⚖️سوال وجواب⚖️
🖋️مسئلہ نمبر 1483🖋️
(کتاب الزکاۃ، باب التوکیل)
وکیل بالقبض بنانے کی شرط پر زکوٰۃ دینا
سوال: ایک صاحب بہت زیادہ مقروض ہے، اب زکوٰۃ والے اس کو قرض سے نکالنا چاہتے ہیں، لیکن رقم اس کو نہیں دینا چاہتے ہیں کیونکہ اس کو دینے سے وہ رقم کو ادھر ادھر خرچ کرسکتا ہے، اس لیے اس سے یہ کہا جائے کہ تم وکیل بالقبض بناؤ، جو تمہاری طرف سے زکوٰۃ کی رقم وصول کرے اور قرض ادا کرے تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ (مفتی عاصم، ساؤتھ افریقہ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و باللہ التوفیق
زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک ضروری ہے، تملیک مستحق کو دینے سے بھی ہوجائے گی اور مستحق کے وکیل کو دینے سے بھی؛ بشرطیکہ مستحق نے وکیل بنایا ہو اور اس کو خرچ کرنے کی اجازت دے دی ہو۔
چنانچہ مذکورہ بالا صورت میں اگر مقروض کسی کو وکیل بنا دیتا ہے اور مقروض کی اجازت سے وہ قرض خواہوں کو رقم ادا کردیتا ہے تو شرعا یہ درست ہے، فقہاء احناف میں سے ابن نجیم مصری اور ابن عابدین شامی نے صراحتاً یہ مسئلہ لکھا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
📚والدليل على ما قلنا📚
(١) إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة 60)
ويشترط أن يكون الصرف تمليكا لا إباحة. (الدر المختار مع رد المحتار ٢٩١/٣ كتاب الزكاة، باب الصرف، زكريا)
لو قضى دين الحي إن قضاه بأمره جاز، ويكون القابض كالوكيل له في قبض الصدقة كذا في غاية البيان وقيده في النهاية بأن يكون المديون فقيرا. ( البحر الرائق ، کتاب الزکوٰۃ ، باب مصرف الزکوٰۃ ، جلد 2 ، صفحہ 261 ، مطبوعہ بیروت )
(دین الحیی الفقیرفیجوز لو بامرہ) ای یجوز عن الزکاۃ علی انہ تملیک منہ والدائن یقبضہ بحکم النیابۃ عنہ ثم یصیر قابضا لنفسه. (رد المحتار علی الدر المختار 342/3 كتاب الزكاة)
كتبه العبد محمد زبير الندوي
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 7/9/1442
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے


0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Thank You So Much