پیر، 12 ستمبر، 2022

بسم اللّٰہ کی جگہ 786 لکھنے کا حکم اور اس کا صحیح عدد

 ☪سوال و جواب☪

⬇مسئلہ نمبر 786⬇

(کتاب العلم، متفرقات)

 بسم اللّٰہ کی جگہ 786 لکھنے کا حکم اور اس کا صحیح عدد 

سوال: بعض حضرات بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کی جگہ 786 لکھتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہری کرشنا کا عدد ہے کیا یہ درست ہے؟ شرعی نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے لیے 786 لکھنے کا کیا حکم ہوگا؟ برائے مہربانی مدلل و باحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔ (عبد الحلیم ثاقبی بہرائچی، متعلم شعبہ افتاء جامعہ ہتھوڑا باندہ)

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن مجید کی ایک اہم نہایت بامعنی اور بابرکت آیت ہے، قرآن مجید کی سورہ نمل آیت نمبر ٣٠ میں یہ آیتِ قرآنی آیت کے طور پر موجود ہے۔

کتابت و تحریر کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی نہیں؛ بلکہ اس سے پہلے سے بھی بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز کی بات موجود ہے، اس کی واضح طور پر سب سے پہلی شہادت ہمیں حضرت سلیمان علیہ السلام سے معلوم ہوتی ہے، جب آپ علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو خط لکھا تھا تو بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز فرمایا تھا۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عرب و عجم کو پیغام خداوندی بھیجا تو اپنے خطوط کی ابتدا بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے فرمائی، نیز آپ ﷺ کے بعد سے آج تک کے تمام اصحابِ علم و فن کا معمول اپنی تحریر و تقریر میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز کا رہا ہے؛ اس لیے اصل حکم یہی ہے کہ آدمی جب بھی کوئی اچھا کام کرے یا تحریر و تقریر کی ابتدا کرے تو پورا بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے یا لکھے۔

لیکن بعض مرتبہ سخت اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں آیت مبارکہ کی توہین نہ ہو؛ اس لیے بعض اہل نظر نے بجائے آیت کے اس کا عدد نکالا اور اس کا استعمال شروع کیا، یہ عدد عموما 786 لکھا جاتا ہے؛ لیکن اس کے اعداد 786 اس وقت ہونگے جب حروفِ مکتوبہ کے اعتبار سے نکالا جائے نا کہ حروف ملفوظہ کے اعتبار سے؛ یعنی بولنے میں اللہ اور رحمن میں کھڑا زبر بولا جاتا ہے جب کہ لکھنے میں عموما لکھا نہیں جاتا؛ چنانچہ 786 کا عدد اس وقت نکلے گا جب بغیر کھڑا زبر کے نکالا جائے، ذیل میں حروف اور اعداد کا نقشہ لکھا جاتا ہے تاکہ سمجھنا آسان ہو:

ب 2

س 60

م 40

ا 1

ل 30

ل 30

ھ 5

ا 1

ل 30

ر 200

ح 8

م 40

ن 50

ا 1

ل 30

ر 200

ح 8

ی 10

م 40

کل-----

ہوا 786

اسی طرح 786 کا عدد ہری کرشنا کا بھی نکلتا ہے۔ ذیل میں اس کا نقشہ بھی ملاحظہ ہو:

ھ 5

ر 200

ی 10

ک 20

ر 200

ش 300

ن 50

ا 1

کل-----

ہوا  786

خلاصہ ایں کہ جس طرح ہری کرشنا کا عدد 786 نکلتا ہے؛ اسی طرح بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کا بھی عدد 786 نکلتا ہے، اسی لئے متعدد اہل علم و اصحاب فتاویٰ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بجائے 786 لکھنے کو بہتر قرار نہیں دیا ہے؛ مگر جائز ضرور کہا ہے؛ چنانچہ فتاوی دارالعلوم دیوبند کی صراحت اس بابت بایں الفاظ ہے:

"جو لوگ بسم اللہ کی جگہ اس کا نقش 786 لکھتے ہیں وہ محض قرآنی آیت کو بے ادبی سے بچانے کے لیے لکھتے ہیں ان کا یہ عمل بھی درست ہے" (فتاوی دارالعلوم دیوبند فتوی: 562/ ب= 451/ ب)

اسی طرح مفتی نظام الدین صاحب سابق مفتی دار العلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں:

"اگر کوئی شخص اس آیت کریمہ کو موقع ذلت واہانت میں پڑنے سے بچانے کی نیت سے بجائے آیت کریمہ کے 786 لکھ دے تو 

الأمور بمقاصدھا 

کے مطابق بلاشبہ جائز رہے گا" (نظام الفتاویٰ: ج۱ ص۳۹۵۵)

نیز فتاوی عثمانی میں فقیہ وقت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:

'صرف زبان سے کہنے پر اکتفاء کرے یا ۷۸۶ ایک علامت بسم اللہ ہونیکی حیثیت سے لکھ دے" (فتاوی عثمانی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 144 ,145)

مشہور عالم دین حضرت مولانا یوسف لدھیانوی سے فرماتے ہیں:

  "786 بسم اللہ شریف کے عدد ہے. بزرگوں سے اسکے لکھنے کا معمول چلا آرہاہے، غالبا اسکو رواج اسلئے دیاہوکہ خطوط عام طور پر بھاڑ کر پھینک دئیے جاتے ہیں"۔ (آپکے مسائل اور انکا حل جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 384)

فقیہ زمانہ حضرت مفتی محمود صاحب گنگوھی رقمطراز ہیں:

"بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ثواب   786 لکھنے سے نہیں ملے گا، یہ بسم اللہ کا عدد ہے جن سے اشارہ ہوسکتا ہے (فتاوی محمودیہ

جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 3400 کتاب العلم)

اس لیے اس کا لکھنا جائز ہے، لیکن بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم لکھنے کا جو ثواب اور اس کی جو برکت ہے وہ حاصل نہیں ہوگی۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

دیکھئے: فتاوی دارالعلوم زکریا جنوبی افریقہ ٨٠٩/٧ قاموس الفقہ ٤٦٢/٣ تسمیہ، جواہر الفقہ ١٨٧/٢ احکام و خواص بسم اللہ، احسن الفتاوی ٢٤/٨ علمی مکاتیب ص ٨٩ وغیرہ

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

 مورخہ 29/8/1440

 رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

ہفتہ، 10 ستمبر، 2022

ٹول ٹیکس (Toll Tex) لینے دینے کا شرعی حکم

 ⚖سوال و جواب⚖

🛣مسئلہ نمبر 834🛣

(کتاب الحظر و الاباحہ، متفرقات)

 ٹول ٹیکس (Toll Tex) 

لینے دینے کا شرعی حکم 

 سوال: سڑکوں پر ایک نظام ہوتا ہے جہاں ہم اپنی گاڑی گذارنا چاہیں تو کچھ پیسے ڈالنے پڑتے ہیں جیسے واشی میں آپ نے دیکھا ہوگا، یہ نظام تقریبا تمام شہروں میں ہوتا ہے اگر ہم اپنے گاؤں سے پٹنہ جانا چاہیں تو تین جگہ اس طرح ٹیکس بھرنا پڑتا معلوم یہ کرنا ہیکہ یہ ظالمانہ ٹیکس میں شامل ہے یا نہیں؟ (مفتی اجمل صاحب قاسمی، اندھیری ممبئی)


 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب وباللہ التوفیق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء اسلام کے زمانے میں عوامی ضروریات کی تکمیل، غرباء ومساکین کی تمویل، اور سڑک راستے پل وغیرہ کی تعمیر کے لئے بیت المال کا نہایت اہم اور کارآمد شعبہ قائم تھا، جس سے مذکورہ بالا تمام ضروریات کی تکمیل ہوتی رہتی تھی؛ بیت المال میں جو رقوم یا چیزیں آتی تھیں وہ کئی مدات سے آتی تھیں مثلاً خمس غنائم، مال فیئ، خمس معادن و رکاز، خراج و جزیہ اور ضوائع یعنی لاوارث مال اور لاوارث کی میراث وغیرہ سے؛ لیکن اب خلافت یا صحیح اسلامی حکومت کا زمانہ رہا نہیں؛ اس لیے وہ نظام بھی باقی نہیں ہے، اس دور میں مذکورہ بالا ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حکومتوں نے ٹیکس کا نظام قائم کر رکھا ہے اور ٹیکس سے حاصل شدہ رقوم سے یہ ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

اب ظاہر ہے کہ اگر ٹیکس مناسب انداز میں لیا جائے جس سے عوام کو نقصان نہ ہو اور ساری ضروریات کی تکمیل بھی ہوتی رہے تو اس میں حرج نہیں؛ لیکن اگر ٹیکس کے نام پر عوام کو لوٹنے کی کوشش کی جائے اور ٹیکس کی شرح اس قدر زیادہ کردی جائے کہ عوام اسے ظلم تصور کرے اور ظلم سے تعبیر کرے جیسا کہ بہت سے ملکوں میں انکم ٹیکس کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ اسے ظالمانہ ٹیکس کہنے میں یقینا کوئی اشکال نہیں تو ایسے ٹیکس بہرحال غلط ہیں چنانچہ انسان سے جہاں تک ممکن ہو بسہولت ان ٹیکسوں سے اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کرسکتا ہے، اس پر شرعاً کوئی ملامت نہیں ہے۔

جہاں تک تعلق ہے ٹول ٹیکس (Toll Tex) کا تو چونکہ یہ سڑک اور پل وغیرہ کی تعمیر میں آئے ہوئے اخراجات کو نکالنے کے مقصد کے لیے لگایا جاتا ہے، فی نفسہ یہ ٹیکس لگانا اور لینا دینا درست ھے، بطور خاص اس زمانے میں جبکہ ہائیوے اور فور لائن، سِکس لائن روڈ بن رہے ہیں اور بسااوقات بڑے بڑے پل اور برج بنانے پڑتے ہیں ظاہر ہے کہ اس میں بے تحاشا اخراجات آتے ہیں، ان اخراجات کی تکمیل کے لئے اس سے بہتر اور آسان دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا کہ اس راستے پر گزرنے والی گاڑیوں اور موٹر کاروں سے مناسب رقم وصول کی جائے، دوسری بات یہ بھی مد نظر رہے کہ کہ ٹول ٹیکس جب لگایا جاتا ہے تو تمام اخراجات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک متعینہ مدت کے لیے لگایا جاتا ہے اور جیسے ہی وہ رقم وصول ہوجاتی ہے قانونی طور پر اس ٹول کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے؛ حتیٰ کہ اگر ختم نہ کیا جائے تو عوام کو حق حاصل ہوتا ہے کہ احتجاجا اسے ختم کرائیں، احقر راقم الحروف کے علم میں ہے کہ ہمارے شہر کے ایک ٹول کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی کچھ دن قائم رہا تو عوام نے زبردستی اسے ختم کرایا؛ اس لیے حکومت کا اپنے اخراجات کے بقدر مناسب ٹیکس لینے میں حرج نہیں اور عوام کو بھی چاھیے کہ بخوشی وہ ٹیکس ادا کریں، ہاں اگر کہیں ٹیکس کی شرح اس قدر زیادہ ہو کہ عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو تو یقیناً وہ ظلم ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


 📚والدليل على ما قلنا📚 

(١) لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ( الدر المختار مع الشامی ۹/۲۹۱، کتاب الغصب ، مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر)

قال اللہ تعالیٰ : وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ۔ (سورۃ البقرۃ : آیت،۱۹۵)

عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ ﷺ: لیس للمؤمن أن یذل نفسہ، قالوا : یا رسول اللہ! وکیف یذل نفسہ؟ قال: یتعرض من البلاء لما لایطیق۔ (مسند البزار، مکتبہ العلوم والحکم ۷/۲۱۸، رقم: ۲۷۹۰)

ﻭ‍ﻃ‍‍ﺎ‍ﻋ‍‍ﺔ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺈ‍ﻣ‍‍ﺎ‍ﻡ‍ ‍ﻟ‍‍ﺎ‍ﺯ‍ﻣ‍‍ﺔ ‍ﻛ‍‍ﺬ‍ﺍ ‍ﻃ‍‍ﺎ‍ﻋ‍‍ﺘ‍‍ﻪ‍; ‍ﻟ‍‍ﺄ‍ﻧ‍‍ﻬ‍‍ﺎ ‍ﻃ‍‍ﺎ‍ﻋ‍‍ﺔ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺈ‍ﻣ‍‍ﺎ‍ﻡ‍, ‍ﺇ‍ﻟ‍‍ﺎ ‍ﺃ‍ﻥ‍ ‍ﻳ‍‍ﺄ‍ﻣ‍‍ﺮ‍ﻫ‍‍ﻢ‍ بمعصية (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٩٩/٧ دار الكتب العلميه بيروت)

طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجبة (رد المحتار على الدر المختار ٥٣/٣ كتاب الصلاة باب العيدين)

 كتبه العبد محمد زبير الندوي 

دار الافتاء والتحقيق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 17/10/1440

رابطہ 9029189288

 دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعہ، 9 ستمبر، 2022

کیا جسم اطہر سے متصل زمین عرش و کرسی سے افضل ہے

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1396🖋️

(کتاب الحظر و الاباحہ، متفرقات)

کیا جسم اطہر سے متصل زمین عرش و کرسی سے افضل ہے

سوال: کیا یہ محقق بات ہے کہ مدینہ طیبہ کی وہ زمین جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے متصل ہے وہ ساری کائنات سے افضل ہے حتی (بیت اللہ شریف، آسمان، عرش معلی، کرسی، جنت) سے بھی افضل ہے اور اس کے بعد بیت اللہ شریف کا مقام ہے ؟ (عبید اللہ، بلوچستان)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا سوال کا کوئی واضح جواب قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے کہ عرش و کرسی اور بیت اللہ شریف افضل ہے یا وہ مقام جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں وہ مقام افضل ہے؟ اس تقابل سے متعلق صراحتاً کوئی آیت یا روایت موجود نہیں ہے، نیز اس کا تعلق عقیدہ سے بھی نہیں ہے، بس یہ بات ایک مسئلہ تک محدود ہے، اس وجہ سے علماء کرام کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے، بعض علماء کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے مقام کو دیگر چیزوں کے مقابلے میں افضل نہیں سمجھتے ہیں؛ جبکہ أکثر علماء کرام جن میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مکاتبِ فکر کے صف اول کے علماء شامل ہیں، ان کی تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر جس مٹی سے مس ہے وہ مقام سب سے افضل ہے۔ اس طور پر گویا تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس کی افضلیت پر متفق ہیں، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ پر علماء کا اتفاق ہے، اس سلسلے میں امام مالک، ابن عقیل، ابنِ قیم، علامہ خفاجی، قاضی عیاض مالکی، امام نووی، تاج الدین فاکہی، تاج الدین سبکی، علامہ محمد برنسی، امام سخاوی، جلال الدین سیوطی، علامہ ماوردی، علامہ رملی، علامہ مناوی، علامہ حصکفی، امام شامی سب کی واضح عبارات موجود ہیں دلائل کے ضمن میں سب کی عبارات دیکھی جاسکتی ہیں(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) ’’وَكَانَ مَالِكٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ مَنْ فَضَّلَ الْمَدِينَةَ عَلَى مَكَّةَ إِنِّي لَا أَعْلَمُ بُقْعَةً فِيهَا قَبْرُ نَبِيٍّ مَعْرُوفٍ غَيْرَهَا‘‘ (التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيد: ج۲، ص۲۸۹)

’’قاله ابن عبد البر وغيره، وأفضل بقاعها الكعبة المشرفة ثم بيت خديجة بعد المسجد الحرام، نعم التربة التي ضمت أعضاء سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من جميع ما مر حتى من العرش‘‘ (البجيرمی على الخطيب: ج۱، ص۱۰۱)

’’ الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْ مُجَرَّدِ الْحُجْرَةِ، فَأَمَّا وَالنَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِيهَا؛ فَلَا وَاَللَّهِ وَلَا الْعَرْشُ وَحَمَلَتُهُ وَالْجَنَّةُ، لِأَنَّ بِالْحُجْرَةِ جَسَدًا لَوْ وُزِنَ بِهِ لَرَجَحَ‘‘ (كتاب الفنون لابن عقيل بحوالہ؛ بدائع الفوائدلابن القیم :ج۳، ص۶۵۵؛ الروض المربع شرح زاد المستقنع: ص۲۶۹؛ الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف: ج۳، ص۵۶۲)

’’قال الشيخ الخفَّاجي ينقل عن الإمام السبكي وسلطان العلماء العز ابن عبد السلامويقرهم على قولهم۔ قال القاضي عياض اليحصبي في كتابه الشفا: ولا خلاف أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض۔ فعلَّق عليه الشيخ الخفَّاجي۔ بل أفضل من السموات والعرش والكعبة كما نقله السبكي رحمة الله‘‘ (الشفا بتعريف حقوق المصطفىٰ للقاضی عياض: ج۱، ص۶۸۳؛ نسيم الرياض فی شرح شفاء القاضی عياض: ج۳، ص۵۳۱؛ الضياء الشمسی على الفتح القدسی شرح ورد السحر للبكری: ج۲، ۲۴۱؛ سلسلة المحاضرات العلمية والتربوية: ج۱، ص۸۵)

’’قال القاضي عياض: أجمعوا على أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض، وأن مكة والمدينة أفضل بقاع الأرض. (فتح المنعم شرح صحيح مسلم: ج۵، ص ۴۶۸)

قَالَ النَّوَوِيُّ: الْجُمْهُورُ عَلَى تَفْضِيلِ السَّمَاءِ عَلَى الْأَرْضِ أَيْ مَا عَدَا مَا ضَمَّ الْأَعْضَاءَ الشَّرِيفَةَ. (مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳)

’’وقال التاج الفاكهي: قالوا: لا خلاف أن البقعة التي ضمت الأعضاء الشريفة أفضل بقاع الأرض على الإطلاق حتى موضع الكعبة‘‘۔ (وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۸)

’’أَلَا تَرَى إلَى مَا وَقَعَ مِنْ الْإِجْمَاعِ عَلَى أَنَّ أَفْضَلَ الْبِقَاعِ الْمَوْضِعُ الَّذِي ضَمَّ أَعْضَاءَهُ الْكَرِيمَةِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ، وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَفْضَلُ مِنْ الْكَعْبَةِ وَغَيْرِهَا‘‘۔  (المدخل لابن الحاج: ص۲۵۷)

’’قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟ فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل، وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح‘‘۔ (بدائع الفوائد :ج۱، ص۱۰۶۵)

’’كَمَا حَكَى الْقَاضِي عِيَاضٌ الْإِجْمَاعَ عَلَى ذَلِكَ أَنَّ الْمَوْضِعَ الَّذِي ضَمَّ أَعْضَاءَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا خِلَافَ فِي كَوْنِهِ أَفْضَلَ وَأَنَّهُ مُسْتَثْنًى مِنْ قَوْلِ الشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَفِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ مَكَّةَ أَفْضَلُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَنَظَمَ بَعْضُهُمْ فِي ذَلِكَ: وَرَأَيْت جَمَاعَةً يَسْتَشْكِلُونَ نَقْلَ هَذَا الْإِجْمَاعِ‘‘۔ (فتاوى السبكی: ج۱، ص۲۷۹)

’’واجمعوا علی ان الموضع الذی ضم اعضاء الرسول المصطفیٰﷺ المشرفۃ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ کما قالہ القاضی عیاض وابن عساکر‘‘۔  (تحقيق النصرة بتلخيص معالم دار الهجرة: ص۱۰۴)

’’وقد احتج أبو بكر الأبهري المالكي بأن المدينة أفضل من مكة بأن النبي صلى الله عليه وسلم مخلوق من تربة المدينة وهو أفضل البشر، فكانت تربته أفضل الترب انتهى وكون تربته أفضل الترب لا نزاع فيه‘‘۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری: ج۱۳، ص۳۲۰)

’’قال الشيخ مُحَمَّد البرنسي الفاسي الْمَعْرُوف بزرُّوق المالكي في شرح الرسالة: وقال ابن وهب وابن حبيب بالعكس بعد إجماعهم على أن موضع قبره عليه الصلاة والسلام أفضل بقاع الأرض قُلْتُ وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ مَوْضِعُ الْبَيْتِ بَعْدَهُ كَذَلِكَ، وَلَكِنْ لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ لِأَحَدٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ فَانْظُرْهُ‘‘ (شرح زروق على متن الرسالة: ص ۹۹۲)

’’قال الإمام السخاوي في التحفة اللطيفة: مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته صلى الله عليه وسلم، حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة، بل على العرش، فيما صرح به ابن ععقيل من الحنابلة۔ ولا شك أن مواضع الأنبياء وأرواحهم أشرف مما سواها من الأرض والسماء، والقبر الشريف أفضلها، لما تتنزل عليه من الرحمة والرضوان والملائكة، التي لا يعملها إلا مانحها، ولساكنه عند الله من المحبة والاصطفاء ما تقصر العقول عن إدراكه‘‘۔ ( التحفة اللطيفة فی تاريخ المدينة الشريفة السخاوی: ج۱، ص۴۲)

’’قال جلال الدین سیوطی رحمه الله: قَالَ الْعلمَاء مَحل الْخلاف فِي التَّفْضِيل بَين مَكَّة وَالْمَدينَة فِي غير قَبره صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أما هُوَ وَأفضل الْبِقَاع بِالْإِجْمَاع بلة أفضل من الْكَعْبَة بل ذكر ابْن عقيل الْحَنْبَلِيّ أَنه أفضل من الْعَرْش‘ (الخصائص الكبرى للإمام السيوطی: ج۲، ص۳۵۱)

’’قال شمس الدين الشامي الشافعي في سبل الهدى والرشاد: قال القاضي عياض بعد حكاية الخلاف: ولا خلاف أن موضع قبره- صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض انتهى۔ ولا ريب أن نبينا- صلى الله عليه وسلم- أفضل المخلوقات، فليس في المخلوقات على الله تعالى أكرم منه، لا في العالم العلويّ ولا في العالم السفليّ كما تقدم في الباب الأول من الخصائص‘‘۔ (سبل الهدى والرشاد فی سيرة خير العباد: ج۱۲، ۳۵۳)

نَقَلَ عِيَاضٌ وَقَبْلَهُ أَبُو الْوَلِيدِ وَالْبَاجِيُّ وَغَيْرُهُمَا الْإِجْمَاعَ عَلَى تَفْضِيلِ مَا ضَمَّ الْأَعْضَاءَ الشَّرِيفَةَ عَلَى الْكَعْبَةِ بَلْ نَقَلَ التَّاجُ السُّبْكِيُّ عَنْ ابْنِ عَقِيلٍ الْحَنْبَلِيِّ أَنَّهَا أَفْضَلُ مِنْ الْعَرْشِ، وَصَرَّحَ التَّاجُ الْفَاكِهِيُّ بِتَفْضِيلِهَا عَلَى السَّمَوَاتِ، (مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳)

’أن موضع قبره الشريف ﷺ أفضل بقاع الأرض، وهو  أفضل الخلق وأكرمهم على الله تعالى ۔۔۔  فاذا تقرر أنه أفضل المخلوقين وأن تربته أفضل بقاع الأرض. (تاريخ المدينة لقطب الدين النهروانی: ص۱۸۶)

’’وقال الشيخ شمس الدین الرملي المصري الشافعي نقله الشوبري في حاشيته على أسنى المطالب: وَمَحَلُّ التَّفَاضُلِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ مَوْضِعِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا هُوَ فَأَفْضَلُ بِالْإِجْمَاعِ. (أسنى المطالب فی شرح روض الطالب وبهامشه حاشية الرملی تجريد الشوبری: ج۵، ص۴۳۵)

’’قام الاجماع ان ھٰذا الموضع الذی ضم اعضاء الشریفۃﷺ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ الشریفۃ قال بعضھم وافضل من بقاع السمٰوٰت حتی من العرش‘‘۔ (سیرۃ حلبیہ [اردو]: ج ۲ ص ۸۵)

’’وقال زين العابدين الحدادي ثم المناوي القاهري في شرحه المسمَّى فيض القدير: والخلاف فيما عدا الكعبة فهي أفضل من المدينة اتفاقا خلا البقعة التي ضمت أعضاء الرسول صلى الله عليه وسلم فهي أفضل حتى من الكعبة كما حكى عياض الإجماع عليه‘‘۔  (فيض القدير شرح الجامع الصغير: ج ۶ ص ۲۶۴)

ومكة أفضل منها على الراجح إلا ما ضم أعضاءه عليه الصلاة والسلام فإنه أفضل مطلقا حتى من الكعبة والعرش والكرسي. ۔ (مجمع الأنهر فی شرح ملتقى الأبحر: ج۱، ص۳۱۲)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 8/6/1442

رابطہ 9 

Share

ہبہ کیئے گئے مکان کو واپس کرنا

 ⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1324🖋️

(کتاب النکاح، متفرقات)

ہبہ کیئے گئے مکان کو واپس کرنا

سوال :-  میری ایک بہن ہے ۔ جن کے شوہر نے  بہت ۔ بہت پہلے ۔ آج سے تقریبا 15 ۔ 17 سال پہلے  ان کو چھوڑ دیا تھا ۔ طلاق تو نہیں دی ۔ لیکن  ۔ بس ۔ بے یار و مددگار چھوڑدیا تھا ۔ ۔۔۔ ان کے شوہر نہ آتے تھے ۔ اور نہیں  کوئی نان نفقہ ۔خرچہ پانی ۔ دیتے تھے ۔ نہ حال احوال پوچھتے تھے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ 

میری اس بہن کے ۔ 4  بیٹیاں ۔ اور ۔ 1 بیٹا ہے ۔ ۔۔۔ 

میری بہن نے ۔ ۔۔ گھروں میں کام کاز کرکے ۔ اپنی اولاد کی پرورش کی ۔ کرایہ کے گھر پر رہکر گھر کا کرایہ بھی دیا ۔ اور ۔  تین بیٹیوں کی شادی کی ۔ اور  بیٹے کو پڑھایا ۔ حافظ ۔ عالم بنایا ۔ اچھی جگہ کام پر لگایا ۔(امامت اور۔ مکتب ۔ دونو میں ۔ اچھا کماتا ہے) ۔   اور شادی بھی کی ۔۔۔۔ ۔۔ اب ایک بیٹی کی شادی باقی ہے ۔ بس ۔ 

مینے اپنی اس بہن کے لیے  ایک مکمل گھر بناکر دیا ۔ ۔ ۔ انکے حوالے کر دیا ۔۔۔ تاکے وہ سکون سے ایک جگہ رہ سکے ۔ اِدھر اُدھر  دھکے نہ کھائے ۔۔۔۔ 

لیکن جب بیٹے کی شادی کردی تو ۔۔۔ بیٹا اس کی بیوی کی ۔ اور اسکے سسرال کے گھر والوں کی  باتوں ۔ میں  آکر ۔ اس کی ماں کو تکلیف دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ برابھلا کہتا ہے ۔ گھر کا خرچہ بھی مکمل نہیں دے رہا ہے ۔۔۔

 اب اس سلسلے میں کچھ سوالات ہیں ۔ امید ہے کہ مکمل تفصیل سے جواب مرحمت فرمائیں گے ۔ 

1  :- میری بہن اپنے اس بیٹے کو اب الگ رہنے کو کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ تو اس صورت میں  بیٹے کے ذمہ ۔ اس کی ماں ۔ کا ۔اور اس کی  بہن کا خرچہ لازم ہوگا یا نہیں ؟  جو بہن  غیر شادی شدہ ہے ۔۔۔ 

2 :- جو گھر مینے بناکر دیا تھا اپنی اس بہن کو ۔ وہ گھر اب مجھے واپس کرنا چاہتی ہے ۔ تو کیا اسطرح واپس کرنا شرعا صحیح ہے ۔ ۔ ۔ اگر صحیح ہے تو اسکی کیا شکل ہے ؟ مثلا  صرف کہنا صحیح ہوگا  یا  باقاعدہ ملکیت میں لینا ہوگا ۔ اس کے لیے گھر کے دستاویز سے بہن کا نام نکال کر  اپنا نام دستاویز کرنا ہوگا ۔۔۔ یا صرف اس گھر میں جاکر قبضہ کرلینا کافی ہوگا ۔۔ ۔  نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی  ۔۔۔ ؟ 

3 :- میرے بہن کہہ رہی ہے  کے یہ گھر میں اس کو دوں گی جو میری  ۔دوا ۔ علاج ۔ خدمت ۔  کرے ۔۔۔  تو کیا اسطرح کہنا اور کرنا صحیح ہے ۔ اسطرح کسی ایک کو دے سکتے ہے ؟ کوئی گناہ ۔ ناجائز تو نہیں ہے  ۔۔ ؟ (المستفتی  :- عبداللہ ۔۔۔ متحدہ عرب امارات)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

مذکورہ بالا صورت افسوسناک بھی ہے اور تکلیف دہ بھی، اللہ تعالیٰ انسانوں کو سمجھنے اور دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، جو سوالات اوپر کئے گئے ہیں ان کے بالترتیب جوابات یہ ہیں کہ جب عورت کا شوہر یا باپ خرچہ برداشت نہ کرے تو پھر بیٹا اور بھائی کا حق ہوتا ہے کہ وہ ان کے اخراجات کو برداشت کریں؛ اس لیے مذکورہ بالا صورت میں لڑکے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ماں اور بہن کا خرچہ برداشت کرے لیکن معتدل طریقہ یہ ہے کہ وہ بیٹے کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرے۔

اگر بہن اپنی رضامندی سے مصلحتاً مکان واپس کر رہی تو واپس کر سکتی ہے اور اس کو مکمل طور پر قبضہ دے دے اور کاغذات بھی اس کے نام کردے ورنہ بعد میں دقت آئے گی۔

زیادہ خدمت کرنے والے کو بھی دے سکتی بشرطیکہ زندگی میں ہی مالک بنا دے ورنہ مال میراث ہوسکتا ہے اور پھر شرعی طور پر تقسیم کرنا ہوگا۔

فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب

📚والدليل على ما قلنا📚

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية". ( الفتاوى الهندية 4/378 الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)

و في ظاهر الرواية: البنت البالغة و الغلام البالغ الزمن بمنزلة الصغير نفقته على الأب خاصة. (فتاوى قاضي خان ٢٦٧/١  كتاب النكاح فصل في النفقات)

قال: ويجبر الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا. (الفتاوى الهندية ٥٨٦/١ كتاب الطلاق باب النفقات، الفصل الخامس، زكريا جديد)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 25/3/1442

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے

Share

جمعرات، 8 ستمبر، 2022

مشترکہ زمینی کاروبار میں اختلاف اور اس کا حل

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1764🖋️

(کتاب البیوع جدید مسائل)

مشترکہ زمینی کاروبار میں اختلاف اور اس کا حل

سوال: تقریبا سو (100) لوگوں نے مل کر زمین کی پلاٹنگ کا کاروبارشروع کیا۔ اوربلا کسی معاوضہ کے رضاکارانہ  خدمات کے لیےشر کاء ہی میں سے پانچ(5) افرادکی ایک کمیٹی بنادی گئی۔ کمیٹی کی ذمہ داری میں یہ باتیں تھیں کہ:

1.وہ گراہکوں سے پلاٹوں وشیئرس کاسودا کریں گے۔

 2.اور پلاٹوں کی بڑھتی گھٹی قیمتوں کے بارے میں ماہ بہ ماہ  شرکاء(شیئرہولڈرس ) کومطلع کرتے رہیں گے. قیمتوں کی بنیاد پر شیئرس کی خرید وفروخت کے لیے شرکاء سے اجازت حاصل کی جائے گی۔ 

3.وہ ارکان کمیٹی اپنے شیئرس کے نفع ونقصان کے مالک ہوں گے، لیکن دوسرے شیئرس کے نفع ونقصان سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ 

4.جملہ زمین کے سلسلہ میں جوسرکاری یا میزبانی کے اخراجات ہوں گے وہ تمام شرکاء کے درمیان مشترک ہوں گے۔ کمیٹی والوں کو مستقل الگ سے کوئی جارج نہیں دیاجائے گا۔ ان کی خدمات رضاکارانہ ہوں گی۔ 

اس طرح شروع میں کئی زمینوں کی خرید وفروخت کر کے منافع کمایا گیا ۔ اورآخر میں ایک زمین خریدی گئی، لیکن:

1.اس زمین کے سلسلے میں اس کمیٹی نے شرکاء (شیئر ہولڈرس) کے سامنے زمینوں کی قیمت اوپن( واضح) نہیں کی۔

 2.نیز بغیرشیئرہولڈرس کی رائے لیے اپنی مرضی سے کمیٹی میں بعض دوسرے افراد کو شریک کرلیا۔

3.پھر بہت کم قیمت میں ارکان کمیٹی، یاان کی اولادوں ورشتہ داروں نے خود ہی لوگوں کے شیئرس خرید لیے۔ سوال یہ ہے کہ :

1.شیئرس کی قیمتوں ماہ بماہ اوپن کرنے کے بجائے  شیئرس ہولڈرس کی مرضی خلاف کم دام میں سودا کرنا کمیٹی کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ 

2۔ارکان کمیٹی جو کہ شرکا ء کے وکیل ہیں ، کیا وہ شیئرس ہولڈرس کی اجازت کے بغیرخود اپنے یا اپنی اولادوں کے لیے منتذ کرہ شیئرزخرید سکتے ہیں ۔ اگرارکان کمیٹی اور ان کی اولادیں شیئرز خریدتی ہیں،تو کیا یہ خریداری درست و نافذ ہے؟ 

3 - ارکان کمیٹی کی طرف سے کئے گئے بیع وشراء کایہ  معاملہ درست نہ ہونے کی صورت میں ارکان کمیٹی کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا سودے کو لوٹانا ضروری ہے؟ 

4۔ اگر یہ لوگ سودانہیں لوٹاتے ہیں تو قومی وملی اداروں میں کسی منصب اور عہدے کے قابل ہیں یا خائن قرار پاکر ملی وتنظیمی ذمہ داریوں  کے اہل نہیں رہیں گے ۔

 بینوا وتوجروا فقط والسلام 

المستفتی: ابومصعب ناگوری۔ 

مہدپور،اُجین، (ایم پی) 


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

بنیادی طور پر تمام شرکاء پر لازم تھا کہ جو وعدہ اور اصول شروع میں بنا دیا گیا تھا اس کی پاسداری کرتے، قرآن مجید میں بھی اس کی تاکید موجود ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی یہ بات آئی ہے کہ مسلمان اپنے وعدوں اور شرطوں پر پورا اتریں، اس لیے کمیٹی کے ارکان کے لئے شرطوں کی خلاف ورزی کرنا درست نہیں ہے۔

ارکان کمیٹی نے جو زمین بھی شرکاء کے پیسے سے خریدی ہے اس میں تمام شرکاء کا حصّہ حسب شرط ہے، اور اگر اراکین اس زمین کو خود خریدتے ہیں تو ان کے لیے خریدنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ اس صورت میں وہ خود بائع اور مشتری ہونگے اور ایک ہی شخص دونوں نہیں ہوسکتا ہے، نیز اگر وہ اپنے بچوں یا رشتہ داروں کے ہاتھ فروخت کرتے ہیں تو یہ بیع درست تو ہوگی مگر شرکاء کی اجازت پر موقوف رہے گی، اگر شرکاء اجازت دیتے ہیں تو درست ہوجائے گی ورنہ درست نہیں گی اور معاملہ ختم ہوجائے گا۔

نیز ارکان کمیٹی نے جو زمین خریدی ہے اگر وہ شرکاء کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو معاملہ فسخ کرسکتے ہیں بشرطیکہ بیچنے والا معاملہ ختم کرنے پر راضی ہو۔ واضح رہے کہ اگر ارکان کمیٹی نے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کیا ہے تو وہ کسی حد تک معذور ہونگے اور اگر جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو دل میں چور ہونے میں کیا شک ہے؟ ایسے حضرات کو اعلیٰ ذمہ داریاں دینا یا دینی امور تفویض کرنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مذکورہ حکم سوالنامہ کی روشنی میں لکھا گیا ہے، اگر معاملہ میں کچھ اور پیچیدگی ہے اور دیگر وجوہات ہیں جنہیں اس سوالنامہ میں ظاہر نہیں کیا گیا ہے تو اس کے ذمہ دار سائل حضرات ہیں۔ فقظ والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا📚

(١)  یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ أَوۡفُوا۟ بِٱلۡعُقُودِۚ (المائدة ١)

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ شُرُوطِهِمْ ". (صحيح البخاري  كِتَابٌ : الْإِجَارَةُ.  | بَابُ أَجْرِ السَّمْسَرَةِ)

لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه. (مجلة الأحكام العدلية مادة 96)

يلزم مراعاة الشرط بقدر الإمكان. (مجلة الأحكام العدلية مادة 83)

للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)

”و لو اشتری من جنس تجارتھما و اشھد عند الشراء انہ یشتریہ لنفسہ فھو مشترک بینھما لانہ فی النصف بمنزلۃ الوکیل بشراء شیء معین و لو اشتری مالیس من تجارتھما فھو لہ خاصۃ لان ھذا النوع من التجارۃ لم ینطو علیہ عقد الشرکۃ. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق کتاب الشرکۃ ، جلد 5 ، صفحہ 294 ، مطبوعہ کوئٹہ )

إن الموكل مخير و البيع موقوف على إجازته إن اجازه نفذ وإلا فلا. (النتف في الفتاوى 597/2)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 22/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

غیر مسلم میت کے سراد کا کھانا کھانا

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1766🖋️

(کتاب الحظر و الاباحہ، باب الاکل)

غیر مسلم میت کے سراد کا کھانا کھانا

 سوال: غیر مسلم میں کسی کا انتقال ہوتا ہے اور انکے گھر والے ( دس یا بارہ) دن کے بعد  دعوت دیکر جو کھانا کھلاتے ہیں کیا یہ کھانا کھانا مسلمانوں کےلئے جائز ہے یا نہیں؟ اس کھانے کو سراد کا کھانا بولتے ہیں۔ (عزیر لکھنؤ)


بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

ہندؤں کے یہاں جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کے ایصالِ ثواب کے لئے وہ کچھ لوگوں کو کھانا کھلاتے اور اسے تقسیم کرتے ہیں، نیز پنڈت اس کھانے پر منتر بھی پڑھتے ہیں؛ اس لیے ہندؤں کے یہاں کھانا کھلانے کی یہ صورت ان کا مذہبی عمل ہے اور مذہب کے دائرے میں انجام پاتا ہے؛ چنانچہ اس کھانے میں مسلمانوں کا شریک ہونا شرعاً صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مولانا محمد عبیداللہ سابق اننت رام کی کتاب تحفۃ الہند مفید ترین کتاب ہے(١) اس کتاب میں اس طرح کھانا کھلانے کو ہندوانہ رسم بتایا گیا ہے۔

” ہندوٴوں کے ہاں میت کو کھانے کا ثواب پہنچانے کا نام ’سرادھ‘ ہے اور جب سرادھ کا کھانا تیار ہو جائے تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ ’وید ‘ پڑھواتے ہیں اور مُردوں کے لیے ثواب پہنچانے کے لیے ان کے ہاں خاص دن مقرر ہیں، خصوصاً جس دن (وہ ) فوت ہو ، ہر سال اسی دن ختم دلانا یعنی برسی یا موت کے تیرھویں دن، بعض کے نزدیک پندرھویں دن اور بعض کے نزدیک تیسویں یا اکتیسویں دن، ثواب پہنچانے کے لیے مقرر ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی تیجہ، ساتواں، چالیسواں اور برسی مقرر کر لیے اور کھانا تیار کرواکر اس پر ختم پڑھوانا شروع کر دیا؛ حال آں کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان میں سے کوئی رسم بھی ثابت نہیں“(٢)


📚والدليل على ما قلنا📚

(١) عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ". (سنن أبي داود رقم الحديث ٤٠٣١ كِتَابٌ : اللِّبَاسُ  | بَابٌ : فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ)

وقال القاري: أي: من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق، أو الفجار، أو بأهل التصوف، والصلحاء الأبرار. (عون المعبود شرح سنن أبي داود رقم الحديث ٤٠٣١)

(٢) تحفة الهند از عبیداللہ،  مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج : ۲۳ ، دارالاندلس، بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند  ‏، شمارہ 2، جلد: 99 ‏، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 24/6/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

منگل، 6 ستمبر، 2022

بکے ہوئے پلاٹ میں حصّہ مانگنا

⚖️سوال وجواب⚖️


🖋️مسئلہ نمبر 1788🖋️

(کتاب الفرائض)

بکے ہوئے پلاٹ میں حصّہ مانگنا

سوال: آج سے بہت پہلے میں کراۓ کے مکان میں اپنی بیوی بچے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ 

4 بہنوں کی شادیاں کر دی تھی بھائی کوئی اور تھا نہیں والد او والدہ میرے ساتھ ہی ریتے تھے ۔ 

اس وقت میں نے ایک فلیٹ خریدنے کا ارادہ کیا اور میں نے کچھ پیسے اکٹھا کیا ایسے میں میرے والد نے اپنا ایک پلاٹ جو انکی ملکیت تھا بیچ کر ایک لاکھ مجھے دے دیا کہ ملا کر گھر خرید لو۔

سو میں نے کچھ جمع پونجی اور کچھ ہاؤس بلڈنگ سے لون لے کر فلیٹ اپنی بیگم یعنی والد صاحب کے بہو کے نام لے لیا۔ 

یہ بتانا ضروری ہے کہ والد صاحب نے یہ رقم ادھار یا قرض کے مد میں نہیں دیا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئ شرط رکھی تھی۔ 

پھر ہم سب یعنی میں بیوی بچے اور والدین اس میں شفٹ یوگۓ۔ جسمیں آج تک رہتے ہیں ۔ کافی عرصے بعد والد صاحب کا انتقال ہوگیا ۔ اور اب والدہ میرے ساتھ ہیں۔

مسئلہ اب یہ ہے کہ میری چھوٹی بہن اس بات کی دعویٰ دار ہے کہ وہ پلاٹ میرے باپ کا تھا ۔ اور میں اسکی وارث ہوں ۔ اسکی جو قیمت آج کی مارکیٹ میں بنتی ہے اس حساب سے انکا حصہ نکالا جاۓ۔ 

اب یہ ایک مشکل مرحلہ ہے ۔ مہربانی فرماکر رہنمائ فرمائیں ۔ 

اللہ آپکو جزاۓ خیر دے۔ آمین ۔ 

درخواست گذار 

(ڈاکٹر سعود۔ ہومیو، ممبئی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

سوالنامہ میں جو تفصیلات آنجناب نے لکھی ہیں اگر وہ بعینہٖ صحیح اور درست نہیں ہیں تو آپ کے والد نے جو ایک لاکھ روپے دییے تھے وہ بطورِ تعاون تھا جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ انہوں نے تاحیات اس کا مطالبہ آپ سے نہیں کیا، بہن کا یہ دعویٰ درست ہے کہ وہ پلاٹ اس کے باپ کا تھا لیکن جب باپ نے اپنی زندگی میں ہی اسے بیچ دیا اور اپنے ارادہ و اختیار سے جہاں مناسب سمجھا خرچ کردیا یا جس کو دینا تھا دے دیا تو اب وفات کے بعد اس کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ میراث صرف متروکات میں جاری ہوتی ہے۔ چنانچہ اس فلیٹ کے آپ حقدار ہیں اور مدعیہ ناحق ستا رہی ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔


📚والدليل على ما قلنا 📚

للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)

لأن التركة في الاصطلاح ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من المال. (رد المحتار على الدر المختار ٤٨٣/١٠ كتاب الفرائض)

إن الأصل الأول فی نظام المیراث الإسلامی: أن جمیع ما ترک المیت من أملاکہ میراث للورثۃ۔ (تکملۃ فتح الملہم اشرفیہ دیوبند ۲/۴)

"التبرع بذل المكلف مالا او منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالباً" (الموسوعة الفقهية ٦٥/١٠ باب التبرع)

"اتفقت الأمة على مشروعية التبرع، و لم ينكر على ذلك أحد" (الموسوعة الفقهية ٦٦/١٠)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 17/7/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

امامت اور تعلیم قرآن کا پیسہ لینا

⚖️سوال وجواب⚖️

🖋️مسئلہ نمبر 1791🖋️

(كتاب الإجارة باب الإجارة على الطاعات)

امامت اور تعلیم قرآن کا پیسہ لینا

سوال: بچوں کو فیس لیکر پڑھانا اور امام صاحب کا تنخواہ لینا کیسا ہے ؟ کچھ تبلیغی  لوگ اعتراض کرتے ہیں یہ کیسی دین کی خدمت ہے کہ نماز پڑھاتے ہیں اور تنخواہ لیتے ہیں 5بچوں کو قرآن و حدیث پڑھاتے ہیں فیس لیتے ہیں؟ (اسامہ ندوی، گجرات) 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

یہ بات درست ہے کہ امامت کرنا اور قرآن و حدیث پڑھانا عبادت ہے اور عبادت کی اجرت لینا درست نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور صحابہ کرام کے زمانے اور بعد میں جب تک خلافت اسلامیہ قائم رہی اور علماء و قراء کو بیت المال سے وظائف ملتے رہے امامت اور قرآن و حدیث پڑھانے کی اجرت لینے کا نا رواج تھا اور نا ہی اجرت لینا درست تھا، یہی وجہ ہے کہ متقدمین فقہاء کرام نے ان چیزوں پر اجرت لینے کو ناجائز قرار دیا ہے۔

لیکن بعد کے زمانے میں جسے متاخرین کا زمانہ کہا جاتا ہے جب حالات بدل گئے اور خلافتیں ختم ہوگئیں یا انہوں نے علماء و ائمہ کے تئیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا بند کردیا اور علماء کرام دینی خدمات اور طلب معیشت پر دو طرفہ مجبور ہوگیے تو اس دور کے فقہاء کرام نے فتویٰ دیا کہ چونکہ دونوں کام یک ساتھ ہونا عموما مشکل ہے اور آدمی ان دینی خدمات کے علاوہ معیشت کی سرگرمی بھی رکھے تو اس سے حرج شدید لاحق ہوتا تھا مثلاً امام کہیں بھی ہو تو نماز کے لیے وہ مسجد ضرور حاضر ہوتا ہے؛ جبکہ اگر وہ امام نہ ہو تو حسب سہولت کسی بھی مسجد میں نماز ادا کرکے اپنے کام انجام دے سکتا ہے، آجکل ہم لوگ خود مشاہدہ کرتے ہیں کہ جو لوگ دونوں چیزیں لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں عموما وہ اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کے شکار ہوتے ہیں؛ اس لیے علماء کی تنخواہیں مقرر کرنا اور ائمہ کو تنخواہیں دینا جائز قرار دیا گیا، اور اکابر اہل علم نے اس سلسلے میں فتویٰ ہے۔ اس لیے یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے، بلکہ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ عوام یا تو ائمہ و مدرسین کو اپنے ہدیہ تحائف سے اتنا مالا مال کردیں کہ انہیں تنخواہ کی ضرورت نہ رہے یا انہیں کوئی بہترین بزنس کرادیں جن سے ان کی ضرورت کی تکمیل ہو اور وہ فارغ البال ہوکر خدمت دین میں لگے رہیں، بصورت دیگر صرف زبانی جمع خرچ ہوگا اور زمانے سے ناواقفیت اور بے جا اعتراض کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب


📚والدليل على ما قلنا 📚

(١) قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شِبْلٍ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " اقْرَءُوا الْقُرْآنَ، وَلَا تَغْلُوا فِيهِ، وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ، وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ، وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِهِ ". (مسند أحمد رقم الحديث 15529 مُسْنَدُ الْمَكِّيِّينَ.  | زِيَادَةٌ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ)

نعم قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللہ تعالی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والإشتغال بہ یقل اکتسا بہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ فیأخذ الأجرة لئلا یمنعہ الاکتباس عن إقامة ہذہ الوظیفیة الشریعة ولولا ذالک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور، بل یکون جمع بین عبادتین: وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات․ (رد المحتار علی الدر المختار: ۲/۶۰ باب الأذان)

(قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم  إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.

(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار" ابن عابدين (رد المحتار 6/ 55 )

قال - رحمه الله -: "(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوابالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان" (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 8/ 22)

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مؤرخہ 20/7/1443

رابطہ 9029189288

دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے 

Share

Translate