پیر، 12 ستمبر، 2022

بسم اللّٰہ کی جگہ 786 لکھنے کا حکم اور اس کا صحیح عدد

 ☪سوال و جواب☪

⬇مسئلہ نمبر 786⬇

(کتاب العلم، متفرقات)

 بسم اللّٰہ کی جگہ 786 لکھنے کا حکم اور اس کا صحیح عدد 

سوال: بعض حضرات بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کی جگہ 786 لکھتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہری کرشنا کا عدد ہے کیا یہ درست ہے؟ شرعی نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے لیے 786 لکھنے کا کیا حکم ہوگا؟ برائے مہربانی مدلل و باحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔ (عبد الحلیم ثاقبی بہرائچی، متعلم شعبہ افتاء جامعہ ہتھوڑا باندہ)

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن مجید کی ایک اہم نہایت بامعنی اور بابرکت آیت ہے، قرآن مجید کی سورہ نمل آیت نمبر ٣٠ میں یہ آیتِ قرآنی آیت کے طور پر موجود ہے۔

کتابت و تحریر کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی نہیں؛ بلکہ اس سے پہلے سے بھی بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز کی بات موجود ہے، اس کی واضح طور پر سب سے پہلی شہادت ہمیں حضرت سلیمان علیہ السلام سے معلوم ہوتی ہے، جب آپ علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو خط لکھا تھا تو بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز فرمایا تھا۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عرب و عجم کو پیغام خداوندی بھیجا تو اپنے خطوط کی ابتدا بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے فرمائی، نیز آپ ﷺ کے بعد سے آج تک کے تمام اصحابِ علم و فن کا معمول اپنی تحریر و تقریر میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز کا رہا ہے؛ اس لیے اصل حکم یہی ہے کہ آدمی جب بھی کوئی اچھا کام کرے یا تحریر و تقریر کی ابتدا کرے تو پورا بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے یا لکھے۔

لیکن بعض مرتبہ سخت اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں آیت مبارکہ کی توہین نہ ہو؛ اس لیے بعض اہل نظر نے بجائے آیت کے اس کا عدد نکالا اور اس کا استعمال شروع کیا، یہ عدد عموما 786 لکھا جاتا ہے؛ لیکن اس کے اعداد 786 اس وقت ہونگے جب حروفِ مکتوبہ کے اعتبار سے نکالا جائے نا کہ حروف ملفوظہ کے اعتبار سے؛ یعنی بولنے میں اللہ اور رحمن میں کھڑا زبر بولا جاتا ہے جب کہ لکھنے میں عموما لکھا نہیں جاتا؛ چنانچہ 786 کا عدد اس وقت نکلے گا جب بغیر کھڑا زبر کے نکالا جائے، ذیل میں حروف اور اعداد کا نقشہ لکھا جاتا ہے تاکہ سمجھنا آسان ہو:

ب 2

س 60

م 40

ا 1

ل 30

ل 30

ھ 5

ا 1

ل 30

ر 200

ح 8

م 40

ن 50

ا 1

ل 30

ر 200

ح 8

ی 10

م 40

کل-----

ہوا 786

اسی طرح 786 کا عدد ہری کرشنا کا بھی نکلتا ہے۔ ذیل میں اس کا نقشہ بھی ملاحظہ ہو:

ھ 5

ر 200

ی 10

ک 20

ر 200

ش 300

ن 50

ا 1

کل-----

ہوا  786

خلاصہ ایں کہ جس طرح ہری کرشنا کا عدد 786 نکلتا ہے؛ اسی طرح بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کا بھی عدد 786 نکلتا ہے، اسی لئے متعدد اہل علم و اصحاب فتاویٰ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بجائے 786 لکھنے کو بہتر قرار نہیں دیا ہے؛ مگر جائز ضرور کہا ہے؛ چنانچہ فتاوی دارالعلوم دیوبند کی صراحت اس بابت بایں الفاظ ہے:

"جو لوگ بسم اللہ کی جگہ اس کا نقش 786 لکھتے ہیں وہ محض قرآنی آیت کو بے ادبی سے بچانے کے لیے لکھتے ہیں ان کا یہ عمل بھی درست ہے" (فتاوی دارالعلوم دیوبند فتوی: 562/ ب= 451/ ب)

اسی طرح مفتی نظام الدین صاحب سابق مفتی دار العلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں:

"اگر کوئی شخص اس آیت کریمہ کو موقع ذلت واہانت میں پڑنے سے بچانے کی نیت سے بجائے آیت کریمہ کے 786 لکھ دے تو 

الأمور بمقاصدھا 

کے مطابق بلاشبہ جائز رہے گا" (نظام الفتاویٰ: ج۱ ص۳۹۵۵)

نیز فتاوی عثمانی میں فقیہ وقت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:

'صرف زبان سے کہنے پر اکتفاء کرے یا ۷۸۶ ایک علامت بسم اللہ ہونیکی حیثیت سے لکھ دے" (فتاوی عثمانی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 144 ,145)

مشہور عالم دین حضرت مولانا یوسف لدھیانوی سے فرماتے ہیں:

  "786 بسم اللہ شریف کے عدد ہے. بزرگوں سے اسکے لکھنے کا معمول چلا آرہاہے، غالبا اسکو رواج اسلئے دیاہوکہ خطوط عام طور پر بھاڑ کر پھینک دئیے جاتے ہیں"۔ (آپکے مسائل اور انکا حل جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 384)

فقیہ زمانہ حضرت مفتی محمود صاحب گنگوھی رقمطراز ہیں:

"بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ثواب   786 لکھنے سے نہیں ملے گا، یہ بسم اللہ کا عدد ہے جن سے اشارہ ہوسکتا ہے (فتاوی محمودیہ

جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 3400 کتاب العلم)

اس لیے اس کا لکھنا جائز ہے، لیکن بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم لکھنے کا جو ثواب اور اس کی جو برکت ہے وہ حاصل نہیں ہوگی۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

دیکھئے: فتاوی دارالعلوم زکریا جنوبی افریقہ ٨٠٩/٧ قاموس الفقہ ٤٦٢/٣ تسمیہ، جواہر الفقہ ١٨٧/٢ احکام و خواص بسم اللہ، احسن الفتاوی ٢٤/٨ علمی مکاتیب ص ٨٩ وغیرہ

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

 مورخہ 29/8/1440

 رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ہفتہ، 10 ستمبر، 2022

ٹول ٹیکس (Toll Tex) لینے دینے کا شرعی حکم

 ⚖سوال و جواب⚖

🛣مسئلہ نمبر 834🛣

(کتاب الحظر و الاباحہ، متفرقات)

 ٹول ٹیکس (Toll Tex) 

لینے دینے کا شرعی حکم 

 سوال: سڑکوں پر ایک نظام ہوتا ہے جہاں ہم اپنی گاڑی گذارنا چاہیں تو کچھ پیسے ڈالنے پڑتے ہیں جیسے واشی میں آپ نے دیکھا ہوگا، یہ نظام تقریبا تمام شہروں میں ہوتا ہے اگر ہم اپنے گاؤں سے پٹنہ جانا چاہیں تو تین جگہ اس طرح ٹیکس بھرنا پڑتا معلوم یہ کرنا ہیکہ یہ ظالمانہ ٹیکس میں شامل ہے یا نہیں؟ (مفتی اجمل صاحب قاسمی، اندھیری ممبئی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء اسلام کے زمانے میں عوامی ضروریات کی تکمیل، غرباء ومساکین کی تمویل، اور سڑک راستے پل وغیرہ کی تعمیر کے لئے بیت المال کا نہایت اہم اور کارآمد شعبہ قائم تھا، جس سے مذکورہ بالا تمام ضروریات کی تکمیل ہوتی رہتی تھی؛ بیت المال میں جو رقوم یا چیزیں آتی تھیں وہ کئی مدات سے آتی تھیں مثلاً خمس غنائم، مال فیئ، خمس معادن و رکاز، خراج و جزیہ اور ضوائع یعنی لاوارث مال اور لاوارث کی میراث وغیرہ سے؛ لیکن اب خلافت یا صحیح اسلامی حکومت کا زمانہ رہا نہیں؛ اس لیے وہ نظام بھی باقی نہیں ہے، اس دور میں مذکورہ بالا ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حکومتوں نے ٹیکس کا نظام قائم کر رکھا ہے اور ٹیکس سے حاصل شدہ رقوم سے یہ ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

اب ظاہر ہے کہ اگر ٹیکس مناسب انداز میں لیا جائے جس سے عوام کو نقصان نہ ہو اور ساری ضروریات کی تکمیل بھی ہوتی رہے تو اس میں حرج نہیں؛ لیکن اگر ٹیکس کے نام پر عوام کو لوٹنے کی کوشش کی جائے اور ٹیکس کی شرح اس قدر زیادہ کردی جائے کہ عوام اسے ظلم تصور کرے اور ظلم سے تعبیر کرے جیسا کہ بہت سے ملکوں میں انکم ٹیکس کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ اسے ظالمانہ ٹیکس کہنے میں یقینا کوئی اشکال نہیں تو ایسے ٹیکس بہرحال غلط ہیں چنانچہ انسان سے جہاں تک ممکن ہو بسہولت ان ٹیکسوں سے اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کرسکتا ہے، اس پر شرعاً کوئی ملامت نہیں ہے۔

جہاں تک تعلق ہے ٹول ٹیکس (Toll Tex) کا تو چونکہ یہ سڑک اور پل وغیرہ کی تعمیر میں آئے ہوئے اخراجات کو نکالنے کے مقصد کے لیے لگایا جاتا ہے، فی نفسہ یہ ٹیکس لگانا اور لینا دینا درست ھے، بطور خاص اس زمانے میں جبکہ ہائیوے اور فور لائن، سِکس لائن روڈ بن رہے ہیں اور بسااوقات بڑے بڑے پل اور برج بنانے پڑتے ہیں ظاہر ہے کہ اس میں بے تحاشا اخراجات آتے ہیں، ان اخراجات کی تکمیل کے لئے اس سے بہتر اور آسان دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا کہ اس راستے پر گزرنے والی گاڑیوں اور موٹر کاروں سے مناسب رقم وصول کی جائے، دوسری بات یہ بھی مد نظر رہے کہ کہ ٹول ٹیکس جب لگایا جاتا ہے تو تمام اخراجات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک متعینہ مدت کے لیے لگایا جاتا ہے اور جیسے ہی وہ رقم وصول ہوجاتی ہے قانونی طور پر اس ٹول کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے؛ حتیٰ کہ اگر ختم نہ کیا جائے تو عوام کو حق حاصل ہوتا ہے کہ احتجاجا اسے ختم کرائیں، احقر راقم الحروف کے علم میں ہے کہ ہمارے شہر کے ایک ٹول کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی کچھ دن قائم رہا تو عوام نے زبردستی اسے ختم کرایا؛ اس لیے حکومت کا اپنے اخراجات کے بقدر مناسب ٹیکس لینے میں حرج نہیں اور عوام کو بھی چاھیے کہ بخوشی وہ ٹیکس ادا کریں، ہاں اگر کہیں ٹیکس کی شرح اس قدر زیادہ ہو کہ عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو تو یقیناً وہ ظلم ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ( الدر المختار مع الشامی ۹/۲۹۱، کتاب الغصب ، مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر)

قال اللہ تعالیٰ : وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ۔ (سورۃ البقرۃ : آیت،۱۹۵)

عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ ﷺ: لیس للمؤمن أن یذل نفسہ، قالوا : یا رسول اللہ! وکیف یذل نفسہ؟ قال: یتعرض من البلاء لما لایطیق۔ (مسند البزار، مکتبہ العلوم والحکم ۷/۲۱۸، رقم: ۲۷۹۰)

ﻭ‍ﻃ‍‍ﺎ‍ﻋ‍‍ﺔ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺈ‍ﻣ‍‍ﺎ‍ﻡ‍ ‍ﻟ‍‍ﺎ‍ﺯ‍ﻣ‍‍ﺔ ‍ﻛ‍‍ﺬ‍ﺍ ‍ﻃ‍‍ﺎ‍ﻋ‍‍ﺘ‍‍ﻪ‍; ‍ﻟ‍‍ﺄ‍ﻧ‍‍ﻬ‍‍ﺎ ‍ﻃ‍‍ﺎ‍ﻋ‍‍ﺔ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺈ‍ﻣ‍‍ﺎ‍ﻡ‍, ‍ﺇ‍ﻟ‍‍ﺎ ‍ﺃ‍ﻥ‍ ‍ﻳ‍‍ﺄ‍ﻣ‍‍ﺮ‍ﻫ‍‍ﻢ‍ بمعصية (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٩٩/٧ دار الكتب العلميه بيروت)

طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجبة (رد المحتار على الدر المختار ٥٣/٣ كتاب الصلاة باب العيدين)

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء والتحقيق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 17/10/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعہ، 9 ستمبر، 2022

کیا جسم اطہر سے متصل زمین عرش و کرسی سے افضل ہے

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1396🖋️

(کتاب الحظر و الاباحہ، متفرقات)

کیا جسم اطہر سے متصل زمین عرش و کرسی سے افضل ہے

سوال: کیا یہ محقق بات ہے کہ مدینہ طیبہ کی وہ زمین جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے متصل ہے وہ ساری کائنات سے افضل ہے حتی (بیت اللہ شریف، آسمان، عرش معلی، کرسی، جنت) سے بھی افضل ہے اور اس کے بعد بیت اللہ شریف کا مقام ہے ؟ (عبید اللہ، بلوچستان)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا سوال کا کوئی واضح جواب قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے کہ عرش و کرسی اور بیت اللہ شریف افضل ہے یا وہ مقام جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں وہ مقام افضل ہے؟ اس تقابل سے متعلق صراحتاً کوئی آیت یا روایت موجود نہیں ہے، نیز اس کا تعلق عقیدہ سے بھی نہیں ہے، بس یہ بات ایک مسئلہ تک محدود ہے، اس وجہ سے علماء کرام کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے، بعض علماء کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے مقام کو دیگر چیزوں کے مقابلے میں افضل نہیں سمجھتے ہیں؛ جبکہ أکثر علماء کرام جن میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مکاتبِ فکر کے صف اول کے علماء شامل ہیں، ان کی تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر جس مٹی سے مس ہے وہ مقام سب سے افضل ہے۔ اس طور پر گویا تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس کی افضلیت پر متفق ہیں، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ پر علماء کا اتفاق ہے، اس سلسلے میں امام مالک، ابن عقیل، ابنِ قیم، علامہ خفاجی، قاضی عیاض مالکی، امام نووی، تاج الدین فاکہی، تاج الدین سبکی، علامہ محمد برنسی، امام سخاوی، جلال الدین سیوطی، علامہ ماوردی، علامہ رملی، علامہ مناوی، علامہ حصکفی، امام شامی سب کی واضح عبارات موجود ہیں دلائل کے ضمن میں سب کی عبارات دیکھی جاسکتی ہیں(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) ’’وَكَانَ مَالِكٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ مَنْ فَضَّلَ الْمَدِينَةَ عَلَى مَكَّةَ إِنِّي لَا أَعْلَمُ بُقْعَةً فِيهَا قَبْرُ نَبِيٍّ مَعْرُوفٍ غَيْرَهَا‘‘ (التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيد: ج۲، ص۲۸۹)

’’قاله ابن عبد البر وغيره، وأفضل بقاعها الكعبة المشرفة ثم بيت خديجة بعد المسجد الحرام، نعم التربة التي ضمت أعضاء سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من جميع ما مر حتى من العرش‘‘ (البجيرمی على الخطيب: ج۱، ص۱۰۱)

’’ الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْ مُجَرَّدِ الْحُجْرَةِ، فَأَمَّا وَالنَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِيهَا؛ فَلَا وَاَللَّهِ وَلَا الْعَرْشُ وَحَمَلَتُهُ وَالْجَنَّةُ، لِأَنَّ بِالْحُجْرَةِ جَسَدًا لَوْ وُزِنَ بِهِ لَرَجَحَ‘‘ (كتاب الفنون لابن عقيل بحوالہ؛ بدائع الفوائدلابن القیم :ج۳، ص۶۵۵؛ الروض المربع شرح زاد المستقنع: ص۲۶۹؛ الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف: ج۳، ص۵۶۲)

’’قال الشيخ الخفَّاجي ينقل عن الإمام السبكي وسلطان العلماء العز ابن عبد السلامويقرهم على قولهم۔ قال القاضي عياض اليحصبي في كتابه الشفا: ولا خلاف أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض۔ فعلَّق عليه الشيخ الخفَّاجي۔ بل أفضل من السموات والعرش والكعبة كما نقله السبكي رحمة الله‘‘ (الشفا بتعريف حقوق المصطفىٰ للقاضی عياض: ج۱، ص۶۸۳؛ نسيم الرياض فی شرح شفاء القاضی عياض: ج۳، ص۵۳۱؛ الضياء الشمسی على الفتح القدسی شرح ورد السحر للبكری: ج۲، ۲۴۱؛ سلسلة المحاضرات العلمية والتربوية: ج۱، ص۸۵)

’’قال القاضي عياض: أجمعوا على أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض، وأن مكة والمدينة أفضل بقاع الأرض. (فتح المنعم شرح صحيح مسلم: ج۵، ص ۴۶۸)

قَالَ النَّوَوِيُّ: الْجُمْهُورُ عَلَى تَفْضِيلِ السَّمَاءِ عَلَى الْأَرْضِ أَيْ مَا عَدَا مَا ضَمَّ الْأَعْضَاءَ الشَّرِيفَةَ. (مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳)

’’وقال التاج الفاكهي: قالوا: لا خلاف أن البقعة التي ضمت الأعضاء الشريفة أفضل بقاع الأرض على الإطلاق حتى موضع الكعبة‘‘۔ (وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۸)

’’أَلَا تَرَى إلَى مَا وَقَعَ مِنْ الْإِجْمَاعِ عَلَى أَنَّ أَفْضَلَ الْبِقَاعِ الْمَوْضِعُ الَّذِي ضَمَّ أَعْضَاءَهُ الْكَرِيمَةِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ، وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَفْضَلُ مِنْ الْكَعْبَةِ وَغَيْرِهَا‘‘۔  (المدخل لابن الحاج: ص۲۵۷)

’’قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟ فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل، وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح‘‘۔ (بدائع الفوائد :ج۱، ص۱۰۶۵)

’’كَمَا حَكَى الْقَاضِي عِيَاضٌ الْإِجْمَاعَ عَلَى ذَلِكَ أَنَّ الْمَوْضِعَ الَّذِي ضَمَّ أَعْضَاءَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا خِلَافَ فِي كَوْنِهِ أَفْضَلَ وَأَنَّهُ مُسْتَثْنًى مِنْ قَوْلِ الشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَفِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ مَكَّةَ أَفْضَلُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَنَظَمَ بَعْضُهُمْ فِي ذَلِكَ: وَرَأَيْت جَمَاعَةً يَسْتَشْكِلُونَ نَقْلَ هَذَا الْإِجْمَاعِ‘‘۔ (فتاوى السبكی: ج۱، ص۲۷۹)

’’واجمعوا علی ان الموضع الذی ضم اعضاء الرسول المصطفیٰﷺ المشرفۃ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ کما قالہ القاضی عیاض وابن عساکر‘‘۔  (تحقيق النصرة بتلخيص معالم دار الهجرة: ص۱۰۴)

’’وقد احتج أبو بكر الأبهري المالكي بأن المدينة أفضل من مكة بأن النبي صلى الله عليه وسلم مخلوق من تربة المدينة وهو أفضل البشر، فكانت تربته أفضل الترب انتهى وكون تربته أفضل الترب لا نزاع فيه‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری: ج۱۳، ص۳۲۰)

’’قال الشيخ مُحَمَّد البرنسي الفاسي الْمَعْرُوف بزرُّوق المالكي في شرح الرسالة: وقال ابن وهب وابن حبيب بالعكس بعد إجماعهم على أن موضع قبره عليه الصلاة والسلام أفضل بقاع الأرض قُلْتُ وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ مَوْضِعُ الْبَيْتِ بَعْدَهُ كَذَلِكَ، وَلَكِنْ لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ لِأَحَدٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ فَانْظُرْهُ‘‘ (شرح زروق على متن الرسالة: ص ۹۹۲)

’’قال الإمام السخاوي في التحفة اللطيفة: مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته صلى الله عليه وسلم، حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة، بل على العرش، فيما صرح به ابن ععقيل من الحنابلة۔ ولا شك أن مواضع الأنبياء وأرواحهم أشرف مما سواها من الأرض والسماء، والقبر الشريف أفضلها، لما تتنزل عليه من الرحمة والرضوان والملائكة، التي لا يعملها إلا مانحها، ولساكنه عند الله من المحبة والاصطفاء ما تقصر العقول عن إدراكه‘‘۔ ( التحفة اللطيفة فی تاريخ المدينة الشريفة السخاوی: ج۱، ص۴۲)

’’قال جلال الدین سیوطی رحمه الله: قَالَ الْعلمَاء مَحل الْخلاف فِي التَّفْضِيل بَين مَكَّة وَالْمَدينَة فِي غير قَبره صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أما هُوَ وَأفضل الْبِقَاع بِالْإِجْمَاع بلة أفضل من الْكَعْبَة بل ذكر ابْن عقيل الْحَنْبَلِيّ أَنه أفضل من الْعَرْش‘ (الخصائص الكبرى للإمام السيوطی: ج۲، ص۳۵۱)

’’قال شمس الدين الشامي الشافعي في سبل الهدى والرشاد: قال القاضي عياض بعد حكاية الخلاف: ولا خلاف أن موضع قبره- صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض انتهى۔ ولا ريب أن نبينا- صلى الله عليه وسلم- أفضل المخلوقات، فليس في المخلوقات على الله تعالى أكرم منه، لا في العالم العلويّ ولا في العالم السفليّ كما تقدم في الباب الأول من الخصائص‘‘۔ (سبل الهدى والرشاد فی سيرة خير العباد: ج۱۲، ۳۵۳)

نَقَلَ عِيَاضٌ وَقَبْلَهُ أَبُو الْوَلِيدِ وَالْبَاجِيُّ وَغَيْرُهُمَا الْإِجْمَاعَ عَلَى تَفْضِيلِ مَا ضَمَّ الْأَعْضَاءَ الشَّرِيفَةَ عَلَى الْكَعْبَةِ بَلْ نَقَلَ التَّاجُ السُّبْكِيُّ عَنْ ابْنِ عَقِيلٍ الْحَنْبَلِيِّ أَنَّهَا أَفْضَلُ مِنْ الْعَرْشِ، وَصَرَّحَ التَّاجُ الْفَاكِهِيُّ بِتَفْضِيلِهَا عَلَى السَّمَوَاتِ، (مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳)

’أن موضع قبره الشريف ﷺ أفضل بقاع الأرض، وهو  أفضل الخلق وأكرمهم على الله تعالى ۔۔۔  فاذا تقرر أنه أفضل المخلوقين وأن تربته أفضل بقاع الأرض. (تاريخ المدينة لقطب الدين النهروانی: ص۱۸۶)

’’وقال الشيخ شمس الدین الرملي المصري الشافعي نقله الشوبري في حاشيته على أسنى المطالب: وَمَحَلُّ التَّفَاضُلِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ مَوْضِعِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا هُوَ فَأَفْضَلُ بِالْإِجْمَاعِ. (أسنى المطالب فی شرح روض الطالب وبهامشه حاشية الرملی تجريد الشوبری: ج۵، ص۴۳۵)

’’قام الاجماع ان ھٰذا الموضع الذی ضم اعضاء الشریفۃﷺ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ الشریفۃ قال بعضھم وافضل من بقاع السمٰوٰت حتی من العرش‘‘۔ (سیرۃ حلبیہ [اردو]: ج ۲ ص ۸۵)

’’وقال زين العابدين الحدادي ثم المناوي القاهري في شرحه المسمَّى فيض القدير: والخلاف فيما عدا الكعبة فهي أفضل من المدينة اتفاقا خلا البقعة التي ضمت أعضاء الرسول صلى الله عليه وسلم فهي أفضل حتى من الكعبة كما حكى عياض الإجماع عليه‘‘۔  (فيض القدير شرح الجامع الصغير: ج ۶ ص ۲۶۴)

ومكة أفضل منها على الراجح إلا ما ضم أعضاءه عليه الصلاة والسلام فإنه أفضل مطلقا حتى من الكعبة والعرش والكرسي. ۔ (مجمع الأنهر فی شرح ملتقى الأبحر: ج۱، ص۳۱۲)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 8/6/1442

رابطہ 9 

Share

ہبہ کیئے گئے مکان کو واپس کرنا

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1324🖋️

(کتاب النکاح، متفرقات)

ہبہ کیئے گئے مکان کو واپس کرنا

سوال :-  میری ایک بہن ہے ۔ جن کے شوہر نے  بہت ۔ بہت پہلے ۔ آج سے تقریبا 15 ۔ 17 سال پہلے  ان کو چھوڑ دیا تھا ۔ طلاق تو نہیں دی ۔ لیکن  ۔ بس ۔ بے یار و مددگار چھوڑدیا تھا ۔ ۔۔۔ ان کے شوہر نہ آتے تھے ۔ اور نہیں  کوئی نان نفقہ ۔خرچہ پانی ۔ دیتے تھے ۔ نہ حال احوال پوچھتے تھے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ 

میری اس بہن کے ۔ 4  بیٹیاں ۔ اور ۔ 1 بیٹا ہے ۔ ۔۔۔ 

میری بہن نے ۔ ۔۔ گھروں میں کام کاز کرکے ۔ اپنی اولاد کی پرورش کی ۔ کرایہ کے گھر پر رہکر گھر کا کرایہ بھی دیا ۔ اور ۔  تین بیٹیوں کی شادی کی ۔ اور  بیٹے کو پڑھایا ۔ حافظ ۔ عالم بنایا ۔ اچھی جگہ کام پر لگایا ۔(امامت اور۔ مکتب ۔ دونو میں ۔ اچھا کماتا ہے) ۔   اور شادی بھی کی ۔۔۔۔ ۔۔ اب ایک بیٹی کی شادی باقی ہے ۔ بس ۔ 

مینے اپنی اس بہن کے لیے  ایک مکمل گھر بناکر دیا ۔ ۔ ۔ انکے حوالے کر دیا ۔۔۔ تاکے وہ سکون سے ایک جگہ رہ سکے ۔ اِدھر اُدھر  دھکے نہ کھائے ۔۔۔۔ 

لیکن جب بیٹے کی شادی کردی تو ۔۔۔ بیٹا اس کی بیوی کی ۔ اور اسکے سسرال کے گھر والوں کی  باتوں ۔ میں  آکر ۔ اس کی ماں کو تکلیف دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ برابھلا کہتا ہے ۔ گھر کا خرچہ بھی مکمل نہیں دے رہا ہے ۔۔۔

 اب اس سلسلے میں کچھ سوالات ہیں ۔ امید ہے کہ مکمل تفصیل سے جواب مرحمت فرمائیں گے ۔ 

1  :- میری بہن اپنے اس بیٹے کو اب الگ رہنے کو کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ تو اس صورت میں  بیٹے کے ذمہ ۔ اس کی ماں ۔ کا ۔اور اس کی  بہن کا خرچہ لازم ہوگا یا نہیں ؟  جو بہن  غیر شادی شدہ ہے ۔۔۔ 

2 :- جو گھر مینے بناکر دیا تھا اپنی اس بہن کو ۔ وہ گھر اب مجھے واپس کرنا چاہتی ہے ۔ تو کیا اسطرح واپس کرنا شرعا صحیح ہے ۔ ۔ ۔ اگر صحیح ہے تو اسکی کیا شکل ہے ؟ مثلا  صرف کہنا صحیح ہوگا  یا  باقاعدہ ملکیت میں لینا ہوگا ۔ اس کے لیے گھر کے دستاویز سے بہن کا نام نکال کر  اپنا نام دستاویز کرنا ہوگا ۔۔۔ یا صرف اس گھر میں جاکر قبضہ کرلینا کافی ہوگا ۔۔ ۔  نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی  ۔۔۔ ؟ 

3 :- میرے بہن کہہ رہی ہے  کے یہ گھر میں اس کو دوں گی جو میری  ۔دوا ۔ علاج ۔ خدمت ۔  کرے ۔۔۔  تو کیا اسطرح کہنا اور کرنا صحیح ہے ۔ اسطرح کسی ایک کو دے سکتے ہے ؟ کوئی گناہ ۔ ناجائز تو نہیں ہے  ۔۔ ؟ (المستفتی  :- عبداللہ ۔۔۔ متحدہ عرب امارات)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا صورت افسوسناک بھی ہے اور تکلیف دہ بھی، اللہ تعالیٰ انسانوں کو سمجھنے اور دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، جو سوالات اوپر کئے گئے ہیں ان کے بالترتیب جوابات یہ ہیں کہ جب عورت کا شوہر یا باپ خرچہ برداشت نہ کرے تو پھر بیٹا اور بھائی کا حق ہوتا ہے کہ وہ ان کے اخراجات کو برداشت کریں؛ اس لیے مذکورہ بالا صورت میں لڑکے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ماں اور بہن کا خرچہ برداشت کرے لیکن معتدل طریقہ یہ ہے کہ وہ بیٹے کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرے۔

اگر بہن اپنی رضامندی سے مصلحتاً مکان واپس کر رہی تو واپس کر سکتی ہے اور اس کو مکمل طور پر قبضہ دے دے اور کاغذات بھی اس کے نام کردے ورنہ بعد میں دقت آئے گی۔

زیادہ خدمت کرنے والے کو بھی دے سکتی بشرطیکہ زندگی میں ہی مالک بنا دے ورنہ مال میراث ہوسکتا ہے اور پھر شرعی طور پر تقسیم کرنا ہوگا۔

فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب

📚والدليل على ما قلنا📚

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية". ( الفتاوى الهندية 4/378 الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)

و في ظاهر الرواية: البنت البالغة و الغلام البالغ الزمن بمنزلة الصغير نفقته على الأب خاصة. (فتاوى قاضي خان ٢٦٧/١  كتاب النكاح فصل في النفقات)

قال: ويجبر الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا. (الفتاوى الهندية ٥٨٦/١ كتاب الطلاق باب النفقات، الفصل الخامس، زكريا جديد)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 25/3/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعرات، 8 ستمبر، 2022

مشترکہ زمینی کاروبار میں اختلاف اور اس کا حل

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1764🖋️

(کتاب البیوع جدید مسائل)

مشترکہ زمینی کاروبار میں اختلاف اور اس کا حل

سوال: تقریبا سو (100) لوگوں نے مل کر زمین کی پلاٹنگ کا کاروبارشروع کیا۔ اوربلا کسی معاوضہ کے رضاکارانہ  خدمات کے لیےشر کاء ہی میں سے پانچ(5) افرادکی ایک کمیٹی بنادی گئی۔ کمیٹی کی ذمہ داری میں یہ باتیں تھیں کہ:

1.وہ گراہکوں سے پلاٹوں وشیئرس کاسودا کریں گے۔

 2.اور پلاٹوں کی بڑھتی گھٹی قیمتوں کے بارے میں ماہ بہ ماہ  شرکاء(شیئرہولڈرس ) کومطلع کرتے رہیں گے. قیمتوں کی بنیاد پر شیئرس کی خرید وفروخت کے لیے شرکاء سے اجازت حاصل کی جائے گی۔ 

3.وہ ارکان کمیٹی اپنے شیئرس کے نفع ونقصان کے مالک ہوں گے، لیکن دوسرے شیئرس کے نفع ونقصان سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ 

4.جملہ زمین کے سلسلہ میں جوسرکاری یا میزبانی کے اخراجات ہوں گے وہ تمام شرکاء کے درمیان مشترک ہوں گے۔ کمیٹی والوں کو مستقل الگ سے کوئی جارج نہیں دیاجائے گا۔ ان کی خدمات رضاکارانہ ہوں گی۔ 

اس طرح شروع میں کئی زمینوں کی خرید وفروخت کر کے منافع کمایا گیا ۔ اورآخر میں ایک زمین خریدی گئی، لیکن:

1.اس زمین کے سلسلے میں اس کمیٹی نے شرکاء (شیئر ہولڈرس) کے سامنے زمینوں کی قیمت اوپن( واضح) نہیں کی۔

 2.نیز بغیرشیئرہولڈرس کی رائے لیے اپنی مرضی سے کمیٹی میں بعض دوسرے افراد کو شریک کرلیا۔

3.پھر بہت کم قیمت میں ارکان کمیٹی، یاان کی اولادوں ورشتہ داروں نے خود ہی لوگوں کے شیئرس خرید لیے۔ سوال یہ ہے کہ :

1.شیئرس کی قیمتوں ماہ بماہ اوپن کرنے کے بجائے  شیئرس ہولڈرس کی مرضی خلاف کم دام میں سودا کرنا کمیٹی کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ 

2۔ارکان کمیٹی جو کہ شرکا ء کے وکیل ہیں ، کیا وہ شیئرس ہولڈرس کی اجازت کے بغیرخود اپنے یا اپنی اولادوں کے لیے منتذ کرہ شیئرزخرید سکتے ہیں ۔ اگرارکان کمیٹی اور ان کی اولادیں شیئرز خریدتی ہیں،تو کیا یہ خریداری درست و نافذ ہے؟ 

3 - ارکان کمیٹی کی طرف سے کئے گئے بیع وشراء کایہ  معاملہ درست نہ ہونے کی صورت میں ارکان کمیٹی کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا سودے کو لوٹانا ضروری ہے؟ 

4۔ اگر یہ لوگ سودانہیں لوٹاتے ہیں تو قومی وملی اداروں میں کسی منصب اور عہدے کے قابل ہیں یا خائن قرار پاکر ملی وتنظیمی ذمہ داریوں  کے اہل نہیں رہیں گے ۔

 بینوا وتوجروا فقط والسلام 

المستفتی: ابومصعب ناگوری۔ 

مہدپور،اُجین، (ایم پی) 


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

بنیادی طور پر تمام شرکاء پر لازم تھا کہ جو وعدہ اور اصول شروع میں بنا دیا گیا تھا اس کی پاسداری کرتے، قرآن مجید میں بھی اس کی تاکید موجود ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی یہ بات آئی ہے کہ مسلمان اپنے وعدوں اور شرطوں پر پورا اتریں، اس لیے کمیٹی کے ارکان کے لئے شرطوں کی خلاف ورزی کرنا درست نہیں ہے۔

ارکان کمیٹی نے جو زمین بھی شرکاء کے پیسے سے خریدی ہے اس میں تمام شرکاء کا حصّہ حسب شرط ہے، اور اگر اراکین اس زمین کو خود خریدتے ہیں تو ان کے لیے خریدنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ اس صورت میں وہ خود بائع اور مشتری ہونگے اور ایک ہی شخص دونوں نہیں ہوسکتا ہے، نیز اگر وہ اپنے بچوں یا رشتہ داروں کے ہاتھ فروخت کرتے ہیں تو یہ بیع درست تو ہوگی مگر شرکاء کی اجازت پر موقوف رہے گی، اگر شرکاء اجازت دیتے ہیں تو درست ہوجائے گی ورنہ درست نہیں گی اور معاملہ ختم ہوجائے گا۔

نیز ارکان کمیٹی نے جو زمین خریدی ہے اگر وہ شرکاء کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو معاملہ فسخ کرسکتے ہیں بشرطیکہ بیچنے والا معاملہ ختم کرنے پر راضی ہو۔ واضح رہے کہ اگر ارکان کمیٹی نے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کیا ہے تو وہ کسی حد تک معذور ہونگے اور اگر جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو دل میں چور ہونے میں کیا شک ہے؟ ایسے حضرات کو اعلیٰ ذمہ داریاں دینا یا دینی امور تفویض کرنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مذکورہ حکم سوالنامہ کی روشنی میں لکھا گیا ہے، اگر معاملہ میں کچھ اور پیچیدگی ہے اور دیگر وجوہات ہیں جنہیں اس سوالنامہ میں ظاہر نہیں کیا گیا ہے تو اس کے ذمہ دار سائل حضرات ہیں۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١)  یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ أَوۡفُوا۟ بِٱلۡعُقُودِۚ (المائدة ١)

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ شُرُوطِهِمْ ". (صحيح البخاري  كِتَابٌ : الْإِجَارَةُ.  | بَابُ أَجْرِ السَّمْسَرَةِ)

لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه. (مجلة الأحكام العدلية مادة 96)

يلزم مراعاة الشرط بقدر الإمكان. (مجلة الأحكام العدلية مادة 83)

للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)

”و لو اشتری من جنس تجارتھما و اشھد عند الشراء انہ یشتریہ لنفسہ فھو مشترک بینھما لانہ فی النصف بمنزلۃ الوکیل بشراء شیء معین و لو اشتری مالیس من تجارتھما فھو لہ خاصۃ لان ھذا النوع من التجارۃ لم ینطو علیہ عقد الشرکۃ. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق کتاب الشرکۃ ، جلد 5 ، صفحہ 294 ، مطبوعہ کوئٹہ )

إن الموكل مخير و البيع موقوف على إجازته إن اجازه نفذ وإلا فلا. (النتف في الفتاوى 597/2)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 22/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

غیر مسلم میت کے سراد کا کھانا کھانا

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1766🖋️

(کتاب الحظر و الاباحہ، باب الاکل)

غیر مسلم میت کے سراد کا کھانا کھانا

 سوال: غیر مسلم میں کسی کا انتقال ہوتا ہے اور انکے گھر والے ( دس یا بارہ) دن کے بعد  دعوت دیکر جو کھانا کھلاتے ہیں کیا یہ کھانا کھانا مسلمانوں کےلئے جائز ہے یا نہیں؟ اس کھانے کو سراد کا کھانا بولتے ہیں۔ (عزیر لکھنؤ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ہندؤں کے یہاں جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کے ایصالِ ثواب کے لئے وہ کچھ لوگوں کو کھانا کھلاتے اور اسے تقسیم کرتے ہیں، نیز پنڈت اس کھانے پر منتر بھی پڑھتے ہیں؛ اس لیے ہندؤں کے یہاں کھانا کھلانے کی یہ صورت ان کا مذہبی عمل ہے اور مذہب کے دائرے میں انجام پاتا ہے؛ چنانچہ اس کھانے میں مسلمانوں کا شریک ہونا شرعاً صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مولانا محمد عبیداللہ سابق اننت رام کی کتاب تحفۃ الہند مفید ترین کتاب ہے(١) اس کتاب میں اس طرح کھانا کھلانے کو ہندوانہ رسم بتایا گیا ہے۔

” ہندوٴوں کے ہاں میت کو کھانے کا ثواب پہنچانے کا نام ’سرادھ‘ ہے اور جب سرادھ کا کھانا تیار ہو جائے تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ ’وید ‘ پڑھواتے ہیں اور مُردوں کے لیے ثواب پہنچانے کے لیے ان کے ہاں خاص دن مقرر ہیں، خصوصاً جس دن (وہ ) فوت ہو ، ہر سال اسی دن ختم دلانا یعنی برسی یا موت کے تیرھویں دن، بعض کے نزدیک پندرھویں دن اور بعض کے نزدیک تیسویں یا اکتیسویں دن، ثواب پہنچانے کے لیے مقرر ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی تیجہ، ساتواں، چالیسواں اور برسی مقرر کر لیے اور کھانا تیار کرواکر اس پر ختم پڑھوانا شروع کر دیا؛ حال آں کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان میں سے کوئی رسم بھی ثابت نہیں“(٢)


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ". (سنن أبي داود رقم الحديث ٤٠٣١ كِتَابٌ : اللِّبَاسُ  | بَابٌ : فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ)

وقال القاري: أي: من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق، أو الفجار، أو بأهل التصوف، والصلحاء الأبرار. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث ٤٠٣١)

(٢) تحفة الهند از عبیداللہ،  مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج : ۲۳ ، دارالاندلس، بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند  ‏، شمارہ 2، جلد: 99 ‏، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 24/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

منگل، 6 ستمبر، 2022

بکے ہوئے پلاٹ میں حصّہ مانگنا

⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1788🖋️

(کتاب الفرائض)

بکے ہوئے پلاٹ میں حصّہ مانگنا

سوال: آج سے بہت پہلے میں کراۓ کے مکان میں اپنی بیوی بچے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ 

4 بہنوں کی شادیاں کر دی تھی بھائی کوئی اور تھا نہیں والد او والدہ میرے ساتھ ہی ریتے تھے ۔ 

اس وقت میں نے ایک فلیٹ خریدنے کا ارادہ کیا اور میں نے کچھ پیسے اکٹھا کیا ایسے میں میرے والد نے اپنا ایک پلاٹ جو انکی ملکیت تھا بیچ کر ایک لاکھ مجھے دے دیا کہ ملا کر گھر خرید لو۔

سو میں نے کچھ جمع پونجی اور کچھ ہاؤس بلڈنگ سے لون لے کر فلیٹ اپنی بیگم یعنی والد صاحب کے بہو کے نام لے لیا۔ 

یہ بتانا ضروری ہے کہ والد صاحب نے یہ رقم ادھار یا قرض کے مد میں نہیں دیا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئ شرط رکھی تھی۔ 

پھر ہم سب یعنی میں بیوی بچے اور والدین اس میں شفٹ یوگۓ۔ جسمیں آج تک رہتے ہیں ۔ کافی عرصے بعد والد صاحب کا انتقال ہوگیا ۔ اور اب والدہ میرے ساتھ ہیں۔

مسئلہ اب یہ ہے کہ میری چھوٹی بہن اس بات کی دعویٰ دار ہے کہ وہ پلاٹ میرے باپ کا تھا ۔ اور میں اسکی وارث ہوں ۔ اسکی جو قیمت آج کی مارکیٹ میں بنتی ہے اس حساب سے انکا حصہ نکالا جاۓ۔ 

اب یہ ایک مشکل مرحلہ ہے ۔ مہربانی فرماکر رہنمائ فرمائیں ۔ 

اللہ آپکو جزاۓ خیر دے۔ آمین ۔ 

درخواست گذار 

(ڈاکٹر سعود۔ ہومیو، ممبئی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

سوالنامہ میں جو تفصیلات آنجناب نے لکھی ہیں اگر وہ بعینہٖ صحیح اور درست نہیں ہیں تو آپ کے والد نے جو ایک لاکھ روپے دییے تھے وہ بطورِ تعاون تھا جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ انہوں نے تاحیات اس کا مطالبہ آپ سے نہیں کیا، بہن کا یہ دعویٰ درست ہے کہ وہ پلاٹ اس کے باپ کا تھا لیکن جب باپ نے اپنی زندگی میں ہی اسے بیچ دیا اور اپنے ارادہ و اختیار سے جہاں مناسب سمجھا خرچ کردیا یا جس کو دینا تھا دے دیا تو اب وفات کے بعد اس کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ میراث صرف متروکات میں جاری ہوتی ہے۔ چنانچہ اس فلیٹ کے آپ حقدار ہیں اور مدعیہ ناحق ستا رہی ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا 📚

للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)

لأن التركة في الاصطلاح ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من المال. (رد المحتار على الدر المختار ٤٨٣/١٠ كتاب الفرائض)

إن الأصل الأول فی نظام المیراث الإسلامی: أن جمیع ما ترک المیت من أملاکہ میراث للورثۃ۔ (تکملۃ فتح الملہم اشرفیہ دیوبند ۲/۴)

"التبرع بذل المكلف مالا او منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالباً" (الموسوعة الفقهية ٦٥/١٠ باب التبرع)

"اتفقت الأمة على مشروعية التبرع، و لم ينكر على ذلك أحد" (الموسوعة الفقهية ٦٦/١٠)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 17/7/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

امامت اور تعلیم قرآن کا پیسہ لینا

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1791🖋️

(كتاب الإجارة باب الإجارة على الطاعات)

امامت اور تعلیم قرآن کا پیسہ لینا

سوال: بچوں کو فیس لیکر پڑھانا اور امام صاحب کا تنخواہ لینا کیسا ہے ؟ کچھ تبلیغی  لوگ اعتراض کرتے ہیں یہ کیسی دین کی خدمت ہے کہ نماز پڑھاتے ہیں اور تنخواہ لیتے ہیں 5بچوں کو قرآن و حدیث پڑھاتے ہیں فیس لیتے ہیں؟ (اسامہ ندوی، گجرات) 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

یہ بات درست ہے کہ امامت کرنا اور قرآن و حدیث پڑھانا عبادت ہے اور عبادت کی اجرت لینا درست نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور صحابہ کرام کے زمانے اور بعد میں جب تک خلافت اسلامیہ قائم رہی اور علماء و قراء کو بیت المال سے وظائف ملتے رہے امامت اور قرآن و حدیث پڑھانے کی اجرت لینے کا نا رواج تھا اور نا ہی اجرت لینا درست تھا، یہی وجہ ہے کہ متقدمین فقہاء کرام نے ان چیزوں پر اجرت لینے کو ناجائز قرار دیا ہے۔

لیکن بعد کے زمانے میں جسے متاخرین کا زمانہ کہا جاتا ہے جب حالات بدل گئے اور خلافتیں ختم ہوگئیں یا انہوں نے علماء و ائمہ کے تئیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا بند کردیا اور علماء کرام دینی خدمات اور طلب معیشت پر دو طرفہ مجبور ہوگیے تو اس دور کے فقہاء کرام نے فتویٰ دیا کہ چونکہ دونوں کام یک ساتھ ہونا عموما مشکل ہے اور آدمی ان دینی خدمات کے علاوہ معیشت کی سرگرمی بھی رکھے تو اس سے حرج شدید لاحق ہوتا تھا مثلاً امام کہیں بھی ہو تو نماز کے لیے وہ مسجد ضرور حاضر ہوتا ہے؛ جبکہ اگر وہ امام نہ ہو تو حسب سہولت کسی بھی مسجد میں نماز ادا کرکے اپنے کام انجام دے سکتا ہے، آجکل ہم لوگ خود مشاہدہ کرتے ہیں کہ جو لوگ دونوں چیزیں لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں عموما وہ اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کے شکار ہوتے ہیں؛ اس لیے علماء کی تنخواہیں مقرر کرنا اور ائمہ کو تنخواہیں دینا جائز قرار دیا گیا، اور اکابر اہل علم نے اس سلسلے میں فتویٰ ہے۔ اس لیے یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے، بلکہ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ عوام یا تو ائمہ و مدرسین کو اپنے ہدیہ تحائف سے اتنا مالا مال کردیں کہ انہیں تنخواہ کی ضرورت نہ رہے یا انہیں کوئی بہترین بزنس کرادیں جن سے ان کی ضرورت کی تکمیل ہو اور وہ فارغ البال ہوکر خدمت دین میں لگے رہیں، بصورت دیگر صرف زبانی جمع خرچ ہوگا اور زمانے سے ناواقفیت اور بے جا اعتراض کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب


📚والدليل على ما قلنا 📚

(١) قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شِبْلٍ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " اقْرَءُوا الْقُرْآنَ، وَلَا تَغْلُوا فِيهِ، وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ، وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ، وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِهِ ". (مسند أحمد رقم الحديث 15529 مُسْنَدُ الْمَكِّيِّينَ.  | زِيَادَةٌ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ)

نعم قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللہ تعالی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والإشتغال بہ یقل اکتسا بہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ فیأخذ الأجرة لئلا یمنعہ الاکتباس عن إقامة ہذہ الوظیفیة الشریعة ولولا ذالک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور، بل یکون جمع بین عبادتین: وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات․ (رد المحتار علی الدر المختار: ۲/۶۰ باب الأذان)

(قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم  إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.

(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار" ابن عابدين (رد المحتار 6/ 55 )

قال - رحمه الله -: "(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوابالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان" (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 8/ 22)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 20/7/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

پیر، 5 ستمبر، 2022

گوگل ایڈسینس (Google Adsense) اور یوٹیوب (Yuotube) کی کمائی کا تفصیلی حکم قسط اول

 

گوگل ایڈسینس اور یوٹیوب کی کمائی کا تفصیلی حکم

سوال

مفتی صاحب آپ کے دار الافتاء کا گوگل ایڈسینس کے بارے میں فتوی (65530/58)دیکھا جس میں اسے جائز کہا گیا ہے۔ آپ سے گفتگو کے دوران آپ نے بتایا کہ اس سے مراد ایڈسینس کی وہی خاص صورت ہے جس کے بارے میں سوال ہے۔ میری درخواست یہ ہے کہ ایڈ سینس کی تمام صورتوں کے بارے میں وضاحت فرما دیجیے۔

بنیادی طور پر گوگل ایڈسینس ان طریقوں سے کام کرتا ہے:

1.    ویب سائٹ کا مالک گوگل کو جگہ دیتا ہے اور گوگل جتنے لوگ اس ویب سائٹ کو وزٹ کریں ان کی تعداد کے مطابق مالک کو طے شدہ معاوضہ دیتا ہے۔

2.    ویب سائٹ کا مالک گوگل کو جگہ دیتا ہے اور گوگل جتنے لوگ اشتہار کو کلک کریں ان کا معاوضہ مالک کو دیتا ہے لیکن یہ معاوضہ گوگل کی اپنی کمائی کا فیصدی حصہ ہوتا ہے۔

3.    مختلف ویب سائٹس اور یوٹیوب پر ویڈیو اشتہارات کی جگہ دینے پر بھی گوگل مالک کو معاوضہ دیتا ہے۔

صورت حال کچھ یوں ہے کہ اگرچہ گوگل میں ناجائز کیٹگریز کو فلٹر کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود تجربہ یہ ہے کہ گوگل ناجائز اشتہارات چلا ہی دیتا ہے۔ نیز اشتہارات میں تصاویر بھی ہوتی ہیں جنہیں فلٹر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ویڈیو اشتہارات میں نامحرم کی ویڈیوز اور بیک گراؤنڈ میوزک اکثر ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایسے اشتہارات بھی ہوتے ہیں جنہیں دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ البتہ گوگل مہینے کے اختتام پر تمام اشتہارات مالک کو دیکھنے کی سہولت دیتا ہے جس میں مالک کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کون سے اشتہار کو آئندہ چلنے دے اور کون سے اشتہار کو چلانے سے گوگل کو منع کر دے۔

نیز یہ بھی بتائیے گا کہ اگر ان اشتہارات کے لیے جگہ دینا جائز ہے تو بھی اسلامی چینلز پر انہیں لگانا درست ہے یا نہیں کیوں کہ بسا اوقات کافی بیہودہ قسم کے اشتہارات اسلامی چینلز پر نظر آ رہے ہوتے ہیں۔

ایک بات کی مزید وضاحت کر دوں کہ گوگل کے الگورتھم کے مطابق اشتہار میں عموماً دو چیزوں کو دیکھا جاتا ہے:  جس ویب سائٹ پر لگا ہے اس کے موضوع کو اور کافی زیادہ حد تک ویب سائٹ کھولنے والے صارف کی سرچ ہسٹری کو۔ لیکن گوگل اس الگورتھم کا پابند نہیں ہوتا۔

جواب

اولاً بطور تمہید گوگل کے کام کرنے کا طریقہ کار ذکر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد تمام شقوں کا شرعی حکم مذکور ہوگا۔

گوگل ایڈ سینس گوگل کا ایک پراجیکٹ ہےجس میں گوگل مختلف لوگوں کی مختلف چیزوں (مثلاً ویب سائٹ، بلاگ، ایپلیکیشن ، ویڈیو، یوٹیوب چینل وغیرہ) پر ان کی اجازت سے اپنے اشتہار لگاتا ہے۔ اس اشتہار کے بدلے گوگل ویب سائٹ  اور ویڈیو وغیرہ کے مالک کو کچھ رقم ادا کرتا ہے۔ اس کی تفصیلات ذیل میں مذکور ہیں:

گوگل ایڈورڈ:

گوگل جو اشتہارات کسی ویب سائٹ یا ویڈیو پر دکھاتا ہے وہ کسی دوسرے کلائنٹ سے لیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے گوگل کا ایک پروگرام ہے جس کا نام "ایڈ ورڈ" ہے۔ جس کمپنی یا فرد نے اپنا کوئی اشتہار دینا ہوتا ہے وہ ایڈورڈ پر اکاؤنٹ بناتا ہے۔ گوگل اشتہار کی ہر جگہ کی بولی لگاتا ہے ۔ مثلاً ویب سائٹ کی سرخی پر اشتہار لگانے کے لیے اشتہار دینے والوں کے سامنے یہ بات رکھتا ہے کہ اس جگہ کے لیے کون کتنی رقم دے گا۔ جو شخص زیادہ رقم دیتا ہے اس کا اشتہار ایڈسینس کے ذریعے اس جگہ  چلاتا ہے۔ بعض اوقات یہ فیصلہ  رقم کی زیادتی کے علاوہ کسی اور بنیاد پر بھی کرتا ہے۔

گوگل کو اشتہار دینے والا یہ طے کرتا ہے کہ وہ ہر اشتہار کے کلک پر زیادہ سے زیادہ کتنی  رقم دے سکتا ہے۔ اسے Maximum CPC کہا جاتا ہے۔ گوگل بسااوقات مختلف اشیاء کی بنیاد پر اس سے کم رقم لیتا ہے جسے Actual CPC کہتے ہیں۔ البتہ اس سے زیادہ رقم نہیں لیتا۔ بسا اوقات یہ سسٹم روزانہ یا ماہانہ بجٹ کی بنیاد پر بھی رکھا جاتا ہے۔

ایڈورڈ میں گوگل اشتہار کی کیٹگری اور اس پر آنے والے یوزر کے حساب سے رقم مختلف مقرر کرتا ہے۔ مثلاً اگر  اشتہار انشورنس کا ہے تو اس کی اجرت مختلف ہوگی اور اگر مذہبی ہے تو اس کی مختلف ہوگی۔ نیز اگر اشتہار پر آنے والا کلائنٹ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش وغیرہ کے علاقے سے ہے تو اجرت مختلف ہوگی اور اگر امریکا یا کینیڈا سے ہے تو مختلف ہوگی۔

گوگل یہ بھی بتاتا ہے کہ اندازاً ایک اشتہار کو کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنے لوگ دیکھیں گے۔

رقم کی وصولی کی صورتیں:

 اس معاملے میں گوگل  نے مختلف سسٹم تیار کیے ہوئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

ایڈ امپریشنز (Ad Impressions) : اس میں گوگل اشتہار دینے والے سے اشتہار ڈاؤن لوڈ ہونے پر رقم لیتا ہے۔جب کوئی شخص ویب سائٹ کھولتا ہے اور اس کے پاس کسی قسم کا ایڈ بلاکر بھی نہیں ہوتا تو اشتہار خود بخود اس کے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ ہو  جاتا ہے۔ گوگل ان اشتہارات پر اشتہار دینے والے سے رقم وصول کرتا ہے۔

کوسٹ پر انگیجمنٹ (Cost Per Engagement): اس طریقہ کار میں گوگل صرف ان اشتہارات پررقم وصول کرتا ہے جن میں ویب سائٹ کا صارف مصروف ہوا ہو۔ مثلاً اگر اشتہار ایسا ہو جو اپنی جگہ سے بڑھ کر پھیل جاتا ہو تو صارف نے کم از کم دو سیکنڈ تک اس پر کرسر رکھا ہو اور وہ پھیلا ہو۔

کوسٹ پر کلک (Cost Per Click): اس طریقہ کار میں گوگل ان اشتہارات پر رقم وصول کرتا ہے جن پر صارف نے کلک کیا ہو۔

گوگل اور مالک کا معاہدہ:

گوگل ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک سے حاصل شدہ رقم کے متعین فیصد کے مطابق معاہدہ کرتا ہے۔ یہ فیصد مختلف صورتوں میں مختلف ہوتی ہے لیکن اس کی باقاعدہ تعیین ہوتی ہے کہ کون سی صورت میں ایڈ پر ملنے والی رقم کتنے فیصد گوگل کی اور کتنے فیصد مالک کی ہوگی۔

اشتہارات کے انتخاب کا طریقہ کار:

گوگل کسی ویب سائٹ یا ویڈیو پر اشتہار عموماً تین چیزوں کی بنا پر لگاتا ہے:

1.    صارف کی سرچ ہسٹری کے مطابق: گوگل اکثر صارفین کی سرچ ہسٹری محفوظ رکھتا ہے اور اس کے مطابق انہیں ان کی پسند کے اشتہارات دکھاتا ہے۔

2.    موضوع کے مطابق: گوگل ویب سائٹ کے موضوع کے مطابق بھی اشتہارات لگاتا ہے۔

3.    مذکورہ بالا دونوں وجوہات کے علاوہ بھی گوگل مختلف اشتہارات دکھاتا رہتا ہے۔

رقم ادائیگی کی حد:

گوگل رقم اس وقت ادا کرتا ہے جب وہ 100 ڈالر یا اس سے زائد ہو جائے۔ البتہ اگر کوئی ویب سائٹ مالک اپنا اکاؤنٹ بند کرنا چاہے تو اسے 100 ڈالر سے کم ہونے کے باوجود رقم ادا کردی جاتی ہے۔

گوگل  ایڈ بلاک:

گوگل ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے اشتہارات کو ان کی کیٹگری کے حساب سے بلاک کر سکیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ویب سائٹ پر فنانس سے متعلق اشتہارات نہیں چاہتا تو وہ اس کیٹگری کو بلاک کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گوگل یہ آپشن بھی دیتا ہے کہ اشتہار چلنے کے بعد مالک انہیں دیکھ سکے اور ان میں سے اگر کسی اشتہار کو آئندہ کے لیے بلاک کرنا چاہے تو کر سکے۔

البتہ چونکہ یہ خود کار نظام ہے اور گوگل کا سسٹم تمام زبانیں نہیں سمجھ سکتا، نیز بعض اوقات وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ اشتہار دینے والی سائٹ کی کیٹگری کیا ہے یا اشتہار کے اندر کیا مخصوص شے غلط ہے اس لیےبسااوقات بلاک کی گئی کیٹگری کے اشتہارات بھی چل جاتے ہیں۔

اشتہارات کی اقسام:

بنیادی طور پر کسی ویب سائٹ یا کسی ویڈیو پر آنے والے اشتہارات تین قسم کے ہو سکتے ہیں:

1.    تحریری اشتہارات: ایسے اشتہارات جن میں کسی قسم کی تصویر موجود نہ ہو اور صرف تحریر پر ہی مشتمل ہوں۔

2.    تصویری اشتہارات: ایسے اشتہارات جو کسی چیز یا جاندار کی تصویر پر مشتمل ہوں۔ ان میں عموماً تحریر بھی موجود ہوتی ہے۔ بعض اشتہارات فلیش بیسڈ  ہوتے ہیں جو ماؤس کے کرسر کے ساتھ یا کسی اور فعل کے ساتھ حرکت کر سکتے ہیں لیکن  اصلاً وہ تصویری ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض اشتہارات متحرک اینیمیشن کی شکل میں ہوتے ہیں جن میں ایک تصویر بار بار مخصوص حرکت کر رہی ہوتی ہے۔

3.    ویڈیو اشتہارات: ایسے اشتہارات جو ویڈیو کی شکل میں ہوں۔ یہ اشتہارات الگ سے ویب سائٹ پر بھی لگ سکتے ہیں اور کسی ویڈیو میں شامل بھی کیے جا سکتے ہیں۔ یوٹیوب کی ویڈیوز پر موجود اشتہارات بھی اسی قسم میں شامل ہیں۔ ان اشتہارات کے بیک گراؤنڈ پر کوئی ساؤنڈ  عموماً لگایا جاتا ہے جو اکثر اوقات میوزک پر مشتمل ہوتا ہے۔

گوگل ایڈسینس میں بھی اشتہارات کی یہ تین اقسام موجود ہوتی ہیں البتہ بعض چیزوں میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے۔

شرعی حکم:

مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق اشتہار مالکان سے گوگل کے معاملے کی حیثیت شرعاً اجارے کی بنتی ہے جس میں گوگل اشتہار دینے والے کے لیے تو اجیر ہے مگر یہ خود آگے ویب سائٹ کے مالک سے جگہ لیتا ہے تو مستاجر بھی ہے۔ گوگل اور اشتہار دینے والے کے آپس میں معاہدے (ایڈ ورڈ) کی تین اقسام ہیں:

1.    ایڈ امپریشنز: اس میں منفعت لوگوں تک اشتہار کا پہنچانا ہے۔

2.    کوسٹ پر انگیجمنٹ: اس میں بھی منفعت لوگوں تک اشتہار پہنچانا ہے لیکن اس میں معاملہ یقینی منفعت پر ہے۔ یعنی جب کوئی شخص تصویر پر کرسر رکھے گا اور وہ پھیلے گی جس سے وہ اسے دیکھے گا تو گوگل اس کی رقم وصول کرے گا۔ یہاں یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ گوگل نے اس شخص تک اشتہار پہنچا دیا ہے۔ اگر کوئی شخص تصویر نہیں دیکھ پائے گا تو گوگل بھی اس کی اجرت نہیں لے گا۔

3.    کوسٹ پر کلک: اس میں منفعت  لوگوں کو ویب سائٹ پر لانا ہے۔ یہ منفعت مستاجر کو حاصل ہونے پر گوگل اجرت لیتا ہے۔

 اجارے میں منفعت اور اجرت کی ایسی تعیین ضروری ہے کہ جہالت کی وجہ سے اختلاف نہ ہو۔ چونکہ ایڈورڈ میں زیادہ سے زیادہ فی کلک رقم اور بجٹ معلوم ہوتا ہے اور منفعت اجارہ کلک، امپریشن یا انگیجمنٹ کی صورت میں متعین ہوتی ہے، نیز یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کم از کم کتنے کلک   ہوں گے لہذا اس میں مفضی الی النزاع جہالت نہیں ہے اور اس سے آنے والی آمدن شرعاً جائز ہے۔

گوگل اور ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک کے معاہدے (ایڈسینس) کی دو شرعی تکییفات کی جا سکتی ہیں:

اول: شرکت  الصنائع جس میں دونوں فریق اشتہار دینے والے کی مارکیٹنگ کے عمل میں شریک ہوتے ہیں اور اس کی اجرت آپس میں متعین فیصد کے مطابق تقسیم کرتے ہیں۔ اس میں اشکال یہ ہے کہ شرکت الصنائع میں شرعاً یہ لازم ہے کہ کسی ایک فریق کی طرف سے عمل قبول کرنے کی نفی نہ ہو۔ گوگل اور ویب سائٹ مالک کے درمیان اگرچہ صراحتاً ایسی کوئی بات طے نہیں ہوتی کہ ویب سائٹ یا ویڈیو مالک اشتہار قبول نہیں کر سکتا لیکن عملاً یہ بات طے شدہ سمجھی جاتی ہے کہ اگر مالک خود اشتہار لے گا تو گوگل اس پر اسے رقم ادا نہیں کرے گا۔ لہذا یہ تکییف محل نظر ہے۔

دوم: گوگل ویب سائٹ یا ویڈیو مالک سے اس کی ویب سائٹ، چینل یا ویڈیو پر جگہ اجارے پر لیتا ہے اور اس کی اجرت اسے ادا کرتا ہے۔ اس پر اشکال یہ ہے کہ گوگل اشتہار مالکان سے جو رقم لیتا ہے  اس میں سے ویب سائٹ مالکان کو فیصد کے لحاظ سے اجرت دیتا ہے جس کی وجہ سے اجرت میں جہالت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ سلسلہ معروف ہو چکا ہے اور اس جہالت کی وجہ سے آپس میں نزاع نہیں ہوتا لہذا  یہ اجارہ درست ہے۔  ویب سائٹ یا ویڈیو کے مالک کی رقم گوگل کے ذمے دین ہوتی ہے جو وہ 100 ڈالر یا اس سے زائد ہونے پر یکمشت ادا کرتا ہے۔ البتہ اس اجارے سے جو آمدن حاصل ہوتی ہے اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

تحریری و تصویری اشتہارات:

تحریری و تصویری اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدن تین شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1.    جس کاروبار کا اشتہار ہے وہ کاروبار جائز ہو۔ لہذا ان کیٹگریز کو فلٹر کر دیا جائے جو شرعاً جائز نہیں ہیں۔

2.    گوگل ایڈسینس اور ویب سائٹ کے مالک کے درمیان طے شدہ شرائط پر مکمل عمل کیا جائے اور ایسا کوئی فعل نہ کیا جائے جو معاہدے کے خلاف ہو۔

3.    کسی جائز پراڈکٹ کے اشتہار میں اگر گوگل کی طرف سے کوئی ناجائز مواد مثلاً فحش تصویر وغیرہ شامل کر دی جائے اور اس میں ویب سائٹ کے مالک کی اجازت یا رضامندی شامل نہ ہو تو مالک اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہذا اگر کیٹگریز فلٹر کرنے کے باوجود کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو کسی ناجائز کاروبار کی جانب لے جا رہا ہو یا ناجائز مواد (مثلاً نامحرم کی تصاویر) پر مشتمل ہو  تو اس کا گناہ ویب سائٹ مالک کو نہیں ہوگا۔ البتہ ایڈ ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کر دی جائے۔

.........................جاری

Share

گوگل ایڈسینس (Google Adsense) اور یوٹیوب (Yuotube) کی کمائی کا تفصیلی حکم قسط دوم

گوگل ایڈسینس اور یوٹیوب کی کمائی کا تفصیلی حکم


ویڈیو اشتہارات:

جو اشتہارات ویڈیو کی شکل میں ہوں ان کی آمدن مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1.    جس کاروبار کا اشتہار ہے وہ کاروبار جائز ہو۔ لہذا ان کیٹگریز کو فلٹر کر دیا جائے جو شرعاً جائز نہیں ہیں۔

2.    گوگل ایڈسینس اور ویب سائٹ کے مالک کے درمیان طے شدہ شرائط پر مکمل عمل کیا جائے اور ایسا کوئی فعل نہ کیا جائے جو معاہدے کے خلاف ہو۔

3.    کسی جائز پراڈکٹ کے اشتہار میں اگر گوگل کی طرف سے کوئی ناجائز مواد مثلاً فحش تصویر وغیرہ شامل کر دی جائے اور اس میں ویڈیو یا چینل کے مالک کی اجازت یا رضامندی شامل نہ ہو تو مالک اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہذا اگر کیٹگریز فلٹر کرنے کے باوجود کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو کسی ناجائز کاروبار کی جانب لے جا رہا ہو یا ناجائز مواد (مثلاً نامحرم کی تصاویر) پر مشتمل ہو  تو اس کا گناہ ویڈیو مالک کو نہیں ہوگا۔ البتہ ایڈ ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کر دی جائے۔

4.    بیک گراؤنڈ میوزک تکنیکی لحاظ سے ویڈیو سے الگ چیز ہے جسے ویڈیو میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ ویب سائٹ یا ویڈیو کا مالک گوگل ایڈسینس کو ویڈیو لگانے کے لیے اجارے کے طور پر جگہ دیتا ہے ، بیک گراؤنڈ میوزک لگانے کے لیےنہیں دیتا۔ لہذا اگر اشتہار کا مواد اور بنیادی کاروبار جائز ہو لیکن اس کے بیک گراؤنڈ میں میوزک ہو تو مالک پر لازم ہے کہ اولاً بذریعہ ای میل یا کسی اور طریقے سے صراحتاً گوگل کو میوزک  نہ لگانے کا کہے۔ اگر گوگل میوزک نہیں ہٹاتا  تو مالک اپنے چینل یا ویڈیو میں یہ تحریر کر دے کہ اشتہار کے وقت آواز بند کر دی جائے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص آواز بند نہیں کرتا تو اس کا گناہ مالک کو نہیں ہوگا اور اس کی آمدن جائز ہوگی۔

اسلامی چینل پر اشتہارات لگانا:

اگر کوئی شخص کسی اسلامی چینل پر تمام شرائط کا لحاظ کرکے اشتہارات لگاتا ہے تو یہ جائز ہے۔ لیکن چونکہ درمیان میں ایسے اشتہارات آ جاتے ہیں جو نامحرم کی تصاویر اور میوزک وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں اور دینی گفتگو و تقاریر کے درمیان یہ چیزیں شروع  ہو جاتی ہیں اس لیے مناسب ہے کہ ان اشتہارات سے اجتناب کیا جائے جو ویڈیو کے درمیان میں آتے ہیں۔ گوگل مالک کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کس قسم کے اشتہارات اپنے چینل پر چلانا چاہتا ہے۔


حوالہ جات

يشترط في الإجارة أن تكون المنفعة مملوءة بوجه يكون مانعا للمنازعة.أي أنه يشترط في الإجارة أي في صحتها، أولا أن تكون المنفعة معلومة بوجه يكون مانعا للمنازعة.

انظر المادتين (200 و 405) فعليه إذا كانت المنفعة مجهولة بحيث تؤدي إلى المنازعة تكون فاسدة (الهندية) ويختلف العلم بالمنفعة باختلاف أنواع الإجارة۔۔۔.

(درر الحكام، 1/504، ط: دار الجيل)

 

وإن كان في البلد نقود مختلفة فإن كانت في الرواج على السواء ولا فضل للبعض على البعض فالعقد جائز ويعطي المستأجر أي النقود شاء، وإن كانت الأجرة مجهولة؛ لأن هذه الجهالة لا تفضي إلى المنازعة۔۔۔.

(الفتاوى الهندية، 4/412، ط: دار الفكر)

 

يشترط لصحة الإجارة أن تكون المنفعة والأجرة معلومتين علما ينفي الجهالة المفضية للنزاع، وإلا فلا تنعقد الإجارة.

(الموسوعة الفقهية الكويتية، 16/173، ط: دار السلاسل)

 

قال الحصكفيؒ: " (و) إما (تقبل) وتسمى شركة صنائع وأعمال وأبدان (إن اتفق) صانعان (خياطان أو خياط وصباغ) فلا يلزم اتحاد صنعة ومكان (على أن يتقبلا الأعمال) التي يمكن استحقاقها۔۔۔ (ويكون الكسب بينهما) على ما شرطا مطلقا في الأصح لأنه ليس بربح بل بدل عمل فصح تقويمه."

علق عليه ابن عابدين ؒ: " وفي النهر أن المشترك فيه إنما هو العمل، ولذا قالوا: من صور هذه الشركة أن يجلس آخر على دكانه فيطرح عليه العمل بالنصف والقياس أن لا تجوز؛ لأن من أحدهما العمل ومن الآخر الحانوت واستحسن جوازها؛ لأن التقبل من صاحب الحانوت عمل. اهـ."

(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 4/322، ط: دار الفكر)

 

يجوز لكل واحد من الشريكين أن يتقبل محل العمل ويتعهده سواء شرط في عقد الشركة تقبل وتعهد الشريكين أو شرط تقبل وتعهد أحدهما بدون نفي صلاحية الشريك الآخر لأن الشركة تتضمن الوكالة. انظر المادة الآتية. فلذلك إذا تقبل وتعهد أحدهما فيكون تقبله وتعهده وكالة عن شريكه الآخر ويكون الشريك المتقبل قد تقيد أصالة عن نفسه ووكالة عن شريكه، كما أنه يكون الشريك الذي قام بالعمل قد قام به أصالة عن نفسه ووكالة عن شريكه ولكن يجب أن لا تنفى صلاحية الشريك الذي شرط عليه العمل في تقبل العمل لأن عند السكوت صلاحية التقبل ثابتة اقتضاء ولكن لا يمكن إثباتها مع النفي (البحر) وقد بين ذلك في شرح المادة الآنفة، فلذلك للشريك الذي شرط عليه العمل أن يتقبل ويتعهد العمل سواء كان المتقبل أهلا لإيفاء العمل اللازم إيفاؤه كأن يشترك صباغ وخياط فيتعهد الصباغ بصبغ الثياب أو كان غير أهل لإجرائه كتعهد وتقبل الصباغ بخياطة الثياب (البحر) .

ويجوز أيضا للخياطين المشتركين شركة صنائع أن يعقدا الشركة على أن يتقبل أحدهما الأقمشة ويقصها ويفصلها وأن يخيطها الآخر (رد المحتار) أما إذا نص في عقد الشركة على أن يتقبل أحدهما وأن لا يتقبل الآخر بل يعمل فقط فلا تجوز الشركة لأنه في هذا الحال يكون الشريك الذي نفي عنه صلاحية التقبل قد نفيت عنه الوكالة، والحال أن الشركة تتضمن الوكالة كما هو مذكور في المادة الآتية

(درر الحكام في شرح مجلة الاحكام، 3/413، ط: دار الجيل)

 

"وإذا استأجر الذمي من المسلم دارا يسكنها فلا بأس بذلك، وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير ولم يلحق المسلم في ذلك بأس لأن المسلم لا يؤاجرها لذلك إنما آجرها للسكنى. كذا في المحيط."

(الفتاوی الھندیۃ، 4/450، ط: دار الفکر)

 

قال الحصكفيؒ: " (و) جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة زيلعي."

قال ابن عابدين ؒ: " (قوله وجاز إجارة بيت إلخ) هذا عنده أيضا لأن الإجارة على منفعة البيت، ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ولا معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فينقطع نسبيته عنه، فصار كبيع الجارية ممن لا يستبرئها أو يأتيها من دبر وبيع الغلام من لوطي والدليل عليه أنه لو آجره للسكنى جاز وهو لا بد له من عبادته فيه اهـ زيلعي وعيني ومثله في النهاية والكفاية۔۔۔."

(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/392، ط: دار الفكر)

 

    If someone clicks your ad, that click won't cost you more than the maximum cost-per-click bid (or "max. CPC") that you set. For example, if you set a $2 max. CPC bid, you'll never pay more than $2 for each click on your ad. The actual amount that you pay is called the actual CPC and is shown in your account's "Avg. CPC" column.

    A higher bid generally helps your ad show in a higher ad position on the page.

    You'll choose between manual bidding (you choose your bid amounts) and automatic bidding (you set a target average daily budget and the Google Ads system automatically adjusts your max. CPC bids on your behalf, with the goal of getting you the most clicks possible within that budget). With manual bidding, you'll set one maximum CPC bid for an entire ad group, but can also set different bids for individual keywords.

(https://support.google.com/google-ads/answer/6326)

 

 

 

Ad reach is an estimate of the number of people within a location target, based on signed-in users.

You can use the provided reach numbers to get a rough idea of how many people your ads could reach within a geographic area.

This article explains how ad reach is estimated and what happens when your location target can only reach a limited number of people.

(https://support.google.com/google-ads/answer/1722045?hl=en)

 

An impression is counted for each ad request where at least one ad has begun to download to the user’s device. It is the number of ad units (for content ads) or search queries (for search ads) that loaded ads.

(https://support.google.com/adsense/answer/6157410?hl=en)

 

With cost-per-engagement (CPE) bidding, advertisers only pay when users actively engage with ads. For example, advertisers pay for lightbox ads (a type of expandable ad that can expand to a very large size) on a CPE basis, which means that publishers generate earnings from lightbox ads when users choose to engage with the ads, e.g., by hovering over them for two seconds to expand the ads.

(https://support.google.com/adsense/answer/4643299?hl=en&ref_topic=19363)

 

The cost-per-click (CPC) is the amount you earn each time a user clicks on your ad. The CPC for any ad is determined by the advertiser; some advertisers may be willing to pay more per click than others, depending on what they're advertising.

(https://support.google.com/adsense/answer/32725?hl=en)

 

The ad auction is used to select the ads that will appear on your pages and determine how much you’ll earn from those ads. In a traditional auction, interested bidders state the maximum price they're willing to pay to buy a specific item. Similarly, our ad auction allows advertisers to state the price they're willing to pay for clicks on ads or for impressions served on AdSense pages.

(https://support.google.com/adsense/answer/160525)

 

You'll be paid out when your unpaid earnings reach the payment threshold, as long as there are no holds on your account and you're in compliance with our Program policies. For more information about when you'll get paid…If you decide to cancel your AdSense account and your account balance is greater than the cancelation threshold, you'll receive your final payment within approximately 90 days of the end of the month, provided that you've completed the necessary steps to get paid.

(https://support.google.com/adsense/answer/1709871?hl=en)

 

The Ad review center is a feature that gives you more transparency and control over the ads that appear on your site. When you enable the Ad review center, you can review individual ads after they're shown and assess whether you want to continue showing them on your pages.

(https://support.google.com/adsense/answer/2369326)

You can block ads from general categories such as Apparel, Internet, Real Estate, and Vehicles. General category blocking is available for ads in a limited set of languages, regardless of the language of the site.

(https://support.google.com/adsense/answer/180609?hl=en&ref_topic=23390)

 


مجيب
اویس پراچہ
مفتیان
مفتی محمد صاحب
سیّد عابد شاہ صاحب
محمد حسین خلیل خیل صاحب
سعید احمد حسن صاحب


ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :70225
تاریخ اجراء :2020-10-03
Share

اتوار، 4 ستمبر، 2022

دوکان و مکان کے ڈپازٹ Shop and House Deposit پر زکوٰۃ کا حکم

⚖سوال و جواب⚖

💸مسئلہ نمبر 798💸

(زکوٰۃ کے جدید مسائل)

  دوکان و مکان کے ڈپازٹ Shop and House Deposit 
پر زکوٰۃ کا حکم

 سوال: شہر بنگلور میں عام رواج ہے کہ کرایہ پر گھر اور دکان لینے پر مالک مکان اڈوانس کے نام پر اک بڑی رقم ڈپازٹ لیتے ہیں، جو کرایہ کے علاوہ ہوتی ہے،

جب مدت پوری ہوجاتی ہے یا مکان خالی کرنا پڑتا ہے تو وہ ڈپازٹ والی رقم واپس مل جاتی ہے، تو اس پر زکات واجب ہے یا نہیں؟

جواب عنایت فرما دیں، مہربانی ہوگی۔ والسلام 

(محمد افروز عفی عنہ 

بنگلور)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

زکاة کے واجب ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے؛ کہ وہ مال مکمل ملکیت میں ہو اور اس پر قبضہ بھی ہو تبھی زکاۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں(1) مثلا رہن میں رکھا ہوا مال کہ اس پر مال والے کی ملکیت تو ہوتی ہے؛ مگر قبضہ نہیں اور مرتهن کا قبضہ ہوتا ہے مگر ملکیت نہیں ہوتی؛ اس لئے مال مرہون میں کسی پر زکاة واجب نہیں ہوگی(2) اور چونکہ ڈپازٹ پر دی گئی رقم بھی مال مرہون کے درجے میں ہوتی ہے اور ایک کا قبضہ ہوتا ہے تو دوسرے کی ملکیت ہوتی ہے؛ اس لیے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ھوگی۔ فقہ اکیڈمی انڈیا نے یہی فیصلہ کیا ہے(٣) اور اسی پر فتوی ہے(٤)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (التوبة 103)

أن يكون مملوكا له رقبة و يدا (بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع 9/2 كتاب الزكاة)

(2) ولا اي لا يجب الزكاة في مرهون اي لا على المرتهن لعدم الملك ولا على الراهن لعدم اليد (الدر المختار مع رد المحتار كتاب الزكاة 18/3)

(3) نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے ص 68 پانچواں فقہی سیمنار منعقدہ اعظم گڑھ نیز دیکھئے کتاب الفتاوی 268/3۔

(4) کتاب المسائل 221/2 روضة الفتاوی 389/3۔

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مورخہ 10/9/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) کرانا کیسا ہے

 📚سوال و جواب📚

  (مسئلہ نمبر 267) 

ٹیکس کی رقم دینے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Diposit) 
کرانا کیسا ہے

سوال:کیا فرماتے ہیں اہل الذکر کہ موجودہ دور میں اگر اک عام تاجر / یا عام انسان حکومت کے لاگو تمام قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے تو بقول ٹیکس آڈیٹرس کے اس کو اپنی کمائی کا نصف فیصد حصہ دینا پڑتا ہے۔ جن اشیاء کو بازار سے خرید کر دکان لاتے ہیں تو بازار سے لیکر اپنی دکان تک جتنے ذرائع سبب بنتے ہیں سب کے اپنے ٹیکس ہوتے ہیں جس کو ادا کرتے کرتے یقینا مایوسی حاصل ہوتی ہے۔ 

دیگر اہل علم کے پرانے فتاوی اس طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ جو سود کی رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتی ہے اس کو اس ٹیکس کی رقم میں استعمال کرلیا جاسکتا ہے اگر واقعی وہ ٹیکس غیرضروری وجبراً لیا جاتا ہو۔ 

تو بندہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جن لوگوں کے اکاؤنٹ ہی نہ ہوں یا جن کے اکاؤنٹ میں کوئی سودی رقم جمع ہی نہ ہوتی ہو کیا وہ مثلاً ایک لاکھ روپئے فکسڈ ڈپازٹ کرکے جو رقم سود کی سالانہ/ماہانہ حاصل ہو اس کو ان غیر ضروری ٹیکس میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟

اگر دس لاکھ روپئے کی کار خریدی جائے تو ایک لاکھ اسی ہزار روپئے صرف ٹیکس دینا پڑتا ہے۔  یعنی ۱۸۰۰۰۰ روپئے آر ٹی أو والے لیتے ہیں اب ایسی ہزاروں چیزیں ہیں جن پر محنت کا ایک بڑا سرمایہ بطور ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ 

کیا اس مجبوری میں فکسڈ ڈپازٹ سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ یا اور کوئی شکل أنحضرت کے یہاں ہو تو براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ (بندہ مدثر أحمد، بنگلور) 

--------------------------------------------------

♤بسم اللہ الرحمن الرحیم♤ 

الجواب بسم ملہم الصواب

فکسڈ ڈپازٹ جس میں ایک مخصوص رقم بینک میں جمع کرادی جاتی ہے اور ماہانہ یا سالانہ اس کا سود ملتا ہے اور مدت پوری ہونے پر پوری رقم بھی مل جاتی ہے؛ یہ صورت سراسر سود ہے اور سود حاصل کرنے ہی کی غرض سے یہ ڈپازٹ کرایا جاتا ہے، رقم کی حفاظت اس کا مقصود نہیں ہوتا؛ اسی لئے سود کی شرح (interest percent) اس میں زیادہ ہوتا ہے اور سیونگ اکاؤنٹ کے مقابلے اس میں زیادہ سود ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ سود لینا اور دینا شریعت اسلامی میں ناجائز و حرام ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں اور لعنتیں آئی ہیں اس لئے فکسڈ ڈپازٹ اس مقصد کے لئے کرانا ناجائز ہے (۱) 

ہاں یہ بات درست ہے؛ کہ فقہائے اسلام نے ناجائز اور جبری ٹیکس میں بینک سے حاصل ہونے والی سودی رقم ادا کرنے کی اجازت دی ہے(۲) مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ سیونگ اکاونٹ میں پیسے کی حفاظت کی غرض سے جمع شدہ رقم پر ملی ہوئی سودی رقم ادا کرنا ہے؛ ناکہ صرف سود ہی کی حصول یابی کے مقصد سے رقم بینک میں جمع کرنا اور اس سے سود حاصل کرنا ہے؛ چنانچہ اس سلسلے میں متعدد کتابیں دیکھنے کے باوجود بھی کہیں یہ نہیں مل سکا کہ ٹیکس ادا کرنے کے لئے فکسڈ ڈپازٹ کرانا کسی نے جائز قرار دیا ہو؛ بلکہ اس کے برخلاف متعدد اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ صرف ٹیکس ادا کرنے یا سود میں سود کی رقم دینے کے لئے سودی اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے(۳) اسی طرح فقہاء اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جب کسی معاملے میں مصلحت اور مفسدہ دونوں جمع ہوجائیں تو مفسدہ کو دور کیا جائے گا اور مصلحت کا خیال نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ شریعت اسلامی نے مامورات کے مقابلے منہیات میں زیادہ شدت سے کام لیا ہے(۴) چنانچہ اس اصول کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ بجائے ٹیکس کی رقم ادا کرنے کے لئے سودی رقم لینے کا معاملہ ہی نہ کیا جائے۔

اسلئے آپ نے جو بات سوال نامے میں لکھی ہے اس کی وجہ سے بھی فکسڈ ڈپارٹ کرانا اور سود حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا؛ بلکہ سود کے دائرہ میں ہونے کی وجہ سے اس سے اجتناب کرنا اور دور رہنا واجب و ضروری ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔ 


📚📚والدلیل علی ما قلنا📚📚

(۱) وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة 275)

》حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ. (حدیث نمبر 4177)

》كل قرض جر نفعا حرام اي اذا كان مشروطا (رد المحتار على الدر المختار 395/7 كتاب البيوع زكريا)

(۲) الحاصل انه أن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم والا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق بنية صاحبه (رد المحتار على الدر المختار 223/7 كتاب البيوع زكريا)

》و يردونه على اربابه إن عرفوهم والا يتصدقوا به لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد (البحر الرائق شرح كنز الدقائق   201/8 كتاب الكراهية فصل في البيع كوءتة)

》والسبل في المعاصي ردها،  وذلك برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه و بالتصدق إن لم يعرفه ليحصل إليه نفع ماله  (الفتاوى الهندية كتاب الكراهية الباب الخامس عشر 249/5)

》و أما إذا كان عند رجل مال خبيث فإما إن ملكه بعقد فاسد أو حصل له بغير عقد و لا يمكنه أن يرده إلى مالكه و يريد ان يدفع مظلمة عن نفسه فليس له حيلة إلا أن يدفعه إلى الفقراء لكن لا يريد بذلك الأجر والثواب و لكن يريد دفع المعصية عن نفسه (بذل المجهود 37/1 كتاب الطهارة باب فرض لوضوء د)

(۳) کتاب الفتاوی 316/5۔ فتاوی قاسمیہ 741/20

(۴) درء المفاسد أولى من جلب المصالح اي اذا تعارض مفسدة و مصلحة قدم دفع المفسدة لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتناءه بالمامورات (الاشباه والنظائر لابن نجيم المصري ص 264، شرح المجلة 32/1 المادة 30)

✍✍✍✍✍✍✍✍✍

✍ العبد محمد زبیر الندوی 

مركز البحث والإفتاء الجامعة الإسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا 

مؤرخہ 10/3/1439 

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

رقم لے کر فری میں کرایہ پر مکان دینے کا حکم

 ⚖سوال و جواب⚖

🏢مسئلہ نمبر 980🏢

(کتاب الاجارۃ)

 رقم لے کر فری میں کرایہ پر مکان دینے کا حکم 

 سوال: کرناٹک میں عمومی طور پر لوگ اپنے گھر کو (لیج) ایک متعینہ رقم طے کر کے دیتے ہیں۔ مثلا ایک لاکھ روپے دے دیں اسکے بدلے ایک سال تک میرے گھر کو استعمال کریں جب سال پورا ہوجائے تو آپ کا پیسہ واپس کردیاجاۓ گا۔ پیسے واپس بھی کردیۓ جاتے ہیں۔ اب اس صورت میں اس گھر کا استعمال بغیر کرایہ کے ہوگیا۔‌ کیا یہ شریعت میں جائز؟ (محمد امیر سبحانی قاسمی بنگلور کرناٹک)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

آپ نے جو صورت سوالنامہ میں لکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دی جانے رقم بطورِ قرض دی جاتی ہے اور اس کے بدلے مکان میں بنا کرایہ کے سکونت کا موقع ملتا ہے یا شکل تو ڈپازٹ کی ہوتی ہے مگر ہوتی قرض ہی ہے، ظاہر ہے کہ یہ قرض سے استفادہ کی صورت ہے جو کہ سود ہے اور سود لینا دینا جائز نہیں ہے؛ اس لئے مذکورہ بالا صورت درست نہیں ہے، آپ حضرات کو اس سلسلے میں سخت احتیاط برتنی چاہیے۔

اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ یا تو پورا کرایہ دیا جائے یا کم از کم اتنا کرایہ ضرور دیا جائے جو اس کا کم سے کم کرایہ اس علاقے میں ہوسکتا ہو(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ )

البقرة (278)

كل قرض جر نفعا فهو ربا. (شرح معاني الآثار رقم الحديث ٥٨٨٣)

قالوا يجب أجر المثل على المقرض لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا. (رد المحتار ٨٧/٩ باب ضمان الأجير)

وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین:أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شےئا بأرخص مما یباع أو یوٴجرہ أو یھبہ ……،ولو لم یکن سبب ذلک (ھذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء و التحقیق مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 16/3/1441

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate