ہفتہ، 20 اگست، 2022

ناقص الخلقت بچے کی تکفین و تدفین کا حکم

 ⚖️سوال وجواب ⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1772 🖋️

(کتاب الصلاۃ باب الجنائز)

ناقص الخلقت بچے کی تکفین و تدفین کا حکم

سوال: اگر کوئی بچہ مکمل طور پر بن نہیں پایا تھا یعنی ہاتھ پاؤں مکمل طور پر نہیں بنے تھے اور وہ ساقط ہوگیا تو اس کی تکفین و تدفین اور نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ (عزیر، لکھنؤ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


ایسا بچہ جو گوشت کی شکل میں ہو اور اس کی خلقت مکمل نہ ہویی ہو وہ باقاعدہ انسانی وجود کے حکم میں نہیں ہوگا، یعنی اس کی حیثیت مکمل انسان کی نہیں ہوگی بلکہ گوشت کے لوتھڑے کی ہوگی، چنانچہ اس پر کفن دفن اور نماز جنازہ کے وہ احکام نافذ نہیں ہونگے جو ایک مسلمان بچے کے لئے ہوتے ہیں، جزو انسانی ہونے کے ناطے اس کے احترام کا تقاضہ ہے کہ کسی صاف ستھرے کپڑے میں لپیٹ کر کسی جگہ بلا نماز جنازہ دفن کردیا جائے تاکہ وہ ضائع نہ ہو اور جانوروں کی پہنچ سے محفوظ رہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا 📚

السقط الذي لم تتم أعضاؤه لا يصلى عليه باتفاق الروايات والمختار أن يغسل ويدفن ملفوفا في خرقة، كذا في فتاوى قاضي خان. (الفتاوى الهندية 159/1 كتاب الصلاة باب الجنائز)

لو وجد طرف من اطراف إنسان أو نصفه مشقوقا طولا أو عرضا يلف في خرقة (رد المحتار على الدر المختار 99/3 زكريا)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 1/7/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگنے کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1768🖋️

(کتاب الصلاۃ باب الجنائز)

قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگنے کا حکم

سوال: قبرپر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیسا ہے؟

جواب مع الدلیل ارسال کریں، برائے مہربانی، (محمدامداداللہ.نورچک.مدھوبنی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگنے میں مردہ سے یا صاحب قبر سے استعانت کا شبہ پایا جاتا ہے اس لیے اس طرح دعا کرنا بہتر نہیں ہے، اس سے پرہیز ضروری ہے، البتہ اگر کوئی ہاتھ اُٹھانا ہی چاھتا ھے تو اسے چاہیے کہ قبلہ رخ ہوکر دعاء کرے تاکہ وہ شبہ ختم ہوجائے، قبلہ رُخ ہوکر قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے، علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو عوانہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ذی النجادین کی قبر پر قبلہ رخ ہوکر اور ہاتھ اٹھا کر دعاء فرمائی تھی (١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

وفي حديث ابن مسعود " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبر عبد الله ذي النجادين " الحديث وفيه " " فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه " أخرجه أبو عوانة في صحيحه. (فتح الباري بشرح صحيح البخاري رقم الحديث ٦٣٤٣)

"وإذا أراد الدعاء يقوم مستقبل القبلة، كذا في خزانة الفتاوى" (الفتاوى الهندية 5 / 350)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 26/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں پہلی قسط

✍سوال و جواب✍

(مسئلہ نمبر 516)

 کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں 



 سوال: کیا کرامات اولیاء برحق ہیں؟ کرامات اولیاء کو نہ ماننے والے کے ایمان پر کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کرامات اولیاءکو بالکل نہیں مانتے ایسے لوگوں کا ایمان کیسا ہے؟ 

مکل و مدلل جواب عنایت کیجیے. (ابو یحییٰ محمد صغیر، مہاراشٹر)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب بعون اللہ الوہاب

کرامت کہتے ہیں ایسے خلاف عادت و فطرت کام یا واقعے کو جو کسی نیک صالح مومن بندے کے ذریعے ظاہر ہو، اگر وہ شخص نیک اور مومن نہیں ہے تو اسے کرامت نہیں کہا جائے گا بلکہ شعبدہ بازی یا نظر بندی کہا جائے گا، تعریفات کے مشہور مصنف علامہ شریف جرجانی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں کرامت کی یہی تعریف نقل کی ہے(١)

اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندوں سے کرامت کا ظاہر ہونا اور اس کے ذریعے ان کے کاموں میں تایید ہونا ایک مسلم اور قرآن و حدیث اور صحابہ وتابعین کی زندگی سے ثابت امر ہے اور اس کے قرآن و حدیث سے ثابت ہونے اور برحق ہونے پر امت کا اجماع ہے۔

قرآن مجید میں بیان شدہ واقعات اور خدا تعالی کے نیک بندوں کی حکایات سے معلوم ہوتاہے کہ زمانۂ سابق کی نیک شخصیات سے بھی کرامات کا صدور ہوا ہے اور مفسرین نے انہیں آیات کی روشنی میں کرامات کے جائز اور ثابت و برحق ہونے پر استدلال کیا ہے، قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت نمبر ٣٧ میں آیا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس تازہ پھل غیب سے آیا کرتے تھے، حضرت زکریا علیہ السلام نے دیکھا تو تعجب کا اظہار کیا، اس آیت کی تفسیر میں امام التفسیر علامہ آلوسی بغدادی علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے:

 "کہ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ اولیاء کرام کے لئے کرامت درست ہے، اس لیے کہ حضرت مریم مشہور قول کے مطابق نبی نہیں تھیں"(٢)

اسی طرح قرآن مجید میں موجود أصحاب کہف کے واقعے میں ان حضرات کا مدتوں سوتے رہنا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر آصف بن برخیاہ کا تخت بلقیس کو پلک جھپکنے میں حاضر کر دینا ان کی کرامات میں شمار کیا گیا، دور حاضر کی مشہور فقہی انسایکلوپیڈیا "الموسوعہ الفقہیہ" میں بالتصریح یہ بات نقل کی گئی ہے (٣) اسی طرح عقائد کے امام اور عظیم مصنف علامہ تفتازانی نے بھی آصف بن برخیاہ کی تخت کی حاضری کو ان کی کرامات شمار کیا ہے(٤)

قرآن مجید کے ان واقعات کے علاوہ احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ سے بھی کرامات کے صادر اور برحق ہونے کی تائید ہوتی ہے؛ چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ ایک رات دو صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے رخصت ہوئے تو اندھیری رات تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے غیبی طور پر ان کے لیے دو چراغ ان کے درمیان پیدا کر دییے اور جب وہ الگ ہوکر اپنے اپنے راستے میں جانے لگے تو دونوں کے ساتھ ایک ایک چراغ ہوگیا(٥) علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ان دونوں صحابی کا نام عباد بن بشر اور اسید بن حضیر بتایا ہے (٦) 

اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے جسے علامہ جلال الدین سیوطی سمیت متعدد اکابر اہل علم نے معتبر راویوں سے نقل کیا ہے اور خود علامہ ابن حجر عسقلانی جیسے عظیم محدث نے اس کی سند کو "حسن" قرار دیا ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہورہی تھی تو انہوں نے مدینے سے آواز لگائی یا "سارية الجبل" اور صحابہء کرام نے سیکڑوں کلومیٹر دور اس آواز کو سنی اور عمل کیا(٧) 

چنانچہ اسے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں شمار کیا گیا، اسی طرح احقر راقم الحروف کا خیال ہے گرچہ کہیں اس کی صراحت نہیں نظر سے گزری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت سے قبل جو خارق عادت باتیں صادر ہوئیں وہ آپ کی کرامات میں سے تھیں۔

مذکورہ بالا قرآنی آیات میں مذکور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات سے کرامت کا ممکن و صادر ہونا ثابت ہے اسی لیے جمہور اہل علم اور تمام اہل سنت والجماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کرامات اولیاء برحق ہیں(٨)

عقائد کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں مشہور ترین اور متداول کتاب علامہ تفتازانی کی "شرح العقائد" ہے اس میں صاف صاف اس کے ثابت و برحق ہونے کی صراحت موجود ہے (٩) اسی طرح اس کے حاشیے میں علامہ رمضان آفندی نے بھی اس کی تایید کی ہے (١٠) بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ کرامات کا انکار سوائے معتزلہ جیسے گمراہ فرقے اور بدعتیوں کے کسی نے نہیں کیا ہے(١١) 

ہمارے بہت سے اہل حدیث بھائی عموما کرامات کا انکار کرتے ہیں اور اسے بیکار کی باتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سلف صالحین کے مذہب کے خلاف ہے، حالانکہ سلف کے سب سے بڑے وکیل اور اہل حدیث بھائیوں کے علمی و فکری رہنما علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے جو بے غبار اور چشم کشا تحریر اس موضوع پر لکھی ہے وہ لائقِ تحریر بھی ہے اور قابلِ صد تحسین بھی، علامہ ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں رقمطراز ہیں:

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

خوارج اور نواصب کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟

سوال و جواب  

(مسئلہ نمبر 554)

 خوارج اور نواصب کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟ 



 سوال: خوارج اور نواصب سے ایک ھی گروہ مراد ھے یا یہ الگ الگ دو فرقے ہیں ان کے عقائد کیا ہیں؟ (محمد معظم قاسمی مالاڈ ممبئی)


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 


اہل سنت والجماعت کی اصطلاح میں خوارج ان حضرات کو کہا جاتا ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی یا بعد میں ان کے ہم نوا اور ان کے مسلک و مشرب کے حامی ہوگئے، بنیادی طور پر ان کے عقائد یہ ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے حامی تمام صحابہ و تابعین کافر ہیں، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کافر ہیں، اسی طرح صحابہ قطعاً حجت نہیں ہیں، گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے، رؤیت باری تعالی آخرت میں بھی ممکن نہیں ہے وغیرہ وغیرہ(١)

ناصبیہ بھی درحقیقت خوارج ہی کی ایک شاخ ہے؛ لیکن ان کے یہاں صحابہ کی تکفیر اور ان کو گالی دینے میں اتنی وسعت نہیں ہے جتنی عام خوارج کے یہاں ہے، بلکہ یہ لوگ عام صحابہ کرام کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ، ان کے أصحاب و ہمنوا اور بطورِ خاص اہل بیت کو گالی دیتے اور ان کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، نواصب کا اور انکے بنیادی عقائد کا ذکر بہت کم ملتا ہے تاہم جو تحریر کیا گیا ہے اسی سے ان کی پہچان ہے اور اسی قبیح عمل سے دنیا میں بدنام ہیں(٢)،

شرعی نقطۂ نظر سے یہ دونوں فرقے گمراہ اور سخت گنہگار ہیں اور اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں(٣) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚والدليل على ما قلنا📚📚 


(١) كل من خرج على الإمام الحق الذي اتفقت الجماعة عليه يسمى خارجيا سواء كان الخروج في أيام الصحابة على الأئمة الراشدين أو كان بعدهم (الملل و النحل ١١٤/١ الفصل الرابع دار المعرفة بيروت)

و يجمعهم القول بالتبري من عثمان و علي رضي الله عنهما د، و يقدمون ذلك على كل طاعة، و لا يصححون المناكحات إلا على ذلك، و يكفرون أصحاب الكبائر و يرون الخروج على الإمام إذا خالف السنة حقا واجبا (الملل و النحل ١١٥/١ الفصل الرابع)

الخوارج يكفرون أهل القبلة بمعصية و يجوزون الخروج على السلطان الجائر و يلعنون على علي و ينكرون سنة الجماعة ةدو الصلوة (عقيدة الطحاوي ص ١٠ مكتبة دار العلوم ديوبند)

نیز دیکھئے تکمیل الحاجہ شرح اردو ابن ماجہ ٣٦٥/١، ضیاء السنن شرح ابن ماجہ ٤٣٤/١ 

(٢) و النواصب: عموماً تطلق على من يبغض عليا و أصحابه، و يدخل في هذا الاسم الخوارج بفرقهم المختلفة. (الحاشية على الاعتقاد الخالص ص ٣٢٨)

و من طريقة النواصب الذين يؤذون أهل البيت بقول و عمل و يمسكون عما شجر بين الصحابة. (مجموع فتاوى ابن تيميه ١٥٤/٣)

(٣) والفرق الضالة المختلفة في الأصول ستة الروافض، والخوارج، الجبرية..... (عقيدة الطحاوي ص ٩)


🎑🎑🎑🎑🎑🎑🎑🎑🎑


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء الجامعة الإسلامية دار العلوم  مہذب پور سنجر پور اعظم گڑھ یوپی

مورخہ 2/1/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

فتنۂ شکیلیت سے وابستگی اور انکے ساتھ نرمی کا حکم

 ⚖سوال و جواب⚖ 

🗒مسئلہ نمبر 959🗒

(کتاب الایمان باب النبوۃ)

 فتنۂ شکیلیت سے وابستگی اور انکے ساتھ نرمی کا حکم 



 سوال: فتنہ شکیلیت کے تعلق سے کچھ افراد (ان میں پڑھے لکھے اور عالم بھی ہیں) کافی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس فتنہ  کی قباحت بیان کرنے والوں کو شدت سے منع کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شکیل سے متاثر لوگ بھی اللہ اور اللہ کے نبیﷺکو مانتے ہیں اور ہم بھی بس تھوڑا سا فرق ہے؛ لہٰذا ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے اور انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ ایسے حضرات کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ (محمد نوشاد، متعلم دار العلوم مئو یوپی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 


شکیلیت دور حاضر کا نہایت حساس اور اہم فتنہ بن گیا ہے، اس کا بانی شکیل بن حنیف بیک وقت مسیح موعود اور مہدی ہونے کا مدعی ہے؛ حالانکہ مسیح موعود اور مہدی کی ایک بھی خصوصیت اس شخص میں نہیں پائی جاتی ہے، اس کا دعویٰ سراسر جھوٹ اور مکر و دجل پر مبنی ہے، یہ شخص اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا اور مکار انسان ہے، احادیث مبارکہ میں مسیح علیہ السلام اور حضرت مہدی کے متعلق جو باتیں اور خصوصیات و امتیازات بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک بھی خصوصیت اس میں موجود نہیں ہے؛ اس لئے اس شخص کو مسیح اور مہدی ماننا قطعاً حرام ہے، ایسے لوگوں سے رشتہِ ازدواج بنانا شرعاً جائز نہیں ہے، اس فتنے کو ختم کرنے کے لئے جس سے جو ممکن ہو کرنا چاہیے، ان کے تئیں نرمی برتنا یا عام مسلمانوں کے مساوی حقوق ان کے لیے قرار دینا قطعاً غلط ہے، اور دین محمدی کے ساتھ خیانت اور عملاً ان کے عقائد و نظریات اور اعمال سے رضامندی کی علامت ہے؛ اس لئے ان کے تئیں قطعاً کسی قسم کی نرمی نہیں برتنا چاہیے، جو شخص ان کے ساتھ نرمی برتے گا اور عام مسلمانوں کی طرح انہیں مسلمان سمجھے گا اس شخص کا ایمان بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے؛ اس لیے علماء کو خاص طور پر اس جانب توجہ دینا چاہئے اور عوام کو انکی گمراہی سے آگاہ کرنا چاہیے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمَهْدِيُّ مِنِّي، أَجْلَى الْجَبْهَةِ ، أَقْنَى الْأَنْفِ، يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا، يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ ".

حكم الحديث: حسن. (سنن أبي داود رقم الحديث ٤٢٨٥ أَوَّلُ كِتَابِ الْمَهْدِي  | بَابٌ )

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمَهْدِيُّ مِنَّا - أَهْلَ الْبَيْتِ - يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ ".

حكم الحديث: حسن. 

(سنن ابن ماجه رقم الحديث ٤٠٨٥ كِتَابُ الْفِتَنِ  | بابٌ : خُرُوجُ الْمَهْدِيِّ)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي ". سنن الترمذي رقم الحديث ٢٢٣٠ أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي الْمَهْدِيِّ)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ ". 

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

حكم الحديث: صحيح. (سنن الترمذي رقم الحديث ٢٢٣٣ أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 24/2/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

پیر، 15 اگست، 2022

میراث کی تقسیم

کتاب الفرائض



 *سوال وجواب *

مسئلہ نمبر 1778 

(کتاب الفرائض)


سوال: ایک شخص کا انتقال ہوگیا اور اس کی پانچ بیٹی اور ایک بیٹا اور دو بیوی ہیں ایک بیوی کا انتقال میت کی زندگی میں ہوگیا اور انتقال ہونے والی بیوی سے تمام اولاد ہے اور دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے اور دوسری بیوی حیات ہے میراث کی تقسیم کس طرح ہوگی.

برائے کرم جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں. (عبد المتین لکھنؤ یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


مرحوم کے جمیع ترکہ سے ان کی تکفین و تجہیز کے اخراجات نکالنے قرضوں کی ادائیگی کرنے اور وصیت اب پوری کرنے (بشرطیکہ وہ مقروض ہوں یا انہوں نے وصیت کی ہو) کے بعد پوری جائیداد کے آٹھ حصے کردیں ایک حصّہ بیوی کو دے دیں اور باقی سات حصوں میں سے للذکر مثل حظ الانثیین کے اصول کے تحت لڑکے کو دو حصے اور ہر لڑکی کو ایک ایک حصّہ دیں اس طرح ان کی میراث شرعی نقطۂ نظر سے صحیح صحیح تقسیم ہوجائے گی۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


*والدليل على ما قلنا *


( يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء 11)


( وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (النساء 12)


تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة الأول يبدأ بتكفينه و تجهيزه من غير تبذير ز لا تقتير ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ثم تنفذ وصاباه من ثلث ما بقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة. (السراجي في الميراث ص ٣ تا ٥)


*كتبه العبد محمد زبير الندوي*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 7/7/1443

رابطہ 9029189288


*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

Share

ڈیلیوری کے بعد تین ماہ تک خون کا حکم

ڈیلیوری کے بعد تین ماہ تک خون کا حکم


*⚖️سوال وجواب ⚖️*

🖋️مسئلہ نمبر 1779 🖋️

(کتاب الطھارۃ باب الحیض والنفاس)

*ڈیلیوری کے بعد تین ماہ تک خون کا حکم*


سوال: اگر کسی عورت کو ڈیلیوری ہونے کے چالس دن بعد بھی خون آرہا ہو تو کیا مسئلہ ہے اور بچے کی پیدائش آپریشن سے ہوئی ہے اور ڈیلیوری کو  تین مہینہ ہو چکا ہے اور خون اب بھی آرہا ہے اب معلوم یہ کرنا تھا کہ عورت ناپاکی کی حالت میں ہے یا اور کوئی مسئلہ ہو گا؟ (بنت حوا بنگلور)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

بچے کی ولادت کے بعد آنے والے خون کو فقہی اصطلاح میں نفاس کہا جاتا ہے، نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، چالیس دن کے بعد جو خون آئے گا وہ استحاضہ ہوگا، یعنی بیماری کا خون مانا جائے گا، چنانچہ چالیس دن سے زیادہ جو خون آیا ہے وہ بیماری کا خون ہوگا، اس دوران انہیں ہر نماز کے لیے وضو کرکے نماز پڑھنا چاہیے تھا۔ البتہ چالیس دن پورے ہونے کے بعد اگر مستقل خون آرہا ہے تو پندرہ دن کے بعد کا خون حیض کا خون مانا جائے گا، اگر پندرہ دن کے بعد آنے والا خون دس دن کے اندر کچھ دنوں کے لئے بند ہوجایے تو یہ حیض کا ہوگا اور اس سے زیادہ آتا ہے تو دس دن تک کا حیض ہوگا باقی استحاضہ ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*📚والدليل على ما قلنا 📚*

(١) و النفاس هو الدم الخارج عقيب الولادة (المختصر للقدوري ص ٢٠ كتاب الطهارة باب الحيض)

أقل النفاس ما يوجد و لو بساعة و عليه الفتوى وأكثره أربعون يوما عندنا (الفتاوى السراجية ص ٥٢ كتاب الطهارة باب النفاس)

و أقل النفاس لا حد له و أكثره أربعون يوما (المختصر للقدوري ص ٢٠ كتاب الطهارة باب الحيض)

و حكمه كالحيض إلا في سبعة (الدر المختار مع رد المحتار ٤٩٦/١ كتاب الطهارة)

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ أَبِي سَهْلٍ ، عَنْ مُسَّةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : كَانَتِ النُّفَسَاءُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقْعُدُ بَعْدَ نِفَاسِهَا أَرْبَعِينَ يَوْمًا - أَوْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً - وَكُنَّا نَطْلِي عَلَى وُجُوهِنَا الْوَرْسَ. تَعْنِي : مِنَ الْكَلَفِ. (سنن ابي داود حديث نمبر ٣١١)

تخلل الطهر في أربعين يوماً لا يفصل عند أبي حنيفة رحمه الله ويكون كله نفاسا (الفتاوى السراجية ص ٥٢ كتاب الطهارة باب النفاس)

(والزائد) على أكثره (استحاضة) لومبتدأة، أما المعتادة فترد لعاداتها وكذا الحيض،

فإن انقطع على أكثرهما أو قبله فالكل نفاس، وكذا حيض إن وليه طهر تام وإلا فعادتها وهي تثبت وتنتقل بمرة، به يفتى، وتمامه فيما علقناه على الملتقى. (الدر المختار مع رد المحتار ٤٩٨/١ كتاب الطهارة باب الحيض)

و إن انقطع الدم قبل الاربعين و دخل وقت صلاة تنتظر إلى آخر الوقت ثم تغتسل في بقية الوقت و تصلي (الفتاوى التاتارخانية ٥٣٨/١ كتاب الطهارة)


*كتبه العبد محمد زبير الندوي*

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 8/7/1443

رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

Share

کتابیں دلوانے پر اجرت لینا جائز ہے

 کتاب البیوع جدید مسائل



*سوال وجواب *

مسئلہ نمبر 1780 

(کتاب البیوع جدید مسائل)

*کتابیں دلوانے پر اجرت لینا*

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید سے حامد کتابیں منگواتا ہے اور زید صرف فون کے ذریعہ سے کتب خانہ سے ہی حامد کے پتے پر کتب ارسال کروادیتا ہے تو کیا اس پر زید کچھ زائد رقم لے سکتا ہے ۔یا پھر یہ ڈاکٹر کے کمیشن کی طرح (جوکہ ایکسرے وغیرہ کے تعلق سے ہوتا ہے) ناجائز ہوگا ۔ (اطہر ندوی کلکتہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


کمیشن کے طور پر اجرت لینے کے لئے محنت اور عمل ضروری ہے، صرف فون کرکے بتا دینا یہ کوئی عمل نہیں ہے، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی راہ گیر کو راستہ بتانے پر اجرت مانگنا، اس لیے مذکورہ بالا صورت میں اجرت یا کمیشن کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ ہاں اس آرڈر پر نفع لینے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پہلے زید وہ کتابیں ادھار خرید لے اور پھر اپنے نفع کے ساتھ اس کو آرڈر پر لگائے؛ لیکن اس صورت میں راستے میں اگر کہیں کتاب کا پارسل غائب ہو جاتا ہے یا کتابوں کو ایسا نقصان ہوجاتاہے جس کی وجہ سے حامد وہ کتابیں نہیں لیتا ہے تو اس کا پورا رسک اور نقصان زید پر ہوگا اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جو نفع حاصل کرے گا نقصان کا رسک بھی اسی کو لینا ہوگا حدیث مبارکہ میں بھی آیا ہے الخراج بالضمان۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

*والدليل على ما قلنا *
(١) {قال إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتي هاتين على أن تأجرني ثماني حجج} [القصص: ٢٧] 

أي على أن تكون أجيرا لي أو على أن تجعل عوضي من إنكاحي ابنتي إياك رعي غنمي ثماني حجج. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 173/4 كتاب الاجارة)

الاجیر المشترك لا يستحق الأجرة إلا بالعمل (مجلة الأحكام العدلية مع شرحها 457/1 المادة 424)

عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ. (سنن الترمذي حدیث نمبر 1285 أَبْوابٌ : الْبُيُوعُ)

الغرم بالغنم (قواعد الفقه ص 64)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 9/7/1443
رابطہ9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*
Share

Translate