جمعہ، 2 ستمبر، 2022

کرپٹو کرنسی (Crypto currency) کی خریداری کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1310🖋️

(کتاب البیوع جدید مسائل)

 کرپٹو کرنسی (Crypto currency) 
کی خریداری کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ذیل کے مسئلے کے متعلق کپ کرپٹو کرنسی جیسے بٹکوائن اور دوسرے کرنسی جو آنلائن ہے ان پر ٹریڈینگ کی جا سکتی ہے یا نہیں؟؟

یہ آن لائن کرنسی ہوتی ہے جسیے ہر ملک کی کرنسی ہوتی ہے ویسے ہی کرپٹو بھی کوئی لے سکتا ہے، اسکو بینک میں حقیقی پیسوں میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس سے عموما کوئی بھی چیز آنلائن خریدی جا سکتی ہے

اسکی ٹریڈینگ سٹاک ٹریڈینگ جیسی ہوتی ہے جہاں پر ایک حصہ کرپٹو کا خردیا جا سکتا ہے، جب اس کرنسی کا ویلوو بڑھ جائے تو اسکو بیچ بھی سکتے ہیں اور اپنے پاس بھی رکھ سکتے ہیں، جس طرح سونے کی یا ڈالر پاؤنڈ کہ ٹریڈینگ ہوتی ہے ویسے ہی آن لائن میں کرپٹو کرنسی ہوتی ہے، حکومت بھی اسکی تائد کرتی ہے....

اسکے متعلق تفصیل مطلوب ہے آیا یہ جائز ہے یا نا جائز.....

جواب مرحمت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں...

فقط والسلام

(محمد توصیف حیدرآباد)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

کرپٹو کرنسی، بٹ کوائن اور ون کوائن کی حقیقت، ان کی صورت گری اور نفع ونقصان کے موضوع پر احقر راقم الحروف نے آج سے تقریبا تین سال قبل ایک تحریر تفصیلی انداز میں لکھی تھی، جو بہت مفید اور اس کی حقیقت و تعارف کے لئے قابل مطالعہ ہے، احقر نے ذاتی طور پر اس کی حقیقت کو خوب سمجھنے اور قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ اپنی تحقیق اور سوال بالا کے پس منظر میں اس کرنسی کا حکم یہ ہوگا کہ جن ممالک نے اس کرنسی کو قبول کرلیا ہے اور اپنے باشندگان کو اس کے لین دین کی اجازت دے دی ہے، ان کے لیے یہ ثمن عرفی یا ثمن اعتباری کے درجے میں ہوگا، اور اس کی خریداری اور لین دین سب درست ہوگا، البتہ وہ ممالک جنہوں نے اس کو بطور کرنسی قبول نہیں کیا ہے اور خواہ اپنے باشندگان کو صراحتاً اس کی خریداری سے منع کردیا ہے یا منع نہ کیا ہے ان کے لئے یہ ثمن عرفی یا ثمن اعتباری نہیں ہوگا، اور ان کے لئے اس کی خریداری درست نہیں ہوگی انڈیا نے چونکہ اس کو کرنسی نہیں مانا ہے اور اپنے ملک کے لئے قبول نہیں کیا ہے اس لیے اس کی خریداری درست نہیں ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا 📚

(١) فالشرط الأول في الثمن أن يكون مالا متقوما شرعا، و كل ما ذكرنا في مالية المبيع و تقومه يجري في مالية الثمن أيضا. (فقه البيوع ٤٢٣/١ الباب الثاني في أحكام الثمن)

المراد بالمال ما يميل إليه الطبع و يمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم والتقوم يثبت بها و بإباحة الانتفاع به شرعا. (رد المحتار على الدر المختار ١٠/٧ كتاب البيوع مطلب في تعريف المال)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 11/3/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعرات، 1 ستمبر، 2022

مکالمے میں ہندو پنڈتوں کی مشابہت اختیار کرنے کا حکم

🌴سوال و جواب🌴

(مسئلہ نمبر 395)

 مکالمے میں ہندو پنڈتوں کی مشابہت اختیار کرنے کا حکم 

سوال: ہمارے مدرسے میں چند دن پہلے اختتامی پروگرام  میں  (مباحثہ) ہوا,جو  ہندو ازم اور اسلام کے درمیان تھا.

ہندو ازم کے ترجمان نے جوکہ ہمارا ہی ساتھی تھا اس نے پنڈت والی شکل و صورت بنا لی تھی (دھوتی , گلے میں مالا(ہار) ,اور ہاتھ میں لال دھاگا وغیرہ کا استعمال کیا تھا)

تو کیا ایسے کسی پروگرام کیلئے ایسی شکل و صورت بنانا جایز ہے؟

برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں 

المستفتی .احقر محمد یاسر  ممبئی


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ الوہاب 

شریعت اسلامی میں غیر مسلموں اور فاسق و فاجر لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والوں کو انہیں میں سے شمار کیا گیا ہے، اس لئے ایسی تمام چیزوں سے بچنا واجب و ضروری ہے جو کسی خاص قوم کا شعار ہو،(١) 

لیکن مشابہت کے کئی درجے ہیں جن کا شریعت میں الگ الگ حکم ہے، چنانچہ علماء لکھتے ہیں:

"تشبہ بالکفار اعتقادات و عبادات میں کفر ہے اور مذہبی رسومات میں حرام ہے۔

 معاشرت اور عبادات اور قومی شعار میں تشبہ مکروہ تحریمی ہے"(٢)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ:

"من تشبه بقوم فهو منهم سے مراد یہ ہے کہ کسی قوم کی ایسی چیز میں مشابہت اختیار کی جائے جو اس قوم کے ساتھ مخصوص ہو یا اس کا خاص شعار ہو تو ایسی مشابہت ناجائز ہے"(٣)

اسی طرح مفتی محمود صاحب فتاویٰ محمودیہ میں لکھتے ہیں:

"بلا ضرورت شدیدہ کفار کا مخصوص لباس استعمال کرنا ممنوع اور ناجائز ہے"(٤)

اس تفصیل کی روشنی میں دیکھا جائے تو آپ نے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے اگر صرف یہی چیزیں تھیں تو چونکہ یہ چیزیں پنڈتوں اور کفار کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ دیگر لوگ بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے اس میں گنجائش ہے، لیکن علماء و طلباء کے لئے اس قسم کی باتیں زیب نہیں دیتی ہیں اس لیے آئندہ سے احتیاط کی جائے۔

البتہ اگر اس سے بڑھ کر قشقہ وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے یا ایسی چیزیں استعمال کی گئی ہیں جو ہندو پنڈتوں کی خصوصیات ہیں اور انہیں دیکھ کر کوئی مسلم تصور نہ کرے تو یقیناً ناجائز ہوگا اور توبہ و استغفار لازم ہوگا۔

واضح رہے کہ مکالمہ کا مقصد لوگوں کے سامنے صحیح اور غلط باتوں میں فرق ظاہر کرنا ہوتا ہے اور اس کے لئے اس قسم کے تکلفات کی قطعاً ضرورت نہیں، خاص کر اگر وہ حرام اور ناجائز کے دائرے میں آرہی ہوں، اس لئے اس قسم کی باتوں کو چھوڑنا ضروری ہے اور ان سے سے بچنا واجب ھے۔ کیوں عام اور سادے لباس سے بھی یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚📚والدليل على ما قلنا📚📚 

(١) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ، وَلَا بِالنَّصَارَى ؛ فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَهُودِ الْإِشَارَةُ بِالْأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الْإِشَارَةُ بِالْأَكُفِّ. (سنن الترمذي حديث نمبر ٢٦٩٥)

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ". (سنن ابي داود حديث نمبر ٤٠٣١)

 من تشبه بقوم أي تزيا في ظاهره بزيهم و في تعرفه بفعلهم..... و هديهم في ملبسهم و بعض أفعالهم. (فيض القدير ١٠٤/٦)

يكره بوضع قلنسوة المجوس على رأسه على الصحيح إلا لضرورة دفع الحر و البرد (الفتاوى الهنديه ٢٨٧/٢ الباب التاسع فصل في احكام المرتدين زكريا جديد)

من تشبه بقوم أي تزيا في ظاهره بزيهم و في تعرفه بفعلهم..... و هديهم في ملبسهم و بعض أفعالهم. (فيض القدير ١٠٤/٦)

(٢) فقہ حنفی کے اصول و ضوابط ص ١٥١، فتاویٰ دار العلوم زکریا ١٢٢/٧

(٣) کفایت المفتی ١٦٩/٩ دار الاشاعت، فتاویٰ دار العلوم زکریا ١٢٢/٧ کتاب الحظر و الاباحہ

(٤) فتاویٰ محمودیہ ٥٥٩/١٩ باب الموالات مع الکفار

🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 19/7/1439

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

نیا سال منانے اور اس کی مبارکباد دینے کا شرعی حکم

🎍سوال و جواب🎍

(مسئلہ نمبر 295)

 نیا سال منانے اور اس کی مبارکباد دینے کا شرعی حکم 

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و علمائے  عظام درج ذیل مسئلہ میں؛ بحوالہ جواب مرحمت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں :

کہ نیا سال منانے اور اس کی مبارکباد دینا کیسا ہے؟ (انظر حسین کرہی بستی یوپی)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

الجواب و باللہ الصواب 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی نہایت سادہ اور رسم و رواج سے بالکلیہ دور تھی، اس قسم کے بے سود، لایعنی اور خرافاتی طور طریقے نبوی معاشرے میں ہرگز جگہ نہیں پا سکتے تھے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اسلام کے پھیلاؤ میں ہجرت نبوی کو کس قدر اہمیت حاصل ہے بلکہ اس کی اہمیت کے پیش اسلامی کیلینڈر کی بنیاد سال بنایا گیا؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور صحابہ کرام کے دور اور بعد کے ادوار میں ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ جس میں نئے سال کا جشن منایا گیا ہو یا اس کی مبارکبادی دی گئی ہو؛ بلکہ اس جانب کسی صحابی یا محدث و فقیہ کا شاید ذہن تک نہیں گیا چنانچہ سلف صالحین کی کتب میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا؛ اس لئے یہ بات تو یقینی ہے کہ نئے سال کا جشن منانا؛ اس کی مبارکبادی دینا شرعاً کوئی دینی عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت سے اس کا کوئی تعلق ہے؛ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اسلام دشمن اور اسلامی تہذیب و معاشرت سے بیزار لوگوں کا بنایا اور دیا ہوا طریقہ ہے جس کا سوائے بے شمار دینی و دنیوی نقصان اور مختلف گھناؤنی حرکات کے کچھ حاصل نہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ لایعنی کاموں کو چھوڑ دے اور دیکھا جائے تو یہ ناکہ صرف لایعنی ہے بلکہ بیشمار گناہوں کا باعث بھی ہے خاص طور پر انگریزی تاریخ کا نیا سال منانے کی شروعات اور طریقہ تو سراسر غیر اسلامی تہذیب و تمدن کا حصہ ہے اس لئے اس کے خلاف دین ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہے۔

اور تاریخی مشاہدہ ہے کہ اس قسم کی رسمیں آہستہ آہستہ ایک اہم مقام اور بدعت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، اس لئے نیا سال منانے، (خواہ ہجری سال ہو یا عیسوی) اس کی مبارکبادی دینے، اور happy New year وغیرہ کہنے سے اجتناب لازم و ضروری ہے، چونکہ قرآن مجید کا حکم ہے کہ اچھے اور نیک کام میں ایک دوسرے کی مدد کروں اور برائی و ظلم کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کرو اس لئے اس کام سے خود رکنا اور اپنے دوست احباب اور اہل و عیال کو روکنا ضروری ہے، بصورت دیگر گناہ کبیرہ میں گرفتار ہونے کا اندیشہ ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب


 📚📚والدليل على ما قلنا📚📚 

(١) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ)). (سنن أبي داود حديث نمبر 4033)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ)). (سنن الترمذي حديث نمبر ٢٤٨٨)

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة 2)

تفصیل کے لئے دیکھئے: کتاب الفتاوی 481/1 مجلہ شاہراہِ علم0ص 313 ربیع الثانی 1429، اشاعت العلوم اکل کنواں۔ نیا سال مغرب اور اسلام کا نقطہ نظر ص 26.

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا

مورخہ 9/4/1439

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ - دو متضاد راستے

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ - دو متضاد راستے

تحریر : محمد زبیر ندوی 

   پوری دنیا میں بسنے والے تمام مسلمان جس مذہب کو مانتے ہیں وہ مذہب اسلام ہے، موجودہ دنیا میں یہ واحد مذہب ہے جو خدا کا عطا کردہ اور اپنی اصلی شکل و صورت میں باقی ہے، دیگر مذاہب یاتو انسانی ذہن و دماغ کی کرشمہ سازیاں ہیں یا محرف اور مفقود الحقیقت ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمان جس قدر اپنے دین کا سچا پرستار اور قدردان ہے دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس کے پیروکار اس قدر اس کے وفادار اور قدردان ہوں،  اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک ہر صاحب علم اور ذی شعور کو بالیقین حاصل ہے ۔

ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام اپنی مکمل اور کامل صورت میں موجود ہے اور قیامت تک کے لیے یہی دین راہنما اور کشتیء حیات کا کھیون ہار ہے۔ اس کی شریعت و قانون پر عملدرآمد ہی زندگی کا مقصود ہے اسلام نے جو احکام اپنے ماننے والوں کو دیئے ہیں اس پورے مجموعے کا نام شریعت ہے اور شریعت کا ایک اہم جزء معاشرت اور عائلی زندگی ہے ۔ 

یہ نظام معاشرت اور عائلی زندگی اسلام کا وہ عطیہ اور خدا کا وہ منصفانہ نظام ہے جو قرآن و حدیث کی نصوص اور اجماع و مجتہدین کی علمی کاوشوں کا کشید اور ماحصل ہے یہ عائلی سسٹم ہر انسان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے جسے صحیح تعبیر میں اسلامک لاء اور خدائی قانون کہا جاسکتا ہے اور جو اسلامی شریعت کا نہایت اہم اور وسیع باب تھا جسے برٹش گورنمنٹ نے صرف وراثت، نکاح ، خلع ، طلاق، ایلاء، ظہار، نفقہ، مہر، حضانت اور اوقاف تک محدود کر کے سنہ 1937 میں "مسلم پرسنل لاء " سے تعبیر کیا ۔ 

قرآن و حدیث کی نصوص میں صاف صاف انسانوں سے اسی قانون خداوندی پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے اور وہ تمام قوانین جسے انسانی نابالغ اور غیر پختہ ذہن نے وضع کئے ہیں انہیں ہوا پرستی، ظلم و گمراہی اور خدا بیزاری سے تعبیر کیا گیا ہے، قرآن کریم نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے : " ثم جعلناك على شريعة من الأمر فاتبعها ولا تتبع أهواء الذين لا يعلمون" ( الجاثية 18 )  ترجمہ :  پھر ہم نے آپ کو دین کے ایک صاف راستے پر رکھا ہے بس آپ اسی پر چلئے اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے مت ہو جائیے جو جانتے نہیں ۔ دوسرے مقام پر فرمایا گیا : " اتبعوا ما أنزل الیکم من ربكم و لا تتبعوا من دونه اولیاء "( الأعراف 3 ) ترجمہ : تمہارے رب کی طرف سے جو اترا ہے اسی پر چلو اور اس کے علاوہ اور دوستوں کی بات مت مانو ۔ 

حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعا لما جئت به ترجمہ : تم میں سے کوئی بھی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات( پوری زندگی ) میرے لائے ہوئے دین کے مطابق نہ ہو جائے۔ 

اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ بھی ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ تاریخ کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ حق کا سامنا ہمیشہ باطل سے ہوا ہے خیر کی روشنی گل کر نے کے لئے شر کی آندھیاں وقتا فوقتا چلتی رہی ہیں، حق و صداقت کے سیل رواں کو روکنے کے لیے ظلم و ستم کے پہاڑ ہمیشہ سد راہ بنتے رہے ہیں اقبال کی زبان میں یوں کہنا چاہیے : 

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز 

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی 

لیکن وہ شمع کیونکر بجھ سکتی ہے جسے خود خدا نے روشن کی ہو، آندھیاں چلتی رہیں گی اور اسکی روشنی بڑھتی اور پھیلتی رہے گی خمار بارہ بنکوی نے کیا خوب کہا ہے :

نہ ہارا ہے عشق، نہ دنیا تھکی ہے 

دیا جل رہا ہے ، ہوا چل رہی ہے 

قارئین سے پوشیدہ نہیں کہ ہمارے ملک ہندوستان کی حکومت اور لاء کمیشن اسی خدائی نظام اور شرعی قانون کو ہٹا کر ایک نیا خود ساختہ ملحدانہ قانون تھوپنے کی ناپاک جسارت میں مبتلا ہے اور جسے وہ نہایت خوشنما لفظ uniform civil code  یعنی یکساں شہری قانون سے تعبیر کرتی ہے، یہ قانون اپنی افادیت اور نفاذ سے قطع نظر ہندی گنگا جمنی تہذیب میں اس کو زیر بحث لاکر نفاذ کی کوشش کرنا اور ایک بڑی کمیونٹی کو اپنی مخالفت پر آمادہ ہو نے کا موقع دینا کس قدر مضحکہ خیز اور خلاف عقل و دانش ہے اہل نظر سے پوشیدہ نہیں، ہمارا ملک کثرت میں وحدت کا ایک شاہکار ہے،  مختلف مذاہب و ادیان اس کی طاقت اور گلہائے رنگا رنگ ہی سے اس کی زینت ہے، گویا بقول ذوق :

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن 

اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف میں

   اس یکساں سول کوڈ کی بیج اگرچہ اسی    وقت ڈال دی گئی تھی جب قانون سازوں نے دفعہ 44 مرتب کرتے ہوئے یہ الفاظ تحریرکئے تھے 

The state shall endeavour to secure for citizens an uniform civil code throughout the territory of India 

"یعنی حکومت کوشش کر ے گی کہ پورے ملک میں شہریوں کے لیے یکساں شہری قانون ہو "

لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کے نفاذ کی کوششیں تیز ہوتی گئیں، اور مختلف مواقع اور تقریبات پر اسے عمل میں لانے کے ارادوں کا اظہار کیا جاتا رہا؛ چنانچہ سنہ 1972 میں مرکزی وزیر قانون مسٹر گوکھلے نے متبنی بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا :

"یہ مسودہ قانون "یونیفارم سول کوڈ " کی طرف ایک مضبوط قدم ہے " (یکساں سول کوڈ ص 12 از منت اللہ رحمانی  )

سنہ 1973 ء میں چیرمین آف لاء کمیشن مسٹر گجندر گڈکر نے یہی بات بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا :

"مسلمانوں کو یونیفارم سول کوڈ کو قبول کر لینے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر لینا چاہیے، اگر انہوں نے خوش دلی کے ساتھ یہ تجویز منظور نہیں کی تو قوت کے ذریعہ یہ قانون نافذ کیا جائے گا " ( بحوالہ : مارچ 1973 میں بنگلور میں یونیفارم سول کوڈ کے موضوع پر تقریر )

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حکومت جس یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ آخر ہے کیا؟  اور وہ قانون کہاں سے آئے گا؟  کہا جاتا ہے کہ گھر کا آدمی گھر کی بات زیادہ بہتر جانتا ہے؛ اورچور کی داڑھی میں تنکا،اس حقیقت کو بھی مسٹر پاٹسکر نے بے نقاب کر دیا ہے، انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ : 

"ہندو قوانین میں جو اصلاحات کی جارہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام آبادی پر نافذ کی جائیں گی؛  اگر ہم ایسا قانون بنانے میں کامیاب ہو گئے جو ہماری پچاسی فیصد آبادی کے لیے کافی ہو تو باقی آبادی پر نافذ کر نا مشکل نہ ہو گا،  اس قانون سے پورے ملک میں یکسانیت پیدا ہو گی" ( بحوالہ : یکساں سول کوڈ ص 11 از منت اللہ رحمانی )

مذکورہ بیانات اور اس وقت  کے حالات مسلمانوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ حکومت اور لاء کمیشن دونوں مسلم پرسنل لا کو ختم کر کے ایک ایسا نظام زندگی نافذ کر نے کے تگ و دو میں ہیں جو سرا سر ناانصافی اور فرقہ پرستی پر مبنی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ایسا قانون ہے جو شریعت محمدی سے متصادم اور مسلم پرسنل لاء سے یکسر مغایر و متضاد ہے؛  کیونکہ شریعت محمدی خدائی وفطری قانون پر مبنی ہے اور جس کی بنیاد وحی الہی اور رسالت محمدی ہے جبکہ یکساں سول کوڈ کی اساس عقل و خرد ہے یا زیادہ سے زیادہ کسی رشی منی کے ذہن میں آئے ہوئے خیالات ہیں۔

اور یہ بات بھی عالم آشکارا ہے کہ عقل انسانی کتنے ہی ترقیاتی منازل طے کر لے اپنے خالق سے آگے نہیں جاسکتی،  انسانی ذہن و دماغ کے بنائے ہوئے قوانین گرچہ ظاہرا مبنی بر مساوات ہوں لیکن باطنا وہ خبث و خود غرضی سے خالی نہیں ہوسکتے یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان سو فیصد تمام انسانی مزاج و مذاق کو اپنے قانون پر متحد اور قائم کردے، ایک عظیم اسلامی اسکالر و فلسفی ابن قيم کا بیان اس سلسلے میں کس قدر بامعنی اور درست ہے، علامہ ابن قیم لکھتےہیں :

"وكل من له مسكة عقل يعلم ان فساد العالم وخرابه إنما نشأ من تقديم الرأي على الوحي و الهوى علی العقل"( إعلام الموقعين 1/68 ) ترجمہ : "اور جسے  بھی کچھ عقل و فہم ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی بربادی اور اس کا بگاڑ رائے کو وحی پر اور خواہشات کو عقل پر مقدم کرنے اور ترجیح دینے کے سبب پیدا ہوا "

مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ کے اس پس منظر میں مسلمان کسی بھی طرح دین اور اسلامی تعلیمات سے دستبردار نہیں ہو سکتے؛  بلکہ یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرنا اور اس کے لئے جد و جہد ہمارا دینی فریضہ اور ایمانی تقاضہ ہے؛کیونکہ یہ قانون الحاد و بے دینی کا دروازہ اور مسلمانوں کے تشخص کو پائمال کرنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جو کسی بھی طرح ہمیں گوارا نہیں نہ طوعا نہ کرھا ،  اس موقع پر بطور اختتامیہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا ایک جامع و موثر اقتباس نذر قارئین کرنا چاہتا ہوں امید کہ چشم دل وا ہو اور فکر و نظر کو مہمیز لگے،  مفکر اسلام تحریر فرماتے ہیں :

" میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمان اگر مسلم پرسنل لا( شرعی عائلی قانون )  میں تبدیلی قبول کرلیں گے تو آدھے مسلمان رہ جائیں گے اور اس کے بعد خطرہ ہے کہ آدھے مسلمان بھی نہ رہیں، فلسفہ اخلاق، فلسفہ نفسیات اور فلسفہ مذاہب کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ مذہب کو اپنے مخصوص نظام معاشرت و تہذیب سے الگ نہیں کیا جاسکتا، دونوں کا ایسا فطری تعلق اور رابطہ ہے کہ معاشرت مذہب کے بغیر صحیح نہیں رہ سکتی، اور مذہب معاشرت کے بغیر مؤثر اور محفوظ نہیں رہ سکتا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسجد میں آپ مسلمان ہیں( اور مسجد میں کتنی دیر مسلمان رہتا ہے اپنے سارے شوق عبادت کے باوجود؟) اور گھر میں مسلمان نہیں ، اپنے معاملات میں مسلمان نہیں؛ اس لئے ہم اس کی بالکل اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے اوپر کوئی دوسرا نظام معاشرت نظام تمدن اور عائلی قانون مسلط کیا جائے، ہم اس کو دعوت ارتداد سمجھتے ہیں اور ہم اس کا اس طرح مقابلہ کریں گے جیسے دعوت ارتداد کا مقابلہ کیا جانا چاہیے، اور یہ ہمارا شہری، جمہوری اور آئینی حق ہے، اور ہندوستان کا دستور اور جمہوری ملک کا آئین اور مفاد نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ ہمت افزائی کرتا ہے کہ جمہوریت کی بقا اپنے حقوق اور اظہار خیال کی آزادی اور ہر فرقہ اور اقلیت کے سکون و اطمینان میں مضمر ہے ۔ ( مسلم پرسنل لاء)

Share

بدھ، 31 اگست، 2022

شادی کارڈ میں گنیش جی کے متعلق بعض باتیں لکھنے والے مسلمان اور اس کی دعوت قبول کرنے کا حکم

🍸سوال و جواب🍸 

   (مسئلہ نمبر 270)

شادی کارڈ میں گنیش جی کے متعلق بعض باتیں لکھنے والے مسلمان اور اس کی دعوت قبول کرنے کا حکم

سوال: کیا حکم ہے اس شخص کا جس نے اپنی شادی کا دعوت نامہ اس طرح تیار کیا ہے ۔

"بھگوان گنیش کی جئے ہو۔گنیش کے نام سے تمام کام پورے ہوتے ہیں، اس لئے محبت کے ساتھ ہم دعوت بھیج رہے ہیں ۔آپ قبول فرمائیں" "گنیش کے نام سے شروع، ایشور کی عظیم مہربانی سے اور بزرگوں کی دعاؤں سے خاندان میں یہ خاص موقع آیا ہے" ۔

اس کے بعد دعوت کی تفصیل ہے ۔

کیا ایسے شخص کی دعوت میں شرکت جائز ہے اور کیا خود داعی دائرہ اسلام میں باقی رہے گا یا اسے از سر نو کلمہ پڑھنا ہو گا؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ۔ (عامر جاوید فلاحی، کلکتہ)


--------------------------------------------------


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب و باللہ الصواب 

سوالنامہ میں جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ہندوانہ عقیدے اور رسم و رواج سے تعلق رکھتی ہیں؛ ان باتوں کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ مثلا گنیش کی جئے پکارنا اور گنیش کی فتح مندی کا خواہاں ہونا اور گنیش کے نام سے تمام کاموں کا پورا ہونا اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف باتیں ہیں؛ اسی طرح اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر کام خدا کے نام سے شروع کیا جائے اور سوال میں منقول بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام گنیش کے نام سے شروع کیا جارہا ہے؛ جو کہ قرآن و حدیث کی تعلیم کے خلاف ہے اور ہندوانہ طور طریقے پر دلالت کرتا ہے؛ اس لئے اگر کارڈ دینے والا شخص کوئی مناسب تاویل مثلا یہ کہ کارڈ اس کے غیر مسلم دوست نے چھپایا ہے یا یہ کہ اس کی چھپائی میں وہ شریک نہیں ہے بلکہ کسی اور کی یہ حرکت ہے، نہیں کرتا ہے تو وہ شخص دائرہ اسلام سے باہر ہے اور اس پر توبہ و استغفار اور تجدید نکاح ضروری ہے، ایسے شخص کی دعوت اس وقت تک قبول نہ کی جائے جب تک کہ وہ اپنی برائت کا اعلان نہ کردے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚📚والدلیل علی ما قلنا📚📚

(1) إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ (النمل 30)

》عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال :كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه ببسم الله الرحمن الرحيم أقطع (السنن الأربعة)

》اذا أنكر الرجل آية من القرآن أو تسخر بآية من القرآن و في "الخزانة" أو عاب كفر كذا في التاتارخانية (الفتاوى الهندية 279/2 كتاب السير موجبات الكفر زكريا جديد)

》الهازل أو المستهزي إذا تكلم بكفر استخفافا و استهزاء و مزاحا يكون كفرا عند الكل و إن كان اعتقاده خلاف ذلك (الفتاوى الهندية 287/2 كتاب السير الباب التاسع)

》إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر ووجه واحد يمنع فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر فلا ينفعه التأويل كذا في البحر الرائق (الفتاوى الهندية 293/2 كتاب السير قبيل الباب العاشر الباب التاسع زكريا جديد)

💐💐💐💐💐💐💐💐💐


كتبه العبد محمد زبیر الندوي 

مركز البحث والإفتاء الجامعة الإسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا 

مؤرخہ 13/3/1439

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

شادی کی سالگرہ منانے کا حکم شرعی

 ⚖سوال و جواب⚖ 

 ❤مسئلہ نمبر 977❤ 

(کتاب النکاح، باب المعاشرت)


 شادی کی سالگرہ منانے کا حکم شرعی 

 سوال: اگر کوئی شخص اپنی شادی کی سالگرہ کے موقعہ پر بغیر ضروری سمجھے ہوئے اور بغیر دین سمجھے ہوئے محض زوجین کے درمیان محبت میں اضافہ کی خاطر (جو کہ شریعت کی نگاہ میں مطلوب اور محمود ہے) اس دن بغیر کسی (صریح) غیر شرعی کام کے ارتکاب کے کچھ خوشی کا اظہار کرے، تبادلۂ تحائف کرے اور آئندہ سالوں میں اس کے اہتمام و التزام کا بھی کوئی ارادہ نہ ہو تو کیا یہ عمل مباح ہوگا یا نہیں؟ 

اور اگر بالفرض مباح نہ ہوا تو کیا اُس پر "من تشبہ بقوم فھو منھم" کی وعید کا انطباق درست ہوگا؟ جب کہ اس امر کا اغیار کے دین و عقیدے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

 سردست "احتیاط" کے پہلو کے ساتھ "جائز" اور "ناجائز" پر واضح مدلل موقف پیش فرمائیں۔ (سید احمد انیس ندوی، فیروز آباد)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

شادی کی سالگرہ منانے کے سلسلے میں آپ نے  جن شرائط اور بنیادی ضروری رعایتوں کا ذکر کیا ہے وہ اگر پائی جائیں تو شادی کی سالگرہ منانا شرعاً مباح ہوگا، اور اس میں کچھ حرج نہیں ہوگا؛ بلکہ زوجین میں محبت و الفت اور ایک دوسرے پر اعتماد کی بحالی کی نیت ہو تو یہ ایک مستحسن اور قابلِ ستائش عمل بھی ہوسکتا ہے، لیکن علماء کرام اور مفتیانِ عظام اس قسم کے مباحات سے چار وجوہات کی بناء پر منع کرتے ہیں اول یہ کہ عموماً ان چیزوں کی رعایت عوام نہیں کرپاتی اور افراط و تفریط کا شکار ہوجاتی ہے، علماء چونکہ ان باریکیوں کو سمجھتے ہیں اور ان سے ان کی رعایت کی امید بھی ہوتی ہے؛ اس لیے ان میں اور عوام میں فرق ہوجاتا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور تابعین عظام کی روشن زندگیوں اور تابندہ سیرتوں میں شادی کی سالگرہ پر اہتمام اور خاص طور پر اظہار مسرت کی کی کوئی واضح دلیل نہیں ملتی؛ حالانکہ یہ حضرات اپنی بیویوں سے محبت و الفت میں کسی سے کم نہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ازواج کو اپنی مرغوبات میں ذکر فرمایا ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے بے انتہا الفت و محبت فرماتے تھے لیکن اس کے باوجود کبھی سالگرہ پر خوشی کی کوئی روایت نظر سے نہیں گزری۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ اس بات کا زیادہ تر محرک غیروں کا عمل اور ان کی دیکھا دیکھی ہوتی ہے، جو کہ تشبہ کی ایک قسم ہے، تشبہ کا تعلق صرف عقائد سے نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات شعائر اور عام طریقۂ زندگی سے بھی ہوتا ہے؛ چنانچہ اس کی کئی مثالیں حدیث و سیرت میں مل سکتی ہیں، مثلاً داڑھی بڑھانے اور مونچھوں کو کتروانے میں مجوسیوں کے مخالفت، سر پر ٹوپی کے ساتھ عمامہ باندھنے میں مشرکین کی مخالفت وغیرہ احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں، غور کیجیےُ تو معلوم ہوگا کہ ان باتوں کا تعلق عقائد سے نہیں ہے؛ بلکہ اعمال سے ہے، لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعمال میں ان کی مشابہت سے منع فرمایا ہے، اس سلسلے میں من تشبہ بقوم کی جو تشریح ملا علی قاری نے کی اور علامہ ابنِ کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر سورۃ توبہ آیت نمبر ٢٩ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کا جو خط نقل فرمایا ہے وہ نہایت چشم کشا اور قابلِ مطالعہ ہے، دلائل کے ذیل میں ان کی تحریریں ملاحظہ فرمائیں۔

چوتھی وجہ یہ ہے اسلام نے بدعات اور محدثات کو بڑی سخت نظر سے دیکھا ہے، بدعات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شروع تو اچھی نیت سے ہوتی ہیں مگر آہستہ آہستہ ان میں اس قدر لزوم ہوجاتا ہے اور کچھ نسلوں کے بعد وہ چیزیں اس قدر واجب و ضروری اور لوگوں کی نظر میں مستحسن ھوجاتی ھیں کہ بدعت کی شکل اختیار لیتی ہیں، ہندوستان میں طبقہ بریلویت میں شائع بدعات پر اگر گہری نظر ڈالیں اور تاریخی مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ اعمال اصلا کسی دوسری نیت اور عمدہ طریقے پر شروع کیے گیے تھے؛ لیکن کشاں کشاں یہی مباحات بدعات میں تبدیل ہوگیے۔ اس لیے آپ کے ذکر کردہ مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ انفرادی طور پر خوشی منانے میں حرج نہیں؛ لیکن اس کی دعوت دینا اور دوسروں کو ترغیب دینا درست نہیں ہوگا جس کی وجوہات اوپر ذکر کردی گئی ہیں (١) فقط والسلام۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) الأصل في الأشياء الاباحة (قواعد الفقه ص 59)

الأمور بمقاصدها (الاشباه والنظائر لابن نجيم المصري)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى، خَالِفُوا الْمَجُوسَ ". (صحيح مسلم رقم الحديث ٢٦٠ كِتَابٌ : الطَّهَارَةُ  | بَابٌ : خِصَالُ الْفِطْرَةِ )

قَالَ رُكَانَةُ : وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " فَرْقُ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ الْعَمَائِمُ عَلَى الْقَلَانِسِ ". 

(كِتَابٌ : اللِّبَاسُ  رقم الحديث ٣٠٧٨ بَابٌ : فِي الْعَمَائِمِ)

”وعنہ (أي: عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ“ أي: مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، مثلاً: فِي اللِّبَاسِ وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِ․ ”فَہُو مِنْہُمْ“، أي: في الاثْمِ وَالْخَیْرِ“․ (مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۱۵۵، رشیدیة)

وَلَا نَتَشَبَّهَ بِهِمْ فِي شَيْءٍ مِنْ مَلَابِسِهِمْ، فِي قَلَنْسُوَةٍ، وَلَا عِمَامَةٍ، وَلَا نَعْلَيْنِ، وَلَا فَرْقِ شَعْرٍ، وَلَا نَتَكَلَّمَ بِكَلَامِهِمْ، وَلَا نَكْتَنِيَ بكُنَاهم، وَلَا نَرْكَبَ السُّرُوجَ، وَلَا نَتَقَلَّدَ السُّيُوفَ، وَلَا نَتَّخِذَ شَيْئًا مِنَ السِّلَاحِ، وَلَا نَحْمِلَهُ مَعَنَا، وَلَا نَنْقُشَ خَوَاتِيمَنَا بِالْعَرَبِيَّةِ، وَلَا نَبِيعَ الْخُمُورَ، وَأَنْ نَجُزَّ مَقَادِيمَ رُءُوسِنَا، وَأَنْ نَلْزَمَ زِينا حَيْثُمَا كُنَّا، وَأَنْ نَشُدَّ الزَّنَانِيرَ عَلَى أَوْسَاطِنَا، وَأَلَّا نُظْهِرَ الصَّلِيبَ عَلَى كَنَائِسِنَا، وَأَلَّا نُظْهِرَ صُلُبَنَا وَلَا كُتُبَنَا(٢٦) فِي شَيْءٍ مِنْ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ، وَلَا نَضْرِبَ نَوَاقِيسَنَا فِي كَنَائِسِنَا إِلَّا ضَرْبًا خَفِيًّا، وَأَلَّا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا بِالْقِرَاءَةِ فِي كَنَائِسِنَا فِي شَيْءٍ مِنْ حَضْرَةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا نُخْرِجَ شَعَانِينَ وَلَا بَاعُوثًا، وَلَا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا مَعَ مَوْتَانَا، وَلَا نُظْهِرَ النِّيرَانَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ مِنْ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ، وَلَا نُجَاوِرَهُمْ بِمَوْتَانَا، وَلَا نَتَّخِذَ مِنَ الرَّقِيقِ مَا جَرَى عَلَيْهِ سِهَامُ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنْ نُرْشِدَ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا نَطَّلِعَ عَلَيْهِمْ فِي منازلهم. (تفسير ابن كثير سورة التوبة ٢٩)

وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ".

حكم الحديث: صحيح. (سنن أبي داود رقم الحديث 4607 أَوْلُ كِتَابِ السُّنَّةِ  | بَابٌ : فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 13/3/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

دماغی دورہ کی وجہ سے طلاق دینا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1445🖋️

(کتاب الطلاق، اسباب طلاق)

دماغی دورہ کی وجہ سے طلاق دینا

سوال: نکاح کے بعد لڑکی کے دماغی مرض (مرگی اور دماغی دورہ وغیرہ) میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا جس میں بے ہوشی وغیرہ طاری ہو جاتی ہے اور ممکن ہے کہ کسی بھی وقت کوئی حادثہ درپیش ہوجائے جس میں جان کا بھی خطرہ ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح کے کئی سال پہلے سے لڑکی کا ماہر نفسیات کا بھی علاج شروع ہے حتی کہ اسے پاگل خانے میں بھی بھرتی کیا گیا تھا لہٰذا لڑکی کی سرپرست (والدہ) سے رابطہ کیا گیا کہ نکاح کے پہلے آپ نے اس مرض کے متعلق آگاہ کیوں نہیں کیا تو وہ فرمانے لگی کہ "میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں مگر میں مجبور تھی کہ کہیں رشتہ نہ ٹوٹ جائے" 

مختصراً یہ کہ صورت مسئولہ میں لڑکے کے لئے (طلاق یا علیٰحدگی وغیرہ کے متعلق) کیا رہنمائی ہے مرحمت فرمائیں عنایت ہوگی. (سائل: میر نوید علی جلگاؤں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

طلاق اسلامی شریعت میں بہت مکروہ چیز سمجھی گئ ہے، حدیث مبارکہ میں اسے ابغض الحلال بتایا گیا ہے؛ اس لیے حتیٰ الامکان طلاق سے بچنا چاہیے، تاہم بسااوقات طلاق ایک ضرورت بن جاتی ہے اس لیے اس کی اجازت بھی دی گئی ہے، طلاق کے سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ طلاق اس وقت دینی چاہیے جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو یعنی زوجین میں نبھاؤ کی صورت بالکل نہ بن پارہی ہو۔

فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ طلاق اس وقت دینی چاہیے جب بیوی کی بدسلوکی سے آدمی پریشان ہوجائے یا وہ اس کی ایذا سے تنگ آجائے، صورت مسئولہ میں اگر دماغی حالت ایسی ہو کہ آدمی اپنی بیوی سے جنسی تعلقات قائم نہ کرپاتا ہو یا اس کے دماغی توازن میں کمی کی وجہ سے جان مال کا شدید خطرہ ہو تو طلاق دے سکتا ہے، اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ طلاق نہ دی جائے؛ بلکہ ضرورت محسوس ہو اور وسعت ہو تو دوسری شادی کرلی جائے اور دونوں بیویوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کا برتاؤ رکھا جائے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ ". (سنن أبي داود رقم الحديث ٢١٧٨ كِتَابٌ : الطَّلَاقُ  | بَابٌ : فِي كَرَاهِيةِ الطَّلَاقِ)

والأولى أن يكون لحاجة كسوء سلوك الزوجة أوإيذائها أحداً، لما فيه من قطع الألفة، وهدم سنة الاجتماع، والتعريض للفساد، ولقوله تعالى: {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلاً} [النساء:٣٤/ ٤] (الفقه الإسلامي و أدلته 2921/9 الأحوال الشخصية)

لأن الطلاق لغير حاجة كفر بنعمة الزواج، وإيذاء محض بالزوجة وأهلها وأولادها. (الفقه الإسلامي و أدلته 2921/9 الأحوال الشخصية)

فَٱنكِحُوا۟ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَاۤءِ مَثۡنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُبَـٰعَۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تَعۡدِلُوا۟ فَوَ ٰ⁠حِدَةً أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَیۡمَـٰنُكُمۡۚ ذَ ٰ⁠لِكَ أَدۡنَىٰۤ أَلَّا تَعُولُوا۟ (النساء 3)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 28/7/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

منگل، 30 اگست، 2022

حج میں دم فوری دینا ہے یا تاخیر بھی درست ہے

 ⚖سوال و جواب⚖

🕋مسئلہ نمبر 898🕋

(کتاب الحج، باب الھدی)


 حج میں دم فوری دینا ہے یا تاخیر بھی درست ہے 

 سوال: اگر حج یا عمرہ میں دم واجب ہوجائے تو دم فوری واجب ہے یا تاخیر کی جاسکتی ہے؟ (مفتی عبد الرحمٰن قاسمی، حیدرآباد)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق


حج میں کسی جنایت کی بنا پر اگر دم واجب ہوجائے تو اس دم کو حدودِ حرم میں دینا واجب ہے؛ حدود حرم سے باہر دم دینے سے واجب ادا نہیں ہوگا، البتہ دم کی ادائیگی کے لئے وقت کی تعیین نہیں ہے، تاخیر سے بھی حسب سہولت جب چاہیں دم دے سکتے ہیں، فقہاء کرام نے واضح طور پر اس مسئلے کو تحریر فرمایا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج 33)

 و يجوز ذبح بقية الهدايا في أي وقت شاء، و لا يجوز ذبح الهدايا إلا في الحرم. (المختصر للقدوري ص ٧٠ كتاب الحج، باب الحج)

فخصه بمكان و لم يخصه بزمان، و لأنه دم كفارة حتى لا يجوز الأكل الأكل منه، فيختص بالمكان دون الزمان كدماء الكفارات. (المعتصر الضروري مع مختصر القدوري ص ٢٤٧ كتاب الحج باب الاحصار)

انوارِ مناسک ٢٢٠ احرام کی پابندیاں اور امور ممنوعہ ط مکتبۂ یوسفیہ دیوبند


 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 22/12/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate