⚖️سوال وجواب⚖️
🖋️مسئلہ نمبر 1445🖋️
(کتاب الطلاق، اسباب طلاق)
دماغی دورہ کی وجہ سے طلاق دینا
سوال: نکاح کے بعد لڑکی کے دماغی مرض (مرگی اور دماغی دورہ وغیرہ) میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا جس میں بے ہوشی وغیرہ طاری ہو جاتی ہے اور ممکن ہے کہ کسی بھی وقت کوئی حادثہ درپیش ہوجائے جس میں جان کا بھی خطرہ ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح کے کئی سال پہلے سے لڑکی کا ماہر نفسیات کا بھی علاج شروع ہے حتی کہ اسے پاگل خانے میں بھی بھرتی کیا گیا تھا لہٰذا لڑکی کی سرپرست (والدہ) سے رابطہ کیا گیا کہ نکاح کے پہلے آپ نے اس مرض کے متعلق آگاہ کیوں نہیں کیا تو وہ فرمانے لگی کہ "میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں مگر میں مجبور تھی کہ کہیں رشتہ نہ ٹوٹ جائے"
مختصراً یہ کہ صورت مسئولہ میں لڑکے کے لئے (طلاق یا علیٰحدگی وغیرہ کے متعلق) کیا رہنمائی ہے مرحمت فرمائیں عنایت ہوگی. (سائل: میر نوید علی جلگاؤں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و باللہ التوفیق
طلاق اسلامی شریعت میں بہت مکروہ چیز سمجھی گئ ہے، حدیث مبارکہ میں اسے ابغض الحلال بتایا گیا ہے؛ اس لیے حتیٰ الامکان طلاق سے بچنا چاہیے، تاہم بسااوقات طلاق ایک ضرورت بن جاتی ہے اس لیے اس کی اجازت بھی دی گئی ہے، طلاق کے سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ طلاق اس وقت دینی چاہیے جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو یعنی زوجین میں نبھاؤ کی صورت بالکل نہ بن پارہی ہو۔
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ طلاق اس وقت دینی چاہیے جب بیوی کی بدسلوکی سے آدمی پریشان ہوجائے یا وہ اس کی ایذا سے تنگ آجائے، صورت مسئولہ میں اگر دماغی حالت ایسی ہو کہ آدمی اپنی بیوی سے جنسی تعلقات قائم نہ کرپاتا ہو یا اس کے دماغی توازن میں کمی کی وجہ سے جان مال کا شدید خطرہ ہو تو طلاق دے سکتا ہے، اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ طلاق نہ دی جائے؛ بلکہ ضرورت محسوس ہو اور وسعت ہو تو دوسری شادی کرلی جائے اور دونوں بیویوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کا برتاؤ رکھا جائے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
📚والدليل على ما قلنا📚
(١) عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ ". (سنن أبي داود رقم الحديث ٢١٧٨ كِتَابٌ : الطَّلَاقُ | بَابٌ : فِي كَرَاهِيةِ الطَّلَاقِ)
والأولى أن يكون لحاجة كسوء سلوك الزوجة أوإيذائها أحداً، لما فيه من قطع الألفة، وهدم سنة الاجتماع، والتعريض للفساد، ولقوله تعالى: {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلاً} [النساء:٣٤/ ٤] (الفقه الإسلامي و أدلته 2921/9 الأحوال الشخصية)
لأن الطلاق لغير حاجة كفر بنعمة الزواج، وإيذاء محض بالزوجة وأهلها وأولادها. (الفقه الإسلامي و أدلته 2921/9 الأحوال الشخصية)
فَٱنكِحُوا۟ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَاۤءِ مَثۡنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُبَـٰعَۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تَعۡدِلُوا۟ فَوَ ٰحِدَةً أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَیۡمَـٰنُكُمۡۚ ذَ ٰلِكَ أَدۡنَىٰۤ أَلَّا تَعُولُوا۟ (النساء 3)
كتبه العبد محمد زبير الندوي
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 28/7/1442
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے


ماشاءاللہ بہت بہترین معلومات
جواب دیںحذف کریں