جمعرات، 8 ستمبر، 2022

غیر مسلم میت کے سراد کا کھانا کھانا

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1766🖋️

(کتاب الحظر و الاباحہ، باب الاکل)

غیر مسلم میت کے سراد کا کھانا کھانا

 سوال: غیر مسلم میں کسی کا انتقال ہوتا ہے اور انکے گھر والے ( دس یا بارہ) دن کے بعد  دعوت دیکر جو کھانا کھلاتے ہیں کیا یہ کھانا کھانا مسلمانوں کےلئے جائز ہے یا نہیں؟ اس کھانے کو سراد کا کھانا بولتے ہیں۔ (عزیر لکھنؤ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ہندؤں کے یہاں جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کے ایصالِ ثواب کے لئے وہ کچھ لوگوں کو کھانا کھلاتے اور اسے تقسیم کرتے ہیں، نیز پنڈت اس کھانے پر منتر بھی پڑھتے ہیں؛ اس لیے ہندؤں کے یہاں کھانا کھلانے کی یہ صورت ان کا مذہبی عمل ہے اور مذہب کے دائرے میں انجام پاتا ہے؛ چنانچہ اس کھانے میں مسلمانوں کا شریک ہونا شرعاً صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مولانا محمد عبیداللہ سابق اننت رام کی کتاب تحفۃ الہند مفید ترین کتاب ہے(١) اس کتاب میں اس طرح کھانا کھلانے کو ہندوانہ رسم بتایا گیا ہے۔

” ہندوٴوں کے ہاں میت کو کھانے کا ثواب پہنچانے کا نام ’سرادھ‘ ہے اور جب سرادھ کا کھانا تیار ہو جائے تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ ’وید ‘ پڑھواتے ہیں اور مُردوں کے لیے ثواب پہنچانے کے لیے ان کے ہاں خاص دن مقرر ہیں، خصوصاً جس دن (وہ ) فوت ہو ، ہر سال اسی دن ختم دلانا یعنی برسی یا موت کے تیرھویں دن، بعض کے نزدیک پندرھویں دن اور بعض کے نزدیک تیسویں یا اکتیسویں دن، ثواب پہنچانے کے لیے مقرر ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی تیجہ، ساتواں، چالیسواں اور برسی مقرر کر لیے اور کھانا تیار کرواکر اس پر ختم پڑھوانا شروع کر دیا؛ حال آں کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان میں سے کوئی رسم بھی ثابت نہیں“(٢)


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ". (سنن أبي داود رقم الحديث ٤٠٣١ كِتَابٌ : اللِّبَاسُ  | بَابٌ : فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ)

وقال القاري: أي: من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق، أو الفجار، أو بأهل التصوف، والصلحاء الأبرار. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث ٤٠٣١)

(٢) تحفة الهند از عبیداللہ،  مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج : ۲۳ ، دارالاندلس، بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند  ‏، شمارہ 2، جلد: 99 ‏، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 24/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share
نام۔ محمد قاسم خان دینی تعلیم: حفظ قرآن ۔ دارالعلوم سلیمانیہ میراروڈ ممبئی۔ عالمیت ابتدائی تعلیم: مدرسہ فلاح المسلمین امین نگر تیندوا راۓ بریلی۔ عالمیت فراغت: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔ افتاء: المعھد العلمی النعمانی بہرائچ اترپردیش۔ ویب سائٹ کا مقصد دینی اور دنیاوی تعلیم سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ اس کار خیر میں آپ ہمارا ساتھ دیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا فی الدنیا والآخرۃ

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thank You So Much

Translate