🍸سوال و جواب🍸
(مسئلہ نمبر 270)
شادی کارڈ میں گنیش جی کے متعلق بعض باتیں لکھنے والے مسلمان اور اس کی دعوت قبول کرنے کا حکم
سوال: کیا حکم ہے اس شخص کا جس نے اپنی شادی کا دعوت نامہ اس طرح تیار کیا ہے ۔
"بھگوان گنیش کی جئے ہو۔گنیش کے نام سے تمام کام پورے ہوتے ہیں، اس لئے محبت کے ساتھ ہم دعوت بھیج رہے ہیں ۔آپ قبول فرمائیں" "گنیش کے نام سے شروع، ایشور کی عظیم مہربانی سے اور بزرگوں کی دعاؤں سے خاندان میں یہ خاص موقع آیا ہے" ۔
اس کے بعد دعوت کی تفصیل ہے ۔
کیا ایسے شخص کی دعوت میں شرکت جائز ہے اور کیا خود داعی دائرہ اسلام میں باقی رہے گا یا اسے از سر نو کلمہ پڑھنا ہو گا؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ۔ (عامر جاوید فلاحی، کلکتہ)
--------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و باللہ الصواب
سوالنامہ میں جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ہندوانہ عقیدے اور رسم و رواج سے تعلق رکھتی ہیں؛ ان باتوں کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ مثلا گنیش کی جئے پکارنا اور گنیش کی فتح مندی کا خواہاں ہونا اور گنیش کے نام سے تمام کاموں کا پورا ہونا اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف باتیں ہیں؛ اسی طرح اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر کام خدا کے نام سے شروع کیا جائے اور سوال میں منقول بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام گنیش کے نام سے شروع کیا جارہا ہے؛ جو کہ قرآن و حدیث کی تعلیم کے خلاف ہے اور ہندوانہ طور طریقے پر دلالت کرتا ہے؛ اس لئے اگر کارڈ دینے والا شخص کوئی مناسب تاویل مثلا یہ کہ کارڈ اس کے غیر مسلم دوست نے چھپایا ہے یا یہ کہ اس کی چھپائی میں وہ شریک نہیں ہے بلکہ کسی اور کی یہ حرکت ہے، نہیں کرتا ہے تو وہ شخص دائرہ اسلام سے باہر ہے اور اس پر توبہ و استغفار اور تجدید نکاح ضروری ہے، ایسے شخص کی دعوت اس وقت تک قبول نہ کی جائے جب تک کہ وہ اپنی برائت کا اعلان نہ کردے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
📚📚والدلیل علی ما قلنا📚📚
(1) إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ (النمل 30)
》عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال :كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه ببسم الله الرحمن الرحيم أقطع (السنن الأربعة)
》اذا أنكر الرجل آية من القرآن أو تسخر بآية من القرآن و في "الخزانة" أو عاب كفر كذا في التاتارخانية (الفتاوى الهندية 279/2 كتاب السير موجبات الكفر زكريا جديد)
》الهازل أو المستهزي إذا تكلم بكفر استخفافا و استهزاء و مزاحا يكون كفرا عند الكل و إن كان اعتقاده خلاف ذلك (الفتاوى الهندية 287/2 كتاب السير الباب التاسع)
》إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر ووجه واحد يمنع فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر فلا ينفعه التأويل كذا في البحر الرائق (الفتاوى الهندية 293/2 كتاب السير قبيل الباب العاشر الباب التاسع زكريا جديد)
💐💐💐💐💐💐💐💐💐
كتبه العبد محمد زبیر الندوي
مركز البحث والإفتاء الجامعة الإسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا
مؤرخہ 13/3/1439
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے


0 Comments:
ایک تبصرہ شائع کریں
Thank You So Much