ہفتہ، 27 اگست، 2022

مخنث شخص اگر اعتکاف کرنا چاہے تو کہاں کرے گا؟ گھر میں یا مسجد میں؟

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1492🖋️

(کتاب الصوم باب الاعتکاف)

مخنث کہاں اعتکاف کرے

سوال: مخنث شخص اگر اعتکاف کرنا چاہے تو کہاں کرے گا؟ گھر میں یا مسجد میں؟ (مدثر دلی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مخنث میں چونکہ مرد و عورت دونوں کا احتمال ہوتا ہے؛ اس لیے مخنث کے لئے اس کی ذکوریت کو دیکھتے ہوئے گھر میں اعتکاف درست نہیں؛ البتہ مسجد میں اعتکاف کرسکتا ہے؛ لیکن مسجد میں اعتکاف بھی مکروہ ہوگا اس کی تانیث کو دیکھتے ہوئے ماضی قریب کے معتبر فقہاء میں سے علامہ ابنِ عابدین شامی کا یہی رجحان ہے(١) خلاصہ یہ کہ مخنث اعتکاف نا کرے یہی بہتر ہے، ہاں اگر ‌نذر کا اعتکاف ہے تو مسجد میں کرلے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب ‌


📚والدليل على ما قلنا📚

وهل يصح من الخنثى في بيته لم أره والظاهر لا لاحتمال ذكوريته (الدر المختار 441/2 كتاب الصوم باب الاعتكاف)

(قوله والظاهر لا) لأنه على تقدير أنوثته يصح في المسجد مع الكراهة وعلى تقدير ذكورته لا يصح في البيت بوجه ح.

قلت: لكن صرحوا بأن ما تردد بين الواجب والبدعة يأتي به احتياطا وما تردد بين السنة والبدعة يتركه إلا أن يقال المراد بالبدعة المكروه تحريما وهذا ليس كذلك ولا سيما إذا كان الاعتكاف منذورا. (رد المحتار على الدر المختار 441/2 كتاب الصوم باب الاعتكاف)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 16/9/1442

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

معتکفہ عورت کا بھیک دینے کے لئے نکلنا

 ⚖️سوال وجواب ⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1491🖋️

(کتاب الصوم باب الاعتکاف)

معتکفہ عورت کا بھیک دینے کے لئے نکلنا

سوال: اگر کوئی عورت ایک کمرے میں اعتکاف میں ہے اور کوئی فقیر مانگنے والے کو پیسے دینے والا کوئی نہیں ہے اور پیسے دوسرے کمرے میں ہیں تو کیا معتکفہ دوسرے کمرے میں جاکر پیسے لیکر فقیر کو دے سکتی ہے؟ اگر دے سکتی ہے تو کوئی بات نہیں اگر نہیں دے سکتی تو کیا ایسا کرنے سے اعتکاف ختم ہوجائیگا ۔۔بینوا توجروا۔ (یحییٰ جگرا والا، گجرات)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

معتکفہ عورت بغیر کسی طبعی ضرورت مثلاً استنجاء پیشاب وغیرہ کے دوسری ضروریات کے لئے اپنے اعتکاف گاہ سے باہر نہیں نکل سکتی ہے، فقیر کو پیسے دینا کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے جس کے لئے اعتکاف چھوڑ کر نکلا جائے، اس لیے معتکفہ عورت اپنے اعتکاف گاہ سے باہر نہیں نکل سکتی ہے، اگر نکلے گی تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

ولا تخرج من بيتها إذا اعتكفت فيه. (الدر المختار 441/2 كتاب الصوم باب الاعتكاف)

أما المرأة إذا اعتكفت في مسجد بيتها لا تخرج منه إلى منزلها إلا لحاجة الإنسان؛ لأن ذلك في حكم المسجد لها على ما بينا. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 114/2 كتاب الصوم باب الاعتكاف دار الكتب العلميه بيروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 15/9/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنے کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1595🖋️

(کتاب الصوم، صیام نوافل)

صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنے کا حکم

سوال: کیا صرف دس محرم کا روزہ رکھ سکتے ہیں، بطور خاص اس زمانے میں۔ (وصی اللہ بہرائچ یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ عاشورہ کا روزہ ایک کے بجائے دو رکھنا چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی حضرات اس دن ایک روزہ رکھا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی خاطر دو روزے رکھنے کا حکم دیا؛ تاکہ ان کی مشابہت باقی نہ رہے، یہ عمل دور نبوی میں اور بعد کے ادوار میں چلتا رہا، اب بھی بیشتر لوگ دو روزے رکھتے ہیں؛ لیکن ماضی قریب اور دور حاضر کے بعض محققین کی رائے ہے کہ اس دور کے یہودیوں نے یہ روزہ عملاً ترک کر دیا ہے اور وہ اسلامی تاریخ کے اعتبار سے روزہ نہیں رکھتے؛ اس لیے اب ان کی مشابہت ختم ہوچکی ہے؛ چنانچہ اگر کوئی شخص ایک روزہ رکھنا چاہے تو بھی بلا کراہت درست ہے، علامہ انور شاہ کشمیری کی رائے میں بھی ایک روزہ رکھنے سے سنیت ادا ہوجائے گی، معارف الحدیث میں حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) "سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم" . (صحيح مسلم، (2/ 797)

"وروي عن ابن عباس أنه قال: «صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»". (سنن الترمذي، (3/ 120)

"وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه" (العرف الشذي شرح سنن الترمذي 2/ 177)

معارف الحدیث 387/4


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 30/12/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

دوربین، ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر سے چاند دیکھنے کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1742🖋️

(کتاب الصوم باب رؤیۃ الہلال)

دوربین، ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر سے چاند دیکھنے کا حکم

سوال: دوربین، ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے چاند دیکھنے کا کیا حکم ہوگا؟ بعض لوگ اس پر حجت کر رہے ہیں اور اسے تکلیف مالا یطاق بتا رہے ہیں؟ شریعت میں کیا اس کی گنجائش ہے اور چاند دیکھنا معتبر ہوگا؟ 

(وصی احمد کانپور)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

چاند دیکھنے کی ممکنہ کوشش کرنا معیوب نہیں بلکہ مستحسن ہے؛ اس کے لیے اونچائی کے مقام کا انتخاب کرنا درختوں پر چڑھنا  ٹیلے اور پہاڑ سے نظارہ کرنا درست ہے؛ کیوں کہ بسااوقات فضائی سطح ابر و باد، دھواں یا ماحولیاتی آلودگی سے کثافت زدہ ہوجاتا ہے اور چاند دیکھنے میں دقت آتی ہے، پہلے زمانے میں بھی لوگ اس قسم کی کوششیں کرتے تھے؛ اسی لئے فقہاء کرام کے یہاں بھی اس کی اجازت ملتی ہے۔

جہاں تک بات دور بین اور ہیلی کاپٹر سے رؤیت کی ہے تو ان سے چاند کی رؤیت مطلقا درست ہے؛ کیوں کہ دوربین موجود چیز کو واضح اور صاف کرکے دکھاتی ہے گویا چاند حقیقتاً مطلع پر موجود ہوگا تبھی نظر آئے ورنہ نہیں؛ اس لیے اس کی رؤیت درست ہے اور ہیلی کاپٹر بھی چونکہ بہت اونچی پرواز نہیں کرپاتا ہے؛  گویا اس میں اس بات کا امکان نہیں رہتا ہے کہ اتنی اونچائی سے رؤیت ہو کہ اختلاف مطلع کی صورت پیدا ہوجائے اس لیے اس کی رؤیت بھی درست ہے۔

البتہ ہوائی جہاز سے رؤیت کے سلسلے میں یہ تفصیل ہے کہ اتنی اونچائی سے رؤیت ہو جتنے میں مطلع بدل جاتا ہے اور اس کی خبر ماننے سے مہینہ 28 یا 31 ہوجاتا ہے تو پھر اس رؤیت کا اعتبار نہیں ہوگا؛ ایسی صورت میں یہ مانا جائے گا کہ جو چاند یہاں کے مطلع پر کل نمودار ہوتا وہ آج ہی دیکھ لیا جو کہ یہاں کا چاند ہے ہی نہیں؛ اس لیے یہ رؤیت معتبر نہیں ہوگی۔ اور اگر اتنی اونچائی سے رؤیت ہوئی ہے کہ مذکورہ بالا صورت پیش نہیں آتی ہے تو ہوائی جہاز کی رؤیت بھی معتبر ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) قال: " وينبغي للناس أن يلتمسوا الهلال في اليوم التاسع والعشرين من شعبان فإن رأوه صاموا وإن غم عليهم أكملوا عدة شعبان ثلاثين يوما ثم صاموا " (الهداية للمرغيناني 117/1)

ولا فرق بين أهل المصر ومن ورد من خارج المصر وذكر الطحاوي أنه تقبل شهادة الواحد إذا جاء من خارج المصر لقلة الموانع وإليه الإشارة في كتاب الاستحسان وكذا إذا كان على مكان مرتفع في المصر. (الهداية للمرغيناني 119/1 كتاب الصيام دار الكتب العلميه بيروت)

وذكر الطحاوي أنه تقبل، وجه رواية الطحاوي أن المطالع تختلف بالمصر وخارج المصر في الظهور، والخفاء لصفاء الهواء خارج المصر فتختلف الرؤية. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 80/2 كتاب الصوم دار الكتب العلميه بيروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 29/5/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعہ، 26 اگست، 2022

عصر کی نماز میں پانچ رکعات پڑھ لی تو کیا چھٹی ملانا صحیح نہیں ہوگا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1613🖋️

(کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو)

عصر کی نماز میں پانچ رکعات پڑھ لی تو کیا چھٹی ملانا صحیح نہیں ہوگا

سوال: اگر کوئی شخص عصر کی نماز پڑھے اور غلطی سے پانچویں رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو پھر اس میں چھٹی رکعت ملائے گا یا نہیں؟ یہ سوال اس لیے ہے کہ عصر کے بعد نفل پڑھنا منع ہے تو یہ چھٹی رکعت نفل پڑھنا منع ہونا چاہیے۔ (یونس، بنگلور)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


عصر کے بعد نفل نماز کی ممانعت کے سلسلے میں یہ اصول ہے کہ عصر بعد نفل پڑھنا اس وقت منع ہوتا ہے جب وہ اختیاری ہو؛ یعنی آدمی خود مختار ہوکر نفل پڑھے؛ لیکن اگر اختیاری نہ ہو بلکہ کسی خارجی سبب کی وجہ سے ہو تو پھر یہ کراہت نہیں ہوگی، یہ اصول امام محمد بن حسن شیبانی کا بیان کیا ہوا ہے جسے علامہ علاء الدین کاسانی نے بدائع الصنائع میں اور قاضی خان نے فتاویٰ خانیہ میں نقل کیا ہے اور قاضی خان نے قابلِ اعتماد قول قرار دیا ہے(١) واضح رہے کہ قاضی خان فقہاء احناف کے نہایت معتبر فقہاء اور اصحاب التخریج میں ہیں اور ان کی تصحیح بے انتہا معتبر ہے۔

اب اس اصول کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عصر کی نماز میں بھی پانچویں رکعت کے ساتھ چھٹی رکعت ملا لینے میں حرج نہیں ہے، کیوں کہ یہ نفل نماز اختیاری نہیں ہے بلکہ فرض کی چار رکعت کے ساتھ میں غیر اختیاری طور پر شامل ہوگئی ہیں، اس لیے اب کراہت باقی نہیں رہے گی۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) إذا صلى العصر خمسا و قعد في الرابعة  قدر التشهد قالوا لا يضيف إليها الأخرى لأن التنفل بعد العصر مكروه، و لا سهو عليه لفوات محله، لأنه أخر الصلاة و قد انتقل من العصر إلى التطوع و لم يتم التطوع، و عن محمد رحمه الله تعالى: أنه يضيف إليها السادسة، و عليه الاعتماد، لأن التطوع بعد العصر إنما يكره إذا كان عن اختيار، أما إذا لم يكن عن اختيار فلا يكره. (الفتاوى الخانية 78/7)

وإن كان في العصر لا يضيف إليها ركعة أخرى بل يقطع ؛ لأن التنفل بعد العصر غير مشروع ، وروى هشام عن محمد أنه يضيف إليها أخرى أيضا ؛ لأن التنفل بعد العصر إنما يكره إذا شرع فيه قصدا ، فأما إذا وقع فيه بغير قصده فلا يكره. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١٩٧/٢ كتاب الصلاة)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 18/1/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

نماز کی پہلی رکعت میں بالکلیہ قراءت بھول جایے تو نماز کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1626🖋️

(کتاب الصلاۃ، باب أرکان الصلاۃ)

نماز کی پہلی رکعت میں بالکلیہ قراءت بھول جایے تو نماز کا حکم

سوال: اگر کوئی شخص فرض نماز کی پہلی رکعت میں قراءت کرنا بالکل بھول گیا؛ یعنی نہ سورۂ فاتحہ پڑھی نہ سورت البتہ باقی رکعتوں میں سورت وغیرہ پڑھی تو اس کی نماز ہوجائے گی یا نہیں ہوگی؟ (اسید اختر، حاجی پور، بہار)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


فرض نماز اگر دو رکعات والی ہے مثلاً فجر کی نماز تو ان دونوں میں قراءت کرنا فرض ہے؛ چنانچہ اگر کسی ایک رکعت میں بھی بالکلیہ قراءت نہیں کی تو نماز نہیں ہوگی، نماز کا اعادہ فرض ہوگا، لیکن اگر چار رکعات والی نماز ہو تو پھر چاروں میں قراءت کرنا فرض نہیں ہے بلکہ واجب ہے البتہ کسی بھی دو رکعت میں قراءت فرض ہے، چنانچہ چار رکعات والی نماز میں اگر پہلی رکعت میں قراءت کرنا بھول گیا اور بعد والی دو رکعات میں قراءت کرلی تو سجدۂ سہو سے نماز ہوجائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر سجدۂ سہو بھی نہیں کیا تو وقت کے اندر اندر نماز واجب الاعادہ ہوگی، وقت ختم ہونے کے بعد نہیں(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) وإذا علمت ذلك فالقراءة فرض "في ركعتي فرض" أي ركعتين كانتا ولا تصح بقراءته في ركعة واحدة فقط خلافا لزفر والحسن البصري لأن الأمر لا يقتضي التكرار قلنا نعم لكن لزمت في الثانية لتشاكلهما من كل وجه فالأولى بعبارة النص والثانية بدلالته "و" القراءة فرض في "كل" ركعات "النفل" لأن كل شفع منه صلاة على حدة "و" القراءة فرض في كل ركعات "الوتر" (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح 226 باب شروط الصلاة و أركانها)

"لترك واجب" بتقديم أو تأخير أو زيادة أو نقص. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ص ٤٦٠)

وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها. (الدر المختار مع رد المحتار 457/1 كتاب الصلاة دار الكتب العلميه بيروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 1/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

بدھ، 24 اگست، 2022

نماز میں ٹخنے سے ٹخنے ملانے کا مطلب

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1641🖋️

(کتاب الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف)


نماز میں ٹخنے سے ٹخنے ملانے کا مطلب

سوال: بعض احادیث میں آیا ہے کہ نماز نہیں قدم سے قدم ملاکر کھڑے ہونا چاہیے اس کا کیا مطلب ہے؟ (شاہنواز قاسمی پٹنہ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


احادیث مبارکہ میں صفوں کی درستگی اور برابری کی بڑی تاکید ملتی ہے، اسی کا تاکید حصّہ یہ بات بھی ہے کہ قدموں کو ملاکر کھڑا ہوا جائے، لیکن یہ بات قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے؛ بلکہ قول صحابی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یہ ہے کہ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑا ہوا جائے، ظاہر ہے دونوں کا مقصود ایک ہے؛ یعنی صفوں کی درستگی، اور دونوں سے یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے، چنانچہ جب دونوں کا مقصود ایک ہے اور مقصد پورا بھی ہورہاہے تو قول رسول کو چھوڑ کر قول صحابی پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ کوشش کرکے قول رسول پر عمل کیا جائے اور قول صحابی کو اسی درستگی کے عمل کی تاکید قرار دی جائے جیسا کہ علامہ ابنِ حجر عسقلانی، علامہ انور شاہ کشمیری نے اس عمدہ تطبیق کی کوشش کی ہے، نیز جس طرح احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے اور جماعت کی نماز میں اگر بتکلف کندھوں اور ٹخنوں کو ملا بھی لیا جائے تو بھی گھٹنوں کو ملا کر صف میں کھڑا ہونا تقریباً محال ہے، اسی طرح بہت زیادہ پیر کھول کر ٹخنے سے ٹخنے ملانے کی صورت میں کاندھے ملانا بھی تقریباً ناممکن ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی احادیث میں کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ، وَسُدُّوا الْخَلَلَ، وَلِينُوا بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ - لَمْ يَقُلْ عِيسَى : بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ - وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ، وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ ". )سنن أبي داود رقم الحديث 666 كِتَابُ الصَّلَاةِ  |  تَفْرِيعُ أَبْوَابِ الصُّفُوفِ  | بَابٌ : تَسْوِيَةُ الصُّفُوفِ)

 عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ؛ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي ". وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ.( كِتَابُ الْأَذَانِ  رقم الحديث 725 بَابُ إِلْزَاقِ الْمَنْكِبِ بِالْمَنْكِبِ)

قوله: ( باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم في الصف ) المراد بذلك المبالغة في تعديل الصف وسد خلله. فتح الباري بشرح صحيح البخاري رقم الحديث 724 كِتَابُ الْأَذَانِ  | بَابُ إِلْزَاقِ الْمَنْكِبِ بِالْمَنْكِبِ)

عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ : أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ فَقَالَ : " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ - ثَلَاثًا - وَاللَّهِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ". قَالَ : فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَلْزَقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَةِ صَاحِبِهِ، وَكَعْبَهُ بِكَعْبِهِ.

حكم الحديث: صحيح. (سنن أبي داود رقم الحديث 662 كِتَابُ الصَّلَاةِ  |  تَفْرِيعُ أَبْوَابِ الصُّفُوفِ  | بَابٌ : تَسْوِيَةُ الصُّفُوفِ)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 16/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

منفرد کے پیچھے شریک نماز ہونا اور منفرد کا سری قراءت کرنا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1649🖋️

(کتاب الصلاۃ باب الامامۃ)

منفرد کے پیچھے شریک نماز ہونا اور منفرد کا سری قراءت کرنا

سوال: ایک آدمی عشاء کی فرض نماز تنہا پڑھ رہا تھا دوسرا آکر نماز میں اس کے ساتھ شامل ہو گیا؛ لیکن اس منفرد کو معلوم نہیں ہوا کوئی اس کے ساتھ شامل ہے، اس نے سری قرائت کے ساتھ نماز مکمل کی تو ان کی نماز ہوئی یا نہیں؟ (رضوان، شراوستی یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

فرض نمازوں میں اقتدا درست ہونے کے لیے مقتدی کا اقتدا کی نیت کرنا ضروری ہے، امام کے لیے امامت کی نیت کرنا شرط نہیں ہے؛ اس لیے منفرد کے پیچھے اگر کسی نے آکر نیت کرلی اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے لگا تو نماز ہوجائے گی؛ بشرطیکہ دونوں کی نمازیں ایک ہوں اور اقتداء کی دیگر شرطیں پائی جائیں، البتہ چونکہ منفرد کو اس کی اقتداء کا علم نہیں ہوا ہے یا ہوا ہے مگر امامت کا ارادہ نہیں کیا ہے تو اس پر امامت کے وہ لوازم ضروری نہیں ہونگے جو امام کے لئے ضروری ہوتے ہیں مثلاً جہری قراءت وغیرہ(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

 (١) ولا یصح الاقتداء بإمام إلا بنیةٍ، وتصحُّ الإمامة بدون نیتہا․ (الأشباہ والنظائر، ۱۰/ ۷۲، ط: زکریا دیوبند)

ائتمّ بہ بعد الفاتحة، یجہرُ بالسورة إن قصد الإمامة وإلا فلا یلزمُہ الجہرُ في الفجر وأولیی العشاء ین الخ․ وقال العلامة ابن عابدین: وسیذکر في باب الوتر․․․ أنہ لا کراہة علی الإمام لو لم ینو الإمامة، فإذا کان کذلک فکیف تلزم أحکامُ الإمامة بدون الالتزام․ (الدر مع الرد: ۳/۲۵۰، ط: زکریا دیوبند)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 24/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate