✍سوال و جواب✍
(مسئلہ نمبر 516)
کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں
سوال: کیا کرامات اولیاء برحق ہیں؟ کرامات اولیاء کو نہ ماننے والے کے ایمان پر کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کرامات اولیاءکو بالکل نہیں مانتے ایسے لوگوں کا ایمان کیسا ہے؟
مکل و مدلل جواب عنایت کیجیے. (ابو یحییٰ محمد صغیر، مہاراشٹر)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون اللہ الوہاب
کرامت کہتے ہیں ایسے خلاف عادت و فطرت کام یا واقعے کو جو کسی نیک صالح مومن بندے کے ذریعے ظاہر ہو، اگر وہ شخص نیک اور مومن نہیں ہے تو اسے کرامت نہیں کہا جائے گا بلکہ شعبدہ بازی یا نظر بندی کہا جائے گا، تعریفات کے مشہور مصنف علامہ شریف جرجانی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں کرامت کی یہی تعریف نقل کی ہے(١)
اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندوں سے کرامت کا ظاہر ہونا اور اس کے ذریعے ان کے کاموں میں تایید ہونا ایک مسلم اور قرآن و حدیث اور صحابہ وتابعین کی زندگی سے ثابت امر ہے اور اس کے قرآن و حدیث سے ثابت ہونے اور برحق ہونے پر امت کا اجماع ہے۔
قرآن مجید میں بیان شدہ واقعات اور خدا تعالی کے نیک بندوں کی حکایات سے معلوم ہوتاہے کہ زمانۂ سابق کی نیک شخصیات سے بھی کرامات کا صدور ہوا ہے اور مفسرین نے انہیں آیات کی روشنی میں کرامات کے جائز اور ثابت و برحق ہونے پر استدلال کیا ہے، قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت نمبر ٣٧ میں آیا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس تازہ پھل غیب سے آیا کرتے تھے، حضرت زکریا علیہ السلام نے دیکھا تو تعجب کا اظہار کیا، اس آیت کی تفسیر میں امام التفسیر علامہ آلوسی بغدادی علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے:
"کہ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ اولیاء کرام کے لئے کرامت درست ہے، اس لیے کہ حضرت مریم مشہور قول کے مطابق نبی نہیں تھیں"(٢)
اسی طرح قرآن مجید میں موجود أصحاب کہف کے واقعے میں ان حضرات کا مدتوں سوتے رہنا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر آصف بن برخیاہ کا تخت بلقیس کو پلک جھپکنے میں حاضر کر دینا ان کی کرامات میں شمار کیا گیا، دور حاضر کی مشہور فقہی انسایکلوپیڈیا "الموسوعہ الفقہیہ" میں بالتصریح یہ بات نقل کی گئی ہے (٣) اسی طرح عقائد کے امام اور عظیم مصنف علامہ تفتازانی نے بھی آصف بن برخیاہ کی تخت کی حاضری کو ان کی کرامات شمار کیا ہے(٤)
قرآن مجید کے ان واقعات کے علاوہ احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ سے بھی کرامات کے صادر اور برحق ہونے کی تائید ہوتی ہے؛ چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ ایک رات دو صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے رخصت ہوئے تو اندھیری رات تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے غیبی طور پر ان کے لیے دو چراغ ان کے درمیان پیدا کر دییے اور جب وہ الگ ہوکر اپنے اپنے راستے میں جانے لگے تو دونوں کے ساتھ ایک ایک چراغ ہوگیا(٥) علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ان دونوں صحابی کا نام عباد بن بشر اور اسید بن حضیر بتایا ہے (٦)
اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے جسے علامہ جلال الدین سیوطی سمیت متعدد اکابر اہل علم نے معتبر راویوں سے نقل کیا ہے اور خود علامہ ابن حجر عسقلانی جیسے عظیم محدث نے اس کی سند کو "حسن" قرار دیا ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہورہی تھی تو انہوں نے مدینے سے آواز لگائی یا "سارية الجبل" اور صحابہء کرام نے سیکڑوں کلومیٹر دور اس آواز کو سنی اور عمل کیا(٧)
چنانچہ اسے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں شمار کیا گیا، اسی طرح احقر راقم الحروف کا خیال ہے گرچہ کہیں اس کی صراحت نہیں نظر سے گزری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت سے قبل جو خارق عادت باتیں صادر ہوئیں وہ آپ کی کرامات میں سے تھیں۔
مذکورہ بالا قرآنی آیات میں مذکور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات سے کرامت کا ممکن و صادر ہونا ثابت ہے اسی لیے جمہور اہل علم اور تمام اہل سنت والجماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کرامات اولیاء برحق ہیں(٨)
عقائد کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں مشہور ترین اور متداول کتاب علامہ تفتازانی کی "شرح العقائد" ہے اس میں صاف صاف اس کے ثابت و برحق ہونے کی صراحت موجود ہے (٩) اسی طرح اس کے حاشیے میں علامہ رمضان آفندی نے بھی اس کی تایید کی ہے (١٠) بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ کرامات کا انکار سوائے معتزلہ جیسے گمراہ فرقے اور بدعتیوں کے کسی نے نہیں کیا ہے(١١)
ہمارے بہت سے اہل حدیث بھائی عموما کرامات کا انکار کرتے ہیں اور اسے بیکار کی باتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سلف صالحین کے مذہب کے خلاف ہے، حالانکہ سلف کے سب سے بڑے وکیل اور اہل حدیث بھائیوں کے علمی و فکری رہنما علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے جو بے غبار اور چشم کشا تحریر اس موضوع پر لکھی ہے وہ لائقِ تحریر بھی ہے اور قابلِ صد تحسین بھی، علامہ ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں رقمطراز ہیں:
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے