جمعہ، 26 اگست، 2022

عصر کی نماز میں پانچ رکعات پڑھ لی تو کیا چھٹی ملانا صحیح نہیں ہوگا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1613🖋️

(کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو)

عصر کی نماز میں پانچ رکعات پڑھ لی تو کیا چھٹی ملانا صحیح نہیں ہوگا

سوال: اگر کوئی شخص عصر کی نماز پڑھے اور غلطی سے پانچویں رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو پھر اس میں چھٹی رکعت ملائے گا یا نہیں؟ یہ سوال اس لیے ہے کہ عصر کے بعد نفل پڑھنا منع ہے تو یہ چھٹی رکعت نفل پڑھنا منع ہونا چاہیے۔ (یونس، بنگلور)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


عصر کے بعد نفل نماز کی ممانعت کے سلسلے میں یہ اصول ہے کہ عصر بعد نفل پڑھنا اس وقت منع ہوتا ہے جب وہ اختیاری ہو؛ یعنی آدمی خود مختار ہوکر نفل پڑھے؛ لیکن اگر اختیاری نہ ہو بلکہ کسی خارجی سبب کی وجہ سے ہو تو پھر یہ کراہت نہیں ہوگی، یہ اصول امام محمد بن حسن شیبانی کا بیان کیا ہوا ہے جسے علامہ علاء الدین کاسانی نے بدائع الصنائع میں اور قاضی خان نے فتاویٰ خانیہ میں نقل کیا ہے اور قاضی خان نے قابلِ اعتماد قول قرار دیا ہے(١) واضح رہے کہ قاضی خان فقہاء احناف کے نہایت معتبر فقہاء اور اصحاب التخریج میں ہیں اور ان کی تصحیح بے انتہا معتبر ہے۔

اب اس اصول کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عصر کی نماز میں بھی پانچویں رکعت کے ساتھ چھٹی رکعت ملا لینے میں حرج نہیں ہے، کیوں کہ یہ نفل نماز اختیاری نہیں ہے بلکہ فرض کی چار رکعت کے ساتھ میں غیر اختیاری طور پر شامل ہوگئی ہیں، اس لیے اب کراہت باقی نہیں رہے گی۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) إذا صلى العصر خمسا و قعد في الرابعة  قدر التشهد قالوا لا يضيف إليها الأخرى لأن التنفل بعد العصر مكروه، و لا سهو عليه لفوات محله، لأنه أخر الصلاة و قد انتقل من العصر إلى التطوع و لم يتم التطوع، و عن محمد رحمه الله تعالى: أنه يضيف إليها السادسة، و عليه الاعتماد، لأن التطوع بعد العصر إنما يكره إذا كان عن اختيار، أما إذا لم يكن عن اختيار فلا يكره. (الفتاوى الخانية 78/7)

وإن كان في العصر لا يضيف إليها ركعة أخرى بل يقطع ؛ لأن التنفل بعد العصر غير مشروع ، وروى هشام عن محمد أنه يضيف إليها أخرى أيضا ؛ لأن التنفل بعد العصر إنما يكره إذا شرع فيه قصدا ، فأما إذا وقع فيه بغير قصده فلا يكره. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١٩٧/٢ كتاب الصلاة)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 18/1/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

نماز کی پہلی رکعت میں بالکلیہ قراءت بھول جایے تو نماز کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1626🖋️

(کتاب الصلاۃ، باب أرکان الصلاۃ)

نماز کی پہلی رکعت میں بالکلیہ قراءت بھول جایے تو نماز کا حکم

سوال: اگر کوئی شخص فرض نماز کی پہلی رکعت میں قراءت کرنا بالکل بھول گیا؛ یعنی نہ سورۂ فاتحہ پڑھی نہ سورت البتہ باقی رکعتوں میں سورت وغیرہ پڑھی تو اس کی نماز ہوجائے گی یا نہیں ہوگی؟ (اسید اختر، حاجی پور، بہار)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


فرض نماز اگر دو رکعات والی ہے مثلاً فجر کی نماز تو ان دونوں میں قراءت کرنا فرض ہے؛ چنانچہ اگر کسی ایک رکعت میں بھی بالکلیہ قراءت نہیں کی تو نماز نہیں ہوگی، نماز کا اعادہ فرض ہوگا، لیکن اگر چار رکعات والی نماز ہو تو پھر چاروں میں قراءت کرنا فرض نہیں ہے بلکہ واجب ہے البتہ کسی بھی دو رکعت میں قراءت فرض ہے، چنانچہ چار رکعات والی نماز میں اگر پہلی رکعت میں قراءت کرنا بھول گیا اور بعد والی دو رکعات میں قراءت کرلی تو سجدۂ سہو سے نماز ہوجائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر سجدۂ سہو بھی نہیں کیا تو وقت کے اندر اندر نماز واجب الاعادہ ہوگی، وقت ختم ہونے کے بعد نہیں(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) وإذا علمت ذلك فالقراءة فرض "في ركعتي فرض" أي ركعتين كانتا ولا تصح بقراءته في ركعة واحدة فقط خلافا لزفر والحسن البصري لأن الأمر لا يقتضي التكرار قلنا نعم لكن لزمت في الثانية لتشاكلهما من كل وجه فالأولى بعبارة النص والثانية بدلالته "و" القراءة فرض في "كل" ركعات "النفل" لأن كل شفع منه صلاة على حدة "و" القراءة فرض في كل ركعات "الوتر" (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح 226 باب شروط الصلاة و أركانها)

"لترك واجب" بتقديم أو تأخير أو زيادة أو نقص. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ص ٤٦٠)

وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها. (الدر المختار مع رد المحتار 457/1 كتاب الصلاة دار الكتب العلميه بيروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 1/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

بدھ، 24 اگست، 2022

نماز میں ٹخنے سے ٹخنے ملانے کا مطلب

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1641🖋️

(کتاب الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف)


نماز میں ٹخنے سے ٹخنے ملانے کا مطلب

سوال: بعض احادیث میں آیا ہے کہ نماز نہیں قدم سے قدم ملاکر کھڑے ہونا چاہیے اس کا کیا مطلب ہے؟ (شاہنواز قاسمی پٹنہ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق


احادیث مبارکہ میں صفوں کی درستگی اور برابری کی بڑی تاکید ملتی ہے، اسی کا تاکید حصّہ یہ بات بھی ہے کہ قدموں کو ملاکر کھڑا ہوا جائے، لیکن یہ بات قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے؛ بلکہ قول صحابی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یہ ہے کہ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑا ہوا جائے، ظاہر ہے دونوں کا مقصود ایک ہے؛ یعنی صفوں کی درستگی، اور دونوں سے یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے، چنانچہ جب دونوں کا مقصود ایک ہے اور مقصد پورا بھی ہورہاہے تو قول رسول کو چھوڑ کر قول صحابی پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ کوشش کرکے قول رسول پر عمل کیا جائے اور قول صحابی کو اسی درستگی کے عمل کی تاکید قرار دی جائے جیسا کہ علامہ ابنِ حجر عسقلانی، علامہ انور شاہ کشمیری نے اس عمدہ تطبیق کی کوشش کی ہے، نیز جس طرح احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے اور جماعت کی نماز میں اگر بتکلف کندھوں اور ٹخنوں کو ملا بھی لیا جائے تو بھی گھٹنوں کو ملا کر صف میں کھڑا ہونا تقریباً محال ہے، اسی طرح بہت زیادہ پیر کھول کر ٹخنے سے ٹخنے ملانے کی صورت میں کاندھے ملانا بھی تقریباً ناممکن ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی احادیث میں کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ، وَسُدُّوا الْخَلَلَ، وَلِينُوا بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ - لَمْ يَقُلْ عِيسَى : بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ - وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ، وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ ". )سنن أبي داود رقم الحديث 666 كِتَابُ الصَّلَاةِ  |  تَفْرِيعُ أَبْوَابِ الصُّفُوفِ  | بَابٌ : تَسْوِيَةُ الصُّفُوفِ)

 عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ؛ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي ". وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ.( كِتَابُ الْأَذَانِ  رقم الحديث 725 بَابُ إِلْزَاقِ الْمَنْكِبِ بِالْمَنْكِبِ)

قوله: ( باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم في الصف ) المراد بذلك المبالغة في تعديل الصف وسد خلله. فتح الباري بشرح صحيح البخاري رقم الحديث 724 كِتَابُ الْأَذَانِ  | بَابُ إِلْزَاقِ الْمَنْكِبِ بِالْمَنْكِبِ)

عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ : أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ فَقَالَ : " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ - ثَلَاثًا - وَاللَّهِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ". قَالَ : فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَلْزَقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَةِ صَاحِبِهِ، وَكَعْبَهُ بِكَعْبِهِ.

حكم الحديث: صحيح. (سنن أبي داود رقم الحديث 662 كِتَابُ الصَّلَاةِ  |  تَفْرِيعُ أَبْوَابِ الصُّفُوفِ  | بَابٌ : تَسْوِيَةُ الصُّفُوفِ)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 16/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

منفرد کے پیچھے شریک نماز ہونا اور منفرد کا سری قراءت کرنا

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1649🖋️

(کتاب الصلاۃ باب الامامۃ)

منفرد کے پیچھے شریک نماز ہونا اور منفرد کا سری قراءت کرنا

سوال: ایک آدمی عشاء کی فرض نماز تنہا پڑھ رہا تھا دوسرا آکر نماز میں اس کے ساتھ شامل ہو گیا؛ لیکن اس منفرد کو معلوم نہیں ہوا کوئی اس کے ساتھ شامل ہے، اس نے سری قرائت کے ساتھ نماز مکمل کی تو ان کی نماز ہوئی یا نہیں؟ (رضوان، شراوستی یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

فرض نمازوں میں اقتدا درست ہونے کے لیے مقتدی کا اقتدا کی نیت کرنا ضروری ہے، امام کے لیے امامت کی نیت کرنا شرط نہیں ہے؛ اس لیے منفرد کے پیچھے اگر کسی نے آکر نیت کرلی اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے لگا تو نماز ہوجائے گی؛ بشرطیکہ دونوں کی نمازیں ایک ہوں اور اقتداء کی دیگر شرطیں پائی جائیں، البتہ چونکہ منفرد کو اس کی اقتداء کا علم نہیں ہوا ہے یا ہوا ہے مگر امامت کا ارادہ نہیں کیا ہے تو اس پر امامت کے وہ لوازم ضروری نہیں ہونگے جو امام کے لئے ضروری ہوتے ہیں مثلاً جہری قراءت وغیرہ(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

 (١) ولا یصح الاقتداء بإمام إلا بنیةٍ، وتصحُّ الإمامة بدون نیتہا․ (الأشباہ والنظائر، ۱۰/ ۷۲، ط: زکریا دیوبند)

ائتمّ بہ بعد الفاتحة، یجہرُ بالسورة إن قصد الإمامة وإلا فلا یلزمُہ الجہرُ في الفجر وأولیی العشاء ین الخ․ وقال العلامة ابن عابدین: وسیذکر في باب الوتر․․․ أنہ لا کراہة علی الإمام لو لم ینو الإمامة، فإذا کان کذلک فکیف تلزم أحکامُ الإمامة بدون الالتزام․ (الدر مع الرد: ۳/۲۵۰، ط: زکریا دیوبند)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 24/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

منگل، 23 اگست، 2022

بارہ دن مدت مسافت پر رہنے والے کی نماز کا حکم

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1767🖋️

(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المسافر)

بارہ دن مدت مسافت پر رہنے والے کی نماز کا حکم


سوال: ایک پولیس والا مدت سفر اور مسافت سفر پر ڈیوٹی کرتا ہے اور کم سے کم بارہ تیرہ دن بعد گھر آتا ہے جہاں ڈیوٹی کرتا ہے وہاں ایک ہی جگہ رکا رہتا ہے کیا ایسا آدمی قصر کرے گا یا مکمل نماز ادا کرے گا؟ (ولی اللہ، دلی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

وہ شخص جہاں پر ڈیوٹی کر رہا ہے وہ اس کا وطن اصلی نہیں ہے، اگر وطن اصلی نہ ہو تو اصول یہ ہے کہ جب تک پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ ہو تو اس صورت میں اس پر قصر نماز پڑھنا ضروری ہے، فرض نماز چار رکعت نہیں پڑھ سکتا ہے، چنانچہ انہیں مذکورہ بالا صورت میں قصر کرنا واجب ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) حدثنا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، قَالَ : قُلْتُ لِأَنَسٍ : كَمْ أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ ؟ قَالَ : عَشْرًا. (سنن الترمذی أَبْوَابُ السَّفَرِ  رقم الحدیث 548 بَابٌ : مَا جَاءَ فِي كَمْ تُقْصَرُ الصَّلَاةُ)

وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ : مَنْ أَقَامَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَتَمَّ الصَّلَاةَ، وَرُوِيَ عَنْهُ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ. (سنن الترمذي رقم الحديث 548 أَبْوَابُ السَّفَرِ  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي كَمْ تُقْصَرُ الصَّلَاةُ)

ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلد يصلح للإقامة خمسة عشر يوما فصاعدا فيلزمه الإتمام. (الجوهرة النيرة 86/1 كتاب الصلاة باب صلاة المسافر)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 25/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

عورت اپنی سوکن کے گھر جائے تو مقیم ہوگی یا مسافر

 ⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1638🖋️

(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المسافر)

عورت اپنی سوکن کے گھر جائے تو مقیم ہوگی یا مسافر

سوال: زید کی دو بیویاں ہیں ایک کراچی میں دوسری لاہور میں، اب سوال یہ کہ اگر زید کی کراچی والی بیوی، زید کے ساتھ کچھ دنوں کیلئے لاہور چلی جائے، تو کراچی والی بیوی کا قصر کا حکم ہے یا اتمام کا؟ (مرسل بندۂ خدا، ممبئ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

زید کی وہ بیوی جو کراچی میں رہتی ہے وہ اگر اس کی رہائش مستقل طور پر کراچی میں ہے اور صرف مہمانی کی غرض سے وہ لاہور جارہی ہے اور پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ اس کا نا ہی وطن اصلی بنے گا اور نا ہی وطن اقامت؛ اس لیے وہاں وہ قصر کرے گی شوہر کی تبعیت میں وہ مقیم نہیں مانی جائے گی، یہ مسٔلہ صراحتاً تو کہیں نہیں ملا تاہم نئی نویلی دلہن کے سسرال جانے والے مسئلے پر قیاس کرنے سے یہی حکم مستنبط ہوتا ہے جسے أکثر علماء نے لکھاہے کہ وہ شروع شروع میں قصر کرے گی(١)۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) "( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه ( يبطل بمثله ) إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما ( لا غير و ) يبطل ( وطن الإقامة بمثله و ) بالوطن (الأصلي و ) بإنشاء ( السفر ) والأصل أن الشيء يبطل بمثله وبما فوقه لا بما دونه، ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته، وما صوره الزيلعي رده في البحر". (2/132)

(بہشتی زیور 2/50،فتاویٰ محمودیہ 7/501).


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 13/2/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ہفتہ، 20 اگست، 2022

کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں دوسری قسط

کرامات اولیاء سے متعلق نہایت اہم وضاحتیں



دوسری قسط  

 سوال: کیا کرامات اولیاء برحق ہیں؟ کرامات اولیاء کو نہ ماننے والے کے ایمان پر کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کرامات اولیاءکو بالکل نہیں مانتے ایسے لوگوں کا ایمان کیسا ہے؟ 

مکل و مدلل جواب عنایت کیجیے. (ابو یحییٰ محمد صغیر، مہاراشٹر)

"اہل سنت والجماعت کے بنیادی اصولوں میں سے اولیاء کرام کی کرامتوں کی تصدیق بھی ہے، اور ان باتوں کی تصدیق جو اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں ظاہر فرماتے ہیں مختلف علوم اور کشف و کرامت کی خارق عادت باتیں وغیرہ۔۔۔۔ اور یہ کرامات اور خارق عادت باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کی امتوں میں بھی ہوئی ہیں، جیسے کہ سورہ کہف وغیرہ میں ہے اور اس امت کے افراد صحابہ کرام و تابعین عظام اور امت مسلمہ کی تمام صدیوں میں ہوئی ہیں اور یہی نہیں بلکہ قیامت تک کرامات اور خارق عادت باتوں کا سلسلہ چلتا رہے گا"(١٢)

علامہ ابن تیمیہ کی وضاحت اور تمام اہل سنت والجماعت کے اتفاق سے معلوم ہوا کہ کرامت خدا کے صالح بندوں سے صادر ہوتی اور سوائے معتزلہ اور بدعت پرست لوگوں کے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا ہے، لیکن واضح رہے کہ کرامت کے صدور میں ولی کے کسی فعل کا عمل دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ خدائی قوت و عمل سے انجام پاتا ہے بندہ صرف اور اس میں ذریعہ ھوتا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ کرامت کے منکر کا کیا حکم ہوگا، تو اگر کوئی شخص سرے سے کرامت کا ہی منکر ہے اور وہ کرامت کو تسلیم ہی نہیں کرتا ہے تو وہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہے اور معتزلہ جیسے گمراہ فرقے کا اس مسئلے میں متبع ہے، لیکن اس پر نہ کفر کا حکم لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے کافر کہا جائے گا۔ اکابر اہل علم کی اس بابت یہی تحقیق ہے (١٣) فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 والدليل على ما قلنا 


(١) الكرامة هي ظهور أمر خارق للعادة من قبل شخص غير مقارن لدعوى النبوة فما لا يكون مقرونا بالإيمان و العمل الصالح يكون استدراجا (كتاب التعريفات للجرجاني ١٥٤ باب الكاف دار الفضيله القاهرة)

(٢) وجد عندها رزقا۔۔۔۔۔۔ و استدل الآية على جواز الكرامة للاولياء لأن مريم لا نبوة لها على المشهور. (روح المعاني للآلوسي ٢٢٥/٣ سورة آل عمران آية ٣٧)

(٣) كما استدلوا على وقوعها بقصة أهل الكهف التي وردت في سورة الكهف.... و كذلك بقصة الذي كان عنده علم من الكتاب في زمن سليمان عليه السلام... و كذلك بما وقع للصحابة من كرامات في حياتهم. (الموسوعة الفقهية ٢٢٠/٣٤ الكرامة)

(٤) كاتيان صاحب سليمان عم وهو آصف بن برخيا على الأشهر بعرش بلقيس قبل ارتداد الطرف مع بعد المسافة (شرح العقائد ص ١٠٦)

(٥) عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، وَمَعَهُمَا مِثْلُ الْمِصْبَاحَيْنِ يُضِيئَانِ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا، فَلَمَّا افْتَرَقَا صَارَ مَعَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَاحِدٌ حَتَّى أَتَى أَهْلَهُ. (صحيح البخاري حديث نمبر ٤٦٥)

(٦) أن الرجلين هما عباد ابن بشر و أسيد بن حضير (فتح الباري شرح صحيح البخاري ١٢٥/٧ حديث نمبر ٤٦٥)

(٧) يا أمير المؤمنين هزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي : يا سارية الجبل ثلاثا فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله قال : قيل لعمر : إنك كنت تصيح بذلك و ذلك الجبل الذي كان سارية عنده بنهاوند من أرض العجم قال ابن حجر في الإصابة : إسناده حسن . (تاريخ الخلفاء للسيوطي ١١٣/١ الطبعة الأولى و تاريخ دمشق ج ٤٤)

(٨) ذهب جمهور علماء السنة إلى جواز ظهور أمر خارق للعادة على يد مومن ظاهر الصلاح اكراما من الله له و إلى وقوعها فعلا. (الموسوعة الفقهية ٢٢٨/ ٣٤ الكرامة)

(٩) و كرامات الأولياء حق والولي هو العارف بالله و صفاته حسب ما يمكن المواظب على الطاعات المجتنب عن المعاصي (شرح العقائد للتفتازاني ص ١٠٥ رشيدية دهلي)

(١٠) اعلم أن الكرامات حق كما أن المعجزات حق و كلتاهما من عالم القدرة. (حاشية رمضان آفندي على شرح العقائد. ٢٩١ رحيمية ديوبند)

(١١) حق أي ثابت بالكتاب والسنة و لا عبرة بمخالفة المعتزلة و أهل البدعة في إنكار الكرامة. (الحاشية على شرح العقائد للتفتازاني ص ١٠٥ كتب خانه رشيدية دهلي)

(١٢) و من أصول أهل السنة والجماعة: التصديق بكرامات الاولياء و ما يجري الله على أيديهم من خوارق العادات في انواع العلوم و المكاشفات و انواع القدرة والتأثير كالماثور عن سالف الأمم في سورة الكهف و غيرها و عن صدر هذه الأمة من الصحابة والتابعين و سائر قرون الأمة و هي موجودة فيها إلى يوم القيامة. (مجموع فتاوى شيخ الاسلام ابن تيمية ١٥٦/٣ اعتقاد السلف)

(١٣) اعلم أن الكرامات حق كما أن المعجزات حق و كلتاهما من عالم القدرة. (حاشية رمضان آفندي على شرح العقائد. ٢٩١ رحيمية ديوبند)

و كرامات الأولياء حق و منكرها خارج من أهل السنّة والجماعة. (إمداد الفتاوى ٣٢٧/٦ كتاب العقائد والكلام زکریا)


نیز دیکھئے: کفایت المفتی ١٥٦/١

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

مركز البحث و الإفتاء الجامعة الإسلامية دار العلوم مہذب پور سنجر پور اعظم گڑھ یوپی

مورخہ 23/11/1439

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے
Share

جیسے بہت سے انسان آنکھوں سے کنجے ہوتے ہیں ویسے ہی اگر کوئی جانور کنجا ہو تو اس جانور کی قربانی کا کیا حکم ہوگا؟

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1545🖋️


(کتاب الاضحیہ، باب عیوب الحیوان)


کنجے جانور کی قربانی کا حکم


سوال: جیسے بہت سے انسان آنکھوں سے کنجے ہوتے ہیں ویسے ہی اگر کوئی جانور کنجا ہو تو اس جانور کی قربانی کا کیا حکم ہوگا؟ (حکیم مظہر الحق، یوپی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم


الجواب و باللہ التوفیق


کنجا ہونا (نیلی آنکھ والا جانور) کوئی ایسا عیب نہیں ہے جس سے جانور میں کوئی کمی پیدا ہوتی ہو، یا اس کے جمال و کمال میں نقص پیدا ہوتا ہے؛ اس لیے اس کی قربانی درست ہے فقہاء کرام نے احول جانور یعنی جس کی آنکھ میں موتیا بند ہو اس کی قربانی کی اجازت دی ہے تو کنجے کی بدرجہ اولی قربانی جائز ہوگی(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚


كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية و ما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع. (الفتاوى الهندية ٢٩٩/٥ كتاب الأضحية)


والحولاء تجزئ وهي التي في عينها حول. (الفتاوى الهندية 298/5 كتاب الاضحيه دار الكتب العلميه بيروت)


كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 9/11/1442

رابطہ 9029189288


دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

Translate