⚖سوال و جواب⚖
💸مسئلہ نمبر 801💸
(کتاب الزکوۃ، باب الوجوب)
کیا انبیاء پر زکوٰۃ فرض نہیں تھی؟
سوال: انبیاء کرام علیہم السلام پر زکوٰۃ فرض تھی یا نہیں؟ (شکیل احمد، ڈالی گنج لکھنؤ، یوپی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جو سابقہ اقوام کے ساتھ امت محمدیہ پر بھی فرض کی گئی ہے، قرآن مجید و احادیث مبارکہ کی بعض روایات سے معلوم ھوتا ھے کہ زکوٰۃ کی رقم مال کا میل ہے جو مال کی گندگی کو دور کرتی ہے، ظاہر ہے انبیاء کرام علیہم کی ذات جس طرح پاک ہوتی ہے اسی طرح ان کا مال بھی پاک اور منزہ ہوتا ہے؛ اس لیے اس کی زکوۃ کے ذریعے پاک کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ چنانچہ علامہ شامی اور دیگر فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اس مسئلے پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، نیز انبیاء کرام علیہم السلام اس قدر دریا دل اور سخی ہوتے تھے کہ ان کا ذاتی مال ان کے پاس اس مقدار میں رہتا ہے نہیں تھا کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو، انبیاء کرام علیہم کے پاس اِدھر مال آتا اُدھر امت کے فقراء ومساکین میں تقسیم ہوجاتا، سیرت کی کتابوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا، ظاہر ہے کہ جب بقدر نصاب مال ہی نہیں ہوتا تھا تو زکوٰۃ کا وجوب چہ معنیٰ دارد(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔۔
📚والدليل على ما قلنا📚
(١) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (التوبة 103)
تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها" حَالَيْنِ لِلْمُخَاطَبِ، التَّقْدِيرُ: خُذْهَا مُطَهِّرًا لَهُمْ وَمُزَكِّيًا لَهُمْ بِهَا. وَيَجُوزُ أَنْ يَجْعَلَهُمَا صِفَتَيْنِ لِلصَّدَقَةِ، أَيْ صَدَقَةً مُطَهِّرَةً لَهُمْ مُزَكِّيَةً، (الجامع لأحكام القرآن — القرطبي، سورة التوبة ١٠٣)
و لا تجب على الأنبياء إجماعا. (الدر المختار مع رد المحتار ١٧٠/٣ كتاب الزكاة)
لأن الزكاة طهرة لمن عساه أن يتدنس و الأنبياء مبرءون منه، (رد المحتار على الدر المختار ١٧٠/٣ كتاب الزكاة)
كتبه العبد محمد زبير الندوي
مورخہ 13/9/1440
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے


0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Thank You So Much