اتوار، 4 ستمبر، 2022

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) کرانا کیسا ہے

 📚سوال و جواب📚

  (مسئلہ نمبر 267) 

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) 
کرانا کیسا ہے

سوال:کیا فرماتے ہیں اہل الذکر کہ موجودہ دور میں اگر اک عام تاجر / یا عام انسان حکومت کے لاگو تمام قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے تو بقول ٹیکس آڈیٹرس کے اس کو اپنی کمائی کا نصف فیصد حصہ دینا پڑتا ہے۔ جن اشیاء کو بازار سے خرید کر دکان لاتے ہیں تو بازار سے لیکر اپنی دکان تک جتنے ذرائع سبب بنتے ہیں سب کے اپنے ٹیکس ہوتے ہیں جس کو ادا کرتے کرتے یقینا مایوسی حاصل ہوتی ہے۔ 

دیگر اہل علم کے پرانے فتاوی اس طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ جو سود کی رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتی ہے اس کو اس ٹیکس کی رقم میں استعمال کرلیا جاسکتا ہے اگر واقعی وہ ٹیکس غیرضروری وجبراً لیا جاتا ہو۔ 

تو بندہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جن لوگوں کے اکاؤنٹ ہی نہ ہوں یا جن کے اکاؤنٹ میں کوئی سودی رقم جمع ہی نہ ہوتی ہو کیا وہ مثلاً ایک لاکھ روپئے فکسڈ ڈپازٹ کرکے جو رقم سود کی سالانہ/ماہانہ حاصل ہو اس کو ان غیر ضروری ٹیکس میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟

اگر دس لاکھ روپئے کی کار خریدی جائے تو ایک لاکھ اسی ہزار روپئے صرف ٹیکس دینا پڑتا ہے۔  یعنی ۱۸۰۰۰۰ روپئے آر ٹی أو والے لیتے ہیں اب ایسی ہزاروں چیزیں ہیں جن پر محنت کا ایک بڑا سرمایہ بطور ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ 

کیا اس مجبوری میں فکسڈ ڈپازٹ سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ یا اور کوئی شکل أنحضرت کے یہاں ہو تو براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ (بندہ مدثر أحمد، بنگلور) 

--------------------------------------------------

♤بسم اللہ الرحمن الرحیم♤ 

الجواب بسم ملہم الصواب

فکسڈ ڈپازٹ جس میں ایک مخصوص رقم بینک میں جمع کرادی جاتی ہے اور ماہانہ یا سالانہ اس کا سود ملتا ہے اور مدت پوری ہونے پر پوری رقم بھی مل جاتی ہے؛ یہ صورت سراسر سود ہے اور سود حاصل کرنے ہی کی غرض سے یہ ڈپازٹ کرایا جاتا ہے، رقم کی حفاظت اس کا مقصود نہیں ہوتا؛ اسی لئے سود کی شرح (interest percent) اس میں زیادہ ہوتا ہے اور سیونگ اکاؤنٹ کے مقابلے اس میں زیادہ سود ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ سود لینا اور دینا شریعت اسلامی میں ناجائز و حرام ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں اور لعنتیں آئی ہیں اس لئے فکسڈ ڈپازٹ اس مقصد کے لئے کرانا ناجائز ہے (۱) 

ہاں یہ بات درست ہے؛ کہ فقہائے اسلام نے ناجائز اور جبری ٹیکس میں بینک سے حاصل ہونے والی سودی رقم ادا کرنے کی اجازت دی ہے(۲) مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ سیونگ اکاونٹ میں پیسے کی حفاظت کی غرض سے جمع شدہ رقم پر ملی ہوئی سودی رقم ادا کرنا ہے؛ ناکہ صرف سود ہی کی حصول یابی کے مقصد سے رقم بینک میں جمع کرنا اور اس سے سود حاصل کرنا ہے؛ چنانچہ اس سلسلے میں متعدد کتابیں دیکھنے کے باوجود بھی کہیں یہ نہیں مل سکا کہ ٹیکس ادا کرنے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ کرانا کسی نے جائز قرار دیا ہو؛ بلکہ اس کے برخلاف متعدد اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ صرف ٹیکس ادا کرنے یا سود میں سود کی رقم دینے کے لئے سودی اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے(۳) اسی طرح فقہاء اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جب کسی معاملے میں مصلحت اور مفسدہ دونوں جمع ہوجائیں تو مفسدہ کو دور کیا جائے گا اور مصلحت کا خیال نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ شریعت اسلامی نے مامورات کے مقابلے منہیات میں زیادہ شدت سے کام لیا ہے(۴) چنانچہ اس اصول کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ بجائے ٹیکس کی رقم ادا کرنے کے لئے سودی رقم لینے کا معاملہ ہی نہ کیا جائے۔

اسلئے آپ نے جو بات سوال نامے میں لکھی ہے اس کی وجہ سے بھی فکسڈ ڈپارٹ کرانا اور سود حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا؛ بلکہ سود کے دائرہ میں ہونے کی وجہ سے اس سے اجتناب کرنا اور دور رہنا واجب و ضروری ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔ 


📚📚والدلیل علی ما قلنا📚📚

(۱) وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة 275)

》حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ. (حدیث نمبر 4177)

》كل قرض جر نفعا حرام اي اذا كان مشروطا (رد المحتار على الدر المختار 395/7 كتاب البيوع زكريا)

(۲) الحاصل انه أن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم والا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق بنية صاحبه (رد المحتار على الدر المختار 223/7 كتاب البيوع زكريا)

》و يردونه على اربابه إن عرفوهم والا يتصدقوا به لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد (البحر الرائق شرح كنز الدقائق   201/8 كتاب الكراهية فصل في البيع كوءتة)

》والسبل في المعاصي ردها،  وذلك برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه و بالتصدق إن لم يعرفه ليحصل إليه نفع ماله  (الفتاوى الهندية كتاب الكراهية الباب الخامس عشر 249/5)

》و أما إذا كان عند رجل مال خبيث فإما إن ملكه بعقد فاسد أو حصل له بغير عقد و لا يمكنه أن يرده إلى مالكه و يريد ان يدفع مظلمة عن نفسه فليس له حيلة إلا أن يدفعه إلى الفقراء لكن لا يريد بذلك الأجر والثواب و لكن يريد دفع المعصية عن نفسه (بذل المجهود 37/1 كتاب الطهارة باب فرض لوضوء د)

(۳) کتاب الفتاوی 316/5۔ فتاوی قاسمیہ 741/20

(۴) درء المفاسد أولى من جلب المصالح اي اذا تعارض مفسدة و مصلحة قدم دفع المفسدة لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتناءه بالمامورات (الاشباه والنظائر لابن نجيم المصري ص 264، شرح المجلة 32/1 المادة 30)

✍✍✍✍✍✍✍✍✍

✍ العبد محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء الجامعة الإسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا 

مؤرخہ 10/3/1439 

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

رقم لے کر فری میں کرایہ پر مکان دینے کا حکم

 ⚖سوال و جواب⚖

🏢مسئلہ نمبر 980🏢

(کتاب الاجارۃ)

 رقم لے کر فری میں کرایہ پر مکان دینے کا حکم 

 سوال: کرناٹک میں عمومی طور پر لوگ اپنے گھر کو (لیج) ایک متعینہ رقم طے کر کے دیتے ہیں۔ مثلا ایک لاکھ روپے دے دیں اسکے بدلے ایک سال تک میرے گھر کو استعمال کریں جب سال پورا ہوجائے تو آپ کا پیسہ واپس کردیاجاۓ گا۔ پیسے واپس بھی کردیۓ جاتے ہیں۔ اب اس صورت میں اس گھر کا استعمال بغیر کرایہ کے ہوگیا۔‌ کیا یہ شریعت میں جائز؟ (محمد امیر سبحانی قاسمی بنگلور کرناٹک)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

آپ نے جو صورت سوالنامہ میں لکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دی جانے رقم بطورِ قرض دی جاتی ہے اور اس کے بدلے مکان میں بنا کرایہ کے سکونت کا موقع ملتا ہے یا شکل تو ڈپازٹ کی ہوتی ہے مگر ہوتی قرض ہی ہے، ظاہر ہے کہ یہ قرض سے استفادہ کی صورت ہے جو کہ سود ہے اور سود لینا دینا جائز نہیں ہے؛ اس لئے مذکورہ بالا صورت درست نہیں ہے، آپ حضرات کو اس سلسلے میں سخت احتیاط برتنی چاہیے۔

اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ یا تو پورا کرایہ دیا جائے یا کم از کم اتنا کرایہ ضرور دیا جائے جو اس کا کم سے کم کرایہ اس علاقے میں ہوسکتا ہو(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ )

البقرة (278)

كل قرض جر نفعا فهو ربا. (شرح معاني الآثار رقم الحديث ٥٨٨٣)

قالوا يجب أجر المثل على المقرض لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا. (رد المحتار ٨٧/٩ باب ضمان الأجير)

وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین:أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شےئا بأرخص مما یباع أو یوٴجرہ أو یھبہ ……،ولو لم یکن سبب ذلک (ھذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 16/3/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ہفتہ، 3 ستمبر، 2022

ہیوی ڈپازٹ پر کرایہ داری کا حکم

⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1644🖋️

(کتاب الاجارۃ جدید مسائل)

ہیوی ڈپازٹ پر کرایہ داری کا حکم

سوال: ہیوی ڈپوزٹ پر دکان یا مکان لینا کیسا ہے؟ اس کی ایک شکل تو یہ ہے کہ ہیوی ڈیپوزٹ پر دکان یا مکان لے لیا اور مہینے کے بعد کرایہ بھی نہیں اور ایک شکل یہ ہے کہ ہیوی ڈیپوزٹ پر دکان یا مکان لیا اور مہینے کے بعد کرایہ بھی دینا ہے تو کیا یہ دونوں شکل ناجائز ہے؟ اور ہیوی ڈیپوزٹ لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہے؟ (نعمان احمد خان، مہاراشٹر)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ہیوی ڈپازٹ کے ذریعے جو مکانات یا دوکانیں کرایہ پر لی جاتی ہیں وہ عموما یا تو بالکل فری ہوتی ہیں یا نہایت معمولی کرایہ پر ہوتی ہیں؛ جس کی وجہ سے قرض پر نفع لینے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جو جائز نہیں ہے، البتہ اگر مناسب کرایہ لگایا جائے یعنی اتنا کرایہ جو اس علاقے میں کم سے کم ہوسکتا ہو تو یہ جائز ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) أنواع الربا،وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین:أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شےئا بأرخص مما یباع أو یوٴجرہ أو یھبہ ……،ولو لم یکن سبب ذلک (ھذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 19/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

ڈپازٹ کی بنیاد پر کرایہ معاف کردینا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1471🖋️

(کتاب الاجارہ، جدید مسائل)

ڈپازٹ کی بنیاد پر کرایہ معاف کردینا

سوال: ہاسپٹلس میں میڈیکل کی ایک شکل یہ بھی رایٔج ہے کہ میڈیکل والا ڈاکٹر کو پانچ سال کے معاہدہ پر پچاس لاکھ روپیہ بطور ڈپوزٹ کے دے گا اور پانچ سال تک اس ہاسپٹل میں میڈیکل چلائے، گا میڈیکل والا ہاسپٹل والے کو کرایہ اور منافع وغیرہ کچھ بھی نہیں دے گا؛ البتہ ہاسپٹل والا ڈپوزٹ کی رقم پانچ سال تک استعمال کرے گا۔ آپ سے پوچھنا ہے کہ درج بالا صورت جائز ہے یا نہیں؟ (انصار اللہ، کریم نگر، تلنگانہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا صورت ہیوی ڈپازٹ کی ہے، یہ صورت ناجائز ہے، اس لیے کہ ایک تو اس میں کرایہ کی تعیین نہیں ہے، دوسرے ڈپازٹ کے طور پر رکھی گئی رقم سے استفادہ ہے جو کہ شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ ڈپازٹ کی حیثیت ودیعت کی ہے، اور ودیعت پر رکھی چیز سے استفادہ درست نہیں ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


والدليل على ما قلنا

(١) ومنها أن تكون الأجرة معلومة. (الفتاوى الهندية 411/4 كتاب الإجارة، بيروت)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 25/8/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ڈپازٹ کی رقم اور ہیوی ڈپازٹ کی چند صورتوں کا حکم (Heavy deposit)

 👁‍🗨سوال و جواب👁‍🗨

(مسئلہ نمبر 406)

ڈپازٹ کی رقم اور ہیوی ڈپازٹ کی چند صورتوں کا حکم

سوال کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آج کل بڑے شہروں میں مکانات کی کرایہ داری میں بھاری مقدار میں پیشگی رقم ڈپازٹ کے عنوان سے لینے کا معمول بن چکا ہے، اب اس میں کئی شکلیں ہوتی ہیں:

الف:- اگر ڈپازٹ کی رقم معمولی ہوتی ہے تو ماہانہ کرایہ کی رقم زیادہ ہوتی ہے ، اور جب کرایہ دار جائیداد خالی کرتا ہے تو مالک اسے ڈپازٹ کی رقم لوٹا دیتا ہے۔

ب:- اگر ڈپازٹ کی رقم بھاری مقدار میں ہو تو ماہانہ کرایہ کی رقم بہت معمولی ہوتی ہے، اور بہر صورت جب بھی جائیداد خالی ہوتی ہے تو مالک ڈپازٹ کی پوری رقم واپس کرنے کا ضامن ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ:

(۱) اس طرح کا عقد شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

(۲) ڈپازٹ کی رقم کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ قیمت ہے یا رہن ہے یا امانت ہے؟

(۳) اس ڈپازٹ کی رقم کو مالک جائیداد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

(۴) اگر یہ معاملہ جائز نہ ہو تو کیا اس کو شرعی جواز کے دائرہ میں لانے کی کوئی اور شکل ہے؟

(۵) اس ڈپازٹ کی رقم کی زکوٰۃ کس پر واجب ہے، کرایہ دار پر یا مالک پر؟ یا کسی پر واجب نہیں؟                                   (المستفتی عبدالستار قاسمی، امام جامع مسجد، اونتکا روہینی، دہلی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

الجواب بسم ملہم الصواب

آپ نے جو سوالنامہ مجھے بھیجا ہے بعینہ یہی سوالات انہیں الفاظ میں ہندوستان کے مشہور عالم دین اور صاحب نظر مفتی حضرت مولانا سلمان منصورپوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے فتاویٰ "کتاب النوازل" کی جلد نمبر ١٢ صفحہ نمبر ٣٠٠ پر موجود ہیں اور مفتی صاحب نے تفصیل کے ساتھ معتبر دلائل کی روشنی میں ان سوالات کے تحقیقی جوابات درج فرمائے ہیں؛ اس لئے اگر آپ چاہیں تو ان تمام سوالات کے تفصیلی اور مدلل جوابات وہاں ملاحظہ فرمالیں۔

البت آپ کے اور دیگر قارئین کے افادے کی غرض سے مختلف کتب فقہ و فتاویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں مختصراً ان سوالات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں:

(١) جب ڈپازٹ کی رقم کم ہو اور کرایہ زیادہ ہو اور کرایہ داری کا معاملہ ختم ہونے پر وہ رقم واپس کردی جائے تو اس معاملے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، یہ بلاشبہ جائز ہے۔

جب کرایہ کم ہو اور ڈپازٹ کی رقم زیادہ ہو تو اس کی مندرجہ ذیل چند صورتیں ہوسکتی ہیں:

اگر ڈپازٹ کی رقم کو بنیاد بنا کر کرایہ میں کمی کی جاتی ہے تو اس میں سود کا شبہ پایا جاتا ہے اس لئے یہ صورت جائز نہیں ہے۔

اگر کرایہ پہلے طے ہوچکا ہے اور ڈپازٹ کی رقم بھی طے ہوچکی تھی اور پھر کہا گیا کہ اگر اتنی ڈپازٹ بڑھا دی جائے تو اتنا کرایہ کم کر دیا جائے گا تو یہ صورت بھی سود میں شامل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

اگر شروع ہی میں ڈپازٹ کی رقم کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب کرایہ طے کر لیا جائے اور بعد میں ڈپازٹ کا مطالبہ کیا جائے تو یہ صورت درست ہوگی، البتہ اس طرح جو رقم ڈپازٹ کے طور پر لی جائے پہلے اسے محفوظ طور پر رکھ لیا جائے اور پھر کچھ دنوں بعد اس کے استعمال کی اجازت لے لی جائے۔ اور اس طرح یہ امانت سے نکل کر قرض بن جائے گی۔

(٢) ڈپازٹ کی رقم تو اصلا امانت ہے اس لئے مالک مکان کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں ہے؛ مگر موجودہ زمانہ میں اس کے استعمال کا عرف عام ہے اور صراحتاً یا دلالتہ اس کی اجازت بھی ہوتی ہے اس لئے اب اس کی حیثیت قرض کی ہے۔

(٣) چونکہ اب عرفا یا دلالتہ اس کا استعمال عام ہے اس لئے ڈپازٹ کی حیثیت اب قرض کی ہو گئی ہے اور اس پر قرض ہی کے احکام نافذ ہوتے ہیں؛ اس لیے مالک دوکان و مکان کے لئے اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں ہے۔

(٤) اس کے جواب کے لیے ایک نمبر پر غور فرمالیں۔

(٥) ڈپازٹ کی وہ رقم جس کی مدت متعین ہے فقہی نقطۂ نظر سے یہ دین قوی کے درجے میں ہے، اس لئے اس کی زکوۃ کرایہ دار پر واجب ہوگی اور رقم وصول ہونے کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، واضح رہے کہ عام طور سے کرایہ داری کا وقت متعین ہی ہوتا ہے اس لئے کرایہ دار کو گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اور اگر وقت متعین نہ ہو تو یہ دین وسط یا دین ضعیف کے درجے میں ہوگا اور وصول ہونے کے بعد سابقہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚مصادر ومراجع📚📚 

(١) کتاب النوازل ٣٠٠/١٢ نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلے ص ٢٢١ کتاب الفتاوی ٦٤/١٠ جدید فقہی مسائل ٢١٨/١ فتاویٰ دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ ١٣٦/٣۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 1/8/1439

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعہ، 2 ستمبر، 2022

کرپٹو کرنسی (crypto currency)، تعارف اور حقیقت قسط سوم

 از قلم: محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء ممبئی انڈیا

رابطہ 9029189288


تیسرا نقصان یہ ہے کہ وہ ممالک جنہوں نے اسے لیگل نہیں کیا ہے وہاں کا باشندہ اگر اسے لیتا ہے اور کوئی بات پیش آجاتی ہے تو وہ اپنے ملک میں استغاثہ نہیں کر سکتا ہے ہاں دوسرے ملک سے چانس پھر بھی رہتا ہے۔ 
چوتھا یہ کہ جس طرح اس کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اندیشہ ہے کہ کبھی بہت کم یا بالکل کم ہوجائے اور آپ کو نقصان ہوجائے۔
کرپٹو کرنسی کے بارے میں مذکورہ بالا چار نقصانات متوقع اور ممکن ہیں؛ گرچہ ابھی تک ایسا کچھ ہوا نہیں ہے اور قرائن و آثار سے بھی اس کی مضبوطی اور استحکام ہی معلوم ہوتی ہے؛ مگر اندیشوں سے باخبر کرنا اور باخبر رہنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ دانشمندی کی علامت ہے بقول شاعر مشرق: 
امروز کی شورش میں اندیشہ فردا دے
اس کرنسی کی خریداری یا شراکت کے بارے میں قارئین کو  یہ بتا دینا ضروری ہے کہ چونکہ یہ ایک نہایت مہنگی کرنسی  ہے؛  اس لئے اگر کوئی شخص مکمل ایک بٹ نہ خرید سکے تو اس کا کچھ حصہ بھی خرید سکتا ہے، اس میں شرکت کے لئے لوگوں کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف پیکیج بنائے گئے ہیں اور ہر پیکیج پر ملنے والا نفع بھی الگ الگ ہے، مثلا بٹ کوائن کا سب سے چھوٹا پیکیج گیارہ ہزار کا ہے، اس پر ملنے والی رقم ہر ماہ 500 سے 1000 تک متوقع ہے، دوسرا پیکیج 41000 روپئے کا ہے اس پر ملنے والا نفع ہر 21 دن میں 3000 سے 4000 تک ہے، تیسرا پیکیج 78000 روپئے کا ہے اس پر ملنے والا نفع ہر 19 دن میں 6000 سے 8000 تک ہے۔ لیکن واضح رہے کہ اگر کوائن کی قیمت کم ہوگئی تو آپ کو اس سے بھی کم نفع مل سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ بھی نہ ملے، اس لئے نفع و نقصان دونوں پہلو اس میں موجود ہیں۔ اس وقت کرپٹو کرنسی کی جو عام نوعیت ہے وہ یہی ہے جو اس پوری تحریر میں بیان ہوئی، ابھی اس سلسلے میں کوئی متعین شرعی نقطہ نظر قائم نہیں کیا گیا ہے، لیکن جلد ہی قارئین کو حکم شرعی سے مطلع کیا جائے گا ۔
نوٹ: اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ اس تحریر کی روشنی میں شرعی نقطہ نظر تک پہونچنے کی کوشش کریں اور ممکن ہو تو مزید اس موضوع پر تحقیق کریں اور مسلمانوں کو صحیح شرعی نقطہ نظر سے آگاہ کریں کیونکہ یہ وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔ فجزاکم اللہ خیر الجزاء۔
Share

کرپٹو کرنسی (crypto currency)، تعارف اور حقیقت قسط دوم

از قلم: محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء ممبئی انڈیا

رابطہ 9029189288

 اس کرنسی کی متعدد قسمیں اور اکائیاں آن لائن مارکیٹ میں آچکی ہیں، مگر اس کی سب سے قیمتی اور مشہور ترین کرنسی بٹ کوائن (Bit Coin) اور ون کوائن (Onecoin)  ہیں، ان کی قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ دنیا کی موجودہ کوئی کرنسی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، آپ کو شاید حیرت ہو کہ ایک بٹ کوائن کی قیمت آٹھ لاکھ روپئے سے متجاوز جبکہ ایک ون کوائن کی قیمت تیرہ سو روپے زائد ہے۔

مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کرنسی پر کسی ایک شخص یا ملک یا بینک کا قبضہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایک شخص یا بینک یا کمپنی اس کو کنٹرول کرتی ہے، بلکہ یہ لوگوں کے تعامل سے جاری اور قائم ہے، اسے کوئی بھی شخص یا ادارہ بنا سکتا ہے، کرپٹو کرنسی کی اصطلاح میں اس کے بنانے کو مائننگ (Mining) کہا جاتا ہے، جس کا لفظی ترجمہ ہے "کان کھودنا" یعنی جس طرح زمین سے کانیں کھود کر اس کی تہ سے بیش قیمت چیزیں نکالی جاتی ہیں اسی طرح نہایت طاقتور اور خاص قسم کے پروگرامنگ والے کمپیوٹر اور مسلسل بجلی کے ذریعے مخصوص الفاظ اور نمبرات سے اس کی بناوٹ عمل میں آتی ہے، شروع شروع میں اس کی مائننگ بہت آسان تھی، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا اور قیمت بڑھتی جاتی ہے اس کی مائننگ مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسی ایک محدود تعداد  (دو کروڑ دس لاکھ) ہی بنائے جا سکتے ہیں اور اتنے کوائن بنانے کے لئے 2150 ء تک کا وقت لگے گا، اس سے پہلے یہ سکے مکمل نہیں کئے جاسکتے، اس کی مائننگ کرنے والوں کو بطور انعام بٹس ہی دیئے جاتے ہیں جسے وہ گاہکوں سے بیچ کر نفع کماتے اور سسٹم کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ 

اس سلسلے میں ایک نہایت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کرنسی کی جتنی خرید و فروخت ہوتی ہے یا جو بھی معاملات اور ٹرانزکشن ہوتے ہیں وہ ہر دس منٹ میں ایک مخصوص جگہ محفوظ ہوجاتے ہیں اس پورے ٹرانزکشن کے مجموعے کو بلاکس  (Blocks) کہا جاتا ہے، اس کرنسی کو گرچہ ابھی عام قبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے تاہم متعدد ملکوں نے اپنے باشندوں کے لئے اسے لیگل قرار دے دیا ہے اور وہاں کے لوگ اس سے اپنے کام انجام دے رہے ہیں جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں اس کے اے ٹی ایم ATM بھی لگائے جاچکے ہیں بلکہ راقم الحروف کی دانست میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کے یہاں اسے ابھی قبول نہیں کیا گیا ہے مگر وہ اسے خریدنے کی وجہ سے بہت سے کام اسی سے کر رہے ہیں۔ اس کرنسی کے متعدد فائدے بتائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہی اس کی مہنگائی کے اسباب ہیں، یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق چند دہائیوں میں یہی کرنسی عالمی کرنسی ہوگی۔ اس کے فوائد مندرجہ ذیل ہیں:

 1 اس کرنسی کے ذریعے آدمی ان بڑی بڑی کمپنیوں سے سامان خرید سکتا ہے جو بٹ کوائن یا ون کوائن میں حصہ دار ہیں۔

2 اس کرنسی کے ذریعے پوری دنیا میں کسی بھی شخص کو اپنے اکاؤنٹ سے بغیر کسی کمپنی یا بینک کو واسطہ بنائے رقم منتقل کی جا سکتی ہے۔ 

3 رسد کی کمی اور طلب کی زیادتی یعنی کوائن کی کمی اور خریداروں کی کثرت کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھتی رہتی ہے اور اس طرح آپ کی کرنسی مہنگی ہوتی جاتی ہے۔

4 اگر آپ خود بٹ کوائن یا ون کوائن سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ہیں تو بڑھی ہوئی رقم کے مطابق بیچ سکتے ہیں اور اس طرح آپ کو فائدہ بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ 

5 آپ جب چاہیں اپنی کرنسی کو ملکی کرنسی میں تبدیل کرا سکتے ہیں۔

6 اس کرنسی کو نہ کوئی چرا سکتا ہے نہ ہی غائب کر سکتا ہے، نیز اس سے ٹرانزکشن اس قدر آسان ہے کہ گھر بیٹھے انٹر نیٹ سے ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔

7 چونکہ اس کا تعلق کسی بینک یا ادارہ سے نہیں ہے اس لئے دوسرے کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنے کے لئے بہت ہی کم رقم لگتی ہے۔ 

8 چونکہ یہ کرنسی decentralised ہے اس لئے اس کرنسی کو کوئی ملک نہ بند کر سکتا ہے اور نہ ہی ہائک کر سکتا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنے ملک میں جاری نہ کرے جیسا کہ ہندوستان وغیرہ میں ہے۔

اس موقع پر یہ واضح کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کہ جہاں کرپٹو کرنسی کے اس قدر فائدے ہیں وہیں کچھ نقصانات بھی ہیں اور پھر دنیا کی کونسی ایسی چیز ہے جس کے دونوں پہلو نہ ہوں؟ چنانچہ اس کرنسی لینے کا ایک نقصان یہ ہےکہ چونکہ اسے اپنے ہاتھ یا جیب میں رکھا نہیں جاسکتا ہے اور صرف انٹرنیٹ ہی کی ذریعے اس کا استعمال ممکن ہے؛ اس لئے آپ عام لوگوں سے کوئی خرید و فروخت کا معاملہ نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی بوقت ضرورت ہر کس و ناکس سے لین دین کا معاملہ کر سکتے ہیں۔

دوسرا نقصان یہ ہے کہ چونکہ یہ ڈیجیٹل چیز ہے اگر بالاتفاق بیک وقت تمام ڈیجیٹل سسٹم فیل ہو جائے یا کسی ظالم طاقتور کا غاصبانہ قبضہ ہو جائے تو آپ کی لگائی رقم بالکل ختم ہو سکتی ہے

جاری

Share

کرپٹو کرنسی (crypto currency)، تعارف اور حقیقت قسط اول

 👁کرپٹو کرنسی، تعارف اور حقیقت👁 

(بٹ کوائن (Bit Coin) اور ون کوائن (Onecoin) پر ایک نظر)

از قلم: محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء ممبئی انڈیا

رابطہ 9029189288

جس طرح انسانی زندگی میں مختلف تبدیلیاں اور نیرنگیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں؛ اسی طرح کائنات کا نظام اور چیزیں بھی ان تبدیلیوں سے دو چار اور متاثر ہوتی رہتی ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دنیا کی کسی شی کو دوام نہیں، مثل مشہور ہے "ہر کمالے را زوالے" ہر کمال کو زوال سے ضرور دوچار ہونا پڑتا ہے۔

آجکل ہمارے ہاتھوں میں جو کرنسی کی شکل میں پیسے یا روپئے موجود ہیں؛ ان کی کہانی بھی بڑی عجیب اور ان پر آنے والی تبدیلیاں بڑی حیرت انگیز ہیں، نوع انسانی کے ابتدائی دور اور بعد کے ادوار میں ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جب سونا چاندی اور روپئے پیسے کا بطور تبادلہ کوئی خیال تک نہ تھا، اس دور میں اشیاء کا تبادلہ اشیاء سے ہوتا تھا، چاول دیکر گیہوں لے لینا اور آٹا دے کر دودھ لے لینا ہی چیزوں کی خرید و فروخت کی مانی جانی شکل تھی، پھر ایک دور آیا کہ یہی تبادلہ سونے چاندی جیسی بیش قیمت دھاتوں سے ہونے لگا، انہیں کے ذریعے چیزیں خریدی اور فروخت کی جانے لگیں؛ لیکن بہت مدت نہیں گزری کہ خرید و فروخت کی دراز دستی نے سونے چاندی کے خول سے نکل کر ان سے بنے سکوں اور مختلف دھاتوں سے بنے پیسوں کی شکل اختیار کر لی۔

پھر ان کے بعد ایک ایسا بھی دور آیا جب لوگ سونے چاندی اور ان کے سکوں کو صرافوں کے پاس رکھ دیتے اور ان سے اس کی رسیدیں حاصل کرلیتے اور بوقت ضرورت رسید دکھا کر وہ سکے واپس لے لئے جاتے اور اگر کسی کو دینے کی ضرورت پیش آتی تو بعض فرزانے ایسا بھی کرتے کہ وہی رسید کسی اور کو دے دیتے اور وہ رسید دکھا کر صراف سے سونا لے لیتا، اور کبھی کبھی انہیں رسیدوں سے لوگ اشیاء کی خرید و فروخت کا معاملہ بھی کر لیتے، آہستہ آہستہ یہ سلسلہ عام اور دراز سے دراز تر ہوتا گیا، یہی وہ دور ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ نوٹوں کے آغاز کا ابتدائی زمانہ تھا اور جس کی اعلی ترین شکل اب ہمارے زمانے میں اس قدر عام ہے کہ اس کے خلاف سوچنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔

 کرنسی نوٹ کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں اس میں ترقی ہوتی گئی یہ اپنی اصلیت یعنی "ثمن حقیقی" سے دور سے دور تر ہوتی چلی گئی، کسی زمانے میں ان کرنسیوں کے پیچھے سو فیصد سونا ہوا کرتا تھا، پھر ایک زمانہ آیا کہ انہیں ڈالر سے جوڑ دیا گیا اور ڈالر کے پیچھے سونا تسلیم کر لیا گیا تھا، گویا بالواسطہ ان کے پیچھے سونا موجود تھا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کرنسیوں نے ڈالر سے بھی اپنا دامن چھڑا لیا اور اب ہم جس کرنسی کے دیوانے ہیں اور جس کی دستیابی کے لئے مر مٹ رہے ہیں اس کا سونے چاندی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور سوائے اس کی کہ اسے قانونی طور پر خرید و فروخت کا ایک ذریعہ تسلیم کر لیا گیا ہے اس کی حیثیت ایک کاغذ سے زیادہ نہیں۔

مگر جیسا کہ اوپر ذکر ہوا "ہر کمالے را زوالے" کچھ انسانوں کو شاید یہ سکے اور کاغذی نوٹ بھی بوجھ معلوم ہو رہے تھے یا یوں کہہ لیجیے کہ کرنسی نے ایک نئی انقلابی کروٹ لی اور اب ایک ایسی کرنسی وجود میں آچکی ہے؛ جسے جیب میں رکھنے اور چور اچکوں سے محفوظ رکھنے کی فکر دامن گیر نہ ہو گی، اس کرنسی سے انسان اپنی تمام تر ضروریات کی تکمیل بھی کر سکے گا اور پیسوں، سکوں کے بوجھت سے  بھی آزاد ہوگا، ذیل میں اسی کرنسی سے متعلق چند اہم معلومات فراہم کی جاتی ہیں امید کہ اس تحریر سے اس نومولود کرنسی کو سمجھنا آسان ہوگا۔

اس وقت تمام دنیا میں آن لائن کارو بار کا جو طوفان برپا ہوا ہے اور معیشت و تجارت میں جو زبردست ہلچل اور گہما گہمی پیدا ہوئی ہے  شاید ماضی کے کسی زمانے میں پیدا نہیں ہوئی ہوگی، اسی ہلچل و طوفان نے ایک نئی کرنسی "کرپٹو کرنسی" (Crypto Currency) کے نام سے دنیا میں چند سال قبل متعارف کرایا ہے، اس کرنسی کا تصور پیش کرنے والے یا موجد کا نام "ستوشی ناکا موتو" (Satoshinakamoto)  بتایا جاتاہے، یہ کوئی شخص ہے یا ادارہ اس کی تفصیل کسی کو معلوم نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ کرۂ ارض پر کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جو ستوشی ہونے کی دعویدار ہیں، بہر کیف دعوی کرنے والے ہوں یا کوئی بھی شخص جو بھی ہو اس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ عصر حاضر کا ذہین ترین انسان ہے۔

کرپٹو کرنسی کی حقیقت بس یہ ہے کہ یہ ایک ڈیجیٹل اور نظر نہ آنے والی ایسی کرنسی ہے جسے نہ ہاتھوں میں لیا جاسکتا ہے نہ جیب میں رکھا جا سکتا ہے، گویا باہری دنیا میں اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے، کمپیوٹر کی دنیا تک ہی یہ کرنسی محدود ہے، جو اکاؤنٹ ہولڈر کے اکاؤنٹ میں عددوں اور الفاظ کی شکل میں موجود رہتی ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انسان اس سے اپنے وہ تمام کام پورے کر سکتا ہے جو ہاتھوں میں پکڑے جانے والی اور جیبوں میں رکھی جانے والی کرنسی سے کرنا ممکن ہے، بآسانی بس یوں سمجھئے کہ جیسے ڈیبٹ کارڈ میں حقیقتا کچھ ہوتا نہیں ہے مگر اس کے ذریعے کارڈ ہولڈر اپنی ضروریات خرید کر اکاؤنٹ میں موجود بیلنس یا بینک سے ادھار لے کر قیمت ادا کر سکتا ہے ایسے ہی اس کرنسی سے بھی سارے معاملات اخاونٹ اور خارڈ سے انجام دییے جاسکتے ہیں۔

جاری

Share

Translate