⚖سوال و جواب⚖
💸مسئلہ نمبر 792💸
(زکوٰۃ کے جدید مسائل)
بینکوں اور کمپنیوں کے ریزرو فنڈز Reserve Funds Of Bank And Companies
میں زکوٰۃ کا حکم
سوال: اسلامی بینکوں اور دیگر کمپنیوں کے جو ریزرو فنڈز ہوتے ہیں جو وقتی ضروریات پر کام آتے ہیں ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی کہ نہیں؟ دور حاضر کے فقہاء و مفتیان کرام کی اس بارے میں کیا تحقیق ہے؟ (دار الافتاء بہرائچ یوپی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون اللہ الوہاب
اسلامی بینک یا کمپنیوں میں جو ریزرو فنڈز رکھے جاتے ہیں؛ چونکہ وہ عرفا اور قانوناً بینک اور کمپنی کے اثاثوں کا حصّہ ہوتے ہیں اس لئے ان میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، اور ہر حصے دار کے ذمہ لازم ہوگا کہ وہ اپنے حصے کی زکوۃ نکالے، چنانچہ جن حضرات نے کمپنی میں حصے اس واسطے لیے ہوں کہ وہ اسے فروخت کریں گے تو وہ بازاری قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ نکالیں گے اور جیسا کہ معلوم ہے کہ بازاری قیمت جب متعین کی جاتی ہے تو اس میں ریزرو فنڈز کی رقم کو بھی شامل کرکے اس کی تعیین کی جاتی ہے؛ اس لئے ریزرو فنڈز کی مستقل زکوٰۃ نکالنے کی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ اپنے حصے کی زکوۃ جب بازاری نرخ کے اعتبار سے نکالیں گے تو ریزرو فنڈز کی زکوۃ ایٹومیٹک نکل جائے گی۔
لیکن جن حضرات نے فروختگی کے ارادے سے حصے داری نہیں کیا ہے؛ بلکہ اپنی شرکت کو برقرار رکھنے کے لئے حصہ لیا ہے تو اس صورت میں زکوٰۃ واجب ہوگی اور اس کی زکوۃ مستقل طور پر نکالنی ہوگی البتہ اس صورت میں ناقابلِ زکوٰۃ اثاثوں مثلاً عمارت اور فرنیچر وغیرہ کی رقم کو منہا کرکے زکوٰۃ نکالیں گے اور ان ناقابلِ زکوٰۃ اثاثوں کی تعین اندازے سے کیا جاسکتا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
📚والدليل على ما قلنا📚
(١) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (التوبة 103)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ ". (سنن الترمذی حدیث نمبر 618 أَبْوَابُ الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. | بَابٌ : مَا جَاءَ إِذَا أَدَّيْتَ الزَّكَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ)
إذا كان له عروض أو خادم للتجارة و حال عليه الحول و هو تبلغ نصابا للدراهم... تجب الزكاة فيهما. (الفتاوى السراجية ص ١٣٧)
و منها كون النصاب ناميا حقيقة بالتوالد و التناسل و التجارة. (الفتاوى الهندية ١٩٢/١ كتاب الزكاة)
يزكي رب المال (المالك) رأس المال و حصته من الربح و يزكي العامل حصته من الربح..... قال أبو حنيفة: و يزكي كل واحد من المالك و العامل بحسب نصيبه و حصته من كل سنة. (الفقه الاسلامي و أدلته ١٨٧٨/٣ كتاب الزكاة، سادسا زكاة شركة المضاربة)
مستفاد: فتاویٰ عثمانی 74/2 کتاب الزکوۃ
كتبه العبد محمد زبير الندوي
مورخہ 4/9/1440
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے


0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Thank You So Much