پیر، 5 ستمبر، 2022

گوگل ایڈسینس (Google Adsense) اور یوٹیوب (Yuotube) کی کمائی کا تفصیلی حکم قسط اول

 

گوگل ایڈسینس اور یوٹیوب کی کمائی کا تفصیلی حکم

سوال

مفتی صاحب آپ کے دار الافتاء کا گوگل ایڈسینس کے بارے میں فتوی (65530/58)دیکھا جس میں اسے جائز کہا گیا ہے۔ آپ سے گفتگو کے دوران آپ نے بتایا کہ اس سے مراد ایڈسینس کی وہی خاص صورت ہے جس کے بارے میں سوال ہے۔ میری درخواست یہ ہے کہ ایڈ سینس کی تمام صورتوں کے بارے میں وضاحت فرما دیجیے۔

بنیادی طور پر گوگل ایڈسینس ان طریقوں سے کام کرتا ہے:

1.    ویب سائٹ کا مالک گوگل کو جگہ دیتا ہے اور گوگل جتنے لوگ اس ویب سائٹ کو وزٹ کریں ان کی تعداد کے مطابق مالک کو طے شدہ معاوضہ دیتا ہے۔

2.    ویب سائٹ کا مالک گوگل کو جگہ دیتا ہے اور گوگل جتنے لوگ اشتہار کو کلک کریں ان کا معاوضہ مالک کو دیتا ہے لیکن یہ معاوضہ گوگل کی اپنی کمائی کا فیصدی حصہ ہوتا ہے۔

3.    مختلف ویب سائٹس اور یوٹیوب پر ویڈیو اشتہارات کی جگہ دینے پر بھی گوگل مالک کو معاوضہ دیتا ہے۔

صورت حال کچھ یوں ہے کہ اگرچہ گوگل میں ناجائز کیٹگریز کو فلٹر کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود تجربہ یہ ہے کہ گوگل ناجائز اشتہارات چلا ہی دیتا ہے۔ نیز اشتہارات میں تصاویر بھی ہوتی ہیں جنہیں فلٹر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ویڈیو اشتہارات میں نامحرم کی ویڈیوز اور بیک گراؤنڈ میوزک اکثر ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایسے اشتہارات بھی ہوتے ہیں جنہیں دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ البتہ گوگل مہینے کے اختتام پر تمام اشتہارات مالک کو دیکھنے کی سہولت دیتا ہے جس میں مالک کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کون سے اشتہار کو آئندہ چلنے دے اور کون سے اشتہار کو چلانے سے گوگل کو منع کر دے۔

نیز یہ بھی بتائیے گا کہ اگر ان اشتہارات کے لیے جگہ دینا جائز ہے تو بھی اسلامی چینلز پر انہیں لگانا درست ہے یا نہیں کیوں کہ بسا اوقات کافی بیہودہ قسم کے اشتہارات اسلامی چینلز پر نظر آ رہے ہوتے ہیں۔

ایک بات کی مزید وضاحت کر دوں کہ گوگل کے الگورتھم کے مطابق اشتہار میں عموماً دو چیزوں کو دیکھا جاتا ہے:  جس ویب سائٹ پر لگا ہے اس کے موضوع کو اور کافی زیادہ حد تک ویب سائٹ کھولنے والے صارف کی سرچ ہسٹری کو۔ لیکن گوگل اس الگورتھم کا پابند نہیں ہوتا۔

جواب

اولاً بطور تمہید گوگل کے کام کرنے کا طریقہ کار ذکر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد تمام شقوں کا شرعی حکم مذکور ہوگا۔

گوگل ایڈ سینس گوگل کا ایک پراجیکٹ ہےجس میں گوگل مختلف لوگوں کی مختلف چیزوں (مثلاً ویب سائٹ، بلاگ، ایپلیکیشن ، ویڈیو، یوٹیوب چینل وغیرہ) پر ان کی اجازت سے اپنے اشتہار لگاتا ہے۔ اس اشتہار کے بدلے گوگل ویب سائٹ  اور ویڈیو وغیرہ کے مالک کو کچھ رقم ادا کرتا ہے۔ اس کی تفصیلات ذیل میں مذکور ہیں:

گوگل ایڈورڈ:

گوگل جو اشتہارات کسی ویب سائٹ یا ویڈیو پر دکھاتا ہے وہ کسی دوسرے کلائنٹ سے لیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے گوگل کا ایک پروگرام ہے جس کا نام "ایڈ ورڈ" ہے۔ جس کمپنی یا فرد نے اپنا کوئی اشتہار دینا ہوتا ہے وہ ایڈورڈ پر اکاؤنٹ بناتا ہے۔ گوگل اشتہار کی ہر جگہ کی بولی لگاتا ہے ۔ مثلاً ویب سائٹ کی سرخی پر اشتہار لگانے کے لیے اشتہار دینے والوں کے سامنے یہ بات رکھتا ہے کہ اس جگہ کے لیے کون کتنی رقم دے گا۔ جو شخص زیادہ رقم دیتا ہے اس کا اشتہار ایڈسینس کے ذریعے اس جگہ  چلاتا ہے۔ بعض اوقات یہ فیصلہ  رقم کی زیادتی کے علاوہ کسی اور بنیاد پر بھی کرتا ہے۔

گوگل کو اشتہار دینے والا یہ طے کرتا ہے کہ وہ ہر اشتہار کے کلک پر زیادہ سے زیادہ کتنی  رقم دے سکتا ہے۔ اسے Maximum CPC کہا جاتا ہے۔ گوگل بسااوقات مختلف اشیاء کی بنیاد پر اس سے کم رقم لیتا ہے جسے Actual CPC کہتے ہیں۔ البتہ اس سے زیادہ رقم نہیں لیتا۔ بسا اوقات یہ سسٹم روزانہ یا ماہانہ بجٹ کی بنیاد پر بھی رکھا جاتا ہے۔

ایڈورڈ میں گوگل اشتہار کی کیٹگری اور اس پر آنے والے یوزر کے حساب سے رقم مختلف مقرر کرتا ہے۔ مثلاً اگر  اشتہار انشورنس کا ہے تو اس کی اجرت مختلف ہوگی اور اگر مذہبی ہے تو اس کی مختلف ہوگی۔ نیز اگر اشتہار پر آنے والا کلائنٹ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش وغیرہ کے علاقے سے ہے تو اجرت مختلف ہوگی اور اگر امریکا یا کینیڈا سے ہے تو مختلف ہوگی۔

گوگل یہ بھی بتاتا ہے کہ اندازاً ایک اشتہار کو کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنے لوگ دیکھیں گے۔

رقم کی وصولی کی صورتیں:

 اس معاملے میں گوگل  نے مختلف سسٹم تیار کیے ہوئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

ایڈ امپریشنز (Ad Impressions) : اس میں گوگل اشتہار دینے والے سے اشتہار ڈاؤن لوڈ ہونے پر رقم لیتا ہے۔جب کوئی شخص ویب سائٹ کھولتا ہے اور اس کے پاس کسی قسم کا ایڈ بلاکر بھی نہیں ہوتا تو اشتہار خود بخود اس کے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ ہو  جاتا ہے۔ گوگل ان اشتہارات پر اشتہار دینے والے سے رقم وصول کرتا ہے۔

کوسٹ پر انگیجمنٹ (Cost Per Engagement): اس طریقہ کار میں گوگل صرف ان اشتہارات پررقم وصول کرتا ہے جن میں ویب سائٹ کا صارف مصروف ہوا ہو۔ مثلاً اگر اشتہار ایسا ہو جو اپنی جگہ سے بڑھ کر پھیل جاتا ہو تو صارف نے کم از کم دو سیکنڈ تک اس پر کرسر رکھا ہو اور وہ پھیلا ہو۔

کوسٹ پر کلک (Cost Per Click): اس طریقہ کار میں گوگل ان اشتہارات پر رقم وصول کرتا ہے جن پر صارف نے کلک کیا ہو۔

گوگل اور مالک کا معاہدہ:

گوگل ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک سے حاصل شدہ رقم کے متعین فیصد کے مطابق معاہدہ کرتا ہے۔ یہ فیصد مختلف صورتوں میں مختلف ہوتی ہے لیکن اس کی باقاعدہ تعیین ہوتی ہے کہ کون سی صورت میں ایڈ پر ملنے والی رقم کتنے فیصد گوگل کی اور کتنے فیصد مالک کی ہوگی۔

اشتہارات کے انتخاب کا طریقہ کار:

گوگل کسی ویب سائٹ یا ویڈیو پر اشتہار عموماً تین چیزوں کی بنا پر لگاتا ہے:

1.    صارف کی سرچ ہسٹری کے مطابق: گوگل اکثر صارفین کی سرچ ہسٹری محفوظ رکھتا ہے اور اس کے مطابق انہیں ان کی پسند کے اشتہارات دکھاتا ہے۔

2.    موضوع کے مطابق: گوگل ویب سائٹ کے موضوع کے مطابق بھی اشتہارات لگاتا ہے۔

3.    مذکورہ بالا دونوں وجوہات کے علاوہ بھی گوگل مختلف اشتہارات دکھاتا رہتا ہے۔

رقم ادائیگی کی حد:

گوگل رقم اس وقت ادا کرتا ہے جب وہ 100 ڈالر یا اس سے زائد ہو جائے۔ البتہ اگر کوئی ویب سائٹ مالک اپنا اکاؤنٹ بند کرنا چاہے تو اسے 100 ڈالر سے کم ہونے کے باوجود رقم ادا کردی جاتی ہے۔

گوگل  ایڈ بلاک:

گوگل ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے اشتہارات کو ان کی کیٹگری کے حساب سے بلاک کر سکیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ویب سائٹ پر فنانس سے متعلق اشتہارات نہیں چاہتا تو وہ اس کیٹگری کو بلاک کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گوگل یہ آپشن بھی دیتا ہے کہ اشتہار چلنے کے بعد مالک انہیں دیکھ سکے اور ان میں سے اگر کسی اشتہار کو آئندہ کے لیے بلاک کرنا چاہے تو کر سکے۔

البتہ چونکہ یہ خود کار نظام ہے اور گوگل کا سسٹم تمام زبانیں نہیں سمجھ سکتا، نیز بعض اوقات وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ اشتہار دینے والی سائٹ کی کیٹگری کیا ہے یا اشتہار کے اندر کیا مخصوص شے غلط ہے اس لیےبسااوقات بلاک کی گئی کیٹگری کے اشتہارات بھی چل جاتے ہیں۔

اشتہارات کی اقسام:

بنیادی طور پر کسی ویب سائٹ یا کسی ویڈیو پر آنے والے اشتہارات تین قسم کے ہو سکتے ہیں:

1.    تحریری اشتہارات: ایسے اشتہارات جن میں کسی قسم کی تصویر موجود نہ ہو اور صرف تحریر پر ہی مشتمل ہوں۔

2.    تصویری اشتہارات: ایسے اشتہارات جو کسی چیز یا جاندار کی تصویر پر مشتمل ہوں۔ ان میں عموماً تحریر بھی موجود ہوتی ہے۔ بعض اشتہارات فلیش بیسڈ  ہوتے ہیں جو ماؤس کے کرسر کے ساتھ یا کسی اور فعل کے ساتھ حرکت کر سکتے ہیں لیکن  اصلاً وہ تصویری ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض اشتہارات متحرک اینیمیشن کی شکل میں ہوتے ہیں جن میں ایک تصویر بار بار مخصوص حرکت کر رہی ہوتی ہے۔

3.    ویڈیو اشتہارات: ایسے اشتہارات جو ویڈیو کی شکل میں ہوں۔ یہ اشتہارات الگ سے ویب سائٹ پر بھی لگ سکتے ہیں اور کسی ویڈیو میں شامل بھی کیے جا سکتے ہیں۔ یوٹیوب کی ویڈیوز پر موجود اشتہارات بھی اسی قسم میں شامل ہیں۔ ان اشتہارات کے بیک گراؤنڈ پر کوئی ساؤنڈ  عموماً لگایا جاتا ہے جو اکثر اوقات میوزک پر مشتمل ہوتا ہے۔

گوگل ایڈسینس میں بھی اشتہارات کی یہ تین اقسام موجود ہوتی ہیں البتہ بعض چیزوں میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے۔

شرعی حکم:

مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق اشتہار مالکان سے گوگل کے معاملے کی حیثیت شرعاً اجارے کی بنتی ہے جس میں گوگل اشتہار دینے والے کے لیے تو اجیر ہے مگر یہ خود آگے ویب سائٹ کے مالک سے جگہ لیتا ہے تو مستاجر بھی ہے۔ گوگل اور اشتہار دینے والے کے آپس میں معاہدے (ایڈ ورڈ) کی تین اقسام ہیں:

1.    ایڈ امپریشنز: اس میں منفعت لوگوں تک اشتہار کا پہنچانا ہے۔

2.    کوسٹ پر انگیجمنٹ: اس میں بھی منفعت لوگوں تک اشتہار پہنچانا ہے لیکن اس میں معاملہ یقینی منفعت پر ہے۔ یعنی جب کوئی شخص تصویر پر کرسر رکھے گا اور وہ پھیلے گی جس سے وہ اسے دیکھے گا تو گوگل اس کی رقم وصول کرے گا۔ یہاں یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ گوگل نے اس شخص تک اشتہار پہنچا دیا ہے۔ اگر کوئی شخص تصویر نہیں دیکھ پائے گا تو گوگل بھی اس کی اجرت نہیں لے گا۔

3.    کوسٹ پر کلک: اس میں منفعت  لوگوں کو ویب سائٹ پر لانا ہے۔ یہ منفعت مستاجر کو حاصل ہونے پر گوگل اجرت لیتا ہے۔

 اجارے میں منفعت اور اجرت کی ایسی تعیین ضروری ہے کہ جہالت کی وجہ سے اختلاف نہ ہو۔ چونکہ ایڈورڈ میں زیادہ سے زیادہ فی کلک رقم اور بجٹ معلوم ہوتا ہے اور منفعت اجارہ کلک، امپریشن یا انگیجمنٹ کی صورت میں متعین ہوتی ہے، نیز یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کم از کم کتنے کلک   ہوں گے لہذا اس میں مفضی الی النزاع جہالت نہیں ہے اور اس سے آنے والی آمدن شرعاً جائز ہے۔

گوگل اور ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک کے معاہدے (ایڈسینس) کی دو شرعی تکییفات کی جا سکتی ہیں:

اول: شرکت  الصنائع جس میں دونوں فریق اشتہار دینے والے کی مارکیٹنگ کے عمل میں شریک ہوتے ہیں اور اس کی اجرت آپس میں متعین فیصد کے مطابق تقسیم کرتے ہیں۔ اس میں اشکال یہ ہے کہ شرکت الصنائع میں شرعاً یہ لازم ہے کہ کسی ایک فریق کی طرف سے عمل قبول کرنے کی نفی نہ ہو۔ گوگل اور ویب سائٹ مالک کے درمیان اگرچہ صراحتاً ایسی کوئی بات طے نہیں ہوتی کہ ویب سائٹ یا ویڈیو مالک اشتہار قبول نہیں کر سکتا لیکن عملاً یہ بات طے شدہ سمجھی جاتی ہے کہ اگر مالک خود اشتہار لے گا تو گوگل اس پر اسے رقم ادا نہیں کرے گا۔ لہذا یہ تکییف محل نظر ہے۔

دوم: گوگل ویب سائٹ یا ویڈیو مالک سے اس کی ویب سائٹ، چینل یا ویڈیو پر جگہ اجارے پر لیتا ہے اور اس کی اجرت اسے ادا کرتا ہے۔ اس پر اشکال یہ ہے کہ گوگل اشتہار مالکان سے جو رقم لیتا ہے  اس میں سے ویب سائٹ مالکان کو فیصد کے لحاظ سے اجرت دیتا ہے جس کی وجہ سے اجرت میں جہالت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ سلسلہ معروف ہو چکا ہے اور اس جہالت کی وجہ سے آپس میں نزاع نہیں ہوتا لہذا  یہ اجارہ درست ہے۔  ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک کی رقم گوگل کے ذمے دین ہوتی ہے جو وہ 100 ڈالر یا اس سے زائد ہونے پر یکمشت ادا کرتا ہے۔ البتہ اس اجارے سے جو آمدن حاصل ہوتی ہے اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

تحریری و تصویری اشتہارات:

تحریری و تصویری اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدن تین شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1.    جس کاروبار کا اشتہار ہے وہ کاروبار جائز ہو۔ لہذا ان کیٹگریز کو فلٹر کر دیا جائے جو شرعاً جائز نہیں ہیں۔

2.    گوگل ایڈسینس اور ویب سائٹ کے مالک کے درمیان طے شدہ شرائط پر مکمل عمل کیا جائے اور ایسا کوئی فعل نہ کیا جائے جو معاہدے کے خلاف ہو۔

3.    کسی جائز پراڈکٹ کے اشتہار میں اگر گوگل کی طرف سے کوئی ناجائز مواد مثلاً فحش تصویر وغیرہ شامل کر دی جائے اور اس میں ویب سائٹ کے مالک کی اجازت یا رضامندی شامل نہ ہو تو مالک اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہذا اگر کیٹگریز فلٹر کرنے کے باوجود کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو کسی ناجائز کاروبار کی جانب لے جا رہا ہو یا ناجائز مواد (مثلاً نامحرم کی تصاویر) پر مشتمل ہو  تو اس کا گناہ ویب سائٹ مالک کو نہیں ہوگا۔ البتہ ایڈ ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کر دی جائے۔

.........................جاری

Share

گوگل ایڈسینس (Google Adsense) اور یوٹیوب (Yuotube) کی کمائی کا تفصیلی حکم قسط دوم

گوگل ایڈسینس اور یوٹیوب کی کمائی کا تفصیلی حکم


ویڈیو اشتہارات:

جو اشتہارات ویڈیو کی شکل میں ہوں ان کی آمدن مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1.    جس کاروبار کا اشتہار ہے وہ کاروبار جائز ہو۔ لہذا ان کیٹگریز کو فلٹر کر دیا جائے جو شرعاً جائز نہیں ہیں۔

2.    گوگل ایڈسینس اور ویب سائٹ کے مالک کے درمیان طے شدہ شرائط پر مکمل عمل کیا جائے اور ایسا کوئی فعل نہ کیا جائے جو معاہدے کے خلاف ہو۔

3.    کسی جائز پراڈکٹ کے اشتہار میں اگر گوگل کی طرف سے کوئی ناجائز مواد مثلاً فحش تصویر وغیرہ شامل کر دی جائے اور اس میں ویڈیو یا چینل کے مالک کی اجازت یا رضامندی شامل نہ ہو تو مالک اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہذا اگر کیٹگریز فلٹر کرنے کے باوجود کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو کسی ناجائز کاروبار کی جانب لے جا رہا ہو یا ناجائز مواد (مثلاً نامحرم کی تصاویر) پر مشتمل ہو  تو اس کا گناہ ویڈیو مالک کو نہیں ہوگا۔ البتہ ایڈ ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کر دی جائے۔

4.    بیک گراؤنڈ میوزک تکنیکی لحاظ سے ویڈیو سے الگ چیز ہے جسے ویڈیو میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ ویب سائٹ یا ویڈیو کا مالک گوگل ایڈسینس کو ویڈیو لگانے کے لیے اجارے کے طور پر جگہ دیتا ہے ، بیک گراؤنڈ میوزک لگانے کے لیےنہیں دیتا۔ لہذا اگر اشتہار کا مواد اور بنیادی کاروبار جائز ہو لیکن اس کے بیک گراؤنڈ میں میوزک ہو تو مالک پر لازم ہے کہ اولاً بذریعہ ای میل یا کسی اور طریقے سے صراحتاً گوگل کو میوزک  نہ لگانے کا کہے۔ اگر گوگل میوزک نہیں ہٹاتا  تو مالک اپنے چینل یا ویڈیو میں یہ تحریر کر دے کہ اشتہار کے وقت آواز بند کر دی جائے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص آواز بند نہیں کرتا تو اس کا گناہ مالک کو نہیں ہوگا اور اس کی آمدن جائز ہوگی۔

اسلامی چینل پر اشتہارات لگانا:

اگر کوئی شخص کسی اسلامی چینل پر تمام شرائط کا لحاظ کرکے اشتہارات لگاتا ہے تو یہ جائز ہے۔ لیکن چونکہ درمیان میں ایسے اشتہارات آ جاتے ہیں جو نامحرم کی تصاویر اور میوزک وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں اور دینی گفتگو و تقاریر کے درمیان یہ چیزیں شروع  ہو جاتی ہیں اس لیے مناسب ہے کہ ان اشتہارات سے اجتناب کیا جائے جو ویڈیو کے درمیان میں آتے ہیں۔ گوگل مالک کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کس قسم کے اشتہارات اپنے چینل پر چلانا چاہتا ہے۔


حوالہ جات

يشترط في الإجارة أن تكون المنفعة مملوءة بوجه يكون مانعا للمنازعة.أي أنه يشترط في الإجارة أي في صحتها، أولا أن تكون المنفعة معلومة بوجه يكون مانعا للمنازعة.

انظر المادتين (200 و 405) فعليه إذا كانت المنفعة مجهولة بحيث تؤدي إلى المنازعة تكون فاسدة (الهندية) ويختلف العلم بالمنفعة باختلاف أنواع الإجارة۔۔۔.

(درر الحكام، 1/504، ط: دار الجيل)

 

وإن كان في البلد نقود مختلفة فإن كانت في الرواج على السواء ولا فضل للبعض على البعض فالعقد جائز ويعطي المستأجر أي النقود شاء، وإن كانت الأجرة مجهولة؛ لأن هذه الجهالة لا تفضي إلى المنازعة۔۔۔.

(الفتاوى الهندية، 4/412، ط: دار الفكر)

 

يشترط لصحة الإجارة أن تكون المنفعة والأجرة معلومتين علما ينفي الجهالة المفضية للنزاع، وإلا فلا تنعقد الإجارة.

(الموسوعة الفقهية الكويتية، 16/173، ط: دار السلاسل)

 

قال الحصكفيؒ: " (و) إما (تقبل) وتسمى شركة صنائع وأعمال وأبدان (إن اتفق) صانعان (خياطان أو خياط وصباغ) فلا يلزم اتحاد صنعة ومكان (على أن يتقبلا الأعمال) التي يمكن استحقاقها۔۔۔ (ويكون الكسب بينهما) على ما شرطا مطلقا في الأصح لأنه ليس بربح بل بدل عمل فصح تقويمه."

علق عليه ابن عابدين ؒ: " وفي النهر أن المشترك فيه إنما هو العمل، ولذا قالوا: من صور هذه الشركة أن يجلس آخر على دكانه فيطرح عليه العمل بالنصف والقياس أن لا تجوز؛ لأن من أحدهما العمل ومن الآخر الحانوت واستحسن جوازها؛ لأن التقبل من صاحب الحانوت عمل. اهـ."

(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 4/322، ط: دار الفكر)

 

يجوز لكل واحد من الشريكين أن يتقبل محل العمل ويتعهده سواء شرط في عقد الشركة تقبل وتعهد الشريكين أو شرط تقبل وتعهد أحدهما بدون نفي صلاحية الشريك الآخر لأن الشركة تتضمن الوكالة. انظر المادة الآتية. فلذلك إذا تقبل وتعهد أحدهما فيكون تقبله وتعهده وكالة عن شريكه الآخر ويكون الشريك المتقبل قد تقيد أصالة عن نفسه ووكالة عن شريكه، كما أنه يكون الشريك الذي قام بالعمل قد قام به أصالة عن نفسه ووكالة عن شريكه ولكن يجب أن لا تنفى صلاحية الشريك الذي شرط عليه العمل في تقبل العمل لأن عند السكوت صلاحية التقبل ثابتة اقتضاء ولكن لا يمكن إثباتها مع النفي (البحر) وقد بين ذلك في شرح المادة الآنفة، فلذلك للشريك الذي شرط عليه العمل أن يتقبل ويتعهد العمل سواء كان المتقبل أهلا لإيفاء العمل اللازم إيفاؤه كأن يشترك صباغ وخياط فيتعهد الصباغ بصبغ الثياب أو كان غير أهل لإجرائه كتعهد وتقبل الصباغ بخياطة الثياب (البحر) .

ويجوز أيضا للخياطين المشتركين شركة صنائع أن يعقدا الشركة على أن يتقبل أحدهما الأقمشة ويقصها ويفصلها وأن يخيطها الآخر (رد المحتار) أما إذا نص في عقد الشركة على أن يتقبل أحدهما وأن لا يتقبل الآخر بل يعمل فقط فلا تجوز الشركة لأنه في هذا الحال يكون الشريك الذي نفي عنه صلاحية التقبل قد نفيت عنه الوكالة، والحال أن الشركة تتضمن الوكالة كما هو مذكور في المادة الآتية

(درر الحكام في شرح مجلة الاحكام، 3/413، ط: دار الجيل)

 

"وإذا استأجر الذمي من المسلم دارا يسكنها فلا بأس بذلك، وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير ولم يلحق المسلم في ذلك بأس لأن المسلم لا يؤاجرها لذلك إنما آجرها للسكنى. كذا في المحيط."

(الفتاوی الھندیۃ، 4/450، ط: دار الفکر)

 

قال الحصكفيؒ: " (و) جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة زيلعي."

قال ابن عابدين ؒ: " (قوله وجاز إجارة بيت إلخ) هذا عنده أيضا لأن الإجارة على منفعة البيت، ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ولا معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فينقطع نسبيته عنه، فصار كبيع الجارية ممن لا يستبرئها أو يأتيها من دبر وبيع الغلام من لوطي والدليل عليه أنه لو آجره للسكنى جاز وهو لا بد له من عبادته فيه اهـ زيلعي وعيني ومثله في النهاية والكفاية۔۔۔."

(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/392، ط: دار الفكر)

 

    If someone clicks your ad, that click won't cost you more than the maximum cost-per-click bid (or "max. CPC") that you set. For example, if you set a $2 max. CPC bid, you'll never pay more than $2 for each click on your ad. The actual amount that you pay is called the actual CPC and is shown in your account's "Avg. CPC" column.

    A higher bid generally helps your ad show in a higher ad position on the page.

    You'll choose between manual bidding (you choose your bid amounts) and automatic bidding (you set a target average daily budget and the Google Ads system automatically adjusts your max. CPC bids on your behalf, with the goal of getting you the most clicks possible within that budget). With manual bidding, you'll set one maximum CPC bid for an entire ad group, but can also set different bids for individual keywords.

(https://support.google.com/google-ads/answer/6326)

 

 

 

Ad reach is an estimate of the number of people within a location target, based on signed-in users.

You can use the provided reach numbers to get a rough idea of how many people your ads could reach within a geographic area.

This article explains how ad reach is estimated and what happens when your location target can only reach a limited number of people.

(https://support.google.com/google-ads/answer/1722045?hl=en)

 

An impression is counted for each ad request where at least one ad has begun to download to the user’s device. It is the number of ad units (for content ads) or search queries (for search ads) that loaded ads.

(https://support.google.com/adsense/answer/6157410?hl=en)

 

With cost-per-engagement (CPE) bidding, advertisers only pay when users actively engage with ads. For example, advertisers pay for lightbox ads (a type of expandable ad that can expand to a very large size) on a CPE basis, which means that publishers generate earnings from lightbox ads when users choose to engage with the ads, e.g., by hovering over them for two seconds to expand the ads.

(https://support.google.com/adsense/answer/4643299?hl=en&ref_topic=19363)

 

The cost-per-click (CPC) is the amount you earn each time a user clicks on your ad. The CPC for any ad is determined by the advertiser; some advertisers may be willing to pay more per click than others, depending on what they're advertising.

(https://support.google.com/adsense/answer/32725?hl=en)

 

The ad auction is used to select the ads that will appear on your pages and determine how much you’ll earn from those ads. In a traditional auction, interested bidders state the maximum price they're willing to pay to buy a specific item. Similarly, our ad auction allows advertisers to state the price they're willing to pay for clicks on ads or for impressions served on AdSense pages.

(https://support.google.com/adsense/answer/160525)

 

You'll be paid out when your unpaid earnings reach the payment threshold, as long as there are no holds on your account and you're in compliance with our Program policies. For more information about when you'll get paid…If you decide to cancel your AdSense account and your account balance is greater than the cancelation threshold, you'll receive your final payment within approximately 90 days of the end of the month, provided that you've completed the necessary steps to get paid.

(https://support.google.com/adsense/answer/1709871?hl=en)

 

The Ad review center is a feature that gives you more transparency and control over the ads that appear on your site. When you enable the Ad review center, you can review individual ads after they're shown and assess whether you want to continue showing them on your pages.

(https://support.google.com/adsense/answer/2369326)

You can block ads from general categories such as Apparel, Internet, Real Estate, and Vehicles. General category blocking is available for ads in a limited set of languages, regardless of the language of the site.

(https://support.google.com/adsense/answer/180609?hl=en&ref_topic=23390)

 


مجيب
اویس پراچہ
مفتیان
مفتی محمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
سعید احمد حسن صاحب


ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :70225
تاریخ اجراء :2020-10-03
Share

اتوار، 4 ستمبر، 2022

دوکان و مکان کے ڈپازٹ Shop and House Deposit پر زکوٰۃ کا حکم

⚖سوال و جواب⚖

💸مسئلہ نمبر 798💸

(زکوٰۃ کے جدید مسائل)

  دوکان و مکان کے ڈپازٹ Shop and House Deposit 
پر زکوٰۃ کا حکم

 سوال: شہر بنگلور میں عام رواج ہے کہ کرایہ پر گھر اور دکان لینے پر مالک مکان اڈوانس کے نام پر اک بڑی رقم ڈپازٹ لیتے ہیں، جو کرایہ کے علاوہ ہوتی ہے،

جب مدت پوری ہوجاتی ہے یا مکان خالی کرنا پڑتا ہے تو وہ ڈپازٹ والی رقم واپس مل جاتی ہے، تو اس پر زکات واجب ہے یا نہیں؟

جواب عنایت فرما دیں، مہربانی ہوگی۔ والسلام 

(محمد افروز عفی عنہ 

بنگلور)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

زکاة کے واجب ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے؛ کہ وہ مال مکمل ملکیت میں ہو اور اس پر قبضہ بھی ہو تبھی زکاۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں(1) مثلا رہن میں رکھا ہوا مال کہ اس پر مال والے کی ملکیت تو ہوتی ہے؛ مگر قبضہ نہیں اور مرتهن کا قبضہ ہوتا ہے مگر ملکیت نہیں ہوتی؛ اس لئے مال مرہون میں کسی پر زکاة واجب نہیں ہوگی(2) اور چونکہ ڈپازٹ پر دی گئی رقم بھی مال مرہون کے درجے میں ہوتی ہے اور ایک کا قبضہ ہوتا ہے تو دوسرے کی ملکیت ہوتی ہے؛ اس لیے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ھوگی۔ فقہ اکیڈمی انڈیا نے یہی فیصلہ کیا ہے(٣) اور اسی پر فتوی ہے(٤)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (التوبة 103)

أن يكون مملوكا له رقبة و يدا (بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع 9/2 كتاب الزكاة)

(2) ولا اي لا يجب الزكاة في مرهون اي لا على المرتهن لعدم الملك ولا على الراهن لعدم اليد (الدر المختار مع رد المحتار كتاب الزكاة 18/3)

(3) نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے ص 68 پانچواں فقہی سیمنار منعقدہ اعظم گڑھ نیز دیکھئے کتاب الفتاوی 268/3۔

(4) کتاب المسائل 221/2 روضة الفتاوی 389/3۔

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مورخہ 10/9/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) کرانا کیسا ہے

 📚سوال و جواب📚

  (مسئلہ نمبر 267) 

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) 
کرانا کیسا ہے

سوال:کیا فرماتے ہیں اہل الذکر کہ موجودہ دور میں اگر اک عام تاجر / یا عام انسان حکومت کے لاگو تمام قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے تو بقول ٹیکس آڈیٹرس کے اس کو اپنی کمائی کا نصف فیصد حصہ دینا پڑتا ہے۔ جن اشیاء کو بازار سے خرید کر دکان لاتے ہیں تو بازار سے لیکر اپنی دکان تک جتنے ذرائع سبب بنتے ہیں سب کے اپنے ٹیکس ہوتے ہیں جس کو ادا کرتے کرتے یقینا مایوسی حاصل ہوتی ہے۔ 

دیگر اہل علم کے پرانے فتاوی اس طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ جو سود کی رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتی ہے اس کو اس ٹیکس کی رقم میں استعمال کرلیا جاسکتا ہے اگر واقعی وہ ٹیکس غیرضروری وجبراً لیا جاتا ہو۔ 

تو بندہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جن لوگوں کے اکاؤنٹ ہی نہ ہوں یا جن کے اکاؤنٹ میں کوئی سودی رقم جمع ہی نہ ہوتی ہو کیا وہ مثلاً ایک لاکھ روپئے فکسڈ ڈپازٹ کرکے جو رقم سود کی سالانہ/ماہانہ حاصل ہو اس کو ان غیر ضروری ٹیکس میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟

اگر دس لاکھ روپئے کی کار خریدی جائے تو ایک لاکھ اسی ہزار روپئے صرف ٹیکس دینا پڑتا ہے۔  یعنی ۱۸۰۰۰۰ روپئے آر ٹی أو والے لیتے ہیں اب ایسی ہزاروں چیزیں ہیں جن پر محنت کا ایک بڑا سرمایہ بطور ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ 

کیا اس مجبوری میں فکسڈ ڈپازٹ سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ یا اور کوئی شکل أنحضرت کے یہاں ہو تو براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ (بندہ مدثر أحمد، بنگلور) 

--------------------------------------------------

♤بسم اللہ الرحمن الرحیم♤ 

الجواب بسم ملہم الصواب

فکسڈ ڈپازٹ جس میں ایک مخصوص رقم بینک میں جمع کرادی جاتی ہے اور ماہانہ یا سالانہ اس کا سود ملتا ہے اور مدت پوری ہونے پر پوری رقم بھی مل جاتی ہے؛ یہ صورت سراسر سود ہے اور سود حاصل کرنے ہی کی غرض سے یہ ڈپازٹ کرایا جاتا ہے، رقم کی حفاظت اس کا مقصود نہیں ہوتا؛ اسی لئے سود کی شرح (interest percent) اس میں زیادہ ہوتا ہے اور سیونگ اکاؤنٹ کے مقابلے اس میں زیادہ سود ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ سود لینا اور دینا شریعت اسلامی میں ناجائز و حرام ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں اور لعنتیں آئی ہیں اس لئے فکسڈ ڈپازٹ اس مقصد کے لئے کرانا ناجائز ہے (۱) 

ہاں یہ بات درست ہے؛ کہ فقہائے اسلام نے ناجائز اور جبری ٹیکس میں بینک سے حاصل ہونے والی سودی رقم ادا کرنے کی اجازت دی ہے(۲) مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ سیونگ اکاونٹ میں پیسے کی حفاظت کی غرض سے جمع شدہ رقم پر ملی ہوئی سودی رقم ادا کرنا ہے؛ ناکہ صرف سود ہی کی حصول یابی کے مقصد سے رقم بینک میں جمع کرنا اور اس سے سود حاصل کرنا ہے؛ چنانچہ اس سلسلے میں متعدد کتابیں دیکھنے کے باوجود بھی کہیں یہ نہیں مل سکا کہ ٹیکس ادا کرنے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ کرانا کسی نے جائز قرار دیا ہو؛ بلکہ اس کے برخلاف متعدد اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ صرف ٹیکس ادا کرنے یا سود میں سود کی رقم دینے کے لئے سودی اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے(۳) اسی طرح فقہاء اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جب کسی معاملے میں مصلحت اور مفسدہ دونوں جمع ہوجائیں تو مفسدہ کو دور کیا جائے گا اور مصلحت کا خیال نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ شریعت اسلامی نے مامورات کے مقابلے منہیات میں زیادہ شدت سے کام لیا ہے(۴) چنانچہ اس اصول کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ بجائے ٹیکس کی رقم ادا کرنے کے لئے سودی رقم لینے کا معاملہ ہی نہ کیا جائے۔

اسلئے آپ نے جو بات سوال نامے میں لکھی ہے اس کی وجہ سے بھی فکسڈ ڈپارٹ کرانا اور سود حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا؛ بلکہ سود کے دائرہ میں ہونے کی وجہ سے اس سے اجتناب کرنا اور دور رہنا واجب و ضروری ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔ 


📚📚والدلیل علی ما قلنا📚📚

(۱) وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة 275)

》حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ. (حدیث نمبر 4177)

》كل قرض جر نفعا حرام اي اذا كان مشروطا (رد المحتار على الدر المختار 395/7 كتاب البيوع زكريا)

(۲) الحاصل انه أن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم والا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق بنية صاحبه (رد المحتار على الدر المختار 223/7 كتاب البيوع زكريا)

》و يردونه على اربابه إن عرفوهم والا يتصدقوا به لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد (البحر الرائق شرح كنز الدقائق   201/8 كتاب الكراهية فصل في البيع كوءتة)

》والسبل في المعاصي ردها،  وذلك برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه و بالتصدق إن لم يعرفه ليحصل إليه نفع ماله  (الفتاوى الهندية كتاب الكراهية الباب الخامس عشر 249/5)

》و أما إذا كان عند رجل مال خبيث فإما إن ملكه بعقد فاسد أو حصل له بغير عقد و لا يمكنه أن يرده إلى مالكه و يريد ان يدفع مظلمة عن نفسه فليس له حيلة إلا أن يدفعه إلى الفقراء لكن لا يريد بذلك الأجر والثواب و لكن يريد دفع المعصية عن نفسه (بذل المجهود 37/1 كتاب الطهارة باب فرض لوضوء د)

(۳) کتاب الفتاوی 316/5۔ فتاوی قاسمیہ 741/20

(۴) درء المفاسد أولى من جلب المصالح اي اذا تعارض مفسدة و مصلحة قدم دفع المفسدة لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتناءه بالمامورات (الاشباه والنظائر لابن نجيم المصري ص 264، شرح المجلة 32/1 المادة 30)

✍✍✍✍✍✍✍✍✍

✍ العبد محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء الجامعة الإسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا 

مؤرخہ 10/3/1439 

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

رقم لے کر فری میں کرایہ پر مکان دینے کا حکم

 ⚖سوال و جواب⚖

🏢مسئلہ نمبر 980🏢

(کتاب الاجارۃ)

 رقم لے کر فری میں کرایہ پر مکان دینے کا حکم 

 سوال: کرناٹک میں عمومی طور پر لوگ اپنے گھر کو (لیج) ایک متعینہ رقم طے کر کے دیتے ہیں۔ مثلا ایک لاکھ روپے دے دیں اسکے بدلے ایک سال تک میرے گھر کو استعمال کریں جب سال پورا ہوجائے تو آپ کا پیسہ واپس کردیاجاۓ گا۔ پیسے واپس بھی کردیۓ جاتے ہیں۔ اب اس صورت میں اس گھر کا استعمال بغیر کرایہ کے ہوگیا۔‌ کیا یہ شریعت میں جائز؟ (محمد امیر سبحانی قاسمی بنگلور کرناٹک)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

آپ نے جو صورت سوالنامہ میں لکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دی جانے رقم بطورِ قرض دی جاتی ہے اور اس کے بدلے مکان میں بنا کرایہ کے سکونت کا موقع ملتا ہے یا شکل تو ڈپازٹ کی ہوتی ہے مگر ہوتی قرض ہی ہے، ظاہر ہے کہ یہ قرض سے استفادہ کی صورت ہے جو کہ سود ہے اور سود لینا دینا جائز نہیں ہے؛ اس لئے مذکورہ بالا صورت درست نہیں ہے، آپ حضرات کو اس سلسلے میں سخت احتیاط برتنی چاہیے۔

اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ یا تو پورا کرایہ دیا جائے یا کم از کم اتنا کرایہ ضرور دیا جائے جو اس کا کم سے کم کرایہ اس علاقے میں ہوسکتا ہو(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ )

البقرة (278)

كل قرض جر نفعا فهو ربا. (شرح معاني الآثار رقم الحديث ٥٨٨٣)

قالوا يجب أجر المثل على المقرض لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا. (رد المحتار ٨٧/٩ باب ضمان الأجير)

وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین:أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شےئا بأرخص مما یباع أو یوٴجرہ أو یھبہ ……،ولو لم یکن سبب ذلک (ھذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 16/3/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ہفتہ، 3 ستمبر، 2022

ہیوی ڈپازٹ پر کرایہ داری کا حکم

⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1644🖋️

(کتاب الاجارۃ جدید مسائل)

ہیوی ڈپازٹ پر کرایہ داری کا حکم

سوال: ہیوی ڈپوزٹ پر دکان یا مکان لینا کیسا ہے؟ اس کی ایک شکل تو یہ ہے کہ ہیوی ڈیپوزٹ پر دکان یا مکان لے لیا اور مہینے کے بعد کرایہ بھی نہیں اور ایک شکل یہ ہے کہ ہیوی ڈیپوزٹ پر دکان یا مکان لیا اور مہینے کے بعد کرایہ بھی دینا ہے تو کیا یہ دونوں شکل ناجائز ہے؟ اور ہیوی ڈیپوزٹ لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہے؟ (نعمان احمد خان، مہاراشٹر)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ہیوی ڈپازٹ کے ذریعے جو مکانات یا دوکانیں کرایہ پر لی جاتی ہیں وہ عموما یا تو بالکل فری ہوتی ہیں یا نہایت معمولی کرایہ پر ہوتی ہیں؛ جس کی وجہ سے قرض پر نفع لینے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جو جائز نہیں ہے، البتہ اگر مناسب کرایہ لگایا جائے یعنی اتنا کرایہ جو اس علاقے میں کم سے کم ہوسکتا ہو تو یہ جائز ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) أنواع الربا،وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین:أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شےئا بأرخص مما یباع أو یوٴجرہ أو یھبہ ……،ولو لم یکن سبب ذلک (ھذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 19/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

ڈپازٹ کی بنیاد پر کرایہ معاف کردینا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1471🖋️

(کتاب الاجارہ، جدید مسائل)

ڈپازٹ کی بنیاد پر کرایہ معاف کردینا

سوال: ہاسپٹلس میں میڈیکل کی ایک شکل یہ بھی رایٔج ہے کہ میڈیکل والا ڈاکٹر کو پانچ سال کے معاہدہ پر پچاس لاکھ روپیہ بطور ڈپوزٹ کے دے گا اور پانچ سال تک اس ہاسپٹل میں میڈیکل چلائے، گا میڈیکل والا ہاسپٹل والے کو کرایہ اور منافع وغیرہ کچھ بھی نہیں دے گا؛ البتہ ہاسپٹل والا ڈپوزٹ کی رقم پانچ سال تک استعمال کرے گا۔ آپ سے پوچھنا ہے کہ درج بالا صورت جائز ہے یا نہیں؟ (انصار اللہ، کریم نگر، تلنگانہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا صورت ہیوی ڈپازٹ کی ہے، یہ صورت ناجائز ہے، اس لیے کہ ایک تو اس میں کرایہ کی تعیین نہیں ہے، دوسرے ڈپازٹ کے طور پر رکھی گئی رقم سے استفادہ ہے جو کہ شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ ڈپازٹ کی حیثیت ودیعت کی ہے، اور ودیعت پر رکھی چیز سے استفادہ درست نہیں ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


والدليل على ما قلنا

(١) ومنها أن تكون الأجرة معلومة. (الفتاوى الهندية 411/4 كتاب الإجارة، بيروت)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 25/8/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ڈپازٹ کی رقم اور ہیوی ڈپازٹ کی چند صورتوں کا حکم (Heavy deposit)

 👁‍🗨سوال و جواب👁‍🗨

(مسئلہ نمبر 406)

ڈپازٹ کی رقم اور ہیوی ڈپازٹ کی چند صورتوں کا حکم

سوال کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آج کل بڑے شہروں میں مکانات کی کرایہ داری میں بھاری مقدار میں پیشگی رقم ڈپازٹ کے عنوان سے لینے کا معمول بن چکا ہے، اب اس میں کئی شکلیں ہوتی ہیں:

الف:- اگر ڈپازٹ کی رقم معمولی ہوتی ہے تو ماہانہ کرایہ کی رقم زیادہ ہوتی ہے ، اور جب کرایہ دار جائیداد خالی کرتا ہے تو مالک اسے ڈپازٹ کی رقم لوٹا دیتا ہے۔

ب:- اگر ڈپازٹ کی رقم بھاری مقدار میں ہو تو ماہانہ کرایہ کی رقم بہت معمولی ہوتی ہے، اور بہر صورت جب بھی جائیداد خالی ہوتی ہے تو مالک ڈپازٹ کی پوری رقم واپس کرنے کا ضامن ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ:

(۱) اس طرح کا عقد شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

(۲) ڈپازٹ کی رقم کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ قیمت ہے یا رہن ہے یا امانت ہے؟

(۳) اس ڈپازٹ کی رقم کو مالک جائیداد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

(۴) اگر یہ معاملہ جائز نہ ہو تو کیا اس کو شرعی جواز کے دائرہ میں لانے کی کوئی اور شکل ہے؟

(۵) اس ڈپازٹ کی رقم کی زکوٰۃ کس پر واجب ہے، کرایہ دار پر یا مالک پر؟ یا کسی پر واجب نہیں؟                                   (المستفتی عبدالستار قاسمی، امام جامع مسجد، اونتکا روہینی، دہلی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

الجواب بسم ملہم الصواب

آپ نے جو سوالنامہ مجھے بھیجا ہے بعینہ یہی سوالات انہیں الفاظ میں ہندوستان کے مشہور عالم دین اور صاحب نظر مفتی حضرت مولانا سلمان منصورپوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے فتاویٰ "کتاب النوازل" کی جلد نمبر ١٢ صفحہ نمبر ٣٠٠ پر موجود ہیں اور مفتی صاحب نے تفصیل کے ساتھ معتبر دلائل کی روشنی میں ان سوالات کے تحقیقی جوابات درج فرمائے ہیں؛ اس لئے اگر آپ چاہیں تو ان تمام سوالات کے تفصیلی اور مدلل جوابات وہاں ملاحظہ فرمالیں۔

البت آپ کے اور دیگر قارئین کے افادے کی غرض سے مختلف کتب فقہ و فتاویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں مختصراً ان سوالات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں:

(١) جب ڈپازٹ کی رقم کم ہو اور کرایہ زیادہ ہو اور کرایہ داری کا معاملہ ختم ہونے پر وہ رقم واپس کردی جائے تو اس معاملے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، یہ بلاشبہ جائز ہے۔

جب کرایہ کم ہو اور ڈپازٹ کی رقم زیادہ ہو تو اس کی مندرجہ ذیل چند صورتیں ہوسکتی ہیں:

اگر ڈپازٹ کی رقم کو بنیاد بنا کر کرایہ میں کمی کی جاتی ہے تو اس میں سود کا شبہ پایا جاتا ہے اس لئے یہ صورت جائز نہیں ہے۔

اگر کرایہ پہلے طے ہوچکا ہے اور ڈپازٹ کی رقم بھی طے ہوچکی تھی اور پھر کہا گیا کہ اگر اتنی ڈپازٹ بڑھا دی جائے تو اتنا کرایہ کم کر دیا جائے گا تو یہ صورت بھی سود میں شامل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

اگر شروع ہی میں ڈپازٹ کی رقم کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب کرایہ طے کر لیا جائے اور بعد میں ڈپازٹ کا مطالبہ کیا جائے تو یہ صورت درست ہوگی، البتہ اس طرح جو رقم ڈپازٹ کے طور پر لی جائے پہلے اسے محفوظ طور پر رکھ لیا جائے اور پھر کچھ دنوں بعد اس کے استعمال کی اجازت لے لی جائے۔ اور اس طرح یہ امانت سے نکل کر قرض بن جائے گی۔

(٢) ڈپازٹ کی رقم تو اصلا امانت ہے اس لئے مالک مکان کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں ہے؛ مگر موجودہ زمانہ میں اس کے استعمال کا عرف عام ہے اور صراحتاً یا دلالتہ اس کی اجازت بھی ہوتی ہے اس لئے اب اس کی حیثیت قرض کی ہے۔

(٣) چونکہ اب عرفا یا دلالتہ اس کا استعمال عام ہے اس لئے ڈپازٹ کی حیثیت اب قرض کی ہو گئی ہے اور اس پر قرض ہی کے احکام نافذ ہوتے ہیں؛ اس لیے مالک دوکان و مکان کے لئے اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں ہے۔

(٤) اس کے جواب کے لیے ایک نمبر پر غور فرمالیں۔

(٥) ڈپازٹ کی وہ رقم جس کی مدت متعین ہے فقہی نقطۂ نظر سے یہ دین قوی کے درجے میں ہے، اس لئے اس کی زکوۃ کرایہ دار پر واجب ہوگی اور رقم وصول ہونے کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، واضح رہے کہ عام طور سے کرایہ داری کا وقت متعین ہی ہوتا ہے اس لئے کرایہ دار کو گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اور اگر وقت متعین نہ ہو تو یہ دین وسط یا دین ضعیف کے درجے میں ہوگا اور وصول ہونے کے بعد سابقہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚مصادر ومراجع📚📚 

(١) کتاب النوازل ٣٠٠/١٢ نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلے ص ٢٢١ کتاب الفتاوی ٦٤/١٠ جدید فقہی مسائل ٢١٨/١ فتاویٰ دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ ١٣٦/٣۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 1/8/1439

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate