣٠٠ پر موجود ہیں اور مفتی صاحب نے تفصیل کے ساتھ معتبر دلائل کی روشنی میں ان سوالات کے تحقیقی جوابات درج فرمائے ہیں؛ اس لئے اگر آپ چاہیں تو ان تمام سوالات کے تفصیلی اور مدلل جوابات وہاں ملاحظہ فرمالیں۔
البت آپ کے اور دیگر قارئین کے افادے کی غرض سے مختلف کتب فقہ و فتاویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں مختصراً ان سوالات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں:
(١) جب ڈپازٹ کی رقم کم ہو اور کرایہ زیادہ ہو اور کرایہ داری کا معاملہ ختم ہونے پر وہ رقم واپس کردی جائے تو اس معاملے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، یہ بلاشبہ جائز ہے۔
جب کرایہ کم ہو اور ڈپازٹ کی رقم زیادہ ہو تو اس کی مندرجہ ذیل چند صورتیں ہوسکتی ہیں:
اگر ڈپازٹ کی رقم کو بنیاد بنا کر کرایہ میں کمی کی جاتی ہے تو اس میں سود کا شبہ پایا جاتا ہے اس لئے یہ صورت جائز نہیں ہے۔
اگر کرایہ پہلے طے ہوچکا ہے اور ڈپازٹ کی رقم بھی طے ہوچکی تھی اور پھر کہا گیا کہ اگر اتنی ڈپازٹ بڑھا دی جائے تو اتنا کرایہ کم کر دیا جائے گا تو یہ صورت بھی سود میں شامل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
اگر شروع ہی میں ڈپازٹ کی رقم کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب کرایہ طے کر لیا جائے اور بعد میں ڈپازٹ کا مطالبہ کیا جائے تو یہ صورت درست ہوگی، البتہ اس طرح جو رقم ڈپازٹ کے طور پر لی جائے پہلے اسے محفوظ طور پر رکھ لیا جائے اور پھر کچھ دنوں بعد اس کے استعمال کی اجازت لے لی جائے۔ اور اس طرح یہ امانت سے نکل کر قرض بن جائے گی۔
(٢) ڈپازٹ کی رقم تو اصلا امانت ہے اس لئے مالک مکان کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں ہے؛ مگر موجودہ زمانہ میں اس کے استعمال کا عرف عام ہے اور صراحتاً یا دلالتہ اس کی اجازت بھی ہوتی ہے اس لئے اب اس کی حیثیت قرض کی ہے۔
(٣) چونکہ اب عرفا یا دلالتہ اس کا استعمال عام ہے اس لئے ڈپازٹ کی حیثیت اب قرض کی ہو گئی ہے اور اس پر قرض ہی کے احکام نافذ ہوتے ہیں؛ اس لیے مالک دوکان و مکان کے لئے اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں ہے۔
(٤) اس کے جواب کے لیے ایک نمبر پر غور فرمالیں۔
(٥) ڈپازٹ کی وہ رقم جس کی مدت متعین ہے فقہی نقطۂ نظر سے یہ دین قوی کے درجے میں ہے، اس لئے اس کی زکوۃ کرایہ دار پر واجب ہوگی اور رقم وصول ہونے کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، واضح رہے کہ عام طور سے کرایہ داری کا وقت متعین ہی ہوتا ہے اس لئے کرایہ دار کو گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اور اگر وقت متعین نہ ہو تو یہ دین وسط یا دین ضعیف کے درجے میں ہوگا اور وصول ہونے کے بعد سابقہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
📚📚مصادر ومراجع📚📚
(١) کتاب النوازل ٣٠٠/١٢ نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلے ص ٢٢١ کتاب الفتاوی ٦٤/١٠ جدید فقہی مسائل ٢١٨/١ فتاویٰ دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ ١٣٦/٣۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
كتبه العبد محمد زبير الندوي
مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا
مورخہ 1/8/1439
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے


خوووب, مذکورہ مسئلہ وقت کی ضرورت ہے. اللہ جزائے خیر دے
جواب دیںحذف کریں